ابّا کی کہانی - از معصوم مرادآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-28

ابّا کی کہانی - از معصوم مرادآبادی

ابّا ۔۔۔
تھے تو وہ ہمارے نانا، لیکن ہم سب گھر میں انہیں اسی مختصر نام سے پکارتے تھے۔ ہم ہی کیا وہ پورے خاندان کے ابّا تھے۔ ہر چھوٹا بڑا انہیں اسی نام سے پکارتا اور ہماری نانی کو امّاں کہتا تھا۔
جب 1974 میں میرے نانا منشی عبدالقیوم خاں کا وصال ہوا تو میری عمر کوئی بارہ برس تھی، لیکن اس زمانے کی بہت سی باتیں آج بھی یاد ہیں۔ ان یادوں کے کچھ نقوش دھندلے ضرور پڑگئے ہیں، لیکن ذہن کے اسکرین سے مٹے بالکل نہیں ہیں۔
یہ وہ دور تھا جب ہمارے نانا کلکتہ، دہلی اور بجنور کی مصروفیتوں سے فارغ ہو کر مرادآباد میں مقیم تھے اور کبھی کبھی کتابت کا کوئی کام کرلیا کرتے تھے۔ وہ پیلے مسطر پر ایک مخصوص روشنائی اور باریک نبوں سے اپنے فن کا جوہر دکھاتے تھے۔ یہ لیتھو کی کتابت کہلاتی تھی۔ جس قلم دان میں وہ اپنے باریک قلم رکھتے تھے، وہ میرے حصے میں آیا۔


دہلی سے ہماری ننھیال کا ایسا تعلق تھا کہ مرادآباد میں ہماری نانی "دلّی والی" کہلاتی تھیں کہ ان کی عمر کا بیشتر حصہ یہیں قرول باغ اور مٹیا محل میں گزرا تھا۔ سب سے قریبی تعلق مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی فیملی کے ساتھ تھا کہ قرول باغ میں ہمارے نانا اور مفتی صاحب پڑوسی تھے۔ پھر ندوۃ المصنفین اور ماہنامہ "برہان" سے ان کا طویل تعلق رہا تھا۔


مرادآباد میں ہمارا پورا خاندان آباد تھا اور ہر کسی کو ہمارے ابّا اور امّاں سے ایسی انسیت تھی کہ ہر ایک ان کی دعائیں لینے آتا۔ ایک طرف جہاں ہمارے نانا بہت سیدھے سادے، کم گو اور گوشہ نشین قسم کے انسان تھے تو وہیں ہماری نانی خاندان کے معاملات میں اس حد تک دخیل تھیں کہ ہر کوئی ان سے مشورے کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اگر کسی کے بیٹے کا رشتہ کہیں نہیں لگ پا رہا ہے اور لڑکی والے نائیں نکر کر رہے ہیں تو وہ سیدھا ہماری امّاں کے پاس آتا اور وہ لڑکی والے کو بلا کر ایسی ڈانٹ پلاتیں کہ وہ ہتھیار ڈال دیتا۔ مجال ہے کہ کوئی ہماری امّاں کے سامنے بولنے کی جرات کر سکے۔


امّاں کے برعکس ابّا کو اپنے کام کے علاوہ کسی چیز سے کوئی شغف نہیں تھا۔ وہ یا تو لکھتے رہتے یا پھر مطالعہ میں مصروف رہتے تھے۔ ان کی زندگی اور معمولات میں نظم و ضبط کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ وہ اپنی صحت کے تعلق سے بھی بہت محتاط تھے۔ کھانا بہت چبا کر کھاتے اور آنتوں کا کام بھی دانتوں سے لیا کرتے تھے۔ ان کی ان احتیاطوں کا ہی نتیجہ تھا کہ 86 برس کی عمر میں جب ان کا انتقال ہوا تو سارے دانت سلامت تھے۔ انھوں نے کبھی چشمہ استعمال نہیں کیا۔ باریک سے باریک کتابت بھی چشمے کے بغیر ہی کیا کرتے تھے۔ ہاں عصر کے بعد سورج کی روشنی میں لکھنے پڑھنے کا کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ اس کے لیے انہیں بلب کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ عصر کے بعد مصنوعی روشنی کے بغیر لکھنا پڑھنا آنکھوں کے لیے مضر سمجھتے تھے۔


میں اکثر اپنی والدہ کے ساتھ نانی کے گھر جاتا تو خواہ مخواہ ابّا کی کتابوں اور کاغذات سے چھیڑ چھاڑ کرتا تھا۔ حالانکہ بچپن میں ان چیزوں کی اہمیت کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا، لیکن نہ جانے کیوں نانا کی چیزوں سے ایک قدرتی شغف تھا۔ آج جب ان کے بیشتر قیمتی کاغذات، ڈائریاں اور خطوط میرے ہاتھ لگے ہیں تو میں انہیں اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ تصور کرتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ ان چیزوں سے ساری دنیا آشنا ہو جائے۔ اسی کوشش میں، میں نے ان پر ایک کتاب مرتب کی ہے، جو جلد ہی منظر عام پر آئے گی۔


انتہائی نازک خدوخال والے ہمارے ابّا کا ظاہری قد تو چھوٹا تھا، لیکن جب ان کے خاموش کارناموں کا احاطہ کرتا ہوں تو مجھے اس وقت دنیا میں ان سے زیادہ بلند قامت شخص کوئی نظر ہی نہیں آتا۔ انتہائی سنجیدہ اور باوقار شخصیت تھی ہمارے ابّا کی۔ میں نے انہیں کبھی ہنستے اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا، ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کوئی غضب ناک شخصیت کے مالک ہوں۔ وہ موم سے زیادہ ملائم اور نرم تھے۔ کبھی کسی بات پر غصہ نہیں ہوتے تھے اور ہر حال میں خوشی اور اطمینان کی زندگی کے قائل تھے۔ دولت و ثروت اور شہرت سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا۔ انھوں نے زندگی میں کوئی گھر نہیں بنایا۔ ساری عمر کرائے کے مکانوں میں رہے۔ نہ ہی پیسہ جمع کیا۔ علاج معالجہ بھی سرکاری اسپتالوں میں ہوا اور اس وقت جب ان اسپتالوں کی حالت دگرگوں ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ وہ اپنے عہد کے عظیم ترین انسانوں کے رابطے میں تھے، لیکن انھوں نے اپنی ذات کے لیے کسی سے کوئی مدد طلب نہیں کی۔ یہ ان کے مزاج اور ضمیر کے خلاف تھا۔


میں جب بھی اپنے نانا کے گھر جاتا تو بڑا سکون اور طمانیت محسوس ہوتی تھی۔ وہاں ہر چیز بہت سلیقے اور قرینے سے رکھی ہوتی۔ ان چیزوں کو دیکھ کر طبیعت بہت سیراب ہوتی تھی۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمیں خود زندگی اور اس کے معاملات کا کوئی شعور نہیں تھا، لیکن سلیقے اور ترتیب سے رکھی ہوئی چیزیں دیکھ کر دل اندر اندر خوش ہوتا تھا۔ اگر مجھے ذرّہ برابر بھی یہ احساس ہوتا کہ کبھی اس ٹوٹے پھوٹے قلم سے ابّا اور ان کی زندگی کے بارے میں کچھ لکھنا بھی ہوگا تو میں انہیں اور ان کی چیزوں کو اور قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کرتا، مگر اس وقت میری بساط ہی کیا تھی۔


اپنی والدہ کی زبانی ابّا کی حصولیابیوں کے قصے سنتا تو بہت سی چیزیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں، مگر ہاں یہ احساس ضرور ہوتا تھا کہ ابّا کوئی خاص آدمی ہیں۔ امّی اکثر کہا کرتی تھیں کہ ایک بار ابّا کو قلات کے بادشاہ نے بلایا تھا اور بہت سے تحفے تحائف دئیے تھے۔ ہمارے ابّا ملک کے نامی گرامی خطاط تھے اور انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد جیسی عبقری شخصیت کے ساتھ کام ہی نہیں کیا بلکہ اپنی صلاحیتوں سے انہیں اس درجہ متاثر کیا کہ وہ اپنا کتابت کا ہر کام انہیں سے کرانا چاہتے تھے۔ وہ ڈیڑھ سال تک مولانا آزاد کے ساتھ کلکتہ میں رہے اور وہاں "ترجمان القرآن" کی کتابت کی۔ اس کے بعد "غبارخاطر" کی کتابت کے لیے بھی مولانا آزاد نے ابّا کو ہی یاد فرمایا۔ ان کی علمیت اور اپنے فن پر مکمل عبور کا ہی نتیجہ تھا کہ ابّا سے ایسی شخصیات متاثر تھیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی تو انہیں اپنا بھائی کہا کرتے تھے۔


ابّا نے کوئی بارہ سال اخبار "مدینہ"، بجنور میں کام کیا اور وہیں ان کا قیام بھی رہا۔ میرے بڑے ماموں مولانا عبدالملک جامعی کی ابتدائی تعلیم و تربیت وہیں ہوئی۔ میری والدہ کی پیدائش بھی بجنور میں ہوئی۔ وہ اکثر مدینہ پریس سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالہ "غنچہ" کا ذکر کرتی تھیں۔ "مدینہ" اخبار کے مالک و مدیر مولوی مجید حسن سے ابا کے قریبی مراسم تھے اور وہی انہیں مرادآباد سے بجنور لے گئے تھے۔ "مدینہ" اخبار کے مشہور و معروف مدیران گرامی ابّا کے بڑے قدردان تھے۔ اس کے بعد وہ دہلی آ گئے اور یہاں انھوں نے مختلف اخبارات و جرائد میں کام کیا۔ ان میں سب سے زیادہ وابستگی "برہان" کے ساتھ رہی۔ ابّا کو اردو کے علاوہ عربی ، فارسی ، ترکی اور انگریزی پر عبور حاصل تھا۔ انہیں علم فلکیات اور جغرافیہ سے غیرمعمولی دلچسپی تھی۔

***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Abba ki kahani - Column: Masoom Moradabadi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں