یہ کس کا خواب تماشا ہے - شمیم حنفی کے کالم - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-08

یہ کس کا خواب تماشا ہے - شمیم حنفی کے کالم - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

ye-kis-ka-khwab-tamasha-hai-shamim-hanafi
شمیم حنفی (پیدائش: 17/مئی 1939 - وفات: 6/مئی 2021ء)
اردو کے مشہور ادیب، شاعر، ڈراما نگار اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ مقبول کالم نگار بھی رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تدریسی فرائض کی انجام دہی کے بعد وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اعزازی پروفیسر کے طور پر مقرر ہوئے۔ 1963ء میں جب وہ الہ آباد یونیورسٹی کے طالب علم تھے، انہوں نے اخبارات و رسائل میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ شمیم حنفی کی کالم نویسی کا سلسلہ تقریباً نصف صدی تک پھیلا ہوا ہے۔ تقریباً تمام ہی کالم معروف فکشن نگار خالد جاوید نے مرتب کر کے "یہ کس کا خواب تماشا ہے" نامی کتاب کے ذریعے پیش کیا ہے۔
شمیم حنفی کے انہی معرکۃ الآرا یادگار کالمز پر مبنی کتاب "یہ کس کا خواب تماشا ہے"، شمیم حنفی کو خراج عقیدت کے بطور باذوق قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ تقریباً چار سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 15 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اپنے ان کالمز کے تعارف میں شمیم حنفی کہتے ہیں ۔۔۔
یہ کالمز زندگی کے مختلف ادوار کی یادگار ہیں۔ طالب علمی کے دور میں اس سلسلے کی شروعات ہوئی۔ کئی اردو اور ہندی اخبارات سے بالواسطہ تعلق رہا۔ گرد و پیش کی دنیا میں جو صورتحال رونما ہوتی رہتی ہے، اس کے بارے میں سوچنے کے ساتھ ساتھ اپنے ردعمل کو ظاہر کرنے کی ہوک بھی اٹھتی رہتی ہے۔ زندگی میرے لیے نہ تو خواب ہے، نہ صرف آرٹ اور ادب کے اسالیب کی گرفت میں آنے والی سچائی۔ ادیب کے لیے صحافت کا میدان بھی کھلا ہوتا ہے، بقول جارج آرویل: ہنگامی حالات میں لکھا جانے والا ادب۔ سو، یہ شغل بھی جاری رہنا چاہیے۔

احتجاج اور برہمی کے شورِ بےاماں سے لبالب بھرا ہوا ماحول بھی ہماری ہی دنیا کا حصہ ہے۔ میں نے فکشن، شاعری، ادبی تعبیر و تنقید کے ساتھ ساتھ بہت سے اعصاب شکن سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلوں کے سائے میں بھی اپنے شب و روز بسر کیے ہیں۔ شاید اسی لیے یہ کالم نویسی بھی کسی نہ کسی طور پر ہمیشہ جاری رہی۔ یہ میرے سماجی سروکاروں کی دستاویز ہے۔ اور یہ کتاب اسی طول طویل روداد پر مبنی ہے۔ جو کالمز اس کتاب میں شامل ہیں بالعموم دہلی کے اخبارات 'ہجوم'، 'خبردار جدید' اور 'ہماری زبان' کے واسطے سے منظر عام پر آئے ہیں۔

ان بکھرے ہوئے اوراق کو یکجا کرنے کی تحریک مجھے اپنے دو عزیز شاگردوں سے ملی۔ ایک تو ڈاکٹر یوسف عامر جو جامعہ ازہر (قاہرہ) میں اردو کے پروفیسر ہیں۔ دوسرے اسی کتاب کے مرتب جو ایک معروف فکشن نگار ہیں۔

پیش نظر کتاب کے دیباچہ "عرضِ مرتب" میں خالد جاوید لکھتے ہیں ۔۔۔
"یہ کس کا خواب تماشا ہے"
کی تمام تحریروں کا تعلق انسان سے ہے اور اس کے بنیادی سروکار صرف انسانی ضمیر سے ہی وابستہ ہیں۔ یہ کالم نہ تو محض سیاسی ہیں اور نہ ہی محض ادبی۔ اگرچہ موضوعات کے اعتبار سے یہ سیاسی اور ادبی دونوں کہے جا سکتے ہیں مگر ہمیں بخوبی یہ علم ہے کہ کالم میں ہمیشہ اپنے ذاتی خیال کا اظہار کیا جاتا ہے اور کوئی بھی خیال اپنے اظہار کے لیے بیان و الفاظ کا محتاج رہتا ہے۔
اگر ان کالموں کے موضوعات کے ساتھ ساتھ ان کی زبان اور اسلوب پر بھی بغور توجہ دی جائے تو ایک خصوصیت بہت واضح طور پر کھل کر سامنے آتی ہے اور وہ ہے بیانیہ میں پوشیدہ افسردگی اور ملال کی ایک کیفیت۔
افسردگی اور ملال بغیر انسان دوستی (Humanism) کے، کبھی نہیں پیدا ہوتے۔ اگر کسی تحریر کے بنیادی سروکار "انسان" سے وابستہ نہیں ہیں تو اس میں شائستگی، شوخی، طنز و مزاح اور معنویت سب کچھ ہو سکتے ہیں مگر افسردگی یا اداسی نہیں۔
شمیم حنفی کی زبان ایک زندہ وجودی تجربے کی بامعنی اور معتبر اداسی ہے جس کے بغیر انسان کا کوئی تعلق نہ تو کسی اخلاقی اقدار سے قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کائنات سے جہاں دوسرے انسان بھی زندگی گزارتے ہیں اور بےجان اشیا بھی اپنا مقام رکھتی ہیں۔
شمیم حنفی کے یہ کالم بنیادی طور پر موجودہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام کے خلاف احتجاج سے عبارت ہیں یہاں تک کہ بعض شخصی نوعیت کے کالم بھی اس عنصر سے خالی نہیں۔ "یہ کس کا خواب تماشا ہے" کی تحریروں کو اسی لیے میں نے "معجزہ" کہا ہے کیونکہ زبان و بیان کے اعتبار سے ان کالموں کا کوئی تعلق اردو میں کالم نگاری کی روایت سے قائم نہیں ہوتا جبکہ دوسرے تمام صحافیوں اور ادیبوں کے کالم نہ صرف موضوعات کے تعلق سے بلکہ زبان و بیان کے حوالے سے بھی ایک دوسرے کا چربہ نظر آتے ہیں۔ بالکل ایک جیسا ڈکشن، ایک جیسی لفظیات اور ایک جیسے موضوعات۔ اردو کے بیشتر کالم نگاروں کی تحریروں میں سے لفظوں کی فرسودگی کی بو آتی مھسوس ہوتی ہے۔ (چند ایک کو چھوڑ کر، مثلاً فرحت احساس کے کالم)۔
شمیم حنفی کے یہ کالم اردو میں کالم نگاری کی روایت سے ماورا ہیں۔ اور اپنی الگ دنیا کی تشکیل کرتے ہیں۔

ان کالموں میں بظاہر ایسا کچھ نہیں ہے، جو ایک باخبر آدمی پہلے سے نہ جانتا ہو۔ ظاہر ہے کہ کالم حالاتِ حاضرہ پر ہی لکھے جاتے ہیں۔ ان کالموں میں بھی وہی انسانی مسائل ہیں جنہیں ہم اخبارات میں خبروں یا اداریوں کی شکلوں میں بھی پڑھتے رہتے ہیں اور جن کا تعلق اقتصادیات، معاشیات یا سیاست اور سماج سے ہوتا ہے۔ شخصی اور تاثراتی قسم کے کالموں میں بھی یہ نکات بہرحال کسی نہ کسی طور آ ہی جاتے ہیں اور ہم ان سے واقف بھی ہوتے ہیں۔
مگر شمیم حنفی کی یہ تحریریں ہمیں باخبر کرنے کے لیے نہیں لکھی گئی ہیں، یہ ہمیں عرفان اور آگہی کا سبق دینے کے لیے لکھی گئی ہیں۔ خبر اور عرفان میں جو فرق ہوتا ہے، اس سے کون واقف نہیں، اپنی ذات کا وجودی تجربہ ہی دوسروں کے وجودی تجربے کا وسیلہ بنتا ہے۔ اس لیے راقم الحروف کے خیال میں یہ محض کالم نہیں ہیں۔ انہیں ہم اپنے اجتماعی ضمیر کی آواز پر کیے گئے شک اور اس کی اخلاقی عظمت سے انکار کے لیے ایک اعلان نامے کے بطور بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ کارنامہ اکثر ایک بڑا فن پارہ ہی انجام دے سکتا ہے۔


***
نام کتاب: یہ کس کا خواب تماشا ہے (شمیم حنفی کے کالمز)
مرتب: خالد جاوید
ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی (سن اشاعت: 2014ء)
تعداد صفحات: 410
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 15 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Ye kis ka khwab tamasha hai - Columns by Shamim Hanfi.pdf

Direct Download link:

GoogleDrive Download link:

فہرست کالم
نمبر شمارعنوانتاریخ اشاعتصفحہ نمبر
الفعرضِ مرتبجولائی-198013
1مکالمہ مابین سواری و یکہ بان - ایک امکانجولائی-198017
2چودھری محمد نعیم - ایک سفر اپنی تلاش کاجنوری-198120
3غرض کہ ایک زوال آشکار میں بھی تھاجنوری-198123
4تمھیں چادر کے اندر پاؤں پھیلانا نہیں آتاجنوری-198126
5کس قدر پیاری زباں اور کتنی دکھیاری زباںجنوری-198130
6منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچجنوری-198133
7یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاںفروری-198139
8پروفیسر عبدالسلام - کچھ یادیں کچھ سوغاتیںفروری-198142
9رولس رائس سے گدھا گاڑی تکفروری-198145
10علی گڑھ - تیرا مورخ کون ہوگا؟مارچ-198149
11غالب اور غالب کے ایک عاشق کی یاد میںمارچ-198153
12رنگ منت کش آواز بھی ہے!مارچ-198157
13یہ کہاں کی دوستی ہے؟اپریل-198161
14وہ حیلہ جو کہیں رستے میں رہ گیا ہوگااپریل-198165
15خلیق بھائی : فنا ہوئے تو کچھ ایسے کہ جیسے تھے ہی نہیںاپریل-198169
16کتاب تماری - نام اور انعام ہمارا! اپریل-198173
17ہزار چوراسی کی ماںمئی-198177
18احمد مشتاق- گردِ مہتاب کا سفر اکتوبر-198181
19دیکھئے کب ملے کہاں کوئی؟ نومبر-198185
20ہوئے تم دوست جس کے۔۔۔ نومبر-198188
21بانی کی یاد میں نومبر-198192
22منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ دسمبر-198195
23حافظے کا ایک ورق : سید احتشام حسین دسمبر-198198
24ایک مردِ فقیر کا سرمایہ دسمبر-1981101
25اور بھی غم ہیں زمانے میں ۔۔۔دسمبر-1981104
26خوابوں سے جی ڈرتا ہے۔۔۔جنوری-1982107
27ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی فروری-1982110
28آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے فروری-1982114
29کتابوں کا کمبھ میلہ فروری-1982118
30عتیق بھائی - ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے فروری-1982122
31کہیں تو ہوگا لکھا اس کا نقش پا دیکھیں فروری-1982126
32جوش - کچھ یادیں، کچھ باتیںمارچ-1982129
33فراق صاحب مارچ-1982133
34اب اور کس قیامت کا انتظار ہے؟ مارچ-1982137
35ڈی۔ ایل۔ آر۔ 7710 اپریل-1982141
36ایک صفحہ - ضمیر کے قیدیوں کے لیے اپریل-1982145
37ایک اور صفحہ - ہندوستان اور پاکستان کے انسان دوستوں کے لیےاپریل-1982149
38یہ کیسی تعلیم ہے؟ ایک مڈل کلاس زاویۂ نظر اپریل-1982152
39قائل تیشےے چیر گئے ان ساونتوں کے جسمجولائی-1982156
40فلسطین فلسطینجولائی-1982159
41ایک اور ویت نامجولائی-1982163
42کرکٹ، کپل دیو اور پروفیسر دیوراججولائی-1982167
43اقوام متحدہ سے ایک فلسطینی اپیل جولائی-1982170
44منٹو - مقدمے - مین را جولائی-1982174
45آبگینہ تندئ صہبا سے پگھلا جائے ہے اگست-1983178
46عوام خوش، حکمراں بھی مزے میں اگست-1983182
47واجب القتل، واجب القتلاگست-1983186
48پبلک کے اصرار پراگست-1983190
49تھوڑی چالاکی، تھوڑی دنیاداری اور بہت سی بے غیرتی ستمبر-1983194
50دانشوروں کا سرکس ستمبر-1983197
51سلیم احمد کے انتقال پر اکتوبر-1983201
52ٹیلی وژن دیکھیے، مہذب بنیے اکتوبر-1983205
53عالم خوندمیری کی یاد میں نومبر-1983209
54قصہ ترقی پسند بندر کانومبر-1983212
55اردو کس کی زبان ہےنومبر-1983215
56یہ کس کا خواب تماشہ ہے؟ اگست-1988219
57افسوس ! تم کو میر سے صحبت نہیں رہی دسمبر-1988223
58میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچےمارچ-2000226
59راہی معصوم رضا کہتے ہیں : اردو تہذیبی تجربے کا ہندی پیکراپریل-2001231
60کہ بکھر کے بھی یہ شیرازہ پریشاں نہ ہوا ستمبر-2002235
61گجرات، ہندوستانی مسلمان اور راجندر یادو اکتوبر-2002241
62مدرسے، فرقہ وارانہ دہشت گردی کے مراکز۔۔۔۔ نومبر-2002244
63چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلے وار دسمبر-2002248
64جون ایلیا دسمبر-2002250
65یہ آتش بازی بند ہونی چاہئےدسمبر-2002253
66انجمن اسلام، ڈاکٹر اسحاق جمخانہ والا اور مسلم ادارےجنوری-2003259
67کشمیر اداس ہے جنوری-2003262
68دلی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ فروری-2003266
69اس دیوار میں کہیں کوئی کھڑکی نہیں ہے فروری-2003269
70ذاکر صاحب ، اردو اور سیکولر ہندوستان مارچ-2003273
71جو ہم ادھر سے نہ گزریں گے کون دیکھے گا اپریل-2003277
72ہوا نے دی ہے خبر رات کے گزرنے کی اپریل-2003280
73جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر گزرامئی-2003283
74یہ کیسا دلدوز موسم خزاں ہے۔۔۔ مئی-2003288
75زوال بغداد کی کہانیمئی-2003294
76یہ کس کا خواب تماشا ہے؟ جون-2003299
77الہ الدین کا چراغ، ماہنامہ سائنس اوراصغر علی انجینئرجون-2003304
78یہ کیسا گورکھ دھندا ہے یہ کیسا تانا بانا ہے جولائی-2003308
79دیکھو! ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں جولائی-2003312
80لب پہ حرفِ غزل، دل میں قندیل غم اگست-2003316
81وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیںستمبر-2003321
82کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں اکتوبر-2003328
83اوروں کا ہو پیام اور میرا پیام اور ہے نومبر-2003333
84مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق دسمبر-2003340
85گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں دسمبر-2003342
86اردو ہندی تنازعہ دسمبر-2003346
87دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیںجنوری-2004351
88یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین جنوری-2004356
89تذکرہ خان صاحب اور خواجہ صاحب کافروری-2004360
90چہرے، مکان، راہ کے پتھر بدل گئے مارچ-2004364
91برائے درس اب اطفالِ شہر آتے ہیں اپریل-2004368
92چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (پہلی قسط) اپریل-2004373
93چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (دوسری قسط) مئی-2004376
94چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (تیسری قسط) جون-2004380
95چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (چوتھی قسط) جون-2004384
96چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (پانچویں قسط) جولائی-2004388
97چھٹے دریا کو پار کرتے ہوئے (آخری قسط) جولائی-2004393
98میں ایک کرن تھا شب تار سے نکل آیا مئی-2004401
-پوسٹ اسکرپٹ-406


Ye kis ka khwab tamasha hai (Columns), by: Shamim Hanfi, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں