ادبی ترقی پسندی کا صحیح مفہوم - اختر حسین رائے پوری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-31

ادبی ترقی پسندی کا صحیح مفہوم - اختر حسین رائے پوری

جب ہم کسی چیز کے متعلق لفظ "ترقی" کا استعمال کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں کئی باتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس چیز میں بڑھنے اور بہنے کی صلاحیت ہے، دوسرے یہ کہ وہ اپنی ابتدائی شکل پر قائم نہیں ہے اور نہ رہ سکتی ہے۔ مزید یہ کہ ترقی ایک نسبتی شئے ہے جو اپنی ضد بھی رکھتی ہے۔ یہ ضد رجعت ہے۔ جو چیز آگے نہیں بڑھتی وہ پیچھے رہ جاتی ہے۔


ادب کے بعض بنیادی مسائل کے متعلق ہم سب متفق ہیں۔ غالباً ہم سب مانتے ہیں کہ ادب ایک سماجی فریضہ ہے اور یہ کہ ادیب اپنے ماحول سے کچھ لیتا ہے اور اس فرض کو اپنی شخصیت کے سود کے ساتھ واپس کرتا ہے۔ یعنی ادب کی تخلیق میں دو طاقتیں کام کرتی ہیں۔۔۔ ماحول اور شخصیت! ماحول کا تجزیہ نسبتاً آسان ہے۔ اس کے عناصر خارجی اور سماجی انسان پر اس کا رد عمل جانچا جا سکتا ہے۔ لیکن شخصیت ایک لاینحل گھتی ہے ، ابھی ہمارے علم میں اتنی گہرائی نہیں آئی ہے کہ ہم اس کی اہمیت کا اندازہ کر سکیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ شخصیت ماحول کے اثر سے سرتا سر آزاد ہے۔


ادب کو کسی ضابطہ میں لانے کے معنی یہ ہیں کہ ماحول کے متعلق ایک صاف و صریح تخیل آپ کے دماغ میں ہو اور پھر یہ کہ آپ کو اپنی شخصیت پر قابو ہو۔ جب تک یہ نہ ہوگا آپ ایسا ادب پیدا نہیں کر سکتے جس کا کوئی مقصد ہو۔


میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ادب کا کوئی مقصد ہونا چاہئے یا نہیں۔ میں نے اپنا بیان اس مفروضہ کے ساتھ شروع کیا ہے کہ ہم سب ادب کو ایک سماجی فریضہ مانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ہر فرض کسی نیت سے شروع ہوتا ہے اور کسی منزل کی طرف لے جاتا ہے۔
تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارا فلسفۂ زندگی ترقی پسند ہو اور کیونکہ اس کے حصول کا ذریعہ ہمارے پاس ادب ہے اس لئے ہم اپنے ادب کو ترقی پسند بنائیں۔


سماج ایک بڑا درخت ہے جس کی کئی ٹہنیوں میں سے ادب ایک ہے ، ہم یہ سب مانتے اور جانتے ہیں۔ لیکن اس ٹہنی کی نشو و نما کا رمز سمجھنے کے لئے آپ کو اس درخت کی جڑ اور تنے کا جائزہ لینا ہے۔ سورج کی تپش اور بادلوں کے پانی کو دیکھنا ہے جب تک پورے درخت کی اٹھان پر آپ کی نظر نہ ہو ، آپ اس ٹہنی کو کیوں کر سمجھ سکتے ہیں۔


سماج کی بناوٹ میں دو چیزیں کام کرتی ہیں۔۔ مادی ضروریات اور اخلاقی مطالبات۔ فرد کی یہ تمنا کہ وہ زندہ رہے اور یہ خواہش کہ وہ خوش رہے۔۔۔ ہر تہذیب اور نظام کا مقتضا اور معیار ہے۔ جب ہم کسی تہذیب کو بہتر اور بدتر بتلاتے ہیں تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں فرد کی ذہنی اور جسمانی آسائش کا سامان زیادہ تھا اور حفظ حیات کے مواقع بھی زیادہ تھے۔
دنیا میں تغیر کے سوا کوئی چیز غیر فانی نہیں۔ ہر ادارہ فنا ہوتا ہے اور اپنا قائم مقام چھوڑ جاتا ہے۔ اور کیونکہ انسان مسلسل اس کوشش میں مصروف رہا ہے کہ اس کی زندگی زیادہ محفوظ اور بہتر ہو اس لئے ارتقا کا جو قدم اٹھتا ہے وہ آگے کی طرف اٹھتا ہے۔


آج ہمارا دور تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہوا ہے۔ آج تک ہماری دنیا میں آرام و آسائش کے لوازمات کی ایسی فراوانی نہ تھی ، انسان نے قدرت کو اس حد تک زیر کر لیا ہے کہ وہ اب اپنی حیوانی ضروریات کو بڑی آسانی سے پورا کر سکتا ہے اور زندگی کا بڑا حصہ اپنی انفرادیت کی تکمیل پر گزار سکتا ہے۔
لیکن ہم کیا دیکھتے ہیں کہ سماج میں تعمیر اور تخریب کی طاقتوں میں جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ ایک طبقہ یہ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان ہمیشہ کے لئے مادی اور ذہنی غلامی سے آزاد ہو جائے لیکن دوسرا طبقہ ایسا نہیں ہونے دیتا۔ دراصل یہ غلاموں اور غلام فروشوں کی جنگ ہے۔


ہم سب ایسی ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ اس صورت حال میں ترقی کی راہ کدھر ہے۔۔۔ غلاموں کی آزادی کی طرف یا غلام فروشوں کی ہوسناکی کی طرف؟ ہم جس طبقہ کے افراد ہیں وہ خود سرمایہ داری کا پروردہ ہے۔ اس لئے نہ ادب مظلومیت کی فریاد سمجھ سکتا ہے اور نہ مظلوموں کو اپنا پیغام سنا سکتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہم بھی سرماریہ داروں کی بساط کے مہرے ہیں۔ اپنی روٹیوں کے لئے ہم ان کے محتاج ہیں اور وہی راگ گاتے ہیں جو یہ سننا چاہتے ہیں۔


یہیں ہماری شخصیت کا امتحان ہوتا ہے۔ ہمارا سماجی فرض تو یہ ہے کہ اس ماحول کو بدلیں اور نظام زندگی کی باگ ڈور ایسے طبقہ کے ہاتھ میں دیں جو سماج کو ترقی کی طرف لے جائے گا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انسانیت کی خانہ جنگی کو بند کردے گا اور انسان کو انسان کا نہیں بلکہ انسانیت کا خادم بنا دے گا۔ مگر یہاں ہماری شخصیت سد راہ بن جاتی ہے۔ وہ اس ماحول کی گود میں پلی ہے جہاں ادب روپیوں کے لئے عشوہ فروشی کرتا رہا ہے۔ ہماری شخصیت نے ایثار کا سبق نہیں پڑھا، وہ ضبط نفس سے بیگانہ ہے، وہ خودی کی کینچلی میں دبی ہوئی ہے اس پر تن آسانی نے چربی کی تہیں چڑھا دی ہیں۔


آج سچے ادب کی تخلیق صرف اس وقت ممکن ہے جب شخصیت ماحول کی مخالفت سے بےنیاز ہو کر حق کے اذن پر لبیک کہے۔ ماحول کو بدلنے کے پہلے ہمیں اپنے کو بدلنا ہوگا۔ لیکن ہم ایسا نہیں کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جو کچھ لکھتے ہیں اس میں حقیقت نہیں ہوتی وہ کذب و افترا کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور اگر ہماری طبیعت حق کی طرف جاتی ہے تو ماحول سے مانوس نہ ہو کر نامراد رہ جاتی ہے۔


میری دانست میں ادبی ترقی پسندی کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ہماری شخصیت فوٹو گرافر بھی ہو اور مصور بھی ہو۔ فوٹو اس وقت اترتا ہے جب انسان بے حرکت ہو جائے ، لیکن حقیقی زندگی میں موت سے پہلے کوئی چیز بے حرکت نہیں ہوتی اس لئے آرٹ فوٹو گرافی نہیں بلکہ مصوری ہے، جس میں خط کی ایک کشش ہیجان اور حرکت کے دفتر لکھ دیتی ہے۔
ترقی پسند ادیب صرف حقیقت پسند نہ ہوگا بلکہ اس کے سامنے حقیقت کا ایک صاف تخیل ہوگا اور وہ ہر تصویر ایسی نقطہ نظر سے بنائے گا۔ یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنے سماجی فرض کو نہ سمجھیں۔ اور یہ فرض وہ ہے جو میں اوپر بتلا چکا ہوں۔ یعنی دور حاضر کی سماجی جنگ میں اس طبقہ کی تائید کرنا جو ظالموں اور غاصبوں کے ہاتھ سے عنان حکومت چھین کر بنی نوع انسان کی آزادی کے علم برداروں کو دے رہا ہے۔
ادب اپنا سماجی فرض اس وقت تک ادا نہیں کر سکتا جب تک اس طبقہ کا ہمنوا اور ہم گوش نہ ہو جائے۔


1957ء کاغدر تاریخ ہند کا سب سب اہم واقعہ ہے۔ یہ کرگھے اور مشین ، ہل اور ٹریکٹر ، ارنڈی کے دئے اور بجلی کے لیمپ کی ٹکر تھی۔ مختصراً یہ سامنتی نظام زندگی اور صنعتی نظام زندگی یعنی مشرق و مغرب کی ٹکر تھی۔ سرمایہ داری نے جو اس زمانہ میں ایک ترقی پسند طاقت تھی ، ہمارے دقیانوسی اداروں کو بے نشان کر دیا۔ یہ ادارے منو بھگوان کے زمانہ سے ایک لیک پر ایک رفتار سے چل رہے تھے۔ غدر کے بعد ہر چیز بدلی اور ہمارے ادب میں بھی نئے نئے رجحان پیدا ہونے لگے۔


ہمارا ادبی انقلاب لبرلزم کے ساتھ شروع ہوا۔ انیسویں صدی کے یورپ کے ذہنی فضا پر لبریزم چھایا ہوا تھا۔ جب ہم نے انگریزی پڑھنی شروع کی تو ہم بھی لبرلزم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ہمارے ادب میں رواداری، خود تنقیدی اور جمہوریت کے آثار پیدا ہونے لگے۔ اردو ادب میں حالی اور بنگلہ میں مدھو سودن دت اس رجحان کے پہلے علم بردار تھے۔ زبان کو بے تکلف اور عام فہم بنانے کی تحریک نے بھی زور پکڑا، چنانچہ موجودہ ہندی کو جسے بھاکھا کے مقابلہ میں کھڑی بول کہتے ہیں، اسی زمانہ میں فروغ ہوا۔ اردو میں بھی طلسم ہوش ربا کا پیرایہ ناپسندیدہ سمجھا جانے لگا۔ اردو زبان میں عقلیت اور رواداری کی جو تحریک سرسید اور حالی نے شروع کی تھی اس کا رد عمل شبلی نے شروع کیا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے ذہنی جمود اور رجعت پروری کی بہت بڑی ذمہ داری مولوی شبلی پر عائد ہوتی ہے۔


مگر یہ لبرلزم زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا۔ وجہ یہ تھی کہ ہمارے ملک میں اس ذہنی رجحان کی کوئی مادی بنیاد نہ تھی۔ یورپ میں یہ جذبہ مادی سیر چشمی سے پیدا ہوا تھا لیکن ہم نے اسے شکست کی کیفیت میں اپنایا تھا۔ تھوڑے ہی دنوں بعد ادب نے ایک نیا روپ لیا یہ قوم پرستی کا روپ تھا۔ اس کی ابتداء اس خوف سے ہوئی کہ اگر ہم زیادہ آگے بڑھے تو مغربیت کے منہ میں جا گریں گے اور اپنی روایتوں کو بھول جائیں گے۔ لہذا ہمیں اپنے ماضی کی طرف لوٹنا چاہئے اور اپنے اجداد کی راہ اختیار کرنا چاہئے۔


زندگی بہتے ہوئے پانی کی لہر کی طرح آگے بڑھتی جاتی ہے۔ وہ پیچھے کی موجوں سے قوت حاصل کرتی ہے لیکن بڑھتی آگے ہی ہے۔ ادب میں قوم پرستی کا رجحان ابوالہول کی طرح مختلف شکلوں میں ہویدا ہوتا ہے۔ وہ قدیم کی تائید میں ہر جدید کو حقارت سے دیکھتا ہے اور وطنی نسلی و مذہبی تفرقوں کی گود میں پروان چڑھتا ہے ، اکبر الہ آبادی کی شاعری اسی حقارت کا مرقع ہے۔


قوم پروروں کی سیاسی تحریک کی وجہ سے ادب کے اس اسکول کی ایک بڑی شاخ استعمار کی مخالف ہو جاتی ہے۔ اس کے قائدوں میں ہم پریم چند مرحوم کو پیش کر سکتے ہیں۔ جہاں تک ملک کی آزادی کا سوال ہے ہم اس اسکول کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن ان پر ہمارا یہ اعتراض ہے کہ سماج کی تنظیم کا ان کے پاس کوئی دستور نہیں ہے۔ قوم پرستی خود پرستی کا پھیلاؤ ہے اور بس انسانیت کے آگے جنگ، افلاس، بیماری اور استحصال کے جو بنیادی مسائل ہیں۔ قوم پرستی کے پاس ان کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پروروں کی سیاسی تحریک ناکام رہی۔ وہ نفی (Negaevison) کے ساتھ شروع ہوئی ہے اور وہ زندگی کی کثرت کو مٹائے بغیر اجتماعیت پر زور دیتی ہے۔ یہ اجتماعیت اس کے پیروں کی زنجیر ہے اور اسے خود کشی کی طرف لے جا رہی ہے۔


اب میں آپ کو اس نئے پیغام کی طرف متوجہ کرتا ہوں جو صور اسرافیل بن کر انسانیت کو سرمایہ داری کی قبر سے نکلنے کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ امن و آشتی کا پیام ہے ، یہ مساوات اور اخوت کا سندیسہ ہے۔
دونوں فریق تاریخ کے میدان میں جمع ہو گئے ہیں۔ ایک طرف وہ طاقتیں ہیں جو اخلاق اور تہذیب کے تمام اقدار کی منکر ہیں اور حیوانیت و بربریت کو انسان کے سر پر مسلط رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ عالم بالا میں انسانوں کی برابری کا اقرار تو کر لیں، اس دنیا میں وہ ظالم و مظلوم کی تمیز کو باقی رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ترقی اس وقت تک محال ہے جب تک انسانوں کی اکثریت تھوڑے سے کٹھ مستوں کی غلامی نہ کرے۔ دوسری طرف وہ طاقتیں ہیں جو دنیا سے ہر قسم کی بے انصافی کو مٹانا چاہتی ہیں۔ جو ایسے اخلاق کی بنا ڈال رہی ہیں جو زندگی کی دوئی کو مٹا کر وحدت کے پرچار کا مدعی ہے۔


اگر ہم ترقی پسند ہیں اور ہمارا ادب اپنے فرض کا پابند ہے تو ہمیں اس جنگ میں عملی حصہ لینا ہے۔ ہماری دعائیں یا بددعائیں کچھ بنا بگاڑ نہیں سکتیں۔ اس انجمن کا کام یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا کہ ہم کبھی کبھار مل بیٹھیں اور بحث و مباحثہ کے بعد اپنے اپنے گھر کی راہ لیں اور کان میں تیل ڈال کر سو جائیں۔ اس طرح شخصیت کی اصلاح تو ممکن ہے لیکن اپنے ماحول کو ہم زیادہ موثر نہیں کر سکتے۔
اس صحبت میں میں کچھ عملی تجاویز آپ کے سامنے لایا ہوں۔ یہ آپ کے غور و فکر کی مستحق ضرور ہیں۔


(1) انجمن کے ارکان ٹولی بنا کر سال میں ایک دو مرتبہ کسانوں یا مزدوروں کے ساتھ جا کر رہیں۔ تاکہ عوام کی زندگی سے ان کا براہ راست تعلق پیدا ہو سکے۔


(2) اس ادبی انجمن کا دائرہ زیادہ وسیع کیا جائے تاکہ اس میں دوسرے معاشی مسائل پر بھی بحث ہو سکے۔


(3) انجمن کے ان ارکان کی ایک سب کمیٹی بنائی جائے جو اخبار نویس ہیں تاکہ ترقی پسندوں کے خلاف رجعت پروروں کے پروپیگنڈہ کا باقاعدہ تدارک کیا جا سکے۔


(4) ہندوستانی زبانوں میں جو احتجاجی ادب (پروٹسٹ لٹریچر) ہے، اس کے نمونے کتابی صورت میں شائع کرنے کا انتظام کیا جائے۔


(5) ہندی اور اردو کے رجعت پرورانہ قضیہ کی روک تھام کے لئے ہم ایک سب کمیٹی بنائیں جو دقیق عربی یا سنسکرت الفاظ کے ہم معنی عام فہم الفاظ کی ایک لغت تیار کرے۔ اس لغت میں عامیانہ الفاظ کو خاص جگہ دی جائے تاکہ ہماری زبان صحیح معنی میں عوام کی زبان بن سکے۔


(6) ترقی پسند ادب کی نشر و اشاعت کے لئے رومن رسم الخط میں ایک بلیٹن شائع کرنے کا انتظام کیا جائے۔


(7) ترقی پسند مصنفین پریس کی آزادی کے لئے خاص طور پر جدوجہد کریں اور 'سول لبرٹیز یونین' کی ہر ممکن امداد کریں۔


(8) طلبا کی ادبی انجمنوں کو ہماری انجمن سے ملحق کرنے کی خاص طور پر کوشش کی جائے۔

(نوٹ: یہ مقالہ ترقی پسند مصنفین کی انجمن دہلی میں پڑھا گیا۔ بتاریخ: جنوری 1937ء)


یہ بھی پڑھیے:
ادب کے مقاصد اور ادیبوں کے فرائض - مولوی عبدالحق اور اختر حسین رائے پوری
***
ماخوذ از کتاب: ادب اور انقلاب (تصنیف: ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری)۔
ناشر: ادارۂ اشاعتِ اردو (حیدرآباد دکن)، پہلا ایڈیشن: اکتوبر-1943

The true meaning of Literary progressiveness.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں