اردو کے معروف ادیب، نقاد اور صحافی رہے ہیں جن کی تصنیف کردہ کتب کی تعداد تقریباً پچاس سے زائد ہے۔ حساس سماجی و سیاسی موضوعات پر اپنی کہانیوں کے ذریعے ذوقی نے اردو دنیا میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ وہ ایسے زود نویس قلمکار تھے جن کا قلم مقصدی اور تعمیری سوچ کے ساتھ متحرک رہا۔ گیارہ سال کی عمر سے اردو کے تخلیقی میدان میں داخل ہونے والے صوبہ بہار کے اس منفرد قلمکار نے دہلی کے ایک اسپتال میں بعمر 59 سال اپنی زندگی کی آخری سانس لی۔
مشرف عالم ذوقی 1980ء کے بعد ابھر نے والے افسانہ نگاروں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے ناول بھی لکھے اور افسانے بھی اور ان کی یہ دونوں ہی اصناف اپنی انفرادی خصوصیات کے باعث قاری کو اپنی طرف منعطف کرتے ہیں۔ "بھوکا ایتھوپیا" مشرف عالم ذوقی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو 1993 میں شائع ہوا تھا۔
یہی مجموعہ مشرف عالم ذوقی کو خراج عقیدت کے بطور تعمیر نیوز کے ذریعے پیش خدمت ہے۔ تقریباً تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم 15 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
صفی سرحدی ذوقی اور ان کے فن کے تعارف میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔مشرف عالم ذوقی۔۔۔ ہندوستان کے فکشن نگاروں میں اپنی منفرد تخلیقات کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے چودہ ناول اور افسانوں کے آٹھ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ موجودہ ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ان کے ناول 'مرگ انبوہ'، اور 'مردہ خانے میں عورت' نے عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ انھوں نے اپنے ہم عصر ادیبوں کے بہترین خاکے بھی لکھے۔ انھوں نے دیگر اصناف میں بھی متعدد کتابیں لکھیں، ان کی مطبوعات کی کل تعداد 50 سے بھی زیادہ ہے۔
مشرف عالم ذوقی 24 نومبر 1962 کو بہار کے ضلع آرہ میں پیدا ہوئے اور مگدھ یونیورسٹی، گیا سے انھوں نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1992 میں ان کا پہلا ناول "نیلام گھر" شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے ناولوں میں "شہر چپ ہے"، "مسلمان"، "بیان"، "لے سانس بھی آہستہ"، "آتشِ رفتہ کا سراغ" 'پروفیسر ایس کی عجیب داستان' ، "نالۂ شب گیر" اور "مرگ انبوہ" خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
ذوقی کا فکشن متنوع موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ برصغیر کے اقلیتی طبقوں کے مسائل اور سماجی و انسانی سروکاروں کی انھوں نے اپنی تحریروں میں بھرپور ترجمانی کی۔ وہ موجودہ عہد کی گھٹن، صارفیت اور سیاسی ظلم و زیادتی کے خلاف مسلسل احتجاج کرتے رہے۔ ان کا فکشن اردو تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندی اور دوسری زبانوں کے رسائل و جرائد میں بھی ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔ وہ اس عہد کے ان فن کاروں میں سے تھے جن کا تخلیقی کینوس وسیع و ہمہ رنگ تھا۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کئی ادبی اداروں نے انھیں مختلف اعزازات سے بھی نوازا ۔ آخری ایوارڈ انھیں ادارہ کسوٹی جدید کی طرف سے اِس سال کے شروع میں دیا گیا تھا۔
شیفتہ پروین اپنے تنقیدی مقالے "مشرف عالم ذوقی اور بھوکا ایتھوپیا" میں لکھتی ہیں ۔۔۔ذوقی کو بچپن میں بچوں کو کہانیاں سنانے کا بیحد شوق تھا اور شاید یہی اس کے اندر کے کہانی کار کی پہلی منزل بھی تھی۔ رفتہ رفتہ الفاظ اپنی شکل متعین کرتے ہوئے صفحہ قرطاس پر اترنے لگے۔ اپنے اس ننھے سے کہانی کار کا تعارف مشرف عالم ذوقی نے بھوکا ایتھوپیا کے پیش لفظ میں کرایا ہے۔ زیادہ تر بچوں کی طرح ان کے بچپن پر بھی ان کی ماں کا بہت گہرا اثر رہا ہے جو انہیں پیار سے کہانی کار بیٹا تو ضرور کہہ کر بلاتیں لیکن ان کے مستقبل کے لئے پریشان بھی رہا کرتیں۔ گیارہ (11) سال کی عمر میں ان کی پہلی کہانی "پیام تعلیم" میں شائع ہوئی اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس وقت کلام حیدری کے "مورچہ" اور" آہنگ" کا کافی شور تھا۔ تیرہ (13) سال کی عمر میں ان کا پہلا افسانہ "رشتوں کی صلیب" کہکشاں میں شائع ہوا۔ اسی سال ایک اور افسانہ "موڑ" کلام حیدری کے رسالہ آہنگ کی زینت بنا۔ ذوقی پریم چند کی اس بات سے بیحد متاثر تھے کہ ادیب تو مزدور ہوتا ہے۔ اور ادب ایک ادیب کے لئے مزدوری کرنے جیسا ہے۔ اور اسی بات نے انھیں رات اور دن کہانیوں کی تلاش میں کوشاں رکھا۔ کسی چیز کا شوق ہونا الگ بات ہوتی ہے اور اس چیز کی لگن ہونا اور بات۔ ذوقی کے اندر کہانیاں تلاش کرنے کی لگن تھی اور یہی وجہ تھی میٹرک تک ان کی کہانیاں بیسویں صدی، شمع، اور اس وقت کے تمام ادبی رسائل و جرائد کی زینت بن چکی تھیں۔
روسی ادب سے مشرف عالم ذوقی کو ایک خاص انسیت تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ زیادہ ترروسی ادیبوں کے یہاں زندگی کے گوناگوں مسائل سے نبرد آزما ہونے کی جسارت ملتی تھی۔ بورس پولوو کی The Story of A real man نے انھیں بے حد متاثر کیا تھا، اس کتاب میں ایک فوجی کا کردار جس کا پاؤں کاٹ ڈالا جاتا ہے اور جو اپنے Will Power سے اپنی خود اعتمادی دوبارہ بحال کر نے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اسی طرح انھیں ہیمنگوے کے Old man and the sea سے محبت تھی۔ ہیمنگوے کی کہانیوں کے مرد آہن ان میں نیا جوش، نیا دم خم بھرتے تھے۔ اور انھیں ہنری ملر کے موبی ڈک سے پیار تھا۔ وکٹر ہیوگو، کافکا، ورجینا وولف میں بھی انھیں اتنی ہی دلچسپی تھی۔
***
نام کتاب: بھوکا ایتھوپیا (افسانے)
مصنف: مشرف عالم ذوقی ، سن اشاعت: 1993ء
تعداد صفحات: 305
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 15 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Bhuka Ethiopia by Musharraf Alam Zauqi.pdf
فہرست افسانے | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | پیش لفظ | 7 |
1 | بھوکا ایتھوپیا | 9 |
2 | بچھو گھاٹی | 25 |
3 | مرگ نینی نے کہا | 48 |
4 | میں ہارا نہیں ہوں کامریڈ | 68 |
5 | ہجرت | 99 |
6 | مت رو سالگ رام | 109 |
7 | ہم خوشبو خریدیں گے | 125 |
8 | فنی لینڈ | 133 |
9 | پربت | 151 |
10 | مہا ندی | 160 |
11 | خیمے | 175 |
12 | تحفظ | 181 |
13 | تحریکیں | 186 |
14 | کان بند ہے | 196 |
15 | جلا وطن | 206 |
16 | ہندوستانی | 216 |
17 | دہشت کیوں ہے؟ | 228 |
18 | کتنا وِش | 239 |
19 | سور باڑی | 253 |
20 | تناؤ | 264 |
21 | کمرہ بولتا ہے | 275 |
22 | پینتالیس سال کا سفرنامہ | 287 |
23 | مجھے موسم بننے سے روکو | 296 |
Bhuka Ethiopia (Short stories), By Musharraf Alam Zauqi, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں