مولانا نور عالم خلیل امینی - علم و ادب کا نیر تاباں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-03

مولانا نور عالم خلیل امینی - علم و ادب کا نیر تاباں

maulana-noor-alam-khalil-amini
یہ خبر صاعقہ بن کر ذہن و دماغ کو ورطۂ حزن میں ڈال گئی کہ حضرت الاستاذ حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ویسے گذشتہ سال ہی حضرت کے دل کے آپریشن کی خبر پھر وفات سے کچھ روز قبل طبیعت کی ناسازی کی خبر سے یہ اندیشہ او ر دل پر بار گراں تھا ہی کہ جہاں علم وادب کا یہ ستارہ کہیں غروب نہ ہوجائے ، علم وادب کی یہ بستی کہیں سونی نہ پڑ جائے،، وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، قریبی زمانے میں کچھ سالوں سے "الداعی " میں میرے کئے ایک مضامین تقریباً ایک درجن سے زائد مجلہ "الداعی" میں شامل اشاعت ہوئے، جو حضرت الاستاذ کی زیر ادارت شائع ہوتا تھا۔ ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی کہ "الداعی " کی ادارت کا بار گراں استاذ محترم کے بعد کون سنبھالے گا؟
حضرت مولانا عارف جمیل صاحب دامت برکاتہم مولاناکی نیابت کا حق ادا کر رہے تھے ، یہ سوچ کر دل کو کچھ تسلی مل جاتی۔ 2003 میں دار العلوم میں "تکمیل ادب عربی " میں خصوصاً حضرت الاستاذ سے تلمذ کا موقع ملا، بڑی نفاست پسند طبیعت کے واقع ہوئے تھے ، دوران درس کس کی مجال کے کچھ حرکت و جنبش بھی کرسکے، ہمہ تن گوش ہو کر سبق کو سنا جاتا، تمام ہی طلباء نہایت دلجمعی و کامل یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہوتے۔ علم وادب کے موتی بکھیرے جاتے ، نہ صرف عربی زبان وادب کا درس ہوتا، عربی عبارت خوانی کے بعد عربی کے اخباری تراشوں کے مجموعہ بنام"المختارات العربیۃ" جو داخل نصاب تھا، ترجمہ کرتے ، جس کو ہم نہایت ہی اخفاء کے ساتھ قلم بند کرلیتے۔ نہایت سلیس ترجمہ، عربی سے اردو ترجمہ نگاری کا اعلی و نفیس ذوق، جملوں کی بندش ، متبادل الفاظ کی تلاش نہایت ذہن ودماغ کے گوشوں کو وسعت عطا کرتے ، کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لئے ،مادری زبان میں اس کے متبادل اور اس کے حق کی ادائیگی کرنے والے الفاظ کی تلاش وجستجو نہایت مشق ومزاولت چاہتی ہے۔
ہمیں حضرت الاستاذ سے شرف تلمذ کا ہی نتیجہ رہا کہ بعد کے ادوار میں کچھ عربی و اردو زبان سے شد بد ہوئی۔ اردو و عربی زبان میں جو بھی تحریری کاوشیں ، قلمی محنتیں، لکھنے کا سلیقہ و ذوق حضرت کی اس ایک سالہ "تکمیل ادب عربی " کے دوران صحبت بافیض کا ہی نتیجہ تھا۔ الفاظ کی بندش اس قدر پختہ اور پر ذوق ہوتی کہ گفتگو میں بھی اس کا پرتو خوب اور واضح نظر آتا، الفاظ کے زیر وبم، الفاظ کے برموقع وبرمحل استعمال ہی سے محفل کو لالہ زار بنادیتے۔ الفاظ کی بندش کی ندرت اس قدر دقت اورباریک بینی کے ساتھ ہوتی کہ اسی سے لطافت وظرافت خود پیدا ہوجایاکرتی، ہنس ہنس کر پیٹ کچا ہوجاتا، علم وادب کا یہ شاہکار ، یہ در نایاب اس وقت ہمارے درمیان نہ رہا، لیکن یہ ادیب بے بدل اور مثالی استاذ اوران کے پاکیزہ کردار، ناصحانہ گفتگو، ان کی مردم گری ومردم سازی سے نہ جانے کتنے لوگ فیضیاب ہوئے ہوں، علم وادب کے ایک جہاں کو ان کی بافیض صحبت سے مستفید ہو کر منور کیا ہو، شاگروں کا ایک ہجوم رواں ہے جو سارے جہاں عالم میں بکھرا ہوا ہے ، صرف اپنے رفقاء "تکمیل ادب عربی "کو یاد کرتا ہوں، سب لوگ تقریبا اپنے جگہ پر بڑے بڑے مناصب ، عہدوں پر فائز ہیں ، سب اپنی جگہ پر عربی زبان وادب کے حوالے سے بڑی بڑی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مختصر سوانح حیات
عربی زبان کے مشہور ادیب، مصنف، قلم کار، استاذ ادب عربی دار العلوم دیوبند، مدیر مجلۃ الداعی، 18؍دسمبر 1952ء ؍30 ربیع الاول 1372ھ کو مظفر پور بہار میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم وطن اصلی "رائے پور" ضلع سیتامڑہی اور ثانوی تعلیم مدرسہ امدادیہ او ر دار العلوم مؤ میں حاصل کی، 1965ء میں دار العلوم دیوبند میں داخل ہوئے ، لیکن تکمیل مدرسہ امینیہ دہلی میں 1970ء میں ہوئی، 1972ء میں ندوۃ العلماء لکھنؤ میں مدرس ادب عربی مقرر ہوئے، 1982ء میں دار العلوم دیوبند میں استاذ ادب عربی مقرر ہوئے اوردار العلوم کے عربی ترجمان "الداعی" کے مدیر مقرر ہوئے ، مسلسل چار دہائیوں سے عربی ادب واردو صحافت سے وابستہ ہیں ، عربی زبان کے ادیب اور بابصیرت صحافی کے طور پر دیکھاجاتا ہے ، عربی کے ساتھ اردو زبان میں بھی تحریرات ونگارشات ، ومصنفات ومؤلفات ہیں، کئی ایک عربی واردو کتابوں کے مصنف ہیں،رات تقریبا سواتین بجے ، بروز پیر، 3؍مئی ، 2021، 20/رمضان المبارک ، 1442ھ کو اس جہانی فانی سے رحلت فرما گئے۔

کچھ یادیں کچھ باتیں
استاذ محترم کی دوران درس بہت ساری باتیں ذہن ودماغ کے دریچوں میں محفوظ ہو گئیں۔
دوران درس ایک دفعہ فرمایا کہ جس اخبار کو تم خرید کر پڑھتے ہو، گرچہ وہ دو روپیئے کاہوتا ہے ، لیکن اگر اس میں سے صرف ایک مختصر سی خبر کو لکھنے کا سلیقہ تمہیں آگیا تو تم لاکھوں کے آدمی ہو، وہ احمد امین، علی طنطاوی کے طرز نگارش کو مولانا عبد الماجد دریابادی اور مولانا منظور نعمانی رحمہما اللہ کی اردو تحریروں کی مماثل قرار دیتے ، فرمایا کرتے کہ : مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ کا طرز نگارش سہل ہوتی ہے ، لیکن اس کو اپنانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، جس کو "سہل ممتنع" کہتے ہیں۔

طرز کلام اور اسلوب تکلم سے ہی مزاح کے مواقع پید ا کرلیا کرتے ، ایک دفعہ ایک ساتھی سے عمر کے متعلق دریافت کیا تمہاری عمر کتنی ہے ، وہ کہنے لگے کہ : میری عمراٹھارہ سال ہے ، مولانا کی دانست میں ان کی عمر کچھ بڑی تھی، جس کے متعلق فرمایا کہ عجیب طلباء ہوتے ہیں جب ان سے عمر کے متعلق دریافت کیا جاتا ہے ، تو کبھی کہتے ہیں، اٹھارہ سال، کبھی پندرہ سال، کبھی دس سال، آٹھ سال، ڈھائی سال ، ڈیڑھ سال اور کبھی کہتے ہیں : "ابھی میں ماں کے پیٹ میں زیر تعمیر" ہوں۔

تکمیل ادب عربی کے سال اخیر میں عربی الفاظ کے استعمال کے ذریعہ جملے بنانے کی مشق کرواتے ، ایک جملہ یاد آتا ہے "اعتبر یعتبر اعتبار" اس سے جملہ بنانا تھا میں نے یوں جملہ بنایا " تعتبر الأم الولد فلذۃ کبدھا" (میں اپنے بجے کو جگر کا ٹکڑا سمجھتی ہے ) جملے نہایت مختصر بنانے کے لئے فرماتے ، نہایت طویل جملے بندی کو ناپسند فرماتے ،ایک دفعہ عربی خوانی کے دوران "قلق" بمعنی "بے چینی " سبق میں لفظ آیا، جیسا کہ مشہور ہے کہ حیدرآباد کے لوگ "ق " کو "خ" بڑھتے ہیں ، میں نے اس لفظ کی ایک "ق " کی ادائیگی تو کردی، دوسرے "ق" کو ادا نہ کرسکا، اس کو "خ " پڑھا، عربی کو عربی تلفظ میں پڑھانے کا اہتمام کرتے ، فورا کھڑے ہوجانے کے لئے کہا، دیگر ساتھیوں نے کہا ، حضرت یہ "حیدرآبادی " ہے ، فرمایا: بیٹھ جاؤ، بیچارے نے ایک "ق "بڑے مشکل سے ادا کیا ہے ، دوسرا کہاں سے ادا کر پائے گا۔

عربی زبان مولانا کا اوڑھنابچھونا تھا، عربی زبان کے تلفظ اور ادائیگی میں غلطی کو ہر گز برداشت نہیں فرماتے ، نہایت سخت ودرشت لب ولہجہ میں فرماتے کہ ہم خواہ کتنی ہی محنت کرلیں ، ہم تو عجمی ہیں، عربی زبان کا صحیح تلفظ کہاں سے کر پائیں گے؟، اللہ عزوجل نے عربی تلفظ کے لئے ہماری زبان کو بنایا ہی نہیں، بڑا ششدر وحیران رہ جاتاہوں جس وقت عرب ممالک کے اسفار ہوتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے عربی بچوں کو عربی لب ولہجہ میں گفتگو کرتے دیکھتاہوں،وہ اس قدر عربی زبان کا صحیح اور درست تلفظ کرتے ہیں کہ حد نہیں، اس لئے کہ اللہ عز وجل نے ان کو زبان کو ہی "عربی" کے تلفظ کے لئے بنایا ہے۔
مجھے عربی زبان و ادب کا چسکا بہت زیادہ رہا ہے ، ہمیشہ یہ خواہش دامن گیر رہتی کہ کسی طرح "الداعی " کے خصوصاً "کلمۃ المحرر" کو صحیح طریقے سے پڑھ لوں، اس کو صحیح سمجھ پاؤں، البتہ مولانا کی اردو ہو یا عربی جملے نہایت طویل ہوتے ہیں ، درمیان جملہ معترضہ بھی ہوتے ، جس سے ان کی تحریر وطرز نگارش کو سمجھنا اتنا آسان نہ تھا۔ بلا مبالغہ عربی زبان بھی مستقل وقت کو چاہتی ہے ، ادب عربی میں چھ مہینے گذارنے کے بعد صحیح طریقہ سے "کلمۃ المحرر" کو پڑھنا آیا، سالِ تکمیل ادب عربی "الداعی " کے 2003 کے سارے شماروں کوباضابطہ خرید کر پڑھا تھا، خصوصاً مولانا کی تحریروں ،"کلمۃ المحرر"، "کلمۃ العدد" اور "اشراقہ" اور دیگر تمام ہی مضامین کو پڑھتا، الفاظ کے انتخاب کر کے اس کے نیچے قلم سے نشان زد کرتا ، یہ مجموعہ میرے پاس ابھی موجود ہے ، جس میں جگہ جگہ الفاظ نشان زد کئے ہوئے۔

مولانا کی تحریرات ونگارشات:
مولانا نے اپنے حین حیات بہت کچھ لکھا ، بہت لکھا، اردو میں بھی لکھا عربی میں بھی، عربی تحریروں میں خصوصا "کلمۃ المحرر" میں "کلمۃ العدد" میں اپنی امت کے تئیں کڑھن کا اظہار کیا کرتے ، خصوصا امت مسلمہ ہندیہ پر در پیش ہونے والے احوال، مسئلہ فلسطین تو مولانا کا زندگی کا لب لباب اور خلاصہ تھا، انہیں تحریروں کا مجموعہ شاید" فلسطین فی انتظار صلاح الدین " بقیہ "کلمۃ العدد" میں عربی دنیا کے احوال وواقعات اور مہنیہ کی مناسبت سے مضامین لکھا کرتے ، "اشراقہ " در اصل جو مولانا کی زندگی کے تجربات کا خلاصہ ہوتا ہے ، زندگی میں در پیش ایک ایک واقعہ کو جوڑ جوڑ کر اس کے ذریعہ پند ونصائح اخذ کرتے ، "اشراقہ " نہایت خوبصورت ہوتا، جو قبل از مرگ پانچ جلدوں میں " من وحی الخاطر" کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
مولانا کی "خط رقعہ کیسے سیکھیں" خرید کر "خط رقعہ "سیکھنے کی بہت کوشش کی ، لیکن نہ سیکھ سکا، "حرف شیریں " جس کا ایک ایک حرف عربی زبان وادب کے طلباء کے لئے گنجینہ گرانمایہ کی حیثیت رکھتا ہے ، کئی ایک دفعہ خصوصاتحریر ونگارش کے آداب واصول خصوصا، قوسین، واوین دیگراصطلاحات کو سیکھنے کے لئے کئی ایک دفعہ پڑھنے کا موقع ملا ، الحمد للہ مولانا کی تمام تحریروں کو بلکہ لکھنے پڑھنے کے مستقل پیشہ کی وجہ سے"الداعی " کے تمام شماروں کو یکجا کرنے ، مطالعہ کرنے ، مولانا تمام ہی تحریروں کو اکٹھا کرنے ان کو پڑھنے اور مطالعہ کرنے ، بلکہ اس پر لکھنے کے مواقع بھی میسر آئے ، مولاناکی عربی تحریروں میں " الصحابہ ومکانتہم فی الاسلام" ، " مجتمعاتنا المعاصرۃ والطریق الی الاسلام" ، " المسلمون فی الہند"، " الدعوۃ الاسلامیہ بین الأمس والیوم"، " مفتاح العربیۃدو جلد" ، "العالم الہندی الفرید الشیخ المقری محمد طیب رحمہ اللہ"،"فلسطین فی انتظار صلاح دین" ، " تعلموا العربیۃ فانھا من دینکم"، " متی تکون الکتابات مؤثرۃ "، "فی موکب الخالدین"، " من وحی الخاطر" شامل ہیں، اردو تحریروں میں "وہ کوہ کن کی بات " ، " حرف شیری"، " خط رقعہ کیوں اور کیسے سیکھیں" ،"موجودہ صلیبی وصہیونی جنگ" ، فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں" ، پس مرگ زندہ"۔

اس کے علاوہ مولانااکابر ین واساطین کے فکر وپیغام کو عام وتام کرنے کے لئے مجلۃ الداعی کے اسٹیج سے اپنے خاص شاگردوں کے ساتھ اردو تحریروں کو عربی قالب دینے کی بھی جدوجہد کی کی تھی، مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ کی " احادیث صریحۃ فی باکستان" اور "مولانا محمد الیاس اور ان کی دینی دعوت " کا عربی ترجمہ " الشیخ محمد الیاس ودعوتہ الدینیہ " اسی طرح "دو ہفتہ مراکش میں" کا عربی ترجمہ "اسبوعان فی مغرب الاقصی" اسی طرح ابو الحسن ندوی ؒ کی "الادعیۃ الماثورہ " کا عربی ترجمہ، اسی طرح " اسلام کی سیاسی تعبیر کا عربی ترجمہ"التفسیر السیاسی للاسلام" اور مولانا منظور نعمانی ؒ کی کتاب" شیخ محمد بن عبد الوہاب کی خلاف پروپیگنڈہ اور علماء حق پر اس کے اثرات" کا عربی ترجمہ " دعایات مکثفۃ ضد الشیخ محمد بن عبد الوہاب" اور شیخ امین اصلاحی کی کتاب’ ‘دعوت اور طریقہ کار" کا عربی ترجمہ "الدعوۃ الی اللہ" مولاناتقی عثمانی مدظلہ کی "عیسائیت کیا ہے ؟ کا عربی ترجمہ’ ‘ماہی المسیحیۃ" اور " حضرت معاویہ اور تاریخ حقائق " کا عربی ترجمہ" سیدنا معاویۃ فی الحقائق والوثائق التاریخیۃ"مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی " احکام اسلام عقل کی نظر میں" کا عربی ترجمہ" الاسلام والعقلانیۃ" قاری طیب صاحب ؒ کی" علماء دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج " کا عربی ترجمہ" علماء دیوبند: واتجاہہم الدینی ومزاجہم المذہبی" مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی کتاب کا عربی ترجمہ بنام’ بحوث فی الدعوۃ والفکر الاسلامی"اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی کتاب کا ترجمہ " لآلی منثورہ "بے شمار علمی وادبی کارنامے زندگی کا کوئی لمحہ اور شاید کوئی کھڑی ایسی نہیں چھوڑی جس کے نقوش بعد کے لئے چھوڑ کر نہ گئے ہو۔

خصوصا ابھی کچھ دن قبل ایک کتاب کی تالیف کے دوران مولانا کی "پس مرگ زندہ" جو ان کے سامنے وفات پانے والی علماء کی سوانح حیات پر مشتمل ہے ، نہایت خوب تر اور نہایت سلیقہ سے لکھتے ہیں، اور بہت زیادہ اہتمام تاریخ کے ذکر کا فرماتے ہیں، استفادہ کا موقع ملا، اس قدر حاوی ہو کر جامع انداز میں اکابرین،علم وادب کے اساطین کی سوانح کو اتنے خوبصورت انداز میں ترتیب دیتے ہیں کہ اب دل کہتا ہے خود حضرت الاستاذ کی رحلت پر اس قدر جامع انداز میں کون ان کی سوانح کو ترتیب دے گا۔انہوں نے تو اپنے طرز نگارش کے رنگ وآہنگ "وہ کون، کن کی بات " کی شکل میں اپنے استاذ کی سوانح بلکہ کی ایک ہستیوں کی سوانح کو اس کتاب کے ذریعہ قلم بند کر دیا۔

یونیورسیٹوں کی سطح پر مولانا کے حین حیات ہی ان کی شخصیت پر اور مجلہ داعی پر "پی ایچ ڈی" کے لئے مقالات لکھے جا چکے ہیں، لیکن مولانا کے وفات کے بعد علم وادب اور خصوصا اردو وعربی زبان میں محفل میں ایک سناٹا سے چھایا گیا، وہ الفا ظ، وہ تعبیرات، وہ جملوں کی بندش وترکیب وترتیب دینے والا ہم مثل وہمسر نہ پائیں گے۔عربی زبان وادب کا شناور ، جس نے اپنے عربی تحریروں کے ذریعہ عرب ادباء کی یادیں تازہ کر دیں۔

***
رفیع الدین حنیف قاسمی
ادارہ علم و عرفان ، حیدرآباد
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی

Maulana Noor Alam Khalil Amini, a prominent cleric, Article by: Rafiuddin Hanif Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں