سید ہاشم علی اختر (پیدائش: 6/اکتوبر 1924ء ، حیدرآباد - وفات: 14/جون 2003ء، شکاگو)
ایک ایسی نابغۂ روزگار، اپنی ذات میں کائنات اور جامع الکمالات شخصیت رہی ہے جس نے ہندوستان کی دو ممتاز جامعات (جامعہ عثمانیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی) میں بحیثیت وائس چانسلر خدمات انجام دیں۔ موقر دانشور، سنجیدہ محقق و مفکر، اردو و انگریزی زبان پر عبور، اسلامیات کے ماہر، ادب کا شائستہ ذوق، سماجی علوم اور حالات حاضرہ کا وسیع تر مطالعہ رکھنے والی یہ شخصیت ایک بہترین منتظم بھی رہی۔ اس عظیم شخصیت کو ان کی حیات میں ہی خراج تحسین کے بطور ایک ضخیم کتاب کی اشاعت، تکمیل کے عین قریب تھی کہ وہ انتقال کر گئے۔ یہ کتاب بعنوان "ہندوستانی مسلمان منزل کی تلاش میں (نذرِ سید ہاشم علی اختر)" ان کے انتقال کے تقریباً تین ماہ بعد ستمبر 2003ء میں منظرِعام پر آئی جس کے مرتبین میں پروفیسر مغنی تبسم، قدیر زماں، حسن چشتی اور سیدہ فاطمہ شامل ہیں۔ کتاب کے مشترک ناشرین ادارۂ ادبیات اردو (حیدرآباد) اور فورم فار ماڈرن تھاٹ اینڈ لٹریچر (حیدرآباد) ہیں۔ ہاشم علی اختر کے فن و شخصیت پر ایک مبسوط کتاب کی تجویز نامور مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے پیش کی تھی جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا اور اس کی طباعت کی نگرانی قدیر زماں کے ذمہ کی۔ اس کتاب کے کچھ حصوں کی پروف ریڈنگ میں ممتاز شاعر رؤف خلش نے بھی اپنا دستِ تعاون دیا تھا۔ کتاب کا عنوان (مرحوم) سید ضیاء الدین شکیب (لندن) نے تجویز کیا۔ اسی کتاب سے ماخوذ صابر نیازی کا ایک اہم انٹرویو، جو قارئین کو گذشتہ نصف صدی کے حیدرآباد سے متعلق ہاشم علی اختر کے تاثرات اور تجزیے سے آگاہی دیتا ہے، پیشِ خدمت ہے۔
شہر ترس رہا ہے کہ بہی خواہان کدھر گئے؟
فرخندہ بنیاد کی تہذیب قدر دانوں کو ڈھونڈ رہی ہے۔ "آدمیوں کا کال" آنے والی نسلوں کا مقدر بگاڑ دیتا ہے۔ اپنے مستقبل سے مایوس حیدرآبادی، امریکہ، شکاگو اور دوسرے مغربی ممالک کی طرف رواں دواں ہوئے جن میں اکثریت متمول طبقہ کی تھی۔ پولیس ایکشن کے بعد ایک اور طبقہ پاکستان منتقل ہو گیا۔ رہا سہا، بچا کھچا طبقہ بھی تلاش معاش میں خلیجی ملکوں کو منتقل ہو گیا۔ عارضی یا مستقلاً، اسے ہجرت کہے یا فرار یا تو پھر نقلِ مقام، ترکِ وطن۔ بنیادی تبدیلیوں کے فوری وقوع پذیر ہونے کے بعد جس نسل کو نئی سیاسی تبدیلیوں سے سابقہ واسطہ پڑتا ہے اس میں یہ اضطرابی کیفیت ایک فطری عمل ہے۔
مادرِ جامعہ عثمانیہ سے تعلق رکھنے والے ہاشم علی اختر صاحب سے میں نے روزنامہ "سیاست" کے لیے انٹرویو کی ٹھانی۔ وہ اسی مہینے امریکہ جا رہے تھے تو بڑے ہی مشفقانہ انداز میں ملے۔ میں نے ان سے پہلا سوال کیا کہ:
عام مسلمانوں کا یہ تاثر ہے کہ پولیس ایکشن کے بعد انھیں تعلیم یافتہ اور سرمایہ دار طبقے نے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔
جواب میں انھوں نے فوری کہا کہ:
اس سے کہیں زیادہ سیاست دانوں نے!
پولیس ایکشن کے بعد ایک طبقہ جو ملازمین سرکار کا تھا، جنہیں یک بہ یک جنبش قلم سے برطرف کر دیا گیا۔ معمولی تعداد تجارت پیشہ مسلمانوں کی تھی انہیں بھی نقصانات اٹھانے پڑے۔ بعض کو مقدمات، جیل اور موت سے سابقہ رہا۔ کئی نقصانات ہوئے۔ سلطنت برطانیہ خود جھکولے اور ہچکولے کھا رہی تھی، ویسے میں آصف جاہی سلطنت کس طرح باقی رہ سکتی تھی۔ شاہی اور شخصی حکومتیں ختم ہو رہی تھیں ، یار وفادار ہو یا نہ ہو، جمہوریت آنے والی تھی۔ جاگیرداری، منصب داری، یومیہ داری سب انقلاب کی نذر ہونے والے تھے۔ نظامِ حکومت تبدیل ہو رہا تھا تو ان ساری جزئیات کا کیا ٹھکانہ۔ اپنی پگڑی بچانے کی فکر میں دوسروں کی عزت پامال کرنا تھا۔
1946ء میں سر بنرجی (Sir Albion Benerji) سابق وزیراعظم میسور و کشمیر کی صدارت میں انضمامِ جاگیرات کے تعلق سے خود نواب میر عثمان علی خاں حضور نظام نے کمیشن قائم کیا تھا جس نے مرحلے واری متبادل ذرائع روزگار اور معاوضہ کی ادائی کے بعد انضام جاگیرات کی سفارش کی تھی لیکن عمل آوری میں تاخیر ہوئی۔ طبقہ جاگیرداران بھی برابر پریشان رہا، نقصان اٹھایا۔ اس زمانے کی مسلم قیادت اور مذہبی طبقے نے عصری تقاضوں کو سمجھنے میں بڑی تاخیر کی ، جس کی وجہ سے ہم کو شدید نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ ہندو طبقے سے ہم دور ہو گئے۔ ہندو درحقیقت غاصب نظر آنے لگے اور ہم اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے لگے۔ عمل کے بعد ردعمل کی سیاسیات کا درحقیقت یہیں سے آغاز ہوا۔
عام مسلمانوں کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ ان کے اپنوں میں ہمدرد کون ہے اور غدار کون؟ ناعاقبت اندیش اور جذباتی قیادت نے قوم و ملت کو اندھیرے میں دھکیل دیا۔ منفی سیاست کا کھیل یہاں سے شروع ہوا، جس میں کوئی بھی مثبت پہلو نمایاں نہ تھا۔ عمل کے بعد ردعمل یا پھر انتقامی کاروائی کی بات یہیں سے شروع ہوئی، لیکن نتیجہ بالآخر صفر رہا۔ آزادی کے بعد کی سیاست کا بغور جائزہ لیں تو میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں اس احتجابی سیاست سے اجتماعی فوائد بحیثیت ملت حاصل ہوئے ہوں۔ شخصی حس ہم میں زیادہ ہے اور ملی حس کا فقدان ہے۔
میرے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ:
آزادی کے بعد مسلمانوں کو تقسیم ہند کا ذمہ دار بتا کر ان کی ترقیوں، سہولتوں اور حکومتی ذرائع استفادہ سے محروم رکھنا اقلیتوں اور مسلمانوں سے ناانصافی اور تنگ نظری کی بات ہے۔ اگر تقسیم کہہ کر مرعوب کیا جاتا ہے تو ہم کو یہ پوچھنے کا حق حاصل ہے کہ کیا اکثریتی فرقے کے لوگ لسانی بنیادوں جیسے تلگو، مرہٹی، تامل، بنگالی ریاستیں، سب کیا ایک ملک، ایک زبان کے فارمولے کو قبول کر لیں گے؟ یہ ساری ریاستیں کیا صرف ہندوستان ہونے کو ناکافی سمجھتی ہیں؟ اور پھر اگر پچھلی نسل نے کوئی قصور کیا بھی ہے تو پھر اس کی اگلی نسل سے بدلہ لینا ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے۔ انہوں نے انگریزی ضرب المثل کا اردو ترجمہ "ہجوم کا ظلم، ظلم کا ہجوم ہوتا ہے" جواباً کہا۔
میں نے ایک اور سوال کیا کہ آخر ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں کیا خرابی ہے کہ حصول تعلیم کے بعد بھی یہ ہماری عملی زندگیوں سے کیوں دور ہے؟ "خواہ وہ فنی تعلیم ہو یا پھر تجرباتی علوم یا پھر عقلی علوم"؟
انہوں نے جواب میں کہا کہ درحقیقت بگاڑ ہماری نصابی کتابوں میں ہے۔ طالب علم جو کچھ ہماری درس گاہوں میں کتابی علم حاصل کرتا ہے وہ عملی زندگی میں ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے نصابی اسباق آج تک بھی انگریزوں کا پڑھایا ہوا سبق دیتے ہیں۔ نصابی کتابوں کو تبدیل کیا جانا چاہیے اور انہیں عملی زندگیوں سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے۔ حقائق زندگانی سے دور اس مفلوج نظام تعلیم کو صحت مند بنانا ضروری ہے اور یہ بھی ایک بحث طلب مسئلہ ہے کہ روٹی روزگار سے مربوط نظام تعلیم طلباء میں ذہنی انقلاب پیدا نہیں کر سکتا۔ طلباء کو سیاسی خرافات سے دور رکھا جائے اور جدید کتابوں میں مذہبیات، اخلاقیات، ہمارے مقامی مشاہیر کے علاوہ تجرباتی، عقلی و عملی ، سائنسی مضامین بھی شامل کریں۔
اردو کے تعلق سے میرے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بڑی تفصیل سے کہا کہ:
اب نئے مسائل ہمارے سامنے ہیں اور یہ سوال زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ سرسید نے اٹھارویں صدی کے اختتام پر انگریزی سیکھنے کو کہا اور انہیں کفر کے فتوؤں سے نوازا گیا۔ اردو (ہندوستانی ، ہندی ) فارسی رسم الخط میں (جس میں ہندی آوازوں کے لیے بھی حروف تہجی شامل کر لیے گئے ) صدیوں سے شمالی ہند کی ایک عوامی زبان رہی۔ عہد وسطی میں فارسی کی چھاپ پڑی۔ یہ مختلف ناموں سے جیسے برج میں برج بھاشا، راجستھان میں راجستھانی ، دہلی اور اطراف میں ہریانوی کھڑی بولی ، ہندوی، دہلوی ، ریختہ ، اردو اور انگریزی دورحکومت میں رومن رسم الخط میں اردو۔
غرض ہر دور میں اردو، ہندوستانی اور ہندی تبدیل ہوتی رہی۔ 1790ء میں شاہ عبد القادر صاحب نے قرآن شریف کا پہلا ترجمہ کیا اور لکھا کہ یہ پہلا ہندی ترجمہ ہے، حالاں کہ رسم الخط فارسی تھا۔ اسی سال شاید جان گلکرئسٹ نے بھی اسے ہندوستانی زبان کہا اور اس کی قواعد مرتب کی۔ بعض ہندوستانی اسے فارسی رسم الخط میں اور بعض اسے دیوناگری میں لکھنا پسند کرتے تھے۔ ولیم فورٹ کالج کلکتہ میں دونوں خط بولے لکھے پڑھے جاتے تھے۔ انگریزوں نے اسے فارسی کی جگہ استعمال کیا۔
1884ء سے 1948 ء تک ریاست حیدرآباد کی زبان تھی۔ دلی اور اطراف اکناف اترپردیش میں صوفی تحریک نے ابتدائی ہندی کو ہندوی کہہ کر استعمال کیا۔ اس کے بعد یہ زبان بھگتی تحریک سے وابستہ ہوئی، جس میں کبیر، نانک، سورداس اور میرابائی شامل ہیں، وہ یہی زبان استعمال کرتے رہے۔
موجودہ جو اردو ہے، وہ ہندی کی سب سے شائستہ زبان ہے۔ 1938ء میں علیگڑھ میں مولانا شبلی نے خود بڑے زور و شور سے کہا کہ جرمنی اگر جرمن ، انگریزی اگر انگریز بولتے ہیں تو ہندی، ہندوستانی کیوں نہیں قبول کرتے؟
انہوں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مجھے اشارہ کیا کہ:
"اس کمرہ میں میز، کرسی اور تکیہ رکھا ہے"۔
اس جملے کے الفاظ پر غور کیجیے۔ "کمرہ" لاطینی ہے، میز پرتگالی ہے، کرسی عربی ہے اور تکیہ فارسی ہے۔ اسی طرح بےشمار الفاظ دوسری زبانوں کے بھی اس میں شامل ہیں۔ جو اردو ہم لکھ، پڑھ اور بول رہے ہیں، اسے 'ہندی' کہہ سکتے ہیں بشرطیکہ 'مرجا گالب کی گجل' جیسی اردو نہ ہو اور نہ اس میں سنسکرت، عربی، فارسی اور دوسری زبانوں کے الفاظ زیادہ ہوں۔ اسے سرکاری سطح پر بھی سرپرستی حاصل ہونی چاہیے۔ آرٹیکل 351، دستور ہند میں اسی بات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
میرے اس سوال پر کہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ہندوستان 'ہندو راشٹرا' مستقبل میں بن جائے گا تو ہماری یعنی اقلیت کی شناخت کیا ہوگی اور آخر اس ملک کی اکثریت کون ہے؟ موصوف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ:
اب تک تو اس ملک پر اقلیت یعنی "برہمن" حکومت کر رہے ہیں۔ البتہ مذہبی حکومت یعنی "ہندو راشٹرا" کبھی بن بھی جائے تو خود ہندوؤں کے کمزور طبقات، پسماندہ طبقات، درج فہرست اقوام خود انہیں اقتدار کی کرسیوں سے نکال پھینکیں گے۔ حالیہ انتخابی نتائج خود بتلا رہے ہیں کہ مذہبی تعصب کو خود ہندوؤں نے عوامی رائے شماری کے ذریعہ نظر انداز کیا ہے جو درحقیقت درست اور صحیح فیصلہ ہے۔ لیکن "ہندو توا" کا دم بھرنے والوں نے انھیں 'غدار' نہیں کہا۔ اس لیے کہ ان لوگوں نے سچ اور ایمان دارانہ فیصلہ کیا ہے۔ یہی بات ہم میں بھی پیدا ہونی چاہیے۔ سچ قبول کرنے کی جرات ہو۔ ہم صداقت کا سامنا کرنے تیار ہو جائیں۔ غلطیوں کی اصلاح کریں۔ صاف گوئی اور حق گوئی کو شعار بنائیں۔ ہم متعصب نہ ہوں تو ہم غالب رہیں گے۔ پڑوسی ملک پاکستان اپنے قیام سے آج تک ایک ٹھیٹ اسلامی ملک نہیں بن سکا تو ہندوستان کب "ہندو راشٹرا" بن سکتا ہے۔ اگر کچھ عرصہ بن بھی جائے تو بہت قلیل مدت میں ٹوٹ بھی جائے گا۔
میرے اس سوال پر کہ آپ کس قسم کے تعلقات اکثریتی فرقے سے چاہتے ہیں اور وہ ہم سے کس بات کی توقع رکھتے ہیں؟ موصوف نے جواب میں کہا کہ:
درحقیقت اس معاملے میں خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ سرسید نے خود ایک موقع پر کہا تھا کہ : 'خدا کے کلام کا نام قرآن ہے اور کام کا نام سائنس'۔
ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں آغاز پر ہی دیگر ابنائے وطن یعنی یہودیوں، دوسرے غیر مسلموں اور کافروں کو ساتھ لے کر ایک منشور بنایا تھا کہ اگر مکہ والے مدینہ پر حملے کریں تو مدنی غیر مسلم، کافر، یہودی سب مل کر مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور حملہ آور سے مقابلہ کریں گے۔ روحانی امت اور وطنی امت کا جواز اور تصور خود مدنی منشور میں شامل ہے اور رسول برحق نے ہمیں خود اس معاملے میں رہنمائی کی ہے۔
قرآن خود بھی اس معاملے میں سورتوں کے ذریعہ ہماری رہنمائی کرتا ہے، لیکن اس کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم انسانی حقوق کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتلائے ہوئے راستے پر چلیں۔ ظلم کے خلاف اپنے علاقے ، اپنے وطن، اپنے ملک کے محافظ بنیں، مظلوم کا ساتھ دیں۔ انصاف پسندی اور اعتدال کا رویہ اپنائیں۔
مدنی منشور میں ایک علاقے کے رہنے والوں کو وطنی قوم علاحدہ کہا گیا ہے۔ ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آئیں۔ مسلمانوں کی جہاں کثیر آبادی ہو، وہاں 'ہندو' اگر اقلیت میں ہوں تو ہمارا پہلا کام یہ ہوگا کہ غیر متعصبانہ برتاؤ، حسن سلوک، اپنے اعلی کردار سے خود ہندوؤں میں پھیلی ہوئی سماجی اور معاشرتی برائیوں اور ان کے تدارک کے تدابیر بتلائیں۔
ان کے پاس ستی کی رسم کا تصور ہے، نشہ ہے، جوا، نشیلی ادویات کا استعمال، عورتوں کے حقوق کی پامالی وغیرہ بہت سی سماجی برائیاں ہیں۔ 'تالیف قلب' کی عملی تفسیر ہم بنیں۔ پہلے ان برائیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔ شادی بیاہ ، موت، پیدائش، تہوار میں اپنی شناخت کو باقی اور برقرار رکھتے ہوئے شرکت کریں۔ اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے ان سے گھل مل جائیں۔ ان کے جان و مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کریں۔ جرات اور ہمتِ استقلال کو نہ چھوڑیں۔ پہلے خود ان برائیوں سے پاک ہوں۔ غیر متعصب ہندوؤں سے میل ملاپ رکھیں۔ انتظامیہ، حکومت اور نظم و نسق کو منصفانہ برتاؤ کی تلقین کریں۔ بہتر شہری کی حیثیت سے انسانی حقوق کی ممکنہ حفاظت کریں۔ پھر اس کے بعد آپ کو حق حاصل ہو جاتا ہے کہ آپ حکومت سے، اپنے جائز قانونی اور دستوری حقوق کے حصول کے طلب گار بنیں۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ہاشم علی اختر (گیارہویں برسی پر بطور خراج عقیدت) - از مجتبیٰ حسین (اشاعت: روزنامہ سیاست، 15/جون 2014ء)
ماخوذ از کتاب:
"ہندوستانی مسلمان منزل کی تلاش میں (ندرِ سید ہاشم علی اختر)"
مرتبین: مغنی تبسم، قدیر زماں، حسن چشتی، سیدہ فاطمہ۔
سن اشاعت: ستمبر 2003 ، ادارۂ ادبیات اردو، پنجہ گٹہ، حیدرآباد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں