اردو کی ترقی میں اہل راجستھان کا حصہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-15

اردو کی ترقی میں اہل راجستھان کا حصہ

urdu-in-rajasthan
آج ہم راجستھانی ہونے کے واسطے سے ایک ایسے خاص اور شہرہ آفاق شہر میں مجتمع ہوئے ہیں جس کی سرزمین کو اردو سے قدیم اور اہم تعلقات کا فخر حاصل ہے۔ پس بیشتر اس کے کہ ہم عنوان مندرجہ صدر پر قلم اٹھائیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اردو کے ابتدائی مراحل اور بلاقید و بند راجستھان میں اردو کی ابتدا اور ترقی کے اسباب کو بطور تمہید بیان کر دیں اور پھر انجمن ترقئ اردو ہند کے خصوصی شکریے کے ساتھ علاقہ وار تفصیلی روشنی ڈال کر اپنا مقصد حاصل کریں۔
اردو کے ابتدائی مراحل : اردو کیا ہے ؟
اردو سے مراد ہے اس پراکرت یا بھاشا کی ایک شاخ سے، جو صدیوں تک دہلی اور میرٹھ کے قرب و جوار کے علاقوں میں بولی جاتی رہی ہے جس کا تعلق براہ راست شور سینی پراکرت سے ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ اردو اور ہندی میں اپنے مآخذ نیز نوعیت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ کیا بلحاظ صرف و نحو اور کیا بہ لحاظ محاورات، ہر دو کے کثیر تعداد الفاظ دونوں ایک ہی زبان کی دو شاخیں ہیں۔
اول الذکر شہروں میں رائج ہو گئی ثانی الذکر دیہات میں۔ کیونکہ وہاں اس کے صاف اور شستہ ہونے کے ذرائع موجود نہ تھے، اعلیٰ دماغ روشن خیال، سربرآوردہ حضرات اس کو خوب سمجھتے اور جانتے ہیں۔ نیز یہی وجہ ہے کہ وہ اردو بولنے پر فخر محسوس کرتے ہیں ان کے گھروں میں بھی یہی زبان بولی جاتی ہے وہ جب دوست احباب یا کسی اور سے ہم کلام ہوتے ہیں تو بھی بے ساختہ اسی زبان سے کام لیتے ہیں۔ نیز جیسا کہ آئے دن کے مشاہدے سے ظاہر ہوتا ہے دیہاتیوں کو جب کبھی شہریوں سے بات کرنے کا موقع پیش آتا ہے تو وہ بھی اسی زبان میں بولنے کی سعی کرتے ہیں گویا آج اردو صحیح معنی میں ہندوستان کا روز مرہ ہے۔ (ملاحظہ ہو: گارسن ڈٹاسی کے خطبات و مقالات اور رام بابو سکسینہ کی ہسٹری آف لٹریچر)

چونکہ اس زبان کا ابتدائی مرکز دہلی اور آگرہ تھا اور یہ مسلمان بادشاہوں کے دارالسلطنت بنے ہوئے تھے لہذٰا بعض ارباب قلم اور اہل ملک کو یہ دھوکا ہونے لگا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے جو کئی زبانوں سے مل کر بنی ہے، نیز اس امر واقعہ نے کہ اس کی پرورش مسلمانوں کے سایۂ عاطفت میں ہوئی اور اس میں فارسی کی چاشنی بھی موجود تھی، اس دھوکہ پر اور مہر تصدیق ثبت کر دی۔ ان ظاہری اسباب کی بنا پر سطحی نظر رکھنے والے اس کو بہ نظر مخالفت دیکھنے لگے ، نیز 1867ء میں بنارس کے چند سر برآورہ افراد نے ہندی اردو کا قضیہ کھڑا کر دیا درآں حالیکہ یہ ملکی و غیر ملکی عناصر کو متحد کر کے دکھانے والا بیش بہا سرمایہ تھا جس میں بلا امتیاز مذہب و ملت ہر فرد کی سالہا سال کی خدمات شامل ہیں۔ (ملاحظہ ہو: مہامہو اپادھیائے گوری شنکر ہیراچند اوجھا کی تصنیف: Civilization of Medieval India)
اردو زبان ہندی کی مہذب ترین شکل انٹر نیشنل حیثیت کی مالک اور ہندوستان کی مادری زبان ہے۔
اگر مذکورہ بالا صورتیں پیدا نہ ہوئی ہوتیں تو دہلی اور اس کے قرب و جوار کی زبان وہیں کے علاقہ سے ہوتی اور جس طرح ماگدھی، شورسینی، مہاراشٹری اونتک اب بھرنش وغیرہ سنسکرت کی بگڑی ہوئی صورتیں محدود علاقوں میں رائج ہیں، یہ بھی کہیں محدود ہو کر رہ جاتی۔ فی الحقیقت اردو ہندی کی مہذب ترین شکل ہے اور صڑف ہندوستان ہی نہیں بولی اور سمجھی جاتی بلکہ آج انٹرنیشنل حیثیت کی مالک بنی ہوئی ہے۔
بابو راجندر پرشاد کا قول ہے کہ موجودہ زبان کی ابتدائی صورت ہندی ہے اور ہندی ہی سے اردو نکلی ہے، یہ مشرقی بہار سے لے کر کوہ سلیمان کے دامن تک اور وندھیاچل سے لے کر ترائی تک ہر کہیں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ کمایوں اور نیپال کے پہاڑی علاقوں میں اس کی رسائی ہے۔ ہندوستان کی مشترک زبان کی حیثیت سے پیشاور کے کوہستان سے لے کر آسام تک اور کشمیر سے لے کر راس کماری تک اس زبان نے اپنا سکہ بٹھا دیا ہے۔
ہزار سال کے عرصے میں اس نے جلیل القدر ادب دنیا کے سامنے پیش کیا اور اس ادب کا مقابلہ ہندوستان کی کوئی اور زبان کیا بلحاظ اپنی وسعت اور کیا بلحاظ اپنی قدامت نہیں کر سکتی۔ غیر ملکی بھی اس کے بولنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ 1827ء میں بمقام شملہ ایک دربار کے موقع پر جس میں پہاڑی علاقوں کے راجہ بھی شریک تھے چھ سو دیسی راجاؤں اور جاگیر داروں کے مجمع کو سرجان لارنس نے اسی زبان میں خطاب کیا۔ سرجان شور اس زبان میں تقریر کرنے کو اپنا فخر سمجھتا تھا۔
اجمیر میں ایک ہندوستانی کالج کے افتتاح پر اور جے پور میں ایک صنعتی اسکول کے افتتاحی جلسے میں ہندوستان کے گورنر جنرل کے ایجنٹ کرنیل کنینگ نے اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر اسی زبان میں تقریر کی۔ یہ مشرق قریب کے بندرگاہوں میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

سیلون، مالدیپ، انڈمان، ماری شش، پورٹ بلیر، یہاں تک کہ افریقہ کے ساحل پر بھی اس کے جاننے والے موجود ہیں۔ مسٹر شیفر نے جو اطالیہ کا خاص ترجمان تھا ، اس زبان کو عدن میں سنا اور پیرس یونویرسٹی کے ایک معزز رکن مسٹر ژوں ایپر نے بصرے کی فضاؤں کو اس زبان سے معمور پایا۔ 1863ء کا ایک رنگون ٹائمز رقم طراز ہے کہ ایک انگریزی مشن تجارتی اغراض سے رنگون پہنچا۔ وہاں کے راجہ کے لڑکے نے اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار ہندوستان کی زبان میں کیا وہ انگریزی سے نابلد تھا۔ (خطبات ڈٹاسی، بحوالہ انڈین میل 1863ء)

دوسرے ملکی فاضل شیو پرشاد نے لکھا ہے کہ یہ زبان اہل ہند کی مادری زبان ہے۔ ہندوستان کے ہر حصے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
ڈٹاسی کے ایک شاگرد کا بیان ہے کہ اس نے جہازی افسر ہونے کی حیثیت سے کرو منڈل سے لے کر مالا بار تک بارہ سو میل کا سفر کیا۔ اثنائے سفر میں باوجود اس کے کہ تامل اس کی مادری زبان تھی اس نے جان بوجھ کر ہندوستان کی زبان میں گفتگو کی اور ہر جگہ اس کی بات سمجھی گئی۔ اس طرح اس نے دوسری زبانوں کا بھی امتحان کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مقامی حیثیت رکھتی ہیں۔

سید سلیمان ندوی کہتے ہیں کہ جدے اور مکہ معظمہ میں اس زبان میں بات چیت ہوتی ہے ، انتہا یہ ہے کہ پورٹ سعید کے ملاحوں اور مصر کے بازاروں تک میں اس کے بولنے والے ملے۔ قسطنطنیہ میں اردو سیرۃ النبی اور سیرۃ عائشہ وغیرہ کے ترجمے براہ راست ترکی میں ہوئے ہیں۔ مکہ معظمہ میں ایک عالم موسی حباء اللہ سے ان کی ملاقات ہوئی جو ماسکو کے باشندے تھے اردو تصنیف ارض القرآن کو ہندوستانیوں سے پڑھتے تھے۔ (بحوالہ: ہندوستان میں ہندوستانی، مطبوعہ علیگڑھ میگزین بابت ماہ اکتوبر 1943ء)

کیا ہمارے لئے یہ بات قابل فخر نہیں ہے کہ ہند میں پیدا شدہ زبان بدیسی یونیورسٹیوں میں بڑے شغف کے ساتھ پڑھائی جارہی ہے اور اس کو وہ لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمارا کوئی فرد اگر باہر مقبول ہوجاتا ہے تو ہم بڑی شان کے ساتھ سڑکوں پر اس کے گیت گاتے پھرتے ہیں اور اخباروں میں کالم کے کالم اس کے ذکر سے رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چہ جائیکہ آج ہم ہندوستان کی مقبول ترین دولت کو معرض غفلت میں ڈالنے کی تدبیر کریں۔ اور اس طرح سالہا سال کے حاصل کئے ہوئے کریڈت کو ہمیشہ کے لئے ضائع کردیں، کیا یہ بات ہمارے لئے قابل افسوس اور باعث شرم نہ ہوگی۔
ڈٹاسی کا یہ قول ہمارے لئے فی الحقیقت درس آموز اور مفید ہے، نیز بڑی حیرت و استعجاب سے سننے کے قابل ہے کہ :
"اردو ہندی کی درمیانی خلیج فورٹ ولیم کے منشیوں کی پیدا کردہ اور خواہ مخواہ ہے"۔

راجستھان میں اردو کی ابتدا اور ترقی کے اسباب
راجستھان ہندوستان ہی کا ایک حصہ ہے اور ہندوستان میں تشکیل زبان کی جو صورتیں پیدا ہوئی ہیں ان کا مجمل حال سطور بالا سے معلوم ہو جاتا ہے یہاں بھی صورت ترکیب تو وہی رہی البتہ دیسی زبان دہلی و میرٹھ کی زبان سے مختلف تھی۔ لب و لہجہ میں جس کا کچھ فرق آج بھی محسوس ہوتا ہے اس اختلاف کا بین سبب وہی کسی مشترک اور منظم زبان کا موجود نہ ہونا تھا جس کی مثال کہیں کہیں آج بھی موجود ہے۔

پرتھوی راج راسو، نیز دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف اللسانی کے اس دور میں مشترک زبان کا ہیولی ملک میں تیار ہونے لگا تھا ہوسکتا ہے کہ راجستھان بھی اس سے متاثر ہوا ہو لیکن اس وقت کوئی ایسی شہادت موجود نہیں جس کی بنا پر یقینی طور پر یہ فیصلہ کیاجاسکے البتہ مادی شہادتوں کی بنا پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہاں بھی ایک مشترک زبان کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس ہورہی تھی، نیز اور حصوں کی طرح راجستھان میں بھی عربی فارسی داں طبقے نے عوام کی اس ضرورت کو پورا کیا۔

عالم گیر کے بعد اس کی اولاد میں تخت و تاج کے جھگڑوں نے اور پھر 1857ء کے ہنگامۂ عظیم نے راجستھان کو اس سسلہ میں متعد بہ امداد پہنچائی ، یہ علاقہ دہلی اور یوپی کے اکثر مقامات سے قریب تھا، یہاں کے رئیس ہنر پرور اور شریف نواز تھے۔ علم و فضل کی قدر کرنا ان کا بڑا اصول تھا، پس انہوں نے آوارگان وطن کو اپنی آغوش محبت میں بخندہ پیشانی جگہ دی اور معاش کی فکروں سے آزاد کر دیا۔ (بحوالہ گل رعنا صحیفہ تاریخ اردو، ص:252)

بعہد برطانیہ بھی بہت دن تک تو سرکاری زبان فارسی رہی اس کے بعد 1833ء سے اردو نے اس کی جگہ لے لی ، راجستھان میں بھی قطع نظر دیر اور ادیر اس پر عمل درآمد کیا گیا۔ میدان ہموار اور ذہنیتیں مرتب ہو چکی تھیں۔ صرف صفائی شستگی اور آرائش کو ترقی دیجاتی رہی۔ تحقیقات کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا، ارباب قلم نے وقیع اور ٹھوس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ انہماک کے زیادہ ہونے سے نت نئی گل کاریاں ظہور میں آئیں۔ شعرو سخن کا مذاق منجھ کر معراج ترقی کی منزلوں پر پہنچ گیا۔ ہمارا دور آج انہی مدارج میں گذر رہا ہے۔اور طرح طرح کے مشکلات ہوتے ہوئے بھی سخت جان اردو کا پیکر ہاتھ پاؤں چلانے سے باز نہیں آتا۔

جے پور
1869ء میں یہاں سرکاری زبان اردو تھی ، اور دفتروں میں اس سے کام لیاجا رہا تھا۔ نیز 1873ء میںسوشل سائنس کانگریس نے ایک اردو اخبار بھی جے پور سے نکالا، راجستھان میں اس کانگریس کو بڑا مرتبہ حاصل تھا۔ دیگر اغراض و مقاصد کے علاوہ اردو زبان کا پڑھایاجانا بھی اس کا نصب العین تھا۔ 1869ء کے ایک اجلاس میں رئیسوں کے لئے کالج کھولے جانے کی تجویز اس کانگریس نے کی تھی۔ جس کا نتیجہ میو کالج اجمیر کی شکل میں آج بھی موجود ہے اسی کالج میں السنہ مشرقیہ کے علاوہ ریاست نے اور مدارس بھی قائم کئے جن میں اردو برابر پڑھائی جاتی رہی۔ سینکڑوں طلبا ان مدارس سے نکلے جس سے اردو خواں طبقہ کی تعداد روز بروز ترقی پر رہی یوں بھی انتظام کچھ اس قسم کا رہا کہ دیہاتی، باشندوں کو بھی اردو سے آشنا اور دو چار رہنے کا موقع ملا۔ مقامی زبان میں اردو دخیل ہو گئی یہاں تک کہ مردم شماری کی رپورٹیں بھی ببانگ بلند کہنے لگیں:
"آس پاس کے لوگوں اور مقامی باشندوں کے میل جول سے کم و بیش مقامی بولیوں کی خصوصیات فنا ہوتی جارہی ہیں اس کے علاوہ ہندی اور اردو سرکاری زبانیں ہیں اس لئے لوگ ہندی اور اردو کے الفاظ بولنا فخر سمجھتے ہیں نہ صڑف عام طور پر بلکہ ان کے گھروں میں بھی یہی الفاظ بولے جاتے ہیں، گویا اس طرح مقامی بولیوں کی ایسی صفات جن سے وہ پہچانی جا سکیں بتدریج ختم ہوتی جارہی ہیں۔
جے پور کے لوگ خواہ شہر میں رہتے ہوں یا مواضعات میں زیادہ تر غیر زبان کے الفاظ بولتے ہیں جویا تو ہندی زبان کے وہتے ہیں یا اردو زبان کے۔ اور ایسے الفاظ کا استعمال دن بدن ترقی پر ہے۔"
(جائزہ، بحوالہ رپورٹ مردم شماری جے پور 1911ء)

بوستان خیال کے مشہور مترجم خواجہ امان کے بیٹے نواب محمد زین العابدین خاں عارف دہلوی کے فیض یافتہ شاگرد مرزا راقم سے اردو میں جو ترقی اور تقویت جے پور کو حاصل ہوئی محتاج بیان نہیں ، راقم 1890ء تک جے پور میں مستقلاً سکونت پذیر تھے۔

غالب دہلوی کے مایہ ناز شاگرد سید مرزا آگاہ بھی جے پور کی فضاؤں کو اردو کے نغموں سے مالا مال کرتے رہے ہیں۔
میر محمد علی جویا مرادآبادی تاریخ گوئی کے باکمال استاد 1862ء میں جے پور آئے ان کی تصنیف خیاباں تاریخ میں اس زمانے کی صدہا تاریخیں موجود ہیں جن سے واقعات کی تاریخ معلوم کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے اور فن تاریخگوئی کے لئے یہ کتاب ایک مستقل معلم کا کام دیتی ہے۔

مولوی سلیم الدین تسلیم نارنولی مولوی سلطان الدین کی کتاب حکمت کے مصنف حکیم محمد سلیم خاں خستہ، اور متعدد بلند پایہ اردو کے مایہ ناز فرزند اسی دور میں جے پور کی سرزمین کے لئے باعث فخر بنے اور زبان کو معراج کمال تک پہنچاتے رہے۔

خیراتی خاں دلسوز، محمد شفیع خاں محشر ، بشمبر ناتھ بصری دھلوی حافظ قمر الدین نادان، ملک فضل حسین فرحت رئیس پالی، محمد غازی الدین حیدر خاں سر شار شیخ ریاض الدین فدا، سرور)کوئی ہندو صاحب) لا لہ جوالاناتھ سعد، جیون رام شوق، گھمنڈی لال عاشق، مراز یحسوب علی، عامل دہلوی ، منارام ہاتفی، لالہ کندن لال منشی ، پنا لال غنی، ہیرا لال موتش، لالہ بدری بدر گنگا سرن سرن، وغیرہ وغیرہ قدیم وجدیدیت عربلا امتیاز مذہب و ملت اردو کی خدمات کرتے رہے ہیں۔ جن کا کلام دہلی ،لکھنو ، آگرے کے اساتذہ و مشاہیر شعرا کے دوش بدوش ہندوستان کے وقیع رسائل میں نظر آتا رہا ہے ، تذکرہ نویسوں نے ان کا ذکر اپنے تذکروں میں کیا ہے جو فی الوقع راجستھان خصوصاً جے پور کے لئے باعث فخر و مباہات ہے۔

راجستھان کی اولیات
حضرات مذکورہ بالا سطور سے قبل آزادی ہمیں اپنے صوبے کے علمی و ادبی مشاغل کا حال بالوضاحت معلوم ہوجاتا ہے نیز راجستھان میں شعروسخن اور تخلیقات کی چہل پہل کا اندازہ بھی بخوبی ہوتا ہے ، علاوہ بریں بعض امور میں اس صوبے کو اولیت کا مرتبہ بھی حاصل ہے، ملاحظہ ہو۔
منشی دیبی پرشاد بشاش (جودھپور) کے ایک صاحب نے آثار الشعرائے ہنود کے نام سے ہندو شعرائے اردو کا ایک گراں بہا تذکرہ پیش کیا ہے۔
ہندوستان میں اس سے پہلے، جہاں تک ہمیں معلوم ہے، ہندو شعراء کا کوئی تذکرہ معرض تحریر میں نہیں لایا گیا۔ اس کے بعد علامہ دتاتر بہ کیفی دہلوی ،خواجہ عشرت لکھوی اور شاید علامہ نیاز فتحپوری نے ہندو شعرا کے تذکرے لکھے ہیں لیکن 'الفضیلت للمتقدم' کے تحت ہماری نظر "آثار الشعرائے ہنود" پر پڑتی ہے۔ صاحب شعرا الہند نے بھی اس کے مندرجات کو اپنے تذکروں کے سلسلے میں درج کیا ہے ، معہ انتخاب کلام اس میں شعر کا ذکر ہے۔
اسی طرح ہندو شعرائے فارسی کا تذکرہ بھی بشاش نے لکھا ہے لیکن اس وقت وہ ہمارے دائرہ موضوع سے باہر ہے۔

دوسرے عربی صرف و نحو پر مشتمل ایک ضخیم کتاب "یادگار ماضی" کے نام سے اردو زبان میں جانی بہاری لال بھرت پور نے لھی۔ جن کا تخلص رضی تھا ، یہ کتاب بھی اپنی قسم کی پہلی اور مبسوط کطاب ہے، بس کے قبل کے بعض چھوٹے چھوٹے رسالے ہماری نظر سے گذرے ہیں لیکن وہ طلباء کی ضرورت کے لئے بھی کافی نہیں ہیں۔ ان میں استاد کو ہر باب اور ہر فصل کے متعلق سیر حاصل تبصرہ کرکے سمجھانا لاحق ہوگا۔ منشی بہاری لال نے بڑی تحقیق سے کام لیا ہے اور حسب ضرورت چوٹی کے علمائے صرف و نحو سے استنباط کرکے اپنی مفید رائے بھی لکھی ہے، جس سے عربی زبان میں ان کا مبصر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ پہلی جلد بڑے سائز کے 714 صفحات پر مشتمل ہے جس میں صرف کا بیان ہے اور دوسری نحو سے متعلق ہے وہ بھی اتنی ہی ضخیم ہے۔

شیخ سعدی کی گلستاں کا ترجمہ بھی جانی بہاری لال نے 1869ء میں ارباب ذوق کو پیش کیا ہے جس پر مصنف کو محکمہ یوپی سے پروانہ ملا تھا۔ اس سے پہلے کا کوئی ترجمہ ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ لفٹنینٹ گورنر جنرل نے بھی اس پر اظہار خوشنودی کیا ہے۔ ترجمہ فارسی نثر کا نثر میں اور نظم کا نظم میں ہے یہ بھی اس کتاب کی خصوصیت ہے۔
سید محمود طور نے جو بھرت پور کے رہنے والے تھے ایک کتاب "نور البصر" کے نام سے تصنیف کی یہ کتاب عینکوں کی تحقیقات پر مشتمل ہے، وطن میں آئے دن عینکوں کا شوق تو بڑھا لیکن یہ موضوع آج تک اچھوتا ہے۔

ماخوذ از کتاب:
روئیداد (کل راجستھان اردو کنوینشن : منعقدہ 29-31 مارچ/1956)، اشاعت: ستمبر-1956

The contribution of Rajasthan in the development of Urdu, Essay by: Qazi Merajuddin

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں