ترنم ریاض (اصل نام: فریدہ ترنم) (پیدائش: 9/اگست 1963 - وفات: 20/مئی 2021)
ریاست جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی حساس و تخلیقی جہت کی حامل قلمکار رہی ہیں جنہوں نے نہ صرف ریاستی بلکہ قومی سطح پر اپنا نمایاں مقام اور شناخت قائم کی ہے۔ ترنم ریاض، سابق وائس چانسلر کشمیر یونیورسٹی پدم شری پروفیسر ریاض احمد پنجابی (وفات: 8/اپریل/2021) کی رفیقۂ حیات تھیں اور کشمیر کے ایک رئیس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے دادا چودھری خدابخش خان اپنے دور میں کشمیر کی وزارت میں شامل تھے۔ کشمیر یونیورسٹی سے بی۔ایڈ اور ایم۔ایڈ کے بعد ترنم ریاض نے پی۔ایچ۔ڈی کی بھی اعلیٰ ڈگری حاصل کی تھی۔ ڈاکٹر ترنم ریاض کی تصانیف میں افسانوں کے آٹھ (8) مجموعے، دو ناول (مورتی اور برف آشنا پرندے)، تنقید و تحقیق اور تراجم پر مبنی دیگر کتب شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ریسرچ اسکالر رخسانہ بانو نے ڈاکٹر راشد عزیز کی نگرانی میں 2018ء میں سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر (سرینگر) سے اپنے مقالہ "ترنم ریاض کے افسانوی مجموعے ابابیلیں لوٹ آئیں گی میں نسائی نفسیات" پر ایم۔فل کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اور ارشاد احمد کاندری نے 2021ء میں برکت اللہ یونیورسٹی (بھوپال) سے اپنے مقالہ "ترنم ریاض، فن اور شخصیت" پر پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر ترنم ریاض کے انتقال پر انہیں خراج عقیدت کے بطور ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "یہ تنگ زمین" قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ قریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 7 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اپنے تحقیقی مقالے "ریاست کی معاصر خواتین افسانہ نگار - ایک مختصر جائزہ" (اشاعت: کشمیر عظمی، 13/جنوری/2019ء) میں سہیل سالم لکھتے ہیں ۔۔۔
ڈاکٹر ترنم ریاض، ریاست جموں و کشمیر میں اردو افسانے کو نئی جہت دینے اور نت نئے تجربوں سے آشنا کرنے والی خواتین افسانہ نگاروں کی صف میں سرفہرست ہیں۔ ترنم ریاض کا اصلی نام فریدہ ترنم ہے۔ آپ سرینگر کشمیر میں تولد ہوئیں۔ اردو ادب میں ترنم ریاض ایک شاعرہ، ناول نگار، افسانہ نگار، تبصرہ نگار، محقق و نقاد کی حیثیت سے اپنی لیاقت و قابلیت کا لوہا منوا چکی ہیں۔ ان کی تصانیف اعلی ادبی معیار کی حامل ہیں۔ ترنم ریاض کی تصانیف تا حال جو منصہ شہود پر آ چکی ہیں ان میں آٹھ افسانوی مجموعے : یہ تنگ زمین(1998 )، ابابیلیں لوٹ آئیں گی(2000)، یمبرزل (2004 )، میرا رخت سفر(2008 )، ناول مورتی(2004 )، برف آشنا پرندے(2009)، نرگس کے پھول ، صحرا ہماری آنکھوں میں، شامل ہیں جبکہ شعری مجموعوں میں، پرانی کتابوں کی خوشبو، بھادوں کے چاند تلے، زیرسبزہ محو خواب(2015) اور چاند لڑکی ادبی دنیا میں خاصی پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ ترنم ریاض کی بیشتر کہانیوں میں نسائی شعور، نسائی تہذیب و ثقافت کی بھر پور جھلک ملتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقیات میں مرد اساس معاشرے کے جبر کے خلاف ان کے احتجاج کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے افسانہ باببل، حور، کانچ کے پردے اور میرا پیا گھر آیا میں عورت ،اس کی اہمیت و افادیت ،اس کے تحفظ اور حقوق پر کھل کر بات کی ہے۔
ڈاکٹر ترنم ریاض کے فن پر چند مشاہیر قلم کی آرا ذیل میں ملاحظہ فرمائیے ۔۔۔
گوپی چند نارنگ
ترنم ریاض کے نام پر بہت سے لوگ چونکیں گے لیکن کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ادب کی دنیا میں اپنی آہٹ سے یا آہنگ سے، لہجے سے یا معنویت یا افسانویت سے چونکانا بھی ایک جمالیاتی عمل ہے۔
جب جب کوئی نئی آواز ادب کے گنبدِ ہزار در میں ابھرتی ہے تو کسی کو اندازہ نہیں ہوتا، آیا یہ پہلی آہٹ کے بعد ڈوب جائے گی یا دیوار و در سے ٹکرا کر ارتعاش پیدا کرے گی اور سینوں کو برماتی جائے گی؟
ترنم ریاض وادیِ کشمیر کا گلِ نورس ہے جس نے افسانے کی دنیا میں قدم رکھا ہے جہاں زمین سخت اور آسمان دور ہے۔ دنیائے ادب کی رونق کے لیے نئے فنکاروں کا 'آون جاون' بنا رہے تو بہت خوب ہے۔ ہر فنکار اور ہر فن پارہ میرے آپ کے کہنے سے نہیں، اپنے حسن و خوبی سے زندہ رکنے کا حق چاہتا ہے اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اس حق کا احترام کرتے ہیں۔ خدا کرے کہ ترنم ریاض ادب کی ہر موج سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہو سکیں۔
عبدالصمد
ترنم ریاض نے افسانے کی دنیا میں بہت جلد ایک مقام بنا لیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے فن کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ ترنم ریاض بہت سوچ سمجھ کر اپنے موضوعات کا انتخاب کرتی ہیں اور انہیں بکھرنے نہیں دیتیں۔
مظہر امام
ترنم ریاض کے افسانوں کی جو فضا ہے وہ بڑی مانوس سی فضا ہے جس سے ہم سب واقف ہیں۔ ان کے اظہار میں کوئی تصنع آمیز صنائی نہیں ہے۔ بہت ہی صفائی اور شستگی کے ساتھ وہ اپنے افسانوں کا تانا بانا بنتی ہیں۔ کہیں کہیں تو ان کے اسلوب میں خاص طرح کی مقناطیسیت آ جاتی ہے جو اپنے ساتھ ساتھ پڑھنے والے کو بہا لے جاتی ہے۔ ترنم ریاض اپنی سادہ بےتکلفی اور بےساختگی کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ متاثر کرتی ہیں۔
نیر مسعود
ترنم ریاض نے اچھے موضوعات کا انتخاب اور لکھنے کے لیے مناسب اسلوب اختیار کیا ہے۔ افسوس کہ یہ بنیادی اور بہت ضروری صفت ہمارے یہاں سے ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
اردو کی ادیبائیں : منظر پس منظر (از: ترنم ریاض)
ترنم ریاض کے افسانے تخلیقیت کے رنگ (پروفیسر حامدی کاشمیری)
ترنم ریاض کے افسانوں میں زندگی کے رنگ (اشرف لون)
***
نام کتاب: یہ تنگ زمین
مصنف: ترنم ریاض
طباعت: موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی (سن اشاعت: 1998ء)
تعداد صفحات: 161
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 7 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Yeh tang Zameen by Taranum Rayaz.pdf
فہرست افسانے | ||
---|---|---|
نمبر شمار | تخلیق | صفحہ نمبر |
الف | ابتدائیہ | 9 |
1 | یہ تنگ زمین | 11 |
2 | پورٹریٹ | 17 |
3 | ایک پہلو یہ بھی ہے ۔۔۔ تصویر کا | 26 |
4 | گلچیں | 32 |
5 | بلبل | 40 |
6 | حور | 54 |
7 | چھوئی موئی | 64 |
8 | پالنا | 73 |
9 | تعبیر | 79 |
10 | آئینہ | 86 |
11 | کانچ کے پردے | 94 |
12 | ناخدا | 101 |
13 | ایک تھکی ہوئی شام | 107 |
14 | جالے | 111 |
15 | گونگی | 120 |
16 | کمرشل ایریا | 125 |
17 | تنکے | 131 |
18 | پانی کا رنگ | 140 |
19 | گندے نالے کے کنارے | 147 |
20 | دھندلے آئینے | 153 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں