مولانا وحید الدین خاں - یکتائے روزگار شخصیت - از محسن عثمانی ندوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-21

مولانا وحید الدین خاں - یکتائے روزگار شخصیت - از محسن عثمانی ندوی

maulana wahiduddin-khan-a-dignitary

لفظ وحید کے معنی ہیں: نابغۂ روزگار شخصیت، یکتائے زمانہ شخصیت۔
مولانا وحید الدین خاں سچ مچ ایسی شخصیت کا نام ہے جو لاثانی شخصیت ہے۔ مسلمانوں کی قومی زندگی کی ایک بیماری ہے کہ وہ جس کسی کو پسند کرتے ہیں اس کو تمام خوبیوں کا مرکز اور ہر خرابی سے یا کمزوری سے پاک و صاف دیکھنا چاہتے ہیں اور اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ہر انسان خطا و نسیان کا مرتکب ہوتا ہے۔ مولانا وحید الدین خاں سے بھی علمی و فکری کمزوریاں سرزد ہو سکتی ہیں لیکن ان کی بعض خوبیاں ایسی ہیں، جن کی نظیر آسانی کے ساتھ نہیں مل سکتی ہے۔ انہوں نے تفسیر بھی لکھی ،مسلمانوں کے مسائل پر سیکڑوں صفحات لکھے، لیکن سائنس کے ذریعے مذہب کی صداقت پر انہوں نے جو لکھا اس کا مقابلہ کوئی اور آسانی کے ساتھ نہیں کر سکتا ہے۔


"اسلام اور سائنس" کے موضوع پر اردو زبان میں جتنی کتابیں شائع ہوئی ہیں، ان میں دو کتابیں بہت اہم ہیں۔ ایک کتاب "مذہب اور جدید چیلنج" ہے۔ جب عربی زبان میں اس کا ترجمہ شائع ہوا تو عرب دنیا کے ہر مکتبہ میں یہ کتاب پہنچ گئی۔ اہل ذوق نے اس کتاب کا والہانہ استقبال کیا۔ کتاب کے مصنف مولانا وحید الدین خاں عالمی شہرت کے مالک بن گئے۔ وحید الدین خاں کے بہت سے نظریات سے اہل علم کو اختلاف ہے،لیکن مذہب اور جدید چیلنج وہ کتاب ہے۔جس کی افادیت اور اہمیت پر سب کا اتفاق ہے۔ دوسری کتاب "مذہب اور سائنس" مولانا عبدالباری ندوی کی ہے۔ جووقیع تصنیف ہے۔ اردو زبان کے دامن میں اسلامیات کے جتنے ہیرے ہیں اور اردو میں اسلام اور سائنس کے موضوع پرجو کتابیں لکھی گئی ہیں یہ دونوں کتابیں لعل شب چراغ کی رکھتی ہیں۔


کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس کا میدان اختصاص اسلامک اسٹڈیز ہے اور اس نے یہ دونوں کتابیں نہیں پڑھی ہیں تو گویا اس کا دعوی غلط اور اس کا مطالعہ ناقص اور نامکمل ہے۔ یہ سائنس کا عہد ہے۔ سائنس کے کرشمات نے اس دور میں تمدن و تہذیب کو جتنا متاثر کیا اور کسی چیز نے نہیں کیا ہے۔ زندگی کا ہر گوشہ اس کی فسوں کاری کے زیر اثر ہے۔خلوت، گھر ، بازار، سفر اورحضر ہر جگہ اس کا دخل ہے۔ اس لئے قدرتی طور پر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ یہ سائنس مذہب کی مخالف ہے یا اس کی طرف دار؟ وہ مذہب کی تردید کرتی ہے یا اس کی تائید؟ اگرچہ سائنس کے نظریات ہمیشہ تغیر پذیر ہوتے ہیں اور اس کا کوئی قول ہمیشہ کے لئے قول فیصل نہیں۔تاہم سائنس کے عہد میں مذہب کا مطالعہ نئے زاویۂ نظر سے ضروری ہے اور مذکورہ دونوں کتابوں کی اہمیت یہی ہے کہ دونوں میں سائنسی حقائق کی روشنی میں مذہبی عقائد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔مذہب اور سائنس کے موضوع پر بہت پہلے ڈائر نے کتاب لکھی تھی۔ جس کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا تھا، لیکن وہ پرانی کتاب ہے۔ اس کے مقابلے میں یہ دونوں کتابیں نئی ہیں اور موضوع کے براہ راست مطالعہ کا نتیجہ ہے۔


اس موضوع پر ایک کتاب اورہے جس کی اپنی اہمیت اور افادیت ہے اور وہ ہے"قرآن اور علم جدید" یہ کتاب پاکستان سے شائع ہوئی ہے اور کتاب کے مصنف ہیں ڈاکٹر رفیع الدین، یہ کتاب بھی اہل علم کے لیے لائق مطالعہ ہے۔ مولانا عبد الماجد دریابادی نے اس کتاب کی بہت تعریف کی تھی اور اسی کو پڑھ کر مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی نے جدید فتنہ ارتداد کے موضوع پر عربی زبان میں کتاب" ردۃ ولاابابکرلھا" کے نام سے لکھی تھی۔ اردو میں یہ کتاب "نیا طوفان اور اس کا مقابلہ" کے نام سے ہے۔ جس شخص نے ان تینوں کتابوں کا مطالعہ کرلیا، اس نے اسلام اور سائنس کے موضوع پر اردو میں اہم ترین کتابوں کا مطالعہ کرلیا۔یہ تینوں کتابیں باآسانی دستیاب ہو سکتی ہیں۔پہلی اور دوسری کتاب مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ، ندوۃ العلماء لکھنؤ نے شائع کی ہے اور تیسری کتاب پاکستان کے مکتبوں میں اور ہندوستان کے اہم کتب خانوں میں موجود ہے۔اس موضوع پر کتابیں اور بھی لکھی گئی ہیں لیکن یہ تین کتابیں وہ ہیں جو اپنے موضوع پر صف اول کی کتابیں ہیں۔یہ ان لوگوں کے قلم سے ہیں، جنہوں نے انگریزی کتابوں سے براہ راست پورا استفادہ کیا ہے۔


کتاب "مذہب اور جدید چیلنج "پہلی بار مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ، ندوۃ العلماء لکھنؤ سے 1966میں شائع ہوئی تھی اور تمام اہل علم کے درمیان مقبول ہوئی۔مصنف نے کتاب کے مقدمہ میں مولانا ابوالاعلی مودودی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کے لیے اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کچھ اس طرح کیا تھا کہ یہی دونوں شخصیتیں برصغیر میں دینی خدمات کا نشان ہیں۔ اول الذکر نے نے مصنف کو ایک نازک موڑ پر دینی خدمت کے کام پر لگایا اور دوسرے نے کام کو حسن انجام تک پہنچایا۔کتاب کا نام "مذہب اور جدید چیلنج" اس لئے رکھا گیا کہ یہ جواب میں اس چیلنج کا جو سائنس کی طرف سے مذہب کو دیا گیا ہے۔ مصنف نے عصر حاضر کے مشہور سائنسدان جولین ہکسیلے [Julian Huxley] کا قول نقل کیا ہے:
"جس طرح ایٹم کے ٹوٹنے سے مادہ کے بارے میں انسان کے پچھلے تمام تصورات ختم ہو گئے ،اسی طرح پچھلی صدی میں علم کی جو ترقی ہوئی ہے وہ بھی ایک قسم کا علمی دھماکہ (Knowledge Explosion) تھا۔ جس کے ذریعے خدا اور مذہب کے بارے میں تمام پرانے خیالات بھک سے اڑ گئے"۔


جولین ہکسیلے کے الفاظ میں مذہب اور خدا کے خلاف یہ علم جدید کا چیلنج ہے ہے۔ مولانا وحید الدین خاں نے اپنی کتاب میں اس چیلنج کا جواب دیا ہے۔ اگر جولین ہکسیلے بقید حیات ہوتا اور اس نے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ (God Arises) سے پڑھ لیا ہوتا تو ممکن ہے اس کی رائے بدل جاتی، ممکن ہے نہ بدلتی؛ لیکن اسے علم ضرور ہوتا کے چیلنج کا جواب دیا گیا ہے۔ انسانوں کے دل بین اصابع الرحمن یعنی رحمن کی انگلیوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ہدایت کی توفیق اسی سے ملتی ہے۔لیکن آج بھی یہ کتاب ان لوگوں کو دی جا سکتی ہے جو خدا اور مذہب کی قائل نہیں ہے۔انسان صرف کوشش کرنے کا مکلف ہے۔ہدایت کا فیصلہ آسمان سے ہوتا ہے۔ایک شتکار زمین میں ہل چلاتا ہے ہے۔تخم ریزی کرتا ہے۔ زمین کی نگہداشت کرتا ہے۔پھر اللہ سمندر سے ابر اٹھاتا ہے۔ زمین پر بارش برساتا ہے، سینہ گیتی کو زرخیر بناتا ہے۔ بیج کو مٹی کی تاریکی میں پالتا ہے۔گوشہ گندم پیدا کرتا ہے۔لہلہاتی ہوئی فصل اگاتاہے۔ایک مصلح اور داعی کو اسی کاشتکار کا رول اداکرنا ہے کرنا ہے اور باقی سب اللہ پر چھوڑ دینا ہے۔ اس کا ذہن کی زمین کے لیے دل سوزی کے ساتھ بیج فراہم کرنا ہے، زمین کو نرم کرنا اس کے لیے چشمہ ہدایت جاری کرنا اللہ کا کام ہے۔


"کائنات خدا کی گواہی دیتی ہے" کے عنوان سے جو باب اس کتاب میں خدا کے وجود سے متعلق ہیں اس کا ایک مختصر اقتباس ہے جس سے کتاب کے علمی اسلوب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
"پچھلے صفحات میں کائنات کے حیرت انگیز نظم اور اس کے اندر غیر معمولی حکمت و معنویت کا جو حوالہ دیا گیا ہے۔ مخالفین مذہب اس کو بطور واقعہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی دوسری توجیہ کرتے ہیں۔ اس میں انہیں کسی ناظم اور مدبر کااشارہ نہیں ملتا۔بلکہ سب کچھ ان کے نزدیک محض" اتفاق" سے ہو گیا ہے و۔ ٹی ایچ ہکسیلے کے الفاظ میں چھ بندر اگر ٹائپ رائٹر پر بیٹھ جائیں اور کروڑوں سال تک اسے پیتے رہیں تو ہو سکتا ہے ان کے سیاہ کیے ہوئے کاغذات کے ڈھیر میں سے آخری کاغذ پر شکسپیئر کی ایک نظم (Sonnet) نکل آئے۔ اس طرح اربوں کھربوں سال مادہ کی اندھا دھند گردش کے دوران موجودہ کائنات بن گئی ہے "۔
(The Mysterious Universe, P.No: 34)


یہ بات اگرچہ فوری طور پر لغو ہے ؛کیونکہ ہمارے آج تک کے تمام علوم ایسے کسی اتفاق سے تک ناواقف ہیں، جس کے نتیجے میں اتنا عظیم اس قدر منظم، بامعنی اور مستقل واقعہ وجود میں آجائے۔ کتاب کی ابتدا میں مخالفین مذہب کا مقدمہ بیان کیا گیا ہے، پھر اس کا علمی جائزہ لیا گیا ہے۔" کائنات خدا کی گواہی دیتی ہے" وہ باپ ہے جس کا تعلق خدا کے وجود کے اثبات سے ہے،پھر ایک باب دلیل آخرت سے متعلق ہے اور ایک باب میں رسالت کا اثبات ہے۔ ایک باب کا نام ہے" قرآن خدا کی آواز" اس باب میں وحی کا سائنسی ثبوت پیش کیا گیا ہے اور پھر ایک بار تمدنی مسائل سے متعلق ہے جس سے اسلام کی صداقت آشکار ہوتی ہے۔


صداقت کو دریافت کر لینا یا حق کو پالینا صرف کسی علمی کوشش میں کامیاب ہونا نہیں ہے۔ یہ تباہ کن اور درد انگیز مستقبل سے خود کو بچا لینا ہے۔ صداقت کو نہ پانے اور پھر صداقت پر ایمان نہ لانے کی صورت میں مستقبل کا دردناک اور بھیانک ہونا اتنا ہی یقینی ہے؛ جیسے دن کے وقت آسمان پر سورج کا چمکنا۔ بھیانک مستقبل سے خود کو بچانے کا وقت بس زندگی کے اختتام تک ہے۔چوبیس گھنٹوں کے اندر پندرہ لاکھ سے زیادہ انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اگلے چوبیس گھنٹے کے لئے فرشتہ اجل کے ہاتھ میں انسانوں کی جو فہرست ہے، اس میں اس کا نام ہے یا نہیں ؟مذہب کے بارے میں یا خدا کے وجود کے بارے میں جو انکار یا شک کا رویہ رکھتے ہیں وہ اپنے لئے شترمرغ کا انجام پسند کریں اور حقائق سے آنکھیں بند کرلے۔


بہترین عقلمندی یہ ہے کہ جب انسان اس دنیا میں ہے تو وہ اس کے خالق اور مالک کو بھی پہچاننے کی کوشش کریں۔ جو لوگ خدا کے وجود کے قائل اور مذہب کے معترف ہیں۔ان کو مزید اطمینان قلب کے لئے اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔کتاب کا علمی انداز اور اسلوب خود ایک اچھے قاری سے جسے اچھی کتابوں کی تلاش ہوتی ہے مطالعے کی سفارش کرتا ہے۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ شائع ہوا تو عرب دنیا کے سب سے قدیم اور مشہور اخبار "الاہرام" میں اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک معروف صاحب قلم نے لکھا کہ:
" بہت کم ایسی کتابیں ہیں جو اسلام کی دعوت کو علمی انداز میں پیش کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ ہندوستانی مصنف وحید الدین خاں کی کتاب ان چند کتابوں میں سے ایک ہے۔ اسلام کے ظہور کے وقت سے لے کر اب تک اسلام پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اگر عمدہ کتابوں کو چھلنی سے چھانا جائے تو یہ کتاب بلاشبہ ان میں سے ایک ہوگی"۔


(مضمون نگار نے اپنا یہ مضمون بستر علالت سے عبدالرحمن پاشا کو املا کرایا ہے۔)

Wahiduddin Khan, the person of influence. Article: Prof. Mohsin Usmani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں