ادب کے مقاصد اور ادیبوں کے فرائض - مولوی عبدالحق اور اختر حسین رائے پوری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-04

ادب کے مقاصد اور ادیبوں کے فرائض - مولوی عبدالحق اور اختر حسین رائے پوری

literature-aims-and-writers-duties
یوں تو اردو ہندی کا جھگڑا برسوں سے چلا آ رہا تھا لیکن اس میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب گاندھی جی نے بھارتیہ ساہتیہ پریشد ناگپور کے جلسے (1936ء) میں برصغیر کی مجوزہ قومی زبان کو "ہندوستانی" کے بجائے ہندی ، ہندوستانی کا نام دیا گیا۔ اور وضاحت طلب کرنے پر کہا: "ہندی ہندوستانی" سے مراد ہندی ہے۔ جس پر پروفیسر محمد مجیب نے گاندھی جی کو انگریزی میں طویل خط لکھا جس کی تفصیل یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے:
اردو ہندی رسم الخط - پروفیسر مجیب کا خط مہاتما گاندھی کے نام

اسی موضوع پر مولوی عبدالحق اور اختر حسین رائے پوری کے تاثرات بھی درج ذیل مختصر مضمون میں پیش ہیں۔
ساہتیہ پرشد کے جلسے میں گاندھی جی نے جو گل کھلایا، وہ سب کو معلوم ہے اور اس کی جو روداد مولوی صاحب (مولوی عبدالحق) نے قلم بند کی تھی ، وہ تاریخی دستاویز ہے۔ جب گاندھی جی نے ادبی مسائل سے صرف نظر کر کے لسانی بحث میں سارا دن لگا دیا اور جلسے کی فضا مکدر ہو گئی تو میں نے پنڈت نہرو سے بیزاری کا اظہار کیا۔
دوسرے دن ان کے مشورے پر ادیبوں کے فرائض کی تشریح کے لئے جو بیان تیار کیا وہ میری کتاب "ادب اور انقلاب" کا پیش لفظ ہے۔ (یہی "پیش لفظ" نیچے ملاحظہ کیا جائے)۔ اس پر مولوی عبدالحق ، پنڈت نہرو ، منشی پریم چند، آچاریہ نریندر دیو اور میرے دستخط تھے۔ گاندھی جی نے ہماری اس تجویز کو نامنظور کر دیا کہ اس بیان کو جلسے کا فیصلہ تصور کیا جائے، البتہ مجھے اسے پڑھ کر سنانے کی اجازت ضرور دی اور اس کے لئے کلمۂ خیر بھی کہا۔

جو بحث یہاں شروع ہوئی، اس نے آگے چل کر لسانی سیاست کی شکل اختیار کر لی، اور لامحالہ قومی سیاست کا ضمیمہ بن گئی۔ اس کے بعد 'اردو کا تحفظ'، مسلم لیگ کی سیاست کا ایک اہم نکتہ قرار پایا، اور دوسری طرف سے ہندی، ہندو، ہندوستان کا نعرہ بلند ہوا۔

پہلے تو سمجھ میں نہ آیا کہ گاندھی جی نے خواہ مخواہ ہندی اردو کا قضیہ کیوں شروع کیا اور ادبی مسائل کی بجائے لسانی عداوت کیوں پیدا کی؟ بعد میں جا کر اصل بھید کھلا۔ گاندھی جی باخبر سیاست دان تھے لیکن ادبی اور ثقافتی معاملات میں ان کے مشیر کے۔ ایم۔ منشی اور کاکا کالیلکر [Kaka Kalelkar] جیسے متعصب فرقہ پرست تھے جن میں سے ایک گجراتی اور دوسرا مرہٹی کا نامی گرامی مصنف تھا۔ انہوں نے گاندھی جی کو سمجھایا کہ ادب میں جدید خیالات عام ہو رہے ہیں اور اگر فوری طور پر ادیبوں کو کانگریس کے جھنڈے تلے جمع نہ کیا گیا تو وہ کسی اور طرف بہک جائیں گے۔ بنابریں گاندھی جی جلسے کی تشکیل کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس کی تاریخ ہندی ساہتیہ سمیلن کے سالانہ جلسے کے ساتھ رکھی گئی جو ناگپور میں منعقد ہوا تھا۔ اس طرح ساہتیہ پرشد کے جلسے میں ہندی کی طرف دار بڑی تعداد میں جمع ہوگئے اور پس پردہ یہ طے پایا کہ اسی وقت طے کرا لیا جائے کہ قومی زبان ہندی اتھوا (یعنی) ہندوستانی ہوگی۔ یہ تجویز کانگریس کے اس فیصلے کے منافی تھی کہ قومی زبان 'ہندوستانی' ہوگی۔ جس سے مراد شمالی ہند کی وہ بول چال کی زبان ہے جو ہندی یا اردو میں لکھی جاتی ہے۔

بعد ازاں خرابئ بسیار 1945ء میں گاندھی جی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے "ہندوستانی لٹریچر بورڈ" کے قیام کا ارادہ کیا۔ بورڈ کے دس ارکان میں ڈاکٹر تاراچند، پنڈت سندر لال، ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ کے ساتھ میرا نام بھی رکن اور سکریٹری کی حیثیت سے شائع ہوا۔ لیکن اب مصالحت کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ ہندو مسلم مفاہمت کے ایک بڑے پل کو گاندھی جی نے ہماری نظر کے سامنے توڑ دیا تھا۔ جب کلچر اور ادب سیاست کے گرداب میں آتے ہیں تو انجام یہی ہوتا ہے۔

ساہتیہ پرشد کے جلسے نے مولوی صاحب کی زندگی اور انجمن کے لائحہ کو بدل کر رکھ دیا۔ حیدرآباد ہوتے ہوئے چند روز بعد ہم اورنگ آباد پہنچے تو سب سے پہلے مولوی صاحب نے اپنے کمرے سے چرخہ اٹھا کر پھینک دیا اور کھادی کے کپڑے تہہ کر دئے۔ طاق سے وہ لٹیا بھی ہٹا دی، جو لوک مانیہ تلک کبھی سیاسی روپوشی کے زمانے میں چھوڑ گئے تھے۔ ان کے چہرے پر نرمی کے بجائے سختی نمایاں ہو گئی تھی اور آنکھوں میں فکر کی بدلی کے بجائے عزم کی دھوپ چمکنے لگی تھی۔ کبھی افسوس اور کبھی غصے کے لہجے میں وہ بار بارکہتے تھے:
"میں گاندھی کو بے ریا اور قومی اتحاد کا داعی سمجھتا تھا لیکن وہ تو قومی زبان کو مٹانے کے درپے ہے۔ اب ہمیں اردو کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا تہیہ کرنا ہے، اور انجمن کو فعال اور تنظیمی ادارہ بنانا ہے"۔

اس کا عملی ثبوت انہوں نے یوں دیا کہ انگریزی ہندی لغت کے کام کو منسوخ کر دیا، اس سے کوئی خاص فرق نہ ہوا کیونکہ یہ ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا اور میں کچھ وقت سے انگریزی اردو ڈکشنری میں مصروف تھا۔ میں نے بمبئی سے اندولال یاجنک [Indulal Kanaiyalal Yajnik] کی کتاب GANDHI AS I KNOW HIM منگوائی تو پڑھ کر دنگ رہ گئے اور بولے:
"میں نہ جانتا تھا کہ گاندھی ایسا ابلہ فریب ہوگا، اس کا ترجمہ ہونا چاہئے۔ غرض یہ کہ مولوی صاحب کا رد عمل شدت اختیار کرتا گیا اور اردو سے ان کی بے پایاں محبت کا تقاضہ بھی یہی تھا۔

ایک تو میری دلچسپی یکسر علمی اور ادبی تھی جس میں زبان کی حیثیت وسیلۂ اظہار سے زیادہ نہ تھی۔ دوسرے اردو سے وابستگی کے باوجود ہندی سے عناد کا جذبہ نہ رکھتا تھا۔ میرا عقیدہ تھا کہ ہر دانشور کو روز افزوں فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ رجعت پروری کی بدترین شکل ہے۔ مولوی صاحب کا معاملہ اور تھا۔ انہوں نے سرسید کے زمانے میں ہندی اردو تصادم کی ابتدا دیکھی تھی اور گاندھی کے چیلنج کے خطرے کو سمجھنے کا زیادہ تجربہ رکھتے تھے۔
ماخوذ از کتاب:
گردِ راہ (خود نوشت از: ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری)۔ پہلا ایڈیشن: جنوری-1984 (صفحہ: 103-تا-105)۔

پیش لفظ - کتاب: ادب اور انقلاب
از: ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری۔ ناشر: ادارۂ اشاعتِ اردو (حیدرآباد دکن)، پہلا ایڈیشن: اکتوبر-1943
بھارتیہ ساہتیہ پرشد (ناگپور) کا اجلاس ہمیشہ یادگار رہے گا کہ وہیں ہندی اور اردو قضیہ کی تجدید ہوئی۔ اس موقع پر یہ یہ مسئلہ بھی زیر غور تھا کہ ادب کے مقاصد کا کوئی تعین ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اختر رائے پوری نے اس کی وضاحت ایک اعلان نامہ میں کی تھی جو حسب ذیل حضرات کی طرف سے انہی دنوں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ زیرنظر کتاب "ادب اور انقلاب" کے لئے اس سے زیادہ موزوں پیش لفظ نہ سجھائی دیا۔

ہمارے دیس میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ مختلف زبانوں کے ادیب باہمی تعاون کی غرض سے ایک جگہ جمع ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس تعاون کی بنیاد کیا ہو۔ کئی تجویزیں اس جلسہ میں پیش ہوئی ہیں ، لیکن ایک بہت ہام مسئلہ نظر انداز کر دیا گیا ہے جس پر سب سے پہلے غور ہونا چاہئے تھا۔ ہم نے یہ تو طے کر لیا کہ ادب کا قالب کیا ہو مگر یہ نہیں بتایا کہ اس کے قلب کا روپ رنگ کیا ہو۔ پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ کیا کہنا ہے اور کن سے کہنا ہے ، کیسے کہنا ہے، کا سوال بعد میں پیدا ہوتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ ادب کے مسائل کو زندگی کے دوسرے مسائل سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی مکمل اکائی ہے۔ اسے ادب، فلسفہ، سیاست وغیرہ کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ ادب زندگی کا آئینہ ہے ، یہی نہیں بلکہ وہ کاروان حیات کا رہبر ہے۔ اسے محض زندگی کی ہم رکابی ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اس کی رہنمائی بھی کرنا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کدھر جا رہی ہے ، اور اسے کدھر جانا چاہئے۔ ادیب انسان بھی ہے اور اسے سماج کی ترقی کے لئے اتنا تو کرنا ہی ہے جو ہر انسان کا فرض ہے۔

انسانیت کے نام پر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا آج جب ترقی و پستی کی طاقتوں میں فیصلہ کن جنگ شروع ہو چکی ہے ، ادب اپنے کو غیر جانب دار رکھ سکتا ہے؟ کیا حسن، آرٹ، وغیرہ کی نقاب پہن کر وہ کار زار حیات سے راہ فرار اختیار کر سکتا ہے؟ کہ کیا وہ واقعہ نگاری کی فصیل پر بیٹھ کر انقلاب و رجعت کی طاقتوں کی تصویر لے سکتا ہے؟

احساس ہر قسم کے آرٹ کی جان ہے، تو پھر غریبوں اور مظلوموں کا حال زار ہمیں بےحس کیوں کر رکھ سکتا ہے؟ اگر زندگی کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سماج کے چہرے سے بیکاری، افلاس اور ظلم کے داغ دھوئے جائیں تو حاشاً یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ ادب کا اشارہ کس جانب ہو۔ وہ کیا کہے۔ کن سے کہے اور کس طریقہ سے کہے۔

چنانچہ ہندوستانی ادیبوں سے ہماری یہ توقع واجب اور جائز ہے کہ وہ یہ ثابت کر دکھائیں گے کہ ادب کی بنیادیں زندگی میں پیوست ہیں اور زندگی مسلسل تغیر و تبدل کی کہانی ہے۔ زندہ اور صادق ادب وہی ہے جو سماج کو بدلنا چاہتا ہے۔ اسے عروج کی راہ دکھاتا ہے اور جملہ بنی نوع انسان کی خدمت کی آرزو رکھتا ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ملک کا ادب زندگی سے اپنے کو وابستہ کرے گا اور زندگی کے ارتقا کا علم بردار ہوگا۔
(پنڈت) جواہر لال نہرو
(اچاریہ) نریندر دیو
(مولوی) عبدالحق
(منشی) پریم چند
اختر حسین رائے پوری

Urdu/Hindi script, aims of literature and the duties of writers.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں