اردو کے مشہور ادیب، شاعر، ڈراما نگار اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ مقبول کالم نگار بھی رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تدریسی فرائض کی انجام دہی کے بعد وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اعزازی پروفیسر کے طور پر مقرر ہوئے۔ 1963ء میں جب وہ الہ آباد یونیورسٹی کے طالب علم تھے، انہوں نے اخبارات و رسائل میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ شمیم حنفی کی کالم نویسی کا سلسلہ تقریباً نصف صدی تک پھیلا ہوا ہے۔ تقریباً تمام ہی کالم معروف فکشن نگار خالد جاوید نے مرتب کر کے "یہ کس کا خواب تماشا ہے" نامی کتاب کے ذریعے پیش کیا ہے۔
شمیم حنفی کے انہی معرکۃ الآرا یادگار کالمز پر مبنی کتاب "یہ کس کا خواب تماشا ہے"، شمیم حنفی کو خراج عقیدت کے بطور باذوق قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ تقریباً چار سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 15 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اپنے ان کالمز کے تعارف میں شمیم حنفی کہتے ہیں ۔۔۔یہ کالمز زندگی کے مختلف ادوار کی یادگار ہیں۔ طالب علمی کے دور میں اس سلسلے کی شروعات ہوئی۔ کئی اردو اور ہندی اخبارات سے بالواسطہ تعلق رہا۔ گرد و پیش کی دنیا میں جو صورتحال رونما ہوتی رہتی ہے، اس کے بارے میں سوچنے کے ساتھ ساتھ اپنے ردعمل کو ظاہر کرنے کی ہوک بھی اٹھتی رہتی ہے۔ زندگی میرے لیے نہ تو خواب ہے، نہ صرف آرٹ اور ادب کے اسالیب کی گرفت میں آنے والی سچائی۔ ادیب کے لیے صحافت کا میدان بھی کھلا ہوتا ہے، بقول جارج آرویل: ہنگامی حالات میں لکھا جانے والا ادب۔ سو، یہ شغل بھی جاری رہنا چاہیے۔
احتجاج اور برہمی کے شورِ بےاماں سے لبالب بھرا ہوا ماحول بھی ہماری ہی دنیا کا حصہ ہے۔ میں نے فکشن، شاعری، ادبی تعبیر و تنقید کے ساتھ ساتھ بہت سے اعصاب شکن سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلوں کے سائے میں بھی اپنے شب و روز بسر کیے ہیں۔ شاید اسی لیے یہ کالم نویسی بھی کسی نہ کسی طور پر ہمیشہ جاری رہی۔ یہ میرے سماجی سروکاروں کی دستاویز ہے۔ اور یہ کتاب اسی طول طویل روداد پر مبنی ہے۔ جو کالمز اس کتاب میں شامل ہیں بالعموم دہلی کے اخبارات 'ہجوم'، 'خبردار جدید' اور 'ہماری زبان' کے واسطے سے منظر عام پر آئے ہیں۔
ان بکھرے ہوئے اوراق کو یکجا کرنے کی تحریک مجھے اپنے دو عزیز شاگردوں سے ملی۔ ایک تو ڈاکٹر یوسف عامر جو جامعہ ازہر (قاہرہ) میں اردو کے پروفیسر ہیں۔ دوسرے اسی کتاب کے مرتب جو ایک معروف فکشن نگار ہیں۔
پیش نظر کتاب کے دیباچہ "عرضِ مرتب" میں خالد جاوید لکھتے ہیں ۔۔۔"یہ کس کا خواب تماشا ہے"
کی تمام تحریروں کا تعلق انسان سے ہے اور اس کے بنیادی سروکار صرف انسانی ضمیر سے ہی وابستہ ہیں۔ یہ کالم نہ تو محض سیاسی ہیں اور نہ ہی محض ادبی۔ اگرچہ موضوعات کے اعتبار سے یہ سیاسی اور ادبی دونوں کہے جا سکتے ہیں مگر ہمیں بخوبی یہ علم ہے کہ کالم میں ہمیشہ اپنے ذاتی خیال کا اظہار کیا جاتا ہے اور کوئی بھی خیال اپنے اظہار کے لیے بیان و الفاظ کا محتاج رہتا ہے۔
اگر ان کالموں کے موضوعات کے ساتھ ساتھ ان کی زبان اور اسلوب پر بھی بغور توجہ دی جائے تو ایک خصوصیت بہت واضح طور پر کھل کر سامنے آتی ہے اور وہ ہے بیانیہ میں پوشیدہ افسردگی اور ملال کی ایک کیفیت۔
افسردگی اور ملال بغیر انسان دوستی (Humanism) کے، کبھی نہیں پیدا ہوتے۔ اگر کسی تحریر کے بنیادی سروکار "انسان" سے وابستہ نہیں ہیں تو اس میں شائستگی، شوخی، طنز و مزاح اور معنویت سب کچھ ہو سکتے ہیں مگر افسردگی یا اداسی نہیں۔
شمیم حنفی کی زبان ایک زندہ وجودی تجربے کی بامعنی اور معتبر اداسی ہے جس کے بغیر انسان کا کوئی تعلق نہ تو کسی اخلاقی اقدار سے قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کائنات سے جہاں دوسرے انسان بھی زندگی گزارتے ہیں اور بےجان اشیا بھی اپنا مقام رکھتی ہیں۔
شمیم حنفی کے یہ کالم بنیادی طور پر موجودہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام کے خلاف احتجاج سے عبارت ہیں یہاں تک کہ بعض شخصی نوعیت کے کالم بھی اس عنصر سے خالی نہیں۔ "یہ کس کا خواب تماشا ہے" کی تحریروں کو اسی لیے میں نے "معجزہ" کہا ہے کیونکہ زبان و بیان کے اعتبار سے ان کالموں کا کوئی تعلق اردو میں کالم نگاری کی روایت سے قائم نہیں ہوتا جبکہ دوسرے تمام صحافیوں اور ادیبوں کے کالم نہ صرف موضوعات کے تعلق سے بلکہ زبان و بیان کے حوالے سے بھی ایک دوسرے کا چربہ نظر آتے ہیں۔ بالکل ایک جیسا ڈکشن، ایک جیسی لفظیات اور ایک جیسے موضوعات۔ اردو کے بیشتر کالم نگاروں کی تحریروں میں سے لفظوں کی فرسودگی کی بو آتی مھسوس ہوتی ہے۔ (چند ایک کو چھوڑ کر، مثلاً فرحت احساس کے کالم)۔
شمیم حنفی کے یہ کالم اردو میں کالم نگاری کی روایت سے ماورا ہیں۔ اور اپنی الگ دنیا کی تشکیل کرتے ہیں۔
ان کالموں میں بظاہر ایسا کچھ نہیں ہے، جو ایک باخبر آدمی پہلے سے نہ جانتا ہو۔ ظاہر ہے کہ کالم حالاتِ حاضرہ پر ہی لکھے جاتے ہیں۔ ان کالموں میں بھی وہی انسانی مسائل ہیں جنہیں ہم اخبارات میں خبروں یا اداریوں کی شکلوں میں بھی پڑھتے رہتے ہیں اور جن کا تعلق اقتصادیات، معاشیات یا سیاست اور سماج سے ہوتا ہے۔ شخصی اور تاثراتی قسم کے کالموں میں بھی یہ نکات بہرحال کسی نہ کسی طور آ ہی جاتے ہیں اور ہم ان سے واقف بھی ہوتے ہیں۔
مگر شمیم حنفی کی یہ تحریریں ہمیں باخبر کرنے کے لیے نہیں لکھی گئی ہیں، یہ ہمیں عرفان اور آگہی کا سبق دینے کے لیے لکھی گئی ہیں۔ خبر اور عرفان میں جو فرق ہوتا ہے، اس سے کون واقف نہیں، اپنی ذات کا وجودی تجربہ ہی دوسروں کے وجودی تجربے کا وسیلہ بنتا ہے۔ اس لیے راقم الحروف کے خیال میں یہ محض کالم نہیں ہیں۔ انہیں ہم اپنے اجتماعی ضمیر کی آواز پر کیے گئے شک اور اس کی اخلاقی عظمت سے انکار کے لیے ایک اعلان نامے کے بطور بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ کارنامہ اکثر ایک بڑا فن پارہ ہی انجام دے سکتا ہے۔
***
نام کتاب: یہ کس کا خواب تماشا ہے (شمیم حنفی کے کالمز)
مرتب: خالد جاوید
ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی (سن اشاعت: 2014ء)
تعداد صفحات: 410
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 15 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Ye kis ka khwab tamasha hai - Columns by Shamim Hanfi.pdf
فہرست کالم | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | تاریخ اشاعت | صفحہ نمبر |
الف | عرضِ مرتب | جولائی-1980 | 13 |
1 | مکالمہ مابین سواری و یکہ بان - ایک امکان | جولائی-1980 | 17 |
2 | چودھری محمد نعیم - ایک سفر اپنی تلاش کا | جنوری-1981 | 20 |
3 | غرض کہ ایک زوال آشکار میں بھی تھا | جنوری-1981 | 23 |
4 | تمھیں چادر کے اندر پاؤں پھیلانا نہیں آتا | جنوری-1981 | 26 |
5 | کس قدر پیاری زباں اور کتنی دکھیاری زباں | جنوری-1981 | 30 |
6 | منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ | جنوری-1981 | 33 |
7 | یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں | فروری-1981 | 39 |
8 | پروفیسر عبدالسلام - کچھ یادیں کچھ سوغاتیں | فروری-1981 | 42 |
9 | رولس رائس سے گدھا گاڑی تک | فروری-1981 | 45 |
10 | علی گڑھ - تیرا مورخ کون ہوگا؟ | مارچ-1981 | 49 |
11 | غالب اور غالب کے ایک عاشق کی یاد میں | مارچ-1981 | 53 |
12 | رنگ منت کش آواز بھی ہے! | مارچ-1981 | 57 |
13 | یہ کہاں کی دوستی ہے؟ | اپریل-1981 | 61 |
14 | وہ حیلہ جو کہیں رستے میں رہ گیا ہوگا | اپریل-1981 | 65 |
15 | خلیق بھائی : فنا ہوئے تو کچھ ایسے کہ جیسے تھے ہی نہیں | اپریل-1981 | 69 |
16 | کتاب تماری - نام اور انعام ہمارا! | اپریل-1981 | 73 |
17 | ہزار چوراسی کی ماں | مئی-1981 | 77 |
18 | احمد مشتاق- گردِ مہتاب کا سفر | اکتوبر-1981 | 81 |
19 | دیکھئے کب ملے کہاں کوئی؟ | نومبر-1981 | 85 |
20 | ہوئے تم دوست جس کے۔۔۔ | نومبر-1981 | 88 |
21 | بانی کی یاد میں | نومبر-1981 | 92 |
22 | منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ | دسمبر-1981 | 95 |
23 | حافظے کا ایک ورق : سید احتشام حسین | دسمبر-1981 | 98 |
24 | ایک مردِ فقیر کا سرمایہ | دسمبر-1981 | 101 |
25 | اور بھی غم ہیں زمانے میں ۔۔۔ | دسمبر-1981 | 104 |
26 | خوابوں سے جی ڈرتا ہے۔۔۔ | جنوری-1982 | 107 |
27 | ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی | فروری-1982 | 110 |
28 | آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے | فروری-1982 | 114 |
29 | کتابوں کا کمبھ میلہ | فروری-1982 | 118 |
30 | عتیق بھائی - ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے | فروری-1982 | 122 |
31 | کہیں تو ہوگا لکھا اس کا نقش پا دیکھیں | فروری-1982 | 126 |
32 | جوش - کچھ یادیں، کچھ باتیں | مارچ-1982 | 129 |
33 | فراق صاحب | مارچ-1982 | 133 |
34 | اب اور کس قیامت کا انتظار ہے؟ | مارچ-1982 | 137 |
35 | ڈی۔ ایل۔ آر۔ 7710 | اپریل-1982 | 141 |
36 | ایک صفحہ - ضمیر کے قیدیوں کے لیے | اپریل-1982 | 145 |
37 | ایک اور صفحہ - ہندوستان اور پاکستان کے انسان دوستوں کے لیے | اپریل-1982 | 149 |
38 | یہ کیسی تعلیم ہے؟ ایک مڈل کلاس زاویۂ نظر | اپریل-1982 | 152 |
39 | قائل تیشےے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم | جولائی-1982 | 156 |
40 | فلسطین فلسطین | جولائی-1982 | 159 |
41 | ایک اور ویت نام | جولائی-1982 | 163 |
42 | کرکٹ، کپل دیو اور پروفیسر دیوراج | جولائی-1982 | 167 |
43 | اقوام متحدہ سے ایک فلسطینی اپیل | جولائی-1982 | 170 |
44 | منٹو - مقدمے - مین را | جولائی-1982 | 174 |
45 | آبگینہ تندئ صہبا سے پگھلا جائے ہے | اگست-1983 | 178 |
46 | عوام خوش، حکمراں بھی مزے میں | اگست-1983 | 182 |
47 | واجب القتل، واجب القتل | اگست-1983 | 186 |
48 | پبلک کے اصرار پر | اگست-1983 | 190 |
49 | تھوڑی چالاکی، تھوڑی دنیاداری اور بہت سی بے غیرتی | ستمبر-1983 | 194 |
50 | دانشوروں کا سرکس | ستمبر-1983 | 197 |
51 | سلیم احمد کے انتقال پر | اکتوبر-1983 | 201 |
52 | ٹیلی وژن دیکھیے، مہذب بنیے | اکتوبر-1983 | 205 |
53 | عالم خوندمیری کی یاد میں | نومبر-1983 | 209 |
54 | قصہ ترقی پسند بندر کا | نومبر-1983 | 212 |
55 | اردو کس کی زبان ہے | نومبر-1983 | 215 |
56 | یہ کس کا خواب تماشہ ہے؟ | اگست-1988 | 219 |
57 | افسوس ! تم کو میر سے صحبت نہیں رہی | دسمبر-1988 | 223 |
58 | میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے | مارچ-2000 | 226 |
59 | راہی معصوم رضا کہتے ہیں : اردو تہذیبی تجربے کا ہندی پیکر | اپریل-2001 | 231 |
60 | کہ بکھر کے بھی یہ شیرازہ پریشاں نہ ہوا | ستمبر-2002 | 235 |
61 | گجرات، ہندوستانی مسلمان اور راجندر یادو | اکتوبر-2002 | 241 |
62 | مدرسے، فرقہ وارانہ دہشت گردی کے مراکز۔۔۔۔ | نومبر-2002 | 244 |
63 | چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلے وار | دسمبر-2002 | 248 |
64 | جون ایلیا | دسمبر-2002 | 250 |
65 | یہ آتش بازی بند ہونی چاہئے | دسمبر-2002 | 253 |
66 | انجمن اسلام، ڈاکٹر اسحاق جمخانہ والا اور مسلم ادارے | جنوری-2003 | 259 |
67 | کشمیر اداس ہے | جنوری-2003 | 262 |
68 | دلی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ | فروری-2003 | 266 |
69 | اس دیوار میں کہیں کوئی کھڑکی نہیں ہے | فروری-2003 | 269 |
70 | ذاکر صاحب ، اردو اور سیکولر ہندوستان | مارچ-2003 | 273 |
71 | جو ہم ادھر سے نہ گزریں گے کون دیکھے گا | اپریل-2003 | 277 |
72 | ہوا نے دی ہے خبر رات کے گزرنے کی | اپریل-2003 | 280 |
73 | جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر گزرا | مئی-2003 | 283 |
74 | یہ کیسا دلدوز موسم خزاں ہے۔۔۔ | مئی-2003 | 288 |
75 | زوال بغداد کی کہانی | مئی-2003 | 294 |
76 | یہ کس کا خواب تماشا ہے؟ | جون-2003 | 299 |
77 | الہ الدین کا چراغ، ماہنامہ سائنس اوراصغر علی انجینئر | جون-2003 | 304 |
78 | یہ کیسا گورکھ دھندا ہے یہ کیسا تانا بانا ہے | جولائی-2003 | 308 |
79 | دیکھو! ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں | جولائی-2003 | 312 |
80 | لب پہ حرفِ غزل، دل میں قندیل غم | اگست-2003 | 316 |
81 | وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں | ستمبر-2003 | 321 |
82 | کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں | اکتوبر-2003 | 328 |
83 | اوروں کا ہو پیام اور میرا پیام اور ہے | نومبر-2003 | 333 |
84 | مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق | دسمبر-2003 | 340 |
85 | گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں | دسمبر-2003 | 342 |
86 | اردو ہندی تنازعہ | دسمبر-2003 | 346 |
87 | دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں | جنوری-2004 | 351 |
88 | یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین | جنوری-2004 | 356 |
89 | تذکرہ خان صاحب اور خواجہ صاحب کا | فروری-2004 | 360 |
90 | چہرے، مکان، راہ کے پتھر بدل گئے | مارچ-2004 | 364 |
91 | برائے درس اب اطفالِ شہر آتے ہیں | اپریل-2004 | 368 |
92 | چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (پہلی قسط) | اپریل-2004 | 373 |
93 | چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (دوسری قسط) | مئی-2004 | 376 |
94 | چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (تیسری قسط) | جون-2004 | 380 |
95 | چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (چوتھی قسط) | جون-2004 | 384 |
96 | چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (پانچویں قسط) | جولائی-2004 | 388 |
97 | چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (آخری قسط) | جولائی-2004 | 393 |
98 | میں ایک کرن تھا شب تار سے نکل آیا | مئی-2004 | 401 |
- | پوسٹ اسکرپٹ | - | 406 |
Ye kis ka khwab tamasha hai (Columns), by: Shamim Hanfi, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں