آہ ، استاذ محترم حضرت قاری عثمان صاحب بھی چل بسے !
ابھی کچھ برسوں سے اکابرین علماء دیوبند کے اس دار فانی سے رخصت ہوجانے کا سلسلہ ؛ بلکہ تانتا بندھا ہوا ہے۔ تقریبا اساتذہ کرام پر میں نے اپنے تاثرات قلمبند کئے ہیں۔ ابھی ایک شخصیت کے ذکرِ خیر اور محاسن و محامد کے بیان سے فراغت نہیں ہو پاتی کہ ایک عظیم شخصیت ہماری درمیان سے رحلت کر جاتی ہے ، ابھی کچھ روز سے یہ خبر سننے کو مل رہی تھی کہ حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن الاعظمی اور حضرت الاستاذ مولانا قاری عثمان منصور پوری کی طبیعت بھی علیل ہے ، یہ دونوں بھی سانس کے لیول کے کمی سے دوچار ہیں۔ عید سے ایک روز قبل حضرت الاستاذ ابن حجر ثانی رحلت کی ناگہانی واقعہ درپیش ہوا تھا کہ کل بروز جمعہ یہ قیامت خیر خبرسننے کو ملی کہ حضرت الاستاذ قاری عثمان صاحب بھی مرحوم ہوچکے، رب حقیقی کے جوار میں جاچکے۔
اور اب نہایت خوبرو، متوازن، متدین، متقی ، مربی و معلم شخصیت کی رحلت بھی غمزدہ کر گئی ہے۔
احقر نے سنہ 2001 کو مادر علمی دار العلوم میں داخلہ لیا تھا۔ مشکاۃ شریف کے تین مختلف اجزاء مختلف اساتذہ کے ذمہ تھے، پہلا حصہ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب رحمہ اللہ کے زیر تدریس تھا، دوسرا حصہ حضرت الاستاذ مولانا عبد الخالق مدراسی مد ظلہ کے ذمہ تھا، تیسرا حصہ حضرت الاستاذ قاری عثمان صاحب رحمہ اللہ کے ذمہ تھا، ہفتم اولی میں پہلی ساعت اور گھنٹی حضرت قاری صاحب ہی کے پاس تھی۔ نہایت ہی اچھوتا اور البیلااور دل موہ لینے والا طرز تدریس ہوتا، نہایت ہی بشاشت اور سلاست اور روانی کیساتھ نہایت یکسو ہو کر ، کامل توجہ کے ساتھ نہایت سبک روی سے تدریس کے فریضے کو انجام دیتے ، نہایت مدلل اور مکمل گفتگو ہوتی۔ وقتا فوقتا حضرت الاستاذ کے سامنے عبارت خوانی کے بھی مواقع میسر آئے۔ چال ڈھال ، طرز تکلم، اسلوب تدریس ہر روسے پر وقار ، پر رونق شخصیت نظر آتی، لباس میں نہایت نفاست اور سلاست قاری صاحب وصف خاص تھا۔ نہایت ہی ہلکے انداز سے مسکرا دیتے ، زیر لب تبسم فرماتے اور بس۔
ہفتم میں الحمد للہ مشکوۃ شریف ابھی میرے پاس ہے جس پر سبھی تمام اساتذہ جن سے مشکاۃ شریف پڑھی ہے ، حواشی تحریر کئے ہوئے ہیں، پھر قاری سے دورہ حدیث میں "موطا مالک" کو پڑھنے کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔
دار العلوم دیوبند کے اساتذہ کی خصوصیت اور امتیاز یہ ہوتا ہے وہ ہمہ جہت وہمہ گیر شخصیت کے حامل ہوتے ہیں، حضرت قاری سے بھی دار العلوم کے عظیم اساتذہ میں سے تھے ، کئی ایک ذمہ داریاں اور عہدے اور مناصب ان سے متعلق ، وہ دار العلوم میں میرے تدریس ہی کے دور سے نائب مہتم کے عہدے پر فائز تھے، جمعیۃ علماء ہند کے صدر ، دار العلوم دیوبند کے "کل ہند تحفظ ختم نبوت" کے ناظم اعلی بھی رہے۔ یہ شعبہ قاری صاحب کی زندگی میں نہایت متحرک فعال رہا، اس کا دائرہ کار نہایت وسیع تر ہوگیا۔ درس وتدریس کے ذمہ داریوں کے ساتھ صدر جمعیت کی حیثیت سے بھی نہایت ہی زیادہ نشاط کے ساتھ کاز کو انجام دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ خاندانی وجاہت و شرافت بھی آپ کو حاصل تھی، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے آپ داماد ، مولانا اسعد مدنی رحمہ اللہ اور مولانا ارشد مدنی مد ظلہ کے بہنوئی ہوتے ، اس کے علاوہ منصب افتاء کی عظیم علمی شخصیت مفتی سلمان منصور پوری اور مفتی عفان منصور پوری دام اللہ ظلہما کے والد محترم بھی۔
النادی الأدبی کے بھی ذمہ دار اور سرپرست تھے ، تکمیل ادب عربی کے دوران اوربعد اور پہلے کے ادوار میں بھی خصوصا "النادی" کے ابتدائی، ششماہی، سالانہ پروگراموں میں خصوصا قاری صاحب کا خصوصی اورصدارتی خطاب ہوتا، یہ خطاب خالص عربی زبان میں ہوتا، نہایت شگفتہ اور شستہ عربی بولتے، پند و نصائح سے نوازتے ، عربی زبان اس میں مہارت کے حوالے سے ذہن سازی فرماتے۔ عربی زبان سے بے انتہا لگاؤ اور قربت کی وجہ سے ہمیشہ "النادی" کے اجلاس میں شرکت کے مواقع حاصل ہوتے۔ سلیس ، اچھوتی عربی زبان کو نہایت سلجھے ہوئے لب و لہجہ میں سماعت کے مواقع میسر آتے۔
قاری صاحب 12/اگست 1944ء کو اپنے وطن منصور پور (مظفرنگر، اترپردیش) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی اور فارسی و عربی کی پوری تعلیم دار العلوم دیوبند میں مکمل کی۔ 1965ء میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی اور 1966ء میں دیگر میں دیگر فنو ن کی تکمیل کے ساتھ تجوید و قراءت اور ادب عربی کی تربیت بھی حاصل کی۔
ابتداء جامعہ قاسمیہ "گیا" میں پانچ سال تک تدریسی خدمات انجام دی، پھر جامعہ اسلایہ جامع مسجد امروہہ میں گیارہ سال تک مختلف علوم وفنون کی کی کتابیں پڑھاتے رہے ، 1982ء میں دار العلوم دیوبند میں مدرس مقرر ہوئے ، درس وتدریس کے ساتھ مختلف انتظامی امور بھی بحسن وخوبی انجام دیتے رہے ، 1986ء میں میں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت کے موقع پر آپ کو کل ہند مجلس ختم نبوت کا ناظم مقرر کیاگیا، 1999ء میں تدریس کے ساتھ نائب مہتم مقرر ہوئے ، اور 2008ء تک اس اہم عہدہ پر فائز رہے ، خصوصا موطا امام مالک اور مشکاۃ المصابیح زیر درس رہیں۔ 2006ء میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر منتخب کئے گئے ، تا دم اخیر اس عہدے پر فائز رہے ، نائب مہتم کا عہدہ پھر سے آخری حیات میں قاری صاحب کو سونپا گیا تھا۔
ایک شخصیت نہیں ایک انجمن ہم سے روٹھ گئی، ایک عالِم نہیں ، ایک عالَم ہمارے درمیان سے چلا گیا۔ "موت العالم موت العالم" کے مصداق سب اہل وعیال، قرابت داروں، محبین ، منتسبین اور شاگردوں ایک جم غفیر کو رنجور کر کے اس دار فانی سے کوچ کر گئے ، رب حقیقی سے جاملے ، راہئے عالم جاوداں ہوگئے۔ اللہ عز وجل کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے۔
یہ بھی پڑھیے :
قاری سید عثمان منصورپوری کی رحلت ملت اسلامیہ کا ناقابل تلافی نقصان
رفیع الدین حنیف قاسمی
ادارہ علم و عرفان ، حیدرآباد
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں