دیارِ غیر میں حیدرآبادی تہذیب - غلام یزدانی ایڈوکیٹ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-15

دیارِ غیر میں حیدرآبادی تہذیب - غلام یزدانی ایڈوکیٹ

ap high court ghulam-yazdani
غلام یزدانی ایڈوکیٹ (پیدائش: 14/مارچ 1929، نارسنگی، میدک، تلنگانہ)
حیدرآباد (دکن) کے ممتاز ماہر قانون، دانشور اور نہایت سرگرم عمل معاشرہ ساز ہیں۔ حیدرآباد کی مختلف دینی، علمی، ادبی اور تہذیبی تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے 1951ء میں بی۔ایس۔سی اور 1958ء میں ایل۔ایل۔بی کامیاب کیا۔ 1960ء میں حیدرآباد کے بلدی انتخابات میں حلقہ گن فاؤنڈری سے کامیابی کے بعد بلدیہ حیدرآباد میں بحیثیت کونسلر بھی منتخب ہوئے۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک بشمول خلیجی ممالک کے سفر کیے، حج ونیز متعدد عمروں کی سعادت بھی حاصل کی۔ سنہ 2013ء میں "کچھ یادیں کچھ باتیں" عنوان سے سوانحی یادداشتوں و سفرناموں پر مبنی ان کی ایک کتاب منظرعام پر آئی۔ اسی کتاب سے ماخوذ ان کا ایک یادگار انٹرویو پیش خدمت ہے۔

دیارِ غیر میں حیدرآبادی تہذیب
امریکہ اور کینیڈا میں دینی و تہذیبی سرگرمیاں جاری
ممتاز عثمانین غلام یزدانی سے بات چیت

حیدرآبادیوں کا یہ وصف رہا ہے کہ وہ دنیا کے ہر خطۂ ارضی پر اپنی تہذیب کو برقرار رکھتے ہیں اور خواہ کتنی ہی ہواؤں کے جھکڑ چلیں، ان کے پایۂ استقامت نہیں ڈگمگاتے۔ وہ ہر جگہ اثر پذیر نہیں ہوتے بلکہ ان میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے ہیں۔
یہ عمومی تاثر جناب غلام یزدانی ایڈوکیٹ آندھرا پردیش ہائی کورٹ کا ہے جو کہ حیدرآبادی تہذیب کے علمبردار ہیں۔ جناب غلام یزدانی ایڈوکیٹ، جہاں مختلف دینی، علمی اور ادبی تنظیموں کے روح راوں ہیں وہیں وہ کانگریس کے سینئر قائد کے علاوہ بزرگ سیاست داں کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ عوامی زندگی میں اپنی متوازن سنجیدہ فکر اور معتدل مزاجی کی وجہ سے سماج کے ہر طبقہ میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
موصوف ابھی حال (ستمبر-1999ء) ہی میں امریکہ اور کینیڈا کے طویل نجی دورے سے واپس ہوئے ہیں۔ ایک ملاقات میں جب روزنامہ "منصف" کے انٹرویو نگار نے دیار غیر میں حیدرآبادی مسلمانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں سوالات کئے تو انہوں نے بتایا:
امریکہ اور کینیڈا میں رہنے والے حیدرآبادیوں کی تہذیب و ثقافت وہاں مسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔ وہاں بھی وہ اسی شان اور آن بان سے رہتے بستے ہیں۔ انہوں نے بڑے فخر و انبساط کے عالم میں بتایا کہ اسلام امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ دیگر یوروپی ممالک میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ بالخصوص یہاں Blacks یعنی سیاہ فام باشندے تو اسلام کو ہی اپنا نجات دہندہ تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ اسلام کے تئیں اہل اسلام کی تعلیمات پر سختی سے عمل آوری، مساوات، نیک نفسی، حق گوئی اور انسان دوستی کے اوصاف نے اہل مغرب کو اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات سے کافی متاثر کر کے رکھ دیا ہے۔

جناب غلام یزدانی کو مذہب اور ثقافت سے زیادہ رغبت رہی ہے اس لئے ان کے دورہ کے تاثرات پر وہاں کی دینی و مذہبی سرگرمیوں کا غلبہ رہا۔ مغربی ممالک کی سیاحت کے شوق اور اسلامی فاؤنڈیشن و دیگر دینی و تعلیمی اداروں کی کارکردگی کے بارے میں جاننے کی غرض سے انہوں نے چھ ماہ کے لئے امریکن ایمبسی چینائی سے ویزٹ ویزا حاصل کیا۔ انہیں ان کے سماجی رتبہ کے پیش نظر امریکن ایمبسی نے دس سال کے ملٹی انٹری ویزا کی سہولت دی اور انہوں نے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے دورہ کا آغاز کیا۔ اس وقت وہاں برفباری کا موسم تھا۔ اپریل کے تیسرے ہفتہ میں کینیڈا اور امریکہ کے بعض حصوں میں پودے پھر سے برگ و بار لاتے ہیں یعنی اپریل کے اواخر سے موسم بہار کی رعنائیوں کی شروعات ہوتی ہے۔ یہاں موسم گرما کے شروع ہوتے ہی جب پتے سوکھنے لگتے ہیں تو منظر بڑا دلکش دکھائی دیتا ہے۔ جولائی سے لے کر ستمبر تک Autumn Colours کے نظارے چاروں طرف قابل دید ہوتے ہیں۔ جب وہاں برفباری ہوتی ہے یا شدید بارش ہوتی ہے تو اس سے حمل و نقل متاثر ہو جاتے ہیں بلکہ اس سے عام زندگی میں بھی خلل پڑ جاتا ہے۔

یزدانی صاحب نے مزید بتایا کہ امریکی آبادی 1998ء میں لگائے اندازے کے مطابق پچیس (25) کروڑ کے لگ بھگ ہے ، اور رقبہ ساڑھے پینتیس (35.5) لاکھ مربع میل پر محیط ہے۔ اسی طرح اندازہ لگایا گیا ہے کہ کینیڈا میں تین کروڑ نفوس بستے ہیں۔ رقبہ کے اعتبار سے یہ ملک ہندوستان کے رقبہ سے تین گنا بڑا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ میں تقریباً اسّی (80) لاکھ اور کنیڈا میں پانچ (5) لاکھ مسلمان ہیں۔
تہذیب و تمدن کے لحاظ سے کینیڈا کو نہایت مہذب اور تہذیب یافتہ اور رواداری میں اول نمبر ملک سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہاں کے باشندے پر امن ہیں اور دنیا کے کسی بھی ملک کے شہریوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں۔ جب کہ امریکہ کو بھی مختلف قوموں اور مختلف نسلوں کے Melting Pot کا نام دیا جاتا ہے۔

جناب غلام یزدانی صاحب نے ایک بڑے پتہ کی بات بتائی ہے کہ کینیڈا اور امریکہ دونوں ہی ممالک میں قدر مشترک یہاں کی سیاحت ہے۔ ٹورسٹ انڈسٹری ان دونوں ملکوں میں عروج پر ہے۔ یزدانی صاحب کے خیال میں امریکہ کے بعض گوشوں میں نسلی امتیازکے رواج نے امریکی عوام کے رویہ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایمگرینٹ باشندوں کو بسا اوقات ان کے طنز اور اہانت آمیز برتاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے برخلاف کینیڈا میں ہر کوئی اپنی تہذیب و تمدن، زبان و ثقافت کو محفوظ سمجھتا ہے۔ انہوں نے سوال کنندہ کے استعجاب و تجسس کو دیکھ کر مزید وضاحت کی کہ امریکہ میں بیشتر مقامات پر لوگ ٹوپی پہننے یا پگڑی باندھنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں یا پھر اپنے مخصوص لباس کو باعث خجالت سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ جب آپ اس طرح امریکہ میں نظر آئیں تو لوگ آپ کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایمگرینٹس اپنی طرز زندگی اور تہذیبی شناخت کھو رہے ہیں۔ بعض نوآبادکاروں یعنی ایمگرینٹس کا یہی خیال ہے کہ انہیں وہاں کی شہریت ملنے کے بعد ہی مذہب اور کلچر کی شناخت کے لئے نئی زندگی کا آغاز کرنا پڑتا ہے۔

جیراڈ اسٹریٹ [Gerrard Street, Toronto] میں ہندوستانیوں کا تجارتی مرکز:

سال 1996ء میں کئے گئے سروے کے اندازوں کے مطابق ٹورنٹو میں 48 فیصد شہریوں کی پیدائش بیرونی ہے۔ اسی طرح ایک اور سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر سال ستر (70) ہزار بیرونی شہری ٹورنٹو آتے ہیں۔ ٹورنٹو کینیڈا کا سب سے بڑی آبادی والا شہر ہے۔ جس میں دنیا کے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے کوئی 169 ممالک کے شہری آباد ہیں جو 100 مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ صرف ٹورنٹو میں دو لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں۔
مزید استفسار پر جناب غلام یزدانی نے بتایا کہ امریکہ اور کینیڈا کے ہر شہر میں ہندوستانی، پاکستانی اور اردو بولنے والے قابل لحاظ تعداد میں رہتے ہیں۔ شہر ٹورنٹو ایک اعتبار سے جنوب ایشیائی باشنودں کا مرکز ہے۔ یہاں بالخصوص ہندوستانی اور پاکستانی طرز کی ہوٹلیں اور پارچہ جات ، زیورات، کتب وغیرہ کی بے شمار دکانات ہیں۔ ٹورنٹو کا سب سے بڑا تجارتی مرکز جیراڈ اسٹریٹ ہے۔

ہوٹلوں میں حلال میٹ کے بورڈ آویزاں:

اس بازار کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کئی دکانات کے بورڈس اور ہورڈنگس پر انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو ، عربی اور فارسی تحریر بھی نمایاں ہے جس سے اپنائیت کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ یہاں کی ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کے بورڈس پر "حلال میٹ" نمایاں طور پر تحریر کیا جاتا ہے بلکہ اخبارات اور پمفلٹس میں بھی حلال میٹ کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔

ٹورنٹو میں قدرتی ماحول کے تحفظ پر خصوصی توجہ:

کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں جہاں لوگ آبادی میں صفائی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں وہیں ساتھ ہی ساتھ قدرتی ماحول کے تحفظ کے لئے وسیع تر انتظامات کئے گئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شجر کاری بڑے ہی منصوبہ بند طریقہ پر کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹورنٹو میں اگر شجر سماری کی جائے تو ہر شہری کے حصے میں دس درخت آتے ہیں بلکہ یہ تناسب زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ ٹورنٹو شہر کی خوبصورتی کے بعد نیا گرا فالس ( آبشار نیاگرا)، کینیڈا کے دارالحکومت اٹاوہ میں بیراک (Brech) یونیورسٹی اور لندن یونیورسٹی سیاحت کے اہم مراکز ہیں جو کہ ٹورنٹو سے تقریباً دو سو کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اسی طرح بفیلو Buffalo اور ڈیٹرائٹ Detroit دونوں ملکوں کو جدا کرنے والی سرحد پر ایمگریشن کی چیکنگ سخت ہے۔

دیارِ غیر میں حیدرآبادیوں کے تذکرے کے باب میں یزدانی صاحب نے اس ملاقات میں مختلف ملاقاتوں کی تفصیل بتائیں۔ خاص طور پر قدیم حیدرآبادیوں میں ڈاکٹر ہاشم علی اختر سابق وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ کے علاوہ ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی، منظور مصطفی، غلام محمد خان لودھی ، حکیم عبدالوہاب ظہوری سابق پرنسپل نظامیہ طبیہ کالج چار مینار، غوث داد خان، ڈاکٹرمحمد انور ، انور الدین علی ، الٰہی بخش ، حسن چشتی شامل ہیں۔ غلام احمد ربانی، واحد علی بیگ ، عبدالقدیر اورکرنل امیر الدین صاحبان وطن سے ہزاروں میل دور رہ کر بھی حیدرآبادی زندگی کے باعث شہرت رکھتے ہیں۔ اپنی مادر وطن کی یادوں کو سینے سے لگائے ہوئے زندہ ہیں۔ جب بھی کسی حیدرآبادی سے ملاقات ہوتی ہے تو حیدرآباد کی تہذیبی، تعلیمی، سماجی اور معاشی و اقتصادی امور کے بارے میں سوالات کرنے لگتے ہیں۔

ٹورنٹو میں بھی مذہبی رواداری اور ہندو مسلم اتحاد و یکجہتی زندہ ہے۔ اس ضمن میں جناب غلام یزدانی صاحب نے جناب ہاشم علی اختر کے حوالہ سے ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ جس علاقہ میں اختر صاحب رہتے ہیں۔ رہائشی علاقہ میں ایک مسجد واقع ہے۔ رات کے اندھیرے میں چند غیر سماجی عناصر نے مسجد کی کھڑکیوں کے شیشے پتھر مار کر توڑ ڈالے۔ صبح یہ خبر سارے علاقہ میں پھیل گئی۔اختر صاحب نے بتایا کہ دوسرے ہی روز اس علاقہ کے رہنے والے ہندو، سکھ اور عیسائی بھائیوں نے مسجد کا معائنہ کیا اور اس واقعہ پر اظہار افسوس کیا یہاں تک کہ ان لوگوں نے صفائی میں مدد کی اور اس نقصان کی اپنی طرف سے پابجائی کی پیشکش بھی کی۔

ٹورنٹو کے بعد نیویارک بھی بڑا اچھا شہر ہے ، چنانچہ جناب یزدانی صاحب نے ٹورنٹو سے پورٹ لاڈرڈیل(فلوریڈا) کے فضائی سفر کو کافی دلچسپ قرار دیا جو کہ لگ بھگ ساڑھے تین گھنٹے پر محیط تھا۔ ٹرین ہوائی جہاز کی شرح کا انحصار بکنگ کی تاریخ سے سفر کی میعاد پر ہوتا ہے۔ یہاں انہوں نے ایک خاص بات بتائی کہ ٹرین ہو کہ ہوائی جہاز کرایہ بکنگ کی تاریخ سے آپ کے آغاز سفر کے لحاظ سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ یعنی اگر آپ ایک یا دو دن بعد کی بکنگ کرروائیں تو اس کی شرح اگلی تاریخوں کی بہ نسبت بہت زیادہ لی جاتی ہے۔ اسی طرح جوں جون آپ کی روانگی کی تاریخ قریب ہوگی، اس کی شرح بھی بڑھتی جائے گی۔ اتنی بڑی تعداد میں روزانہ مختلف مقامات کے لئے پروازوں کے باقاعدہ انتظامات حیرت انگیز اور قابل رشک ہیں۔

یزدانی صاحب نے اپنے سفر کی تفصیلات کے ساتھ نیو جرسی ، مین ہٹن، نیویارک، میامی بیچ، شکاگو، واشنگٹن، ڈزنی لینڈ اور کیلیفورنیا وغیرہ سیاحتی مراکز کی تفصیلات بتائیں۔ قابل غور بات انہوں نے یہ بتائی کہ یہاں آپ کسی سے کوئی پتہ معلوم کریں، کسی مخصوص کمپنی، مارکٹ، تھیٹر ، کلب یا اسی قسم کی جگہ کے بارے میں دریافت کریں تو اس کے جواب میں پانچ منٹ ڈرائیو، دس منٹ یا تیس منٹ ڈرائیو بتایا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی مطلوبہ جگہ یا عمارت یہاں سے (جس جگہ آپ کھڑے ہیں) ذریعہ کار سفر کرنے پر پانچ، دس یا تیس منٹ پر مل جائے گی۔ سڑکیں ایک رخی اور کئی چیانلس میں منقسم ہوتی ہیں۔ عام طور پر ٹریفک کا بہاؤ کافی تیز ہوتا ہے۔

امریکہ میں اسلامی تہذیب اور تبلیغی سرگرمیوں کی تفصیلات کے سلسلہ میں جناب غلام یزدانی نے بڑے ہی وضاحتی انداز میں بتایا کہ امریکہ اور کینیڈا میں اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام علانیہ اور موثر انداز میں انجام پارہا ہے۔ چنانچہ مختلف ملکوں سے آئے ہوئے ایمگرینٹس اپنی مختلف تہذیبی، نسلی اور لسانی فروغ میں اپنا اپنا حصہ ادا کررہے ہیں۔ شہر حیدرآباد سے بھی مختلف علماء، اکابرین ملت، آئے دنوں دینی اجتماعات میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ جن میں خواتین کی بڑی اکثریت عقیدت و احترام سے شرکت کرتی ہے۔ یزدانی صاحب کے بموجب ان ملکوں میں ہماری مساجد کی طرح اذان کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں البتہ نمازیں با جماعت ہوتی ہیں۔ کئی خاندان گھر پر ہی باجماعت نمازیں پڑھ لیتے ہیں۔ تقریباً ہر گھر میں چھوٹی موٹی اسلامی کتب کی لائبریریاں ہیں۔

آخری نماز سمجھ کر پڑھنے کی تلقین:

جناب غلام یزدانی صاحب نے امریکہ اور کینیڈا کے مختلف شہروں کی مساجد میں نمازیں ادا کیں۔ وہاں کی مساجد اور نمازیوں کے بارے میں انہوںنے بتایا کہ وہاں اکثر مساجد میں امام صاحبین صف بندی کے موقعہ پر مصلیوں کو انگریزی میں یہ ضرور تلقین کرتے ہیں:
"اس نماز کو اپنی زندگی کی آخری نماز سمجھ کر پڑھو۔"

کئی امریکی شہریوں میں قیدیوں کے لئے بھی مذہبی تعلیم کا سرکاری انتظام ہے۔ پولیس کی جانب سے علماء کو قیدیوں کو پڑھانے اورمذہبی تعلیم کے لئے مدعو کیاجاتا ہے۔ وہاں اسلام کے بارے میں یزدانی صاحب نے مزدی بتایا کہ ارباب حکومت بھی اسلام کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے بتایاکہ تین سال سے عبدالفطر کے موقع پر صدر امریکہ بل کلنٹن نے اپنے قصر شاہی وہاہٹ ہاؤز میں مسلمانوں کی ضیافت کی۔ ان کی صاحبزادی کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ تاریخ اسلام کی اچھی اسکالر ہیں۔ اور تعلیمات اسلام سے خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔

اردو اخبارات کی اشاعت:

جناب غلام یزدانی صاحب نے سماجی حالات اور امریکہ میں رہنے والے تارکین وطن کی مصروفیات کے تذکرے کے دوران بتایا کہ وہاں انہوں نے چھوٹے موٹے اردو اخبارات کے لاتعداد ایڈیشن دیکھے جو اکثر ہندوستانی، پاکستانی، بنگلہ دیش کی خبروں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ ان میں بیشتر اخبارات میں اسلام سے متعلق مواد ہوتا ہے یا پھر ان میں کئی صفحات حلال میٹ فروخت کرنے والے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کے تجارتی اشتہارات ہوتے ہیں۔ ہاں بعض اخبارات پابندی کے ساتھ وہاں منعقد ہونے والے دینی اجتماعات ، سوشل موضوعات پر سمینار کے علاوہ اوقات نماز اور روزہ، زکوۃ وغیرہ وٖغیرہ ضرور شائع کرتے ہیں۔
کینیڈا سے شائع ہونے والا سرکردہ اخبار (انگریزی) 'ٹورنٹو اسٹار' ایڈیٹر جناب ہارون صدیقی ہیں جو حیدرآبادی ہیں اور انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے جرنلزم کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے دلچسپ بات یہ بھی بتائی کہ اکثر اخبارات بلا معاوضہ مساجد کے باہر ہوٹلوں اور اجتماع گاہوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ٹورنٹو میں داخل ہوتے ہی ہائی وے ہی سے آپ کو دور ہی سے مساجد کے مینار دکھائی دیں گے۔ دنیا کے مشہور سی این ٹاور کے پہلو میں بھی فرزندانِ توحید اکثر عیدین کے موقعہ پر نمازوں کی ادائی کا خصوصی انتظام کرتے ہیں۔

کینیڈا میں دینی مدارس:

کینیڈا اور امریکہ کے مختلف شہروں میں ایسے دینی مدارس کا جال پھیلتا جا رہا ہے جہاں مسلمان بچوں کو قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کے درس و تدریس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ دین اسلام کے یہ قلعے مغربی ممالک اور وہاں کی تہذیبی ماحول میں بھی اہل اسلام کی اسلام سے وابستگی کا بین ثبوت ہیں۔ چنانچہ یزدانی صاحب نے بتایا کہ ٹورنٹو سے چالیس کلو میٹر پر واقع ایک دینی درسگاہ کی نہایت خوبصورت اور وسیع و عریض عمارت واقع ہے۔ جس کو "جامعۃ العلوم الاسلامیہ ایجاکس" کہا جاتا ہے۔ 1992ء میں صرف نو طلبا سے ایک معمولی گیاریج میں اس کی ابتدا ہوئی جس کو مسجد کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن 1992ء سے 1996ء تک اس جگہ تین منزلہ عالیشان عمارت تعمیر کی گئی جس پر دو ملین ڈالرس کا خرچ آیا۔ ٹورنٹو میں ماریہ اسلامک اسکول 1995ء میں قائم کیا گیا ، جس میں وہاں کی وزارت تعلیمات سے منظورہ سیکولر نصاب کے علاوہ اسلامی علوم کے کورس کی تدریس کا اہتمام ہے جس میں عالمیت کا کورس بھی شامل ہے۔ یہ مدرسہ مسلم خواتین کے زیر انتظام کام کر رہا ہے ، یہ درس گاہ بڑی مقبول عام بھی ہے۔
جناب غلام یزدانی نے بتایا کہ اس کے علاوہ کینیڈا میں کئی ایک نامور دینی تعلیمی مدارس ہیں ان میں الاشرف اسلامک اسکول، الایمان اسکول، الراشد اسلام اسکول، دارالعلوم المدینہ اسلامک فاؤنڈیشن اسکول، اثنی اسلامک اسکول، جامعۃ العلوم الاسلامیہ ، لندن اسلامک اسکول، مدینۃ العلوم اسلامک اسکول ، اٹاوہ اسلامک اسکول، مدرسۃ البنات مسلم گرلز اسکول اور ایس ایم اے اسلامک اسکول کے نام قابل ذکر ہیں۔

امریکہ اور کینیڈا کی مساجد:

جناب غلام یزدانی صاحب شہر حیدرآباد کی مشہور زمانہ "عالیہ مسجد" کی انتظامی کمیٹی کے معتمد بھی ہیں اس لئے انہوں نے اپنے دورہ کے دوران خصوصیت کے ساتھ وہاں کی مساجد کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے ان کی تفصیل اس طرح بتائی کہ امریکہ اور کینیڈا میں اکثر مساجد ماڈرن آرکٹکچر کے بہترین نمونے ہیں۔ ان مساجد کے احاطوں میں کار پارکنگ کے لئے وسیع و عریض جگہ ضرور مختص کی جاتی ہے۔ اکثر و بیشتر مساجد میں نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ ان میں دینی مدرسہ چلایا جاتا ہے اور مختلف دینی اجتماعات میں خصوصیت کے ساتھ مسلم میتوں کو نہلانے کے لئے غسل خانہ بھی ہوتا ہے۔ بعض مساجد میں دینی کتب خانے ، کینیٹن، وغیرہ بھی قائم ہیں۔
یزدانی صاحب نے اس دورہ کے دوران مختلف اجتماعات میں بھی شرکت کی اور نورالاسلام اکیڈیمی کی جانب سے منعقدہ فنڈ ریزنگ فنکشن اور ڈنر میں بھی حصہ لیا۔ انہوں نے امریکہ کے شہر بفیلو Buffalo کی نامور درس گاہ کے سالانہ جلسہ میں بھی شرکت کی ، جس میں کینیڈا اور امریکہ سے تقریباً تین سو مندوبین نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر دس تا چودہ سال کی عمر کے مختلف حفاظ کرام کی دستار بندی بھی عمل میں آئی جو نسلی اعتبار سے الگ الگ ممالک سے تعلق رکھتے تھے لیکن سب کے سینے میں اسلام کا دستور حیات قرآن مجید حفظ تھا۔ اس کے مہمان خصوصی ممتاز پاکستانی عالم دین مفتی محمد رفیع صاحب تھے۔ یزدانی صاحب نے یہ بھی انکشاف کیا کہ امریکی قانون کے تحت جن عمارتوں میں پہلے چرچس تھے انہیں مساجد میں تبدیل کرنے کے بعد عمارت کی ہیئت اور ڈھانچہ کو جوں کا توں رکھنا پڑتا ہے۔ البتہ عمارت کے اوپر نشان صلیب کی جگہ "نشان ہلال" لگا دیا جاتا ہے۔

٭٭٭
(شائع شدہ: روزنامہ"منصف" مورخہ 2/ ستمبر 1999ء)

ماخوذ از کتاب:
"کچھ یادیں کچھ باتیں" (مصنف : غلام یزدانی ایڈوکیٹ)۔
ناشر: انجمن ترقی اردو آندھرا پردیش، حیدرآباد۔ سن اشاعت: 2013ء۔

Hyderabad's culture shining abroad. An interview of: Ghulam Yazdani, Senior Advocate

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں