ترجمہ اور اس کی اہمیت - ڈاکٹر سید داؤد اشرف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-19

ترجمہ اور اس کی اہمیت - ڈاکٹر سید داؤد اشرف

ڈاکٹر سید داؤد اشرف (پیدائش: 1938 - وفات: 18/اپریل/2021ء)، حیدرآباد کے ممتاز محقق، ماہر دکنیات اور علمی و ادبی شخصیت رہے ہیں۔ وہ ممتاز صحافی سید علی اشرف (مدیر اردو روزنامہ "تنظیم") کے بڑے فرزند تھے۔ آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں تقریباً تین دہائیوں تک وہ برسرکار رہے۔ انگریزی میں پانچ اور اردو میں ایک درجن سے زائد کتب انہوں نے تصنیف کی ہیں۔ سابق ریاست حیدرآباد دکن اور نظام سابع میر عثمان علی خان کے دورِ حکومت پر ان کے تحقیقی مضامین روزنامہ "سیاست" میں شائع ہوئے اور مقبولیت کے بلند معیار کو پہنچے۔
انہیں خراج عقیدت کے بطور ان کی دوسری اردو تصنیف "اور کچھ بیاں اپنا" سے اخذ شدہ ان کا ایک اہم اور قابل مطالعہ مضمون ذیل میں پیش خدمت ہے۔
حجری دور میں بھی ہر انسان کی کوئی نہ کوئی بولی ہوگی۔ مختلف گروہوں کی مختلف بولیاں ہو سکتی ہیں، ادائے مطلب کے لیے بولے جانے والے صوتی اشاروں میں اختلاف کے پیدا ہوتے ہی، ترجمہ کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی اور "ضرورت تو ایجاد کی ماں ہوتی ہے"۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ترجمہ ابتدائی تہذیب سے ہی انسانی روابط کے ایک اہم ادارے کی حیثیت سے کارفرما ہے اور ترجمے کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی تاریخ ہے۔ ترجمے کے فن سے انسانیت نے جو فیض اٹھایا ہے، اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اگر یہ فن نہ ہوتا تو آج ہمارا علم محدود ہوتا اور انسانی تعلقات اتنے گہرے اور وسیع نہ ہوتے۔ ترجمے کے فن نے تاریخ میں جو اہم ترین رول ادا کیا ہے اس کی داستان اتنی طویل ہے کہ اسے ایک مختصر مضمون میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم یہ مضمون ترجمے کے کاروبار کے پھیلاؤ، اس کی اہمیت اور اثرات سے متعلق ہے۔

اپنی زبان میں کتابیں تصنیف کرنے کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن سابقہ انسانی تجربے کی روشنی میں دیگر زبانوں کے تراجم کی ضرورت اور افادیت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ اگر کوئی صرف "افلاطون" کو ہی جاننے کا دعویٰ کرے تو وہ یقیناً افلاطون کو بھی صحیح معنوں میں نہیں جانتا، اپنے آپ کی پہچان کے لیے بھی دوسروں کو جاننا ضروری ہوتا ہے۔ تقابلی مطالعہ نئے معیارات اور امکانات کو جنم دیتا ہے۔ کسی تخلیقی کام کا ترجمہ بھی ایک تخلیقی عمل سے مشابہ ہوتا ہے اور تجربے کے عمل کے قطع نظر اصل تخلیق کے خارجی لباس کی تبدیلی نئی تخلیقات کی محرک بھی ہو سکتی ہے۔ اس اعتبار سے دیگر زبانوں کے ادب کے تراجم خواہ وہ کلاسیکی ادب کے ہوں یا جدید ادب کے، غیر معمولی اہم اور مفید ہوتے ہیں۔ یہ تراجم ادبی افق کو وسیع تر کرتے ہیں اور ایک عالمی و کائناتی تصور پیدا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔

ہندوستان میں تعلیم یافتہ افراد عام طور پر جس غیرملکی زبان سے واقف ہیں وہ انگریزی ہے۔ اس لیے ہمارا ملک اس مواد ہی سے زیادہ استفادہ کر سکتا ہے، جو انگریزی زبان میں موجود ہے۔ دیگر غیرملکی زبانوں کا ادب ہو کہ جدید علوم کے بارے میں معلومات، ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ انگریزی تراجم ہی کے ذریعہ آسان ہے۔ اگر بازار سے خریدی ہوئی پیٹنٹ کے ترکیب استعمال کے پرچے انگریزی کے بجائے جرمن زبان یا کسی اور یورپی زبان میں ہوں تو ان ادویات کا بڑے پیمانے پر عام استعمال کیوں کر ممکن ہو سکے گا؟
اسی طرح اگر سائنس، ٹکنالوجی اور خلائی تحقیقات پر سیر حاصل مواد اور دیگر فنی کتابیں روس سے روسی زبان میں ہندوستان بھیجی جائیں تو ان سے وسیع پیمانے پر کس طرح استفادہ کیا جا سکے گا؟ درسی اور فنی کتابوں، ادویات، مشنری آلات و اوزار وغیرہ کے استعمال و استفادہ میں زبان کی رکاوٹوں کو ترجمہ ہی کے ذریعہ دور کیا جا سکتا ہے۔
سائنس کی ترقی کے سبب آج دنیا بہت سکڑ گئی ہے۔ جس طرح اقوام اور ممالک آج کے زمانے میں ایک دوسرے کو بہت کچھ دیتے اور لیتے ہیں، اسی طرح مختلف زبانوں کا ادب بھی ایک دوسرے کو بہت کچھ دیتا اور حاصل کرتا ہے۔ دیگر زبانوں کے اعلیٰ اور معیاری ادب کو اپنی زبان میں منتقل کرنے سے نہ صرف یہ کہ مختلف قوموں کے رنگا رنگ ادبی خزانوں سے واقفیت ہوتی ہے بلکہ اس سے ذہن اور کردار کو ایک نئی تربیت کی مسرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہ تراجم جس زبان کے ادب کا جز بنتے ہیں، اس کو اپنے حسن سے مالامال بھی کر دیتے ہیں۔

جہاں تک اردو ادب کا تعلق ہے، عالمی ادب کے تراجم سے یقیناً اس کا دامن وسیع ہوگا اور اردو دنیا نئے رجحانات و تحریکات اور جدید افکار و اسالیب سے روشناس ہوگی۔ اردو میں فارسی، عربی اور انگریزی کتابوں کے تراجم کثرت سے موجود ہیں، ان کے علاوہ سنسکرت، ہندی اور علاقائی زبانوں کے ترجمے خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ روسی، فرانسیسی، جرمنی اور ترکی زبانوں کی بھی بہت ساری کتابوں کے ترجمے کیے گئے ہیں جو یا تو مختلف اداروں کی کوششوں کا نتیجہ ہیں یا انفرادی کوششوں کا حاصل ہیں۔
اردو میں ترجمہ کی رفتار کو تیز کرنا ضروری ہے۔۔۔ کیونکہ اردو میں ترجموں کی تعداد دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اردو میں ہر شعبہ اور موضوع کی معیاری کتب کا ترجمہ ہونا چاہیے۔ علاقائی زبانوں کے معیاری اور نمائندہ تصانیف کا ترجمہ بھی ضروری ہے، قومی یکجہتی کی خاطر اس کی بڑی اہمیت ہے۔ ہماری زبان میں طبیعیاتی، حیاتیاتی اور سماجی علوم کا سرمایہ زیادہ نہیں ہے، اس کے لیے بھی ترجمہ کا سہارا لینا ہوگا۔ جہاں عربی اور فارسی کی اصطلاحات کے ذریعہ جدید علوم اور سائنسی علوم کا بہتر طور پر ابلاغ ممکن نہیں، عربی اور فارسی کی بجائے انگریزی سے اصطلاحات مستعار لینی ہوں گی یا پھر ایسی اصطلاحات کو جوں کا توں اپنا لینا چاہیے جو عالمی اصطلاحات بن چکی ہیں۔ یہ اصطلاحات روسی زبان کی بھی ہو سکتی ہیں، جرمن یا کسی دوسری زبانوں کی بھی۔
آج کے برق رفتار زمانے میں مخففات کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ انگریزی زبان میں نئے الفاظ کے داخلہ کے مقابلہ میں مخففات کے اضافہ کی رفتار حیرت انگیز حد تک تیز ہے۔ آج کی اس دنیا میں سائنس اور ٹکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کی وجہ سے نئی معلومات میں اضافہ کی رفتار اتنی تیز ہے کہ صدہا سال کی جمع کردہ معلومات کو اگر ایک ترازو کے پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں گذشتہ چند سال کے عرصہ میں پیدا ہونے والی نئی معلومات کو رکھا جائے تو کوئی عجب نہیں، تازہ معلومات کا پلڑا ہی جھک جائے۔ ادائے مطلب میں کم سے کم اور موزوں ترین الفاظ کا استعمال اور مخففات سے بھرپور استفادہ آج کے دور میں ناگزیر بنتا جا رہا ہے۔ اس طرح ترجمے کا فن آج ایک باقاعدہ اور سائنٹفک فن بن چکا ہے۔

سائنسی اور ٹیکنیکل موضوعات پر لکھی گئی کتابوں کے تراجم کے لئے ضروری ہے کہ مترجم اس علم پر عبور رکھتا ہو جس پر کتاب لکھی گئی ہے۔ ان تراجم میںنظریات اور تصورات کی صحت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس لئے خیال صحت کا تجزیہ ان موضوعات کے ایسے ماہرین سے کروانا ہوگا جو زبان پر بھی قدرت رکھتے ہوں ادبیات کا ترجمہ علمی اور سائنسی موضوعات پر لکھی گئیں کتابوں کے ترجمہ سے زیادہ مشکل ہے اور خصوصاً شاعری کا۔ بعضوں کا تو خیال ہے کہ ایک زبان کی شاعری کا دوسری زبان میں ترجمہ ہوہی نہیں سکتا۔یہ کہنا بڑی حد تک درست ہے کہ تخلیق کا ہر عمل ایک طرح سے ترجمہ کا عمل ہے۔ کیونکہ آرٹ بجائے خود کسی غیر صوتی تجربہ کو صوتی شکل دینے کی کوشش کا نام ہے۔ ترجمے میں ہم تخلیق کے ایک ثانوی عمل پر کاربند رہتے ہیں۔ ترجمے کے عمل میں مترجم کسی ایک زبان کے وجدانی تجربے کی دوسری زبان میں باز آفرینی کی کوشش کرتا ہے۔

ترجمہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لئے بعض ضروری لیاقتیں اور شرائط درکار ہیں مثلاً جس زبان میں ترجمہ کیاجارہا ہے وہ مترجم کی مادری زبان ہو تو بہتر ہے۔ مترجم کو ملتے جلتے تجربے اور تخیل کی باز آفرینی کرنی چاہئے۔ محاورے کے لفظی ترجمے کی بجائے ملتے جلتے محاورے کا استعمال کیاجانا چاہئے۔ چونکہ کسی زبان میں دو لفظ ایسے نہیں ملتے جو مکمل طور پر ایک دوسرے کے مترادف ہوں تو کس طرح ایک لفظ کا بھرپور مترادف دوسری زبان میں مل سکتا ہے۔ اس لئے مترجم کو قریب المعنی الفاظ کا استعمال کرنا چاہئے۔ کسی انگریزی کی کتاب کے اردو ترجمے پر جو ترجمے کی تمام ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، بہتر ہوگا اگر اردو سے واقف کوئی ایسا شخص جس کی مادری زبان انگریزی ہو اور اپنی مادری زبان پر عبور ہو نظر ثانی کرے۔ ایشیا ہی کے ایک ملک جاپان کے ادب کا جائزہ لینے سے ترجمے کی اہمیت اور افادیت کا بھرپور طور پر اندازہ ہوگا۔ جاپان کے ادب کو عالمی ادب کا درجہ حاصل ہے۔ اس ملک کے ادب کو جو بلندی اور عظمت حاصل ہوئی ہے اس کے کئی وجوہ ہیں مگر جاپانی ادب کو ایک خاص سطح سے اوپر لے جانے والا سب سے اہم سبب غیر ملکی کتابوں کا جاپانی زبان میں ترجمہ ہے۔ ان تراجم نے جاپانی زبان کی تخلیقات یا تحریروں کا مزاج بنایا ہے ، ایک خاص منصوبے کے تحت جن بے شمار کتابوں کا جاپانی ترجمہ کیا گیا ہے اس کی مثال پیش کرنا ناممکن نہیں، جاپانی عوام کو پڑھنے سے جو لگاؤ اور دلچسپی ہے اور وہاں پر غیر ملکی کتابوں کا جس وسیع پیمانے پر ترجمہ ہوتا ہے اس کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں کہیں نہ تو اتنی کتابیں پڑھی جاتی ہیں اور نہ کسی ملک میں اتنی بڑی تعداد میں غیر زبانوں کی کتابوں کا ترجمہ کیاجاتا ہے۔یہ بات ہم بڑی سہولت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ عالمی ادب کی تمام اہم کتابوں کا جاپانی زبان میں ترجمہ موجود ہے۔

دوسری طرف ہمارے ملک کی صورت حال یہ ہے کہ انگریزوں کے طویل دورِ حکومت کی وجہ سے ہمارے اہل قلم میں برطانوی ادبیات سے ہم آہنگی کرنے کا رجحان پیدا ہوا، ہمارے ملک کے جدید ادب کی آبیاری بڑی حد تک برطانوی سر چشموں سے ہوتی ہے ، اور جہاں تک غیر برطانوی ادب کے بارے میں ہماری تھوڑی بہت معلومات ہیں وہ انگریزی ترجموں کے وسیلے سے ہے ، یہ صورت کچھ اردو کی ہی نہیں بلکہ ہندی، بنگالی، گجراتی، تلنگی، مرہٹی، تامل ، ملیالم اور دوسری سب ہی علاقائی زبانوں کی یہی کیفیت ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارا ادب جہاں تک کسی رجحان سے مطابقت پید ا کرنے کا ساول ہے بڑی حد تک ، یک رخہ ہوگیا ہے جب کہ دنیا کی تقریباً تمام اعلیٰ تخلیقات کا جاپانی زبان میں ترجمہ ہونے کی وجہ سے جاپانی ادب عالمی ادب کے دھارے سے مل گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے تعلیم یافتہ ہندوستانیوں نے انگریزی زبان میں ایسی دستگاہ حاصل کی ہے کہ ان کے ہم عصر جاپانی کبھی ایسی ماہرانہ قدرت کا تصور بھی شائد نہ کرسکیں۔ ایک لحاظ سے یہ اچھی بات ہے کہ ہم غیر ملکی ادب کو راست طور پر جذب کریں، بہ نسبت اس کے کہ جاپانیوں کی طرح بالواسطہ ایسا کیاجائے لیکن ہندوستانی انگریزی ادب اس وقت تک نہیں پڑھ سکتے۔ جب تک کہ وہ ایک خاص عمر تک نہ پہنچ جائیں۔ حالانکہ اس عمر تک جاپانی عالمی ادب سے ایسی یگانگت اور واقفیت حاصل کرلیتے ہیں جیسی انہیں اپنے ادب سے ہوتی ہے۔

اس صورت حال کی وجہ سے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ترجمہ کے تعلق سے ہم ایک منصوبہ بند پروگرام پر عمل کریں۔ یہ پروگرام ایساہو جو بامقصدی، تعمیری اور وقت کے تقاضوں کی تکمیل کرنے والا ہو ، تمام ممکنہ ذرائع اور وسائل کو منظم طور پر یکجا کرکے مربوط اور ہم آہنگ طرکقے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں چند سود مند تجاویز مرتب کر کے ان پر عمل کیاجاسکتا ہے ، مثلاً ہندوستان میں مترجمین کو با عزت مقام ملنا چاہئے ادبی انجمنوں کی جانب سے نہ صرف تخلیفی کارناموں کو بلکہ اچھے ترجموں کو بھی انعامات دئے جانے چاہئیں۔ ہماری ریاستیں حکومتیں، ترجموں کا کام کروارہی ہیں لیکن یہ ترجمے ایک ہندوستانی زبان سے دیگر ہنودستانی زبانوں کی حد تک ہی محدود ہیں۔ اس کی بہر حال ایک قوم اور ایک ملک کے تصور کو عام کرنے کے لئے بڑی ضرورت ہے۔ لیکن قومی یک جہتی کا کام دراصل قومی ترقی کی بنیاد پر ہونا چاہئے کیونہ ادب کی ترقی ملک کی ترقی کا ایک اہم جزو ہے۔

ہمارے یہاں چونکہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں ہی میں باقاعدہ مطالعہ کا انتظام ہوتا ہے ، اس لئے ان تعلیمی اداروں میں دوسری زبانوں سے متعلق شعبوں کی تنظیم کو تعلیم ، تدریس ، تحقیق اور اشاعتی کاموں پر زیادہ سے زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ترجموں اور ترجمے کے فن کو ثانوی تعلیم کی سطح سے لے کر اعلیٰ جامعاتی سطح تک نصاب مطالعہ اور تحقیق میں اہم موضوع کی حیثیت دی جانی چاہئے۔ سیاسی اور سفارتی سطحوں پر بھی ترجمہ کے کام کو ترقی دینے کے مواقع آج کی دنیا میں بہت کچھ ھاصل ہیں، کسی بھی ملک میں غیر ملکی سفاتی دفاتر اس ملک کی زبانوں میں اپنے ملک کے ادب اور کتابوں کے ترجمے کرواتے ہیں۔ ہر ترقی یافتہ ملک میں بیرونی زبانوں میں اپنے ملک کی کتابوں کے ترجمے اور اپنے ملک کی زبانوں میں بیرونی ادب کی منتقلی کے کام وسیع وعظیم پیمانے پر جاری ہیں، یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ترجمے سے صرف مفید اور سود مند کام ہی نہیں لئے جاتے ، یہ فن خطرناک اور تباہ کن بھی ہے، ترجمے سیاسی استحصال، پروپیگنڈہ اور سرد جنگ کا ایک موثر ہتھیار بن چکے ہیں اور غیر صحت مند اور منفی اثرات کے حامل بن کر رہ گئے ہیں۔ اس خطرناک رجحان کی سختی سے مذمت کی جانی چاہئے، ترجموں کا مقصد بنیادی طور پر علوم و فنون کی ترقی ایک دوسرے کے ادبی و تہذیبی ورثہ سے واقفیت اور بین الاقوامی امن دوستی اور بھائی چارہ کو فروغ دینا ہی ہونا چاہئے۔

***
ماخوذ از کتاب: اور کچھ بیاں اپنا (تنقیدی مضامین)
مصنف: ڈاکٹر سید داؤد اشرف (اشاعت: 1980ء)

The significance of Translation. Article: Dr. Syed Dawood Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں