کورونا وبا کے دوران ہندوستان کی مدد کی خاطر ترکی نے اپنا طبی تعاون پیش کیا ہے۔ یہ طبی امداد جب 26/مئی کو ہندوستان میں وارد ہوئی تو ہندوستان کی مرکزی وزارت خارجہ کے سرکاری ترجمان ارندن باغچی [Arindam Bagchi] نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعہ ترکی کا شکریہ ادا کیا۔ جس پر ترکی کے ھلال احمر [Red Crescent] کے صدر ڈاکٹر کریم کنک [Dr Kerem Kinik] نے جوابی ٹوئٹ میں بتایا کہ: یہ باہمی دوستی کی یکجہتی کا اظہار ہے۔ ہم آپ کے اس دستِ تعاون کو فراموش نہیں کر سکتے جب مختار احمد انصاری کی سربراہی میں، ہندوستان کا میڈیکل مشن 1912/13 کی بلقان جنگ میں زخمی ترک فوجیوں کے علاج کے لیے ترکی آیا تھا۔
ڈاکٹر مختار احمد انصاری، جنگِ آزادئ ہند کے مجاہد، ممتاز سماجی جہدکار، کانگریسی رہنما اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک دور میں وائس چانسلر تھے۔ ان کا مختصر تعارف ذیل میں پیش ہے۔
مختار احمد انصاری کا تعلق یوسف پور، ضلع غازی پور (اترپردیش) سے ہے لیکن ان کے آباء و اجداد کا تعلق حضرت ایوب انصاری صحابئ رسولؐ کے لڑکے عبدالرحمان سے ہے جو پہلے ایک اسلامی لشکر کے ساتھ خراسان ایران آئے تھے۔ یہ لوگ سلطان محمد بن تغلق کے دور میں ہندوستان آئے تھے۔ ان کے خاندان کے لوگ شہنشاه غیاث الدین محمد بابر کی عدلیہ میں بھی تھے۔ 1526ء میں خواجہ سراج کو بطور چیف جسٹس ہمایوں بادشاہ نے غازی پور کے لئے مقرر کیا۔ اسی حسب و نسب سے مختار احمد انصاری ہیں۔ ان کی پیدائش 25/ دسمبر 1880ء کو ہوئی اور انتقال 10/مئی 1936ء کو ہوا۔
مختار احمد انصاری کی ابتدائی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، غازی پور سے ہوئی۔ اس کے بعد ان کے دو بھائی آصفجاہی نواب نظام حیدرآباد کے یہاں ملازم ہو گئے اور یوں یہ بھی حیدرآباد گئے ۔ انہوں نے مدراس میڈیکل کالج سے میڈیکل کی ڈگری لی، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے نظام حیدرآباد کی اسکالرشپ پر لندن روانہ ہو گئے۔ جہاں سے انہوں نے میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ایم۔ڈی اور ایم۔ایس ہو گئے۔ یہ پہلے ہندوستانی تھے جنہیں لاک اسپتال لندن [Lock Hospital] میں بطور رجسٹرار کام کرنے کا موقع ملا۔ لندن کے قیام کے بعد وہ حیدرآباد لوٹے اور پھر اپنے وطن یوسف پور، محمد آباد چلے گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا ذاتی دواخانہ دہلی میں کھول لیا۔ دوران تعلیم جب یہ لندن میں قیام پذیر تھے تبھی سے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہو گئے اور ہندوستان لوٹنے کے بعد باقاعدہ مجاہد آزادی کے لقب سے سرفراز ہوئے۔
حب الوطنی ان کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ بطور ڈاکٹر کام کرتے ہوئے یہ سیاست میں بھی حصہ لینے لگے۔ انڈین نیشنل کانگریس اور انڈین مسلم لیگ دونوں پارٹیوں میں کام کیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کے عہدہ پر بھی کارگزار رہے۔ مہاتما گاندھی سے انہیں حد درجہ لگاؤ تھا۔ جب بھی گاندھی جی دہلی آتے تو انہیں کے گھر قیام کرتے تھے اور مختار احمد انصاری ان کی بہتر سے بہتر خدمت میں مشٖغول ہو جاتے۔
مختار احمد انصاری کئی مرتبہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکریٹری رہے اور کئی بار صدر بھی۔ 1920ء میں جب مسلم لیگ میں صدارت کی کرسی کے لئے دوڑ شروع ہوئی اور محمد علی جناح کو مسلم لیگ کا صدر بنا دیا گیا تو انہوں نے اپنے آپ کو مسلم لیگ سے الگ کر لیا اور ہمیشہ کے لئے کانگریس کے ہو کے رہ گئے۔
مختار انصاری مسلم ہندو ملت کے سربراہ تھے اور کبھی نہیں چاہتے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر ملک تقسیم ہو۔ ان کی شریک حیات نے دہلی کی مسلم عورتوں میں سماجی بہبود کا بڑا کام کیا ہے۔ انصاری، خاص کر نئے رجحان کے مسلمان جیسے مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں کے ہم خیال تھے اور ہمیشہ محمد علی جناح کے نقطۂ نظر کے خلاف رہے۔ یہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ملک ٹوٹے اور مذہب کے نام پر کسی نئے ملک کا جنم ہو۔
مختار انصاری جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 1928ء سے 1932ء تک وائس چانسلر رہے۔ یہ جامعہ کی بنیاد رکھنے والی شخصیات میں شامل رہے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی کے علاوہ ان کا بھی اس یو نیورسٹی کو بنانے میں بڑا ہاتھ رہا ہے۔
مختار احمد انصاری مئو (اترپردیش) کے انتخابات میں اکثر منتخب ہوتے رہے۔ کانگریس کے اس اہم رکن نے ہندوستان کی جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور بعد ازاں محمد علی جناح سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس لیے الگ ہو گئے کہ جناح کا سیاسی نظریہ انہیں کبھی پسند نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیے:
Remembering the freedom fighter Dr Mukhtar Ahmed Ansari
مصنف و ناشر: زین العابدین خاں
سن اشاعت: 2015/16
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں