پنجرے کا آدمی - افسانے از رتن سنگھ - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-03

پنجرے کا آدمی - افسانے از رتن سنگھ - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

pinjre-ka-aadmi-ratan-singh
رتن سنگھ (پیدائش: 15/نومبر 1927ء، نارووال گوجرانوالہ - وفات: 2/مئی 2021ء پنجاب انڈیا)
اردو کے ممتاز افسانہ/ناول نگار اور شاعر رہے ہیں جو تقسیم کے بعد ہندوستان منتقل ہو گئے۔ جون 1953ء میں شائع شدہ اپنے پہلے افسانے سے ان کی قلمی زندگی کا آغاز ہوا اور ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے انہوں نے نمایاں شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ ان کے افسانے عصری حسیت کے حامل ہیں ونیز ان کا اسلوب ان کے فن کی اہمیت و خصوصیت کا واضح اظہار ہے، جس کے ذریعے بحیثیت افسانہ نگار اپنے ہم عصروں میں انہوں نے منفرد شناخت قائم کی۔ لکھنؤ میں دوران ملازمت رتن سنگھ اپنے زمانے کے اہم ترقی پسند ادیبوں احتشام حیسن، آل احمد سرور، ڈاکٹر محمد حسن، ڈاکٹر قمر رئیس، اقبال مجید اور سبط اختر وغیرہ کے ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے۔
اردو کے اس بزرگ و نامور قلمکار کی وفات پر انہیں بطور خراج عقیدت، ان کے اولین افسانوں کا مجموعہ "پنجرے کا آدمی" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 9 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

رتن سنگھ کا تعارف کرواتے ہوئے رضوان الدین فاروقی لکھتے ہیں ۔۔۔
معروف افسانہ نگار رتن سنگھ موضع داؤد، تحصیل ناروال، گوجرانوالہ میں 15/ نومبر 1927 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ڈیرہ بابا نانک، پاکستان میں ہوئی۔ ملک کی تقسیم کے بعد ہجرت کے ہندوستان آگئے اور 1960 میں لکھنؤ یونیورسٹٰی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ابتدا میں ریلوے میں کلرک کے عہدے پر رہے۔ پھر آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے اور کئی ریڈیو اسٹیشنوں پر ڈائریکٹر رہے۔ لکھنؤ میں دوران ملازمت رتن سنگھ اپنے زمانے کے اہم ترقی پسند ادیبوں احتشام حیسن، آل احمد سرور،ڈاکٹر محمد حسن، ڈاکٹر قمر رئیس، اقبال مجید اور سبط اختر وغیرہ کے ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے۔ رتن سنگھ انجمن ترقی پسند مصنفین سے ملازمت کی بنا پر باقاعدہ تو وابستہ نہیں ہوسکے لیکن انجمن کے جلسے جلوسوں میں پابندی سے شرکت کرتے رہے اور یہیں سے ان کو تصنیف و تالیف کی تحریک ملی۔
ان کا پہلا افسانہ جون 1953 میں شائع ہوا تھا۔ ان کے افسانے عصری حسیت کے حامل ہیں اور بحیثٰیت افسانہ نگار اپنے ہم عصروں میں وہ منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ ان کے فن کی اہمیت و خصوصیت ان کے اظہار کا اسلوب ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد حسن: "اگر آرٹ غیر ضروری لفظوں سے پرہیز کا ہنر ہے تو یہ آرٹ رتن سنگھ سے زیادہ اردو ادیبوں میں شاید ہی کسی کو آتا ہو۔"

رتن سنگھ کی فرشتہ صفت شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر محمد حسن نے ان کو اردو کا خلیل جبران کہا تھا۔ وہ جہاں ایک طرف تحقیقی اور حقیقت پسندانہ رویہ رکھتے تھے تو دوسری طرف گرونانک کے حکیمانہ فلسفے سے بھی متاثر تھے۔ وہ ایک ایسے تخلیق کار تھے جن کی ہر کہانی میں انسانی مقدر اور انسانی رشتوں پر غور و فکر موجود ہے۔ ہرچند کہ ان کے افسانے عصری حسیت سے عبارت ہیں لیکن ان کا بنیادی موضوع عام انسان ہے جو صدیوں سے بدحالی و استحصال کی زندگی بسر کر رہا ہے۔
رتن سنگھ کے کرداروں میں نیکی اور بدی دونوں کارفرما نظر آتی ہیں۔ رتن سنگھ کی کہانیوں کا اسلوب بظاہر سیدھا سادہ ہوتا تھا لیکن وہ افسانے کی تخلیق میں کئی طرح کی تدبیروں سے کام لیتے تھے۔ کبھی کبھی وہ بے جان اشیا اور جانوروں کو انسانی صفات کے حامل دکھا کر ہندوستان کی قدیم کہانیوں جیسے ‘پنج تنتر’ وغیرہ سے رشتہ قائم رکھتے ہیں۔ پنجاب سے تعلق ہونے کی بنا پر وہ لوک روایتوں اور گیتوں سے بھی کام لیتے تھے۔ مجموعی طور سے دیکھا جائے تو رتن سنگھ کے افسانے زندگی کی چھوٹی چھوٹٰی حقیقتوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

رتن سنگھ کی تصانیف:
پہلی آواز (افسانے 1969)، پنجرے کا آدمی (افسانے،1973)، دربدری (خودنوشت، 1986) مانک موتی(مختصر ترین افسانے،1990)، کاٹھ کا گھوڑا (افسانے، 1993)، ہڈ بیتی ( نظمیں، 1999)، پناہ گاہ (افسانے،2000)، اڑن کھٹولا ( ناول)، بیتے ہوئے دن ( آپ بیتی، 2005)، پانی پر لکھا نام ( منتخب افسانے،2008)، سانسوں کا سنگیت (ناول،2011) اور رتی کے دوہے(2012)۔

جواں سال محقق اور سوشل میڈیا کی مقبول ادب دوست شخصیت راشد اشرف نے رتن سنگھ کے انتقال پر یوں اظہارِ تعزیت کیا ہے ۔۔۔
بالآخر اردو کے ادیب رتن سنگھ نہایت خامشی سے اپنے خالق کو پیارے ہوئے اور ان کی وہ شدید خواہش گمان ہے پوری ہوگئی کہ پران تجنے کے بعد ان کی آتما اپنی جائے پیدائش راوی کنارے، داؤد نامی گاؤں، ناروال کی طرف لوٹ جائے۔۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ راقم الحروف کو اب سے کچھ دیر قبل رتن سنگھ کے فرزند نے فون پر یہ خبر سنائی کہ ان کے پتا کا دیہانت گزشتہ رات 2 اور 3 مئی 2021 کی درمیانی شب 2 بجے اپنے گھر پر گریٹر نوائیڈا دلی میں ہوا۔ آج یعنی 3 مئی 2021 کو صبح 10 بجے ان کی آخری رسومات ادا کردی گئیں۔
"زندہ کتابیں" میں ان کی دو آپ بیتیاں بس آنے کو ہیں، یوں ٹھہری تھی کہ کتاب تو انڈیا جا نہیں سکے گی، سو کتاب کی ویڈیو بنا کر ان کی صاحب زادی کو بھیج دی جائے گی کہ وہ اسے رتن جی کو دکھا دیں۔ افسوس یہ سب نہ ہو سکے گا۔ البتہ رتن صاحب سے ہونے والی گفتگو، ان کا والہانہ لہجہ یاد رہے گا جس کا تذکرہ میں نے اپنے تعارفی مضمون میں کردیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوا کہ ڈاکٹر محمود احمد کاوش نے بھی، جو رتن صاحب سے رابطے کے طویل عرصے سے متمنی تھے، راقم الحروف کے توسط سے ان سے اپنی ایک زیر ترتیب کتاب کے سلسلے میں جی بھر کر بات کرلی تھی، محض چند ہی روز قبل۔ کاوش صاحب کا مضمون آپ رتن سنگھ کی آپ بیتی میں جلد پڑھ سکیں گے۔

رتن سنگھ کے چار بچے ہیں۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ سنیتا رانی اور کنچن کور ان کی بیٹیاں جبکہ بیٹوں کے نام پدم جیت سنگھ اور راجندر سنگھ ہیں۔
رتن سنگھ کی پیدائش 15 نومبر1927ء کو تحصیل ناروال کے ایک گاؤں میں ہوئی۔ تقسیم کے بعد وہ بھارت چلے گئے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ ریڈیو کی ملازمت میں رہے۔ 1955ء میں لکھنے کا آغاز کیا۔ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی پہلی آپ بیتی "دربدری"، 1986ء میں شائع ہوئی تھی جبکہ "بیتے ہوئے دن" 2005ء میں منظر عام پر آئی۔

زندہ کتابیں میں حال ہی میں شائع ہونے والی کرتار سنگھ دگل کی آپ بیتی "کس پہ کھولوں گنٹھری" کے مترجم رتن سنگھ ہی ہیں۔
بقول پروفیسر امجد علی شاکر:
"اس کی اردو کا اپنا انداز ہے۔ یہ انداز ہمارے ہاں بھی محبوب اور مقبول ہے۔ اس میں پانیوں کی روانی ہے اور پانی میں زندگی ہوتی ہے۔ رتن سنگھ کو پڑھ کر پانیوں سے ملاقات ہوتی ہے اور خوشی نصیب ہوتی ہے۔
رتن سنگھ بستی داوَد سے نکلا اور پھر ہندوستان میں جگہ جگہ پھرا۔ اس نے دوستیاں کیں ، پیار کیا۔ دوسروں کو من میں بسایا۔ اس نے ایک عمر مکان نہ بنایا اور دلوں کا مکین بنتا رہا۔ آخری عمر میں وہ ایک جگہ بیٹھ گیا ہے۔ اس نے مکان بنا لیا ہے، مگر وہ پیار کے بول بولتا اور دوستی کی زبان لکھتا ہے۔ یہ زبان تاروں کے دونوں طرف بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بول یقیناً انمول ٹھہریں گے۔"
(آپ بیتیوں کے زندہ کتابیں ایڈیشن میں شامل تعارفی مضمون سے ماخوذ)

***
نام کتاب: پنجرے کا آدمی (40 مختصر افسانے)
مصنف: رتن سنگھ
طباعت: نامی پریس، لکھنؤ (سن اشاعت: دسمبر 1973ء)
تعداد صفحات: 208
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 9 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Pinjre Ka Aadmi by Ratan Singh.pdf

Direct Download link:

GoogleDrive Download link:

فہرست افسانے
نمبر شمارتخلیقصفحہ نمبر
1نئی کہانی5
2میری کہانی6
3پنجرے کا آدمی11
4ناف کا درد17
5منکر21
6چہرے کی تلاش25
7باپو31
8زندگی سے دور36
9ایک عام آدمی41
10سمندر کی پیاس45
11دوڑتی دھوپ48
12آخری اداس آدمی52
13واپسی55
14یو ماسٹر58
15نقلی اور اصلی67
16خدا نہیں آتا72
17بدبو76
18صرف ایک آدمی کا درد79
19دشمن تو پہچانو84
20مہرباں کیسے کیسے88
21ایک منی بغاوت92
22تین لڑکیاں102
23ایک غریب یُگ108
24اپنے جیسا113
25تیسری فتح118
26دھول124
27اپنا شہر128
28خدا کا دوست134
29امداد140
30روح کا درد145
31آٹھواں پتھر152
32پرچھائیاں157
33لافانی نانک162
34ایک پرانی کہانی168
35الف سے آم171
36پیغام178
37لیر182
38پرانی مٹی186
39سورج کا مہمان193
40میلی گٹھری کا بوجھ202


Pinjre ka Aadmi (40 short stories), by: Ratan Singh, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں