ڈاکٹر ابنِ فرید (اصل نام: محمود مصطفی صدیقی) (پیدائش: 28/اکتوبر 1925ء، بارہ بنکی، اترپردیش - وفات: 8/مئی 2003ء، علی گڑھ)
بنیادی طور پر تخلیقی فنکار رہے ہیں۔ انھوں نے افسانے، ناول، خاکے اور انشائیے بھی لکھے اور اسلامیات ، عمرانیات اور نفسیات پر کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔ ان کی شائع شدہ کتب کی تعداد 18 ہے۔ بحیثیت مجموعی ڈاکٹر ابن فرید کی اصل شناخت ایک نقاد کی رہی ہے۔ انہوں نے عمرانیات میں پی۔ایچ۔ڈی کی اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض نبھانے کے علاوہ جدہ (سعودی عرب) کے جامعہ ملک عبدالعزیز میں 1984 تا 1988ء اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز رہے۔ وہ ماہنامہ "حجاب" رامپور کے جہاں سرپرست تھے وہیں ماہنامہ "ادیب" (علیگڑھ) کے مدیر بھی رہے۔ بچوں کی تربیت کے موضوع پر ان کی ایک بہت ہی مشہور و مقبول کتاب "بچے کی تربیت" ہے جس کا پہلا ایڈیشن 1955ء میں شائع ہوا تو بیسواں ایڈیشن ترمیم و اضافے کے ساتھ 1993ء میں شائع کیا گیا۔ پینتیس (35) اہم مضامین پر مشتمل یہی کتاب تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 9 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کے مقدمہ میں "ابتدائیہ" کے زیر عنوان صاحبِ کتاب لکھتے ہیں ۔۔۔
اس کتاب کی مخاطب خواتین ہیں، کیونکہ انہی کے کندھوں پر بچے کی تربیت کا بارِ گراں ہے۔ انہیں کو آنے والی نسلوں کے ذہن، سیرت، اخلاق و معاشرت کی تعمیر اس طرح کرنی ہے کہ مستقبل کی دنیا روشن اور پرامن ہو۔ لیکن یہ امر کس قدر عبرت انگیز ہے کہ ہماری اکثر خواتین اپنی ذمہ داری سے قطعاً ناآشنا ہیں، کیونکہ ان کے سامنے ان کے مقصدِ وجود کو واضح طور پر پیش نہیں کیا گیا ہے۔ وہ یہ تو جانتی ہیں کہ وہ کسی کی زوجیت میں ہیں اور اس کے گھر کی دیکھ بھال ان پر فرض ہے لیکن وہ اس کا تصور ہی نہیں رکھتیں کہ ان کی یہ خاندانی مصروفیات معاشرہ پر کس طرح اثرانداز بھی ہو سکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے ان اعمال سے، جو اجتماعی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں ناواقف ہونے کی وجہ سے غافل رہتی ہیں۔
بچے کی تربیت انہیں اعمال میں سے ایک عمل اور اہم ترین عمل ہے جس کی طرف وہ کماحقہ توجہ نہیں دے پاتی ہیں، کیونکہ وہ اس کے اثرات سے ناواقف ہیں۔ اس کتاب میں بچے کی تربیت کے نفسیاتی پہلو کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں اس کا خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ زبان کافی حد تک سلیس اور انداز بیان عام فہم رکھا جائے۔ اصطلاحات کا ممکنہ حد تک استعمال نہ کیا جائے اور جو اصطلاحات حسنِ اتفاق سے استعمال ہو جائیں وہ ایسی ہوں کہ ان کے بارے میں کم تعلیم یافتہ خواتین کے ذہن میں مطلوبہ تصور پہلے سے ہو۔
انگریزی کی تمام اصولی، اطلاقی اور عملی نفسیات کی کتابوں کے پس منظر میں مادہ پرستانہ نقطۂ نظر اور ڈارون کا نظریۂ ارتقا کارفرما ہے، چنانچہ انسان کی نفسیات پر بحث عالمِ حیوانی اور جذباتِ وحشیانہ کو تقدیم دے کر کی گئی ہے۔ عملی اور اطلاقی نفسیات کی ترجمانی فرائڈ کے نظریات تحلیلِ نفسی کے ذریعہ بھی کی گئی ہے۔
اس کتاب میں ان تمام نقطہ ہائے نظر سے اجتناب کر کے اس حقیقت کو اساس بنایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو ایک آدم کی اولاد سے پیدا کیا ہے۔ اس نے روزِ اول سے ہی انسان کو خلیفۃ الارض بنایا ہے اور وہ اشرف المخلوقات ہے۔ چنانچہ تربیت کے تمام مراحل میں اس کا خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ بچے کے صحیح مقام سے نہ صرف والدین ہی صرفِ نظر نہ کر سکیں بلکہ بچے کو بھی اس کا پورا پورا احساس رہے۔
بچے کی تربیت کے معاملے میں عملی نفسیات کی کسی بھی کتاب کا مطمح نظر اب تک یہ نہیں رہا ہے اور اس لحاظ سے یہ پہلی کوشش ہے جو خواتین کے ہاتھ میں اور ایسی خواتین کے ہاتھ میں جا رہی ہے جو اب تک شاذ ہی کسی نفسیات کی کتاب سے استفادہ کر سکی ہوں۔
اس کتاب کا مقصدِ تحریر بچے کی تربیت دینِ فطرت 'اسلام' کے مطابق کرنے کے لیے مشورے دینے کی ہے۔ اسی وجہ سے اس میں اسلام کے بارے میں اصولی معلومات نہیں دی گئی ہیں، بلکہ یہ پہلے سے ہی تصور کر لیا گیا ہے کہ قاری نے اسلام کا مطالعہ اس کتاب کے پڑھنے سے پہلے کر لیا ہوگا اور اس کے ذہن نے اسلام کو دینِ حق سمجھ کر قبول کر لیا ہوگا۔
- ابنِ فرید
رامپور، اتر پردیش، یکم مئی 1955ء۔
اس کتاب کے بیسویں ایڈیشن (1993ء) کے مقدمہ میں "نظرثانی" کے زیر عنوان صاحبِ کتاب لکھتے ہیں ۔۔۔
سب سے پہلے اس کتاب پر نظرثانی میں نے 1958ء میں کی۔ زبان و بیان کی اصلاح کے ساتھ مختلف مقامات پر حسب ضرورت اضافے بھی کیے۔ ہر باب کے آخر میں تمام مباحث کا خلاصہ 'چند لفظوں" میں درج کر دیا تاکہ وقتاً فوقتا ان خلاصوں کو پڑھ کر موضوعات کو ذہن میں تازہ کیا جا سکے۔
دوسری بار 1973ء میں پھر یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ کتاب کے متن کی تصحیح کی جائے اور کچھ اہم ذیلی عنوانات کا اضافہ کیا جائے۔ چنانچہ باب 'بچے کی الجھنیں' میں "بچے کا ضمیر" اور باب 'بچوں کی صالح تعلیم' میں "ابتدائی تعلیم" کا اضافہ کیا گیا۔
اب تیسری بار 1993ء میں باب 'بچے کی الجھنیں' میں معاشرے کی کجرویاں' کے ذیلی باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔
1955ء (بلکہ اصلاً 1953ء) سے اب تک چالیس سال میں دنیا کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہے۔ معاشرہ و ماحول میں اتنا تغیر آ چکا ہے، سوچنے کے انداز اور وسائلِ زندگی میں اتنی تبدیلیاں و ترقیاں ہو چکی ہیں کہ پہلے جو کچھ مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا وہ اب بڑا اجنبی سا معلوم ہوتا ہے۔ اس عجوبگی کو دور کرنے کے لیے جگہ جگہ ترمیم و اضافے کیے گئے ہیں تاکہ کتاب میں موجودہ عہد سے مطابقت پیدا ہو جائے۔
- ابنِ فرید
رامپور، اتر پردیش، 6/مارچ 1993ء۔
***
نام کتاب: بچے کی تربیت
مصنف: ڈاکٹر ابنِ فرید
طباعت: منشورہ بیت الصالحہ، رامپور (سن اشاعت: 1993ء)
تعداد صفحات: 210
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 9 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Bachche ki tarbiyat by Ibne Fareed.pdf
اسی کتاب کا ایک پرانا ایڈیشن بھی ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے
طباعت: مکتبہ الحسنات، رامپور (پانچواں ایڈیشن، سن اشاعت: 1974ء)
تعداد صفحات: 257
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 13 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Bachche ki tarbiyat by Ibne Fareed - Maktaba-Alhasanat.pdf
فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | ابتدائیہ (مئی 1955ء) | 9 |
ب | نظر ثانی (مارچ 1993ء) | 13 |
ج | تذکرہ | 15 |
1 | گھر اور گھرانہ | 20 |
2 | ماں اور بچہ | 22 |
3 | باپ اور بچہ | 25 |
4 | دوسرے گھر والے | 28 |
5 | بچے کے ابتدائی سال | 32 |
6 | جسمانی صحت | 33 |
7 | ذہنی صحت | 37 |
8 | بچے کی نشو و نما | 45 |
9 | جذباتی نشو و نما | 46 |
10 | حسی نشو و نما | 49 |
11 | بول چال کی نشو و نما | 52 |
12 | جنسی نشو و نما | 58 |
13 | معاشرتی نشو و نما | 67 |
14 | بچے کی نئی نئی مشکلات | 76 |
15 | دودھ چھڑانا | 77 |
16 | بستر خراب کرنا | 82 |
17 | تتلانا اور ہکلانا | 86 |
18 | بچے کی ناشائستہ حرکتیں | 96 |
19 | بچہ اور سزا | 98 |
20 | بچوں کی ضد | 103 |
21 | بچوں میں غصہ | 106 |
22 | بچوں میں خوف | 110 |
23 | بچوں میں جھوٹ | 116 |
24 | بچوں کی الجھنیں | 125 |
25 | کجرو والدین | 126 |
26 | دوسرا بچہ بحیثیت شریک | 131 |
27 | بچے کا ضمیر | 137 |
28 | معاشرے کی کجرویاں | 142 |
29 | بچوں کی صالح تعلیم | 154 |
30 | بچوں کی خصلتیں | 157 |
31 | بچوں کی آزادی | 165 |
32 | بچوں کے کھیل | 167 |
33 | ابتدائی تعلیم | 175 |
34 | کردار کی تشکیل | 188 |
35 | آخری بات | 201 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں