شاذ تمکنت (اصل نام: سید مصلح الدین) (پیدائش: 31/جنوری 1933 - وفات: 18/اگست 1985)شاذ تمکنت نے جب شعر کہنا شروع کیا، ترقی پسند تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین نے عوامی مصنفین کا چولا بدلا تھا۔ سلیمان اریب اس کے سکریٹری تھے اور ماہنامہ 'سب رس' مرتب کرتے تھے۔ پھر انہوں نے ماہنامہ 'صبا' جاری کیا۔ شاذتمکنت بھی انجمن عوامی مصنفین سے وابستہ ہوئے لیکن ترقی پسند تحریک کی ادعائیت سے دور رہے۔ انہوں نے اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرائی سے مطالعہ کیا، اپنے دور کے دو بڑے شاعروں جوش اور فراق سے اکتساب ہنر کیا اور بہت جلد اپنا منفرد طرز اظہار اختراع کر لیا۔
علاقۂ دکن کے نامی گرامی شعرائے کرام میں شمار ہوتے ہیں۔ روایتی اور جدید شاعری کے درمیان جس پل کی تعمیر شاذ تمكنت نے کی وہ خود میں ایک دَور کا آئینہ دار ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں جہاں ذاتی زندگی کے دکھ درد ظاہر ہیں، وہیں ان کا دکھ، زمانہ کے عمومی تجربہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ اپنے انتقال کے وقت شاذ تمکنت جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو میں ریڈر کے عہدہ پر کارگزار تھے۔ ان کے چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں: تراشیدہ (1966)، بیاضِ شام (1973)، نیم خواب (1977) اور دستِ فرہاد (بعد از مرگ: 1994)۔ علاوہ ازیں ان کا ایک انتخابِ کلام "ورقِ انتخاب" 1981ء میں حیدرآباد (دکن) اور کراچی سے ایک ساتھ شائع ہوا تھا۔ 2004ء میں شائع شدہ "کلیاتِ شاذ تمکنت" (صفحات: 570) کا پیش لفظ پروفیسر مغنی تبسم نے تحریر کیا ہے، جو ذیل میں پیش خدمت ہے۔
شاذ تمکنت کا مقبول عام شعر:
مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے
اپنے پہلے مجموعہ کلام "تراشیدہ" کے پیش نامے "لطف خلش پیکاں" میں انہوں نے اپنے نظریۂ فن کو بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے :
میں غم ذات اور غم کائنات کو علاحدہ علاحدہ خانوں میں نہیں بانٹتا بلکہ میری دانست میں غم ذات عبارت ہوتا ہے ، غم کائنات سے۔ ایک فرد کا غم اس کا ا پنا ہوتے ہوئے بھی در پردہ افراد کے دکھ سکھ کی ترجمانی کرتا ہے۔ کائنات کے خارجی موضوعات بھی اس وقت تک کامیاب شعر کا جامہ نہیں پہن پاتے جب تک کہ اس میں شخصیت کا غم ذات کا پُٹ نہ ہو۔۔۔ میں شعر کسی پیغام کی خاطر یا درس دینے کے لئے نہیں کہتا۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ شعر ہو یا افسانہ، اول اول فن کار اپنی تسکین کے لئے، اپنی انا کو سکون بخشنے کی خاطر تخلیق کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ متاع ہنر آخر آخر اتنی دل پذیر ہو جائے کہ شاعر اپنے پر اہل دہر کا قیاس کرے۔
یہ پیش نامہ شاذتمکنت کے نظریہ فن کے ساتھ ان کے تخلیقی رویے کا مظہر ہے۔
شاذ تمکنت ایک نظم نگار شاعر کی حیثیت سے ابھرے لیکن جلد ہی منفرد غزل گو کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت بنا لی۔ ابتدائی دور کی نظموں کی نمایاں خصوصیت مرصع مرقع نگاری ہے۔ وہ اپنے جذبات و خیالات کو حسین اور دلکش پیکروں میں ڈھال دیتے ہیں۔ پیکر تراشی کے لئے انہوں نے تشبیہ نگاری سے خاص کام لیا ہے۔ ان کی تشبیہوں میں خارجی فطرت مختلف کیفیات، جذبات اور مشاہدات کو اپنے دامن میں سمیٹے انوکھے انداز میں جلوہ ساماں نظر آتی ہے۔ بیش تر نظموں میں تشبیہی اور وصفی مرکبات ان کے اظہار کا جزو لاینفک بن گئے ہیں۔ جیسے:
اوس کی آنچ سے پتیاں جل اٹھیں |
نرم کہرے کی ضو جھلملاتی رہے |
(لذت سنگ) |
اوس کی پیاس سے کھلتی ہوئی ہونٹوں کی کلی |
رس سے چھلکی ہوئی باتوں کی چھنکتی چھانجھن |
(نیند کی وادی میں) |
لب بستہ فسردہ چاندنی میں |
میداں کے سلگتے حاشیے پر |
اک اونگھتے مقبرے کے اندر |
آنسو کا چراغ جل رہا ہے |
(کھنڈر) |
جب کرن آتی ہے پابوسی شبنم کے لیے |
جگمگا اٹھتے ہیں وجدان کی طاقتوں کے دیے |
(میرا فن، میری زندگی) |
دیوارِ دل سے یاد کے |
سائے اتر کر رہ گئے |
موتی تری گفتار کے |
چھن چھن بکھر کر رہ گئے |
(ایک صبح) |
تشبیہی مرکبات سے پیکر تراشی کا یہ انداز بعد کے دور کی شاعری میں کسی حد تک کم ہو گیا اور اس کی جگہ اظہار کے نئے اسالیب برتے گئے۔ 'بیاض شام' میں "بانس کا جنگل" ایک تمثیلی نظم ہے جس کا واحد متکلم عاشق خود کو بانس کے جنگل سے مشابہہ تصور کرتا ہے۔ اسی مجموعے کی ایک طویل نظم، "طیور آوارہ" ہے جس میں شعور کی رو کی ٹکنیک کو بڑی فن کاری سے برتا گیا ہے۔ سوچ کی رو، نیم شب گہری خموشی میں تنہائی کے غم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر ریل کی سیٹی سنائی دیتی ہے، شاعر سوچتا ہے :
خدا جانے کہاں جاتے ہیں لوگ / کیا یہ سچ ہے پھر پلٹ کر اپنے گھر آتے ہیں لوگ۔
سوچ کی لہر شاعر کو شہر خموشاں میں لے جاتی ہے: جانے کیسے لوگ تھے کیا خال و خط گم ہو گئے / شور دنیا کیا قیامت ہے یہ کیسے سو گئے۔
شاعر پرانی یادوں میں کھو جاتا ہے۔ صبح ہوتی ہے۔ کالج جاتا ہے۔
بس کا سفر، اخبار بیچنے والے کی آواز ، جنگ کی خبریں، قتل و غارت گری کے منظر سامنے آتے ہیں۔ اور کئی خبریں۔ سوچتا ہے:
کب خدا جانے سکون دل کے لمحے آئیں گے۔
بوڑھے رفو گر کا خیال آتا ہے: روز و شب کرتا ہے جو کپڑوں کے زخموں کا حساب۔
پھول چننے والی لڑکی کا خیال آتا ہے، جو اس کے دل میں کانٹے بو گئی اور اب وہ زندگی سے جی کو یوں بہلاتا ہے: اون کی گڑیا کو جیسے بانجھ عورت تھپتھپائے / پھر ایک مسلسل گیت کی آواز۔ کشتی، بادبان اور پتوار۔ آگے مٹیالے نشیبوں سے پرے چرواہے بیلوں کو لیے جا رہے ہیں، گویا صبح کاذب آ گئی ہے اب صبح ہوگی اور / ازسرِ نو پھر تعارف ہوگا سورج سے کہ میں / روز چہرے کو بدل لیتا ہوں جینے کے لئے۔
"بیاض شام" میں ایک اور طویل نظم ہے: 'مخدوم کی یاد میں'۔ اس نظم میں بھی اظہار ک ایک انوکھا تجربہ کیا گیا ہے۔ مخدوم محی الدین کی وفات ایک سانحہ تو تھی لیکن کیسا سانحہ کہ جس سے دکن کی "بساط رقص" ہی الٹ گئی۔ اب ان لوگوں کا کیا ہوگا جو اپنا درد اس کے پاس لے کے آئے تھے۔ ان نوجوانوں کا کیا ہوگا جنہیں ادھورے خواب سونپ کر وہ چلا گیا۔
کھیت میں کام کرنے والی لڑکی جو ابھی اس کی چاپ اور آہٹیں سن رہی ہے ، اس کے خواب بھی ادھورے رہ گئے۔ اس کے آگے۔۔۔ شاعر، مخدوم کو سپرد خاک کرنے کے بعد اپنے شدید غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی باتوں کو اور ان کی صفات کو یاد کرتا ہے: / تری مثال جیسے آب چشمہ رواں رہی / تو دوسروں کے رخ کی گرد دھو کے مطمئن رہا ۔۔۔ تو فرد کب تھا بزم تھا،حیات تیرے ساتھ تھی / زمانہ تیرے ساتھ، کائنات تیرے ساتھ تھی/۔
اس کے آگے ا پنے ذاتی تعلقات اور تجربات کو یاد کرتا ہے: وہ سیرچشمیاں تری / وہ محفلیں وہ رت جگے ، وہ جشن مے، وہ قہقہے / وہ یار باشیاں تری / تکلم شگفتہ و تبسم نگاہ میں / وہ دل نوازیاں تری/۔
اور آخر میں بہ حیثیت شاعر اس کی کمی کا احساس دلاتے ہوئے کہتا ہے: سجے گی یوں تو بارہا سخن کی انجمن یہاں / ۔۔۔ مگر کلید رونق ہر انجمن تو کھو گئی / دکن کی قسمت سخن تو تیرے ساتھ سو گئی/۔
غرض یہ نظم ایک خاص انداز کا بے مثال مرثیہ ہے۔
ان کے مجموعہ کلام 'نیم خواب' میں نظمیں کم ہیں۔ چند عشقیہ نظمیں ہیں، جن میں فراق و وصال کی کیفیات کو خوب صورتی سے قلم بند کیا گیا ہے اور محبوب کے سراپا کے بیان میں تشبیہ نگاری کا اسلوب پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
روشنی چہرے پہ دیدار کی تقریب کی طرح |
وہ نمو یافتہ قامت کسی تشبیب کی طرح |
جسم کے خط ہیں کہ باریک قلم کی تحریر |
صاف و شفاف کہ تقدیر رقم کی تحریر |
(درد پذیرائی) |
پلکیں نیندوں کے چنور، آنکھیں شبستاں کے چراغ |
سخن زیر لبی، مشک کے جھونکے جیسے |
لفظ نو شینہ تو لہجہ ہے شکر قند کی طرح |
حملے اس چاؤ سے پورے ہوں کے وعدے جیسے |
(دائرہ) |
آنسو کی دھند، یاد کے جگنو ، طویل سوچ |
بیتے ہوئے دنوں کی جھلک یاد آ گئی |
پیماں کی بیلیں پاؤں سے آ کر لپٹ گئیں |
وعدوں کے پھول بن کی مہک یاد آ گئی |
(تجدید رسم و راہ) |
مری آواز میں تھا ٹوٹتی راتوں کا سناٹا |
مرے لہجے میں جیسے گھل رہی تھی میری تنہائی |
شکستہ ہو رہی تھیں سیڑھیاں خوابیدہ لفظوں کی |
معانی تھے سر بامِ سخن گویا تماشائی |
(یاں نفس واں نکہت گل ہے) |
یہ آدھی رات ، پورا چاند ، آنگن |
رم آہو ، مری عمر گریزاں |
یہ زخمِ آگہی ، یہ شورشِ جاں |
یہ وجدانِ نظر ، ادراکِ گلشن |
میں شبنم سے شرر کو چھو رہا ہوں |
(آدھی رات ، پورا چاند) |
"درد پذیرائی" ایک انوکھی نظم ہے۔ محبوب کی قربت اور وصال، اس کا لطف و کرم اور نگاہ التفات حاصل ہونے کے بعد بھی عاشق ایک کرب میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ حسن کی خو بھی حزیں، عشق کی فطرت بھی حزیں اور ۔۔۔
آگ سی آگ رگ و پے میں سمونا ہے ضرور / وہ کرم ہو کہ ستم عشق میں رونا ہے ضرور۔
شاعر کہتا ہے کہ اس کا عشق عشقیہ شاعری کی عام روایت سے مختلف ہے۔ اس کے عشق میں رقیب کا گزر نہیں۔ اس نظم میں محبوبہ کا بڑا ہی دل کش سراپا قصیدے کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ اس کی تشبیہ نگاری بھی خوب ہے۔
نظم "بیداد" اظہار کا نیا تجربہ ہے۔ اس میں ایمائیت کا کمال ہے اور ڈرامائیت کی شان بھی۔ نظم کا آغاز اس ڈرامائی منظر سے ہوتا ہے:
شام کے رنگ میں گھل جاتے ہیں گہرے سائے / پاس کے پیڑ سے گرتے ہیں سنہری پتے / راہ گیروں کے قدم پڑتے ہیں / میرے احساس میں کہرام سا مچ جاتا ہے / زرد پتوں کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوں میں / وہ مجھے روکتی ہے /۔
اس نظم میں زینو (محبوبہ) کا غیر روایتی کردار پیش کیا گیا ہے جو عاشق کی بے مہری کا شکار ہے۔
عاشق کے فراق میں اس کی جو حالت ہے وہ ناسی سس کی عاشق "گونج" (Echo) کی یاد دلاتی ہے۔ وہ ناسی سس کے فراق میں گھل کر صرف آواز رہ گئی تھی۔ ایسا ہی کچھ حال زینو کا ہوا:
یوں چھٹی مانگ سے افشاں اس کی / جس طرح پھول سے زیرہ جھڑ جائے / رات بھر جاگتی رہتی ہے ستاروں کی طرح / موم بتی کی طرح روتی ہے /۔
زینو کی یہ حالت دیکھ کر عاشق کی آنکھیں نیم آلود ہیں لیکن دل میں ایک پر غرور مسرت بھی ہے، اس بات کی کہ / لو چلو آج یہ دن بھی آیا / ناز اٹھوانے کا ارماں نکلا / چاہے جانے کی تمنا نکلی /۔
'ٹائم کیپسول' شاذتمکنت کے عام رنگ سے ہٹی ہوئی ایک فکر انگیز طویل طنزیہ نظم ہے جو پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ مورخ، قوموں کی زندگی کے اصل حالات کو کس طرح مسخ کر کے پیش کرتے ہیں مورخ ہی کی زبانی بیان کیا گیا ہے:
تضادات دیروحرم کو چھپا کر مفادات دیر و حرم لکھ رہے ہیں / صنم کو خدا ، مصلحت کہہ رہی ہے ، خدا کو بنام صنم لکھ رہے / ۔۔۔ فسانہ طرازی ہے تاریخ گویا کہ گردوں کو زیر قدم لکھ رہے ہیں/۔
دوسرے باب میں تقسیم ہند کے سانحے کو ایک خوشگوار حادثے کا رنگ دیا گیا۔ افرنگ کا منصوبہ تھا کہ فسادات ہوں، خون کے دریا بہں لیکن اس کے بر عکس ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو گلے لگا کر بادیدہ، پرنم رخصت کرتے ہیں۔ تیسرے باب میں مہاتما گاندھی کی شہادت کو شادی مرگ ٹھہرایا ہے۔ پانچ ہزار سال بعد ایک سناٹا چھایا ہوا ہے۔ قاری جب تاریخ کے اوراق الٹتا ہے تو اسے ماضی میں ا پنے وطن کی ایک دل خوش کن تصویر دکھائی دیتی ہے:
شہد کے دھارے رواں تھے دودھ کی نہروں کے بیچ / نقرئی رستے طلائی حاشیے کندن کے پیڑ / ۔۔۔خیر کے میداں میں اک دن شر نے بازی ہار دی / اور پھر چاروں طرف سے ہن برستا ہی گیا / ۔۔۔ / سیر چشمی، آشتی آسودگی، زندہ دلی / مذہبی بنیاد پر رسم عداوت ہی نہ تھی / سنکھ مسجد میں بجاتے تھے برہمن رات بھر ، اور مندر میں اذانوں پر موذن رات بھر / ۔۔۔ اس دور کے ہندوستان میں یوں تو کئی زبانیں تھیں لیکن / ایک اردو تھی کہ جس کا بول بالا تھا بہت ناز سے پالی گئی جمہوریت کے دور میں / اس کے شاعر تھے بہت آسودہ حال اور مطمئن / ۔۔۔ لیکن تاریخ کے اس حصار سنگ سے آگے:
ادھر زمین کی تہوں کے نیچے دھرا ہے تابوت آگہی کا، فضا میں ہیں کنمناہٹیں سی، شکستہ لفظوں کی آہٹیں سی / تمام الفاظ چل رہے ہیں، کفن سے باہر نکل رہے ہیں / اب لفظ اپنے اطراف کے نظارے سے پشیماں ، اور خوف زدہ ہیں وہ دیکھتے ہیں:
پھٹا پرانا، ادھورا بستر، کھنکتے ڈبے،شکستہ برتن، فسردہ بچے، دریدہ چادر ، اور۔۔۔ / سنہرے کھیتوں میں پھن کھڑے ہیں، ترازو پاسنگ سے چھکے ہیں، ملوں کے نالے کراہتے ہیں / اس طرح پریشاں حال الفاظ اندھیرے رستوں پر بھٹکتے پھرتے ہیں اور اپنا مفہوم تلاش کرتے ہیں۔ یہ بہت ہی موثر نظم شاذ تمکنت کو ایک باکمال طنزنگار کی حیثیت سے متعارف کراتی ہے۔
مجموعہ کلام "دست فریاد" میں شاذتمکنت کی نظم نگاری نے چولا بدلا اس مجموعے کی اکثر نظمیں بیانیہ ہیں جن میں خیالات کو نظم کر دیا گیا ہے۔ سماجی اور سیاسی حالات پر براہ راست تنقید کی گئی ہے۔ چھٹا آدمی، ایک سوچ ، ایک سوال، کہرام، ہم لوگ، خدا ترس، سفید لہو، اور اکائی، اسی قبیل کی نظمیں ہیں۔
نظم نگاری میں شاذ تمکنت نے جہاں اپنی انفرادیت کا پرچم لہرا دیا وہیں غزل کو بھی نیا رنگ دیا۔ غزل میں جہاں جہاں انہوں نے ہجروفراق کی کیفیات کو رقم کیا ہے ان کی شعر دلوں کو چھو لیتے ہیں۔ ایک درد انگیز غزل کے چند شعر ملاحظہ ہوں:
جانے والے تجھے کب دیکھ سکوں بار دگر |
روشنی آنکھوں کی بہہ جائے گی آنسو بن کر |
رو رہا ہوں کہ ترے ساتھ ہنسا تھا برسوں |
ہنس رہا ہوں کہ کوئی دیکھ نہ لے دیدۂ تر |
میں نے ہر رات یہی سوچ کے آنسو پونچھے |
منہ دکھانا بھی ہے دنیا کو بہ ہنگامِ سحر |
اور یہ شعر
ترے خیال سے رگ رگ دکھی ہوئی ہے مری |
عجب طرح کی کمی رہ گئی ہے جینے میں |
. |
وہ لوگ جو تجھے ہر روز دیکھتے ہوں گے |
انہیں خبر نہیں کیا شے ہے حسرتِ دیدار |
. |
شب و روز جیسے ٹھہر گئے کوئی ناز ہے نہ نیاز ہے |
ترے ہجر میں یہ پتا چلا مری عمر کتنی دراز ہے |
. |
ہر محفل نشاط سے پھرتا ہوں دور دور |
کیا احتیاط ہے کہ ترا غم بہل نہ جائے |
. |
جاتے جاتے اس نے کیا وسعتیں عطا کی ہیں |
جس طرف نظر ڈالوں دشت بے کراں دیکھوں |
. |
بھٹک رہا ہوں کہ فردا کا راستہ گم ہے |
قدم قدم مرا ماضی ہے میرے حال کے ساتھ |
. |
آج کھولا تھا درِ خانۂ دل |
ایک بھی چیز سلامت نہ ملی |
. |
چراتا پھر رہا ہوں اپنی آنکھیں غمگساروں سے |
کچھ ایسا لگ رہا ہے مجھ کو جھوٹا کر دیا تو نے |
فراق و ہجر کے علاوہ کئی کیفیات و معاملات عشق ہیں، جنہیں شاذتمکنت نے نہایت نازک خیالی کے ساتھ غزل کے اشعار میں سمویا ہے:
ایک رات آپ نے امید پہ کیا رکھا ہے |
آج تک ہم نے چراغوں کو جلا رکھا ہے |
. |
صرف آواز سنانے کی ادا |
کون سمجھے گا دلاسا کیا تھا |
. |
ترا لہجہ ہے کہ سناٹے نے آنکھیں کھولیں |
تیری آواز کلیدِ درِ تنہائی ہے |
. |
روز وحشت کا تقاضا ہے کہ صحرا کو چلیں |
روز اپنے آپ کو زنجیر پہناتے ہیں ہم |
. |
ترے بغیر زمانے کو منہ دکھا نہ سکوں |
یہ زندگی کہیں شرمندگی نہ بن جائے |
. |
ہم شہر تمنا کے دروازے سے لوٹ آئے |
اللہ رے سناٹا، اللہ رے خاموشی |
. |
یہ جہاں ہے محبس بے اماں کوئی سانس لے تو بھلا کہاں |
ترا حسن آگیا درمیاں، یہی زندگی کا جواز ہے |
. |
پیاسا ہوں ریگ زار میں دریا دکھائی دے |
جو حال پوچھ لے وہ مسیحا دکھائی دے |
. |
اک خوف ہے کہ منزل نسیاں قریب ہے |
تو وادی خیال سے آگے نکل نہ جائے |
. |
میر ا اور دنیا کا پھر سے معرکہ ٹھہرے |
میں ترے تبسم کی صلح درمیاں دیکھوں |
. |
اس نے دوری کی بھی حد کھینچ رکھی ہے گویا |
کچھ خیالات سے آگے مجھے جانے نہ دیا |
. |
لو دے رہی ہے سوچ کے وقفے کی خامشی |
ہر بات کا جواب سنبھل کر مجھے نہ دو |
. |
اس کا ہونا ہی بھری بزم میں وجہ سکوں |
کچھ نہ بولے بھی تو وہ میرا طرف دار لگے |
ان اشعار سے اندازہ ہوگا کہ شاذتمکنت کی غزل روایت کی پاس دار ہوتے ہوئے بھی غیر روایتی ہے اور اپنے ہم عصر شعرا کی غزل گوئی سے بھی مختلف ہے۔ شاذتمکنت نے غزل کے روایتی مضامین نہیں باندھے ہیں اور روایتی استعاروں کو روایتی تلازموں کے ساتھ بھی نہیں برتا ہے۔ ان کی غزل میں قافیے کے سہارے مضمون باندھنے کی کوشش بھی نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ نظموں میں جس انداز کی تشبیہی مرقع نگاری کی ہے غزل میں یہ انداز کم کم ہی نظر آتا ہے۔
نظم اور غزل کے علاوہ شاذ تمکنت نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ انہوں نے غالب اور اقبال کی غزلوں کی تضمینیں لکھیں۔ یہ تضمینیں اصل غزلوں سے اتنی مربوط اور ہم آہنگ ہیں کہ کہیں پیوند کاری کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ان کے علاوہ شاذتمکنت کے ذخیرہ کلام میں قطعات ،گیت، نعت، اور من اجات بھی شامل ہیں۔ ان کی مناجات 'کب تک میرے مولا' بے حد مقبول ہوئی اور سماع کی محفلوں میں سامعین پر وجد طاری کر دیتی ہے۔ اسی طرح ان کی نعت، آپ اکیلے مل جائیں تو دامن تھام کے رو لوں۔ دلوں کو گداز بخشتی ہے۔ شاذ تمکنت کا گیت 'موج و ساحل سے ملو'، نہایت نغمہ نواز اور دل کش ہے اور موسیقی کی محفلوں میں جان پیدا کر دیتا ہے۔
شاذ تمکنت کی تخلیقات کے اس سرسری جائزے سے اندازہ ہوگا کہ وہ ایک بے مثال شاعر تھے۔ لفظوں کے انتخاب اور ان کی باہمی ترکیب سے انہوں نے اپنے فن کی ایک نئی دنیا آباد کی، وہ اپنے فن سے یوں خطاب کرتے ہیں:
تیرے قصر طرب آہنگ کو ہو اس کی خبر |
کہ ہر اک خشت میں پنہاں ہے مرا درد ہنر |
. |
عقدۂ خاطر ہر سنگ کھلا ہے مجھ پر |
غرفہ، منظر صد رنگ کھلا ہے مجھ پر |
. |
عکس ہر منظر جاں تاب اتارا میں نے |
یوں نکھارا ترے فانوس کی دیوار کا رنگ |
. |
رفعت فکر کی منزل پہ پہنچ کر اکثر |
کتنے نادیدہ جہانوں کو صدا دی میں نے |
کتنے نوخیز عناصر کو بہ عنوان نمو |
اپنے افکار کے دامن کی ہوا دی میں نے |
. |
اور لوح و قلم نے ترا ہر پیکر نقش |
اتنی محنت سے تراشا ہے کہ جی جانتا ہے |
ہر بن مو کو زباں دی مگر اس ارماں نے |
اس قدر خون رلایا ہے کہ جی جانتا ہے |
اپنا سرمایۂ جاں تجھ پہ بہ صد حسن خلوص |
بے دریغ اتنا لٹایا ہے کہ جی جانتا ہے |
- مغنی تبسم
31/دسمبر 2003ء
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
شاذ تمکنت - دکن کا انمول رتن - از: رؤف خیر
"کلیاتِ شاذ تمکنت" (مصنف : شاذ تمکنت)۔
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ سن اشاعت: 2004ء۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں