نواب صدیق حسن خاں - آسمانِ بھوپال کی آفتاب و ماہتاب ہستی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-17

نواب صدیق حسن خاں - آسمانِ بھوپال کی آفتاب و ماہتاب ہستی

nawab-siddiq-hasan-khan
دنیا کی یہ تماشہ گاہ خدا جانے کب سے آباد ہے ، اور نہ معلوم کب تک اس معمورۂ عالم کی رونق پذیری و ہنگامہ آرائی کا سماں یونہی رہے گا۔ ہزاروں باکمال افراد دنیا کے پردہ پر نمودار ہوئے ہیں۔ اور پھر خواب عدم میں ایسے مصروف ہوئے کہ ان کا اب کوئی نام و نشان صفحہ ہستی پر باقی نہیں رہا، شہرت و ناموری کے کتنے جلی نقوش بے شمار انسانوں نے لوح عالم پر ثبت کئے۔ لیکن یہ سارے نقش و نگار ریتلی زمین کے نقش ثابت ہوئے ، امتداد زمانہ اور گردش ایام نے ان بیل بوٹوں کو ایسا ختم کیا کہ آج تلاش و تجسس کے باوجود سراغ ملنا دشوار ہو رہا ہے۔
دور کیوں جائیے ۔۔۔۔۔

آج سے چالیس پچاس سال پہلے (نوٹ: یہ مضمون 2021ء سے تقریباً 40 برس قبل یعنی 1982ء کا تحریر کردہ ہے) جن بزرگوں کا سکہ نام آوری ساری دنیا پر چل رہا تھا، آج ان کے پہچاننے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ آج سے نصف صدی پیشتر بھوپال کی یہ سرزمین امن آئین جن صاحبان علم و فن سے معمور تھی، ایک دنیا اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ جناب مدارالمہام شیخ جمال الدین ؒ، جناب نواب والا جاہ علامہ صدیق الحسن خان صاحب، آسمان بھوپال کے وہ آفتاب و ماہتاب ہستی، جن کی روشنیاں سر زمین ہند سے گزر کر اقطار عالم کو جگمگا رہی تھیں۔

عالم اسلامی میں بھوپال جیسے غیر معروف خطۂ ارض کا علمی تعارف ہر دو بزرگوں کا علمی و عملی مساوی کی رہین منت ہے، موجودہ نسل اپنی برق روی و تیز گامی سے ان کے نقوش پا کو نظروں سے کتنا ہی اوجھل کردے۔ لیکن قدر شناس ان سے برابر فیض حاصل کرتے رہیں گے۔ اور ان بزرگوں کی قائم کی ہوئی روش ان کے لئے عروج و بلندی کی طرف رہنمائی کرتی رہیں گی۔ نوجوانوں کی وہ نئی پود جن کی شہرت کا آفتاب نصف النہار پر ہے۔ ان کو یہ حقیقت گلدستہ طاق نسیاں نہ بنانا چاہئے کہ کتنے ہی عروج و ارتقاء کے آفتاب ان مراحل کو طے کرنے کے بعد ایسے غروب ہوئے گئے ہیں کہ آج خود اس نسل کے حافظہ سے ان کا نام اور کام فراموش ہو گیا ہے۔

اگر ہمیں پائیدار شہرت اور تابدار ناموری حاصل کرنے کا خیال ہے تو ہمیں اسلاف کرام کو، اور ان کے شان دار کارناموں کو نہ بھولنا چاہئے۔ اسلاف کا یہی فریضہ حق شناسی ہے جو خود ان کو ابدی زندگی بخشتا ہے۔
آج کی صحبت میں ہم نواب والا جاہ مرحوم و مغفور کی شخصیت و سیرت سے مختصر تعارف کرانا چاہتے ہیں:

صدیق حسن نام، ابوالطیب و ابوالطاہر کنیت، نواب توفیق تخلص، امیر الملک والا جاہ لقب۔ آپ نسب ساداتِ حسینی سے تھے۔ ان کے آبا و ا اد بخارا سے نقل مکانی کرکے ورود فرمائے ہندوستان ہوئے۔ اور عہد افغان و مغل میں مختلف دیار و امصار میں ظاہری و باطنی مناصب پر متمکن رہتے ہوئے ارشاد و خدمت کے فرائض بحسن و خوبی سر انجام دیتے رہے۔ آپ کے جد امجد سید اولاد علی خاں صاحب انور بیگ بہادر مرحوم حیدرآباد کے نواب شمس الامراء کے سرکار میں باعزاز تمام رہے۔ اور حیدرآباد میں فوت ہوکر مدفون ہوئے۔

آپ کے والد مکرم مولانا سید اولاد حسن مرحوم نے اپنے والد بزرگ کی جاگیروجائیداد پر ٹھوکر مار کر اپنے اصلی وطن قنوج میں تحصیل علم میں مصروف رہے۔ بعد میں تکمیل علوم کے لئے اولاً لکھنو پھر دارالسلطنت دہلی کا رخ کیا۔ سلطنت مغلیہ کا چراغ آخری سنبھالا لے رہا تھا۔ ہر علم و فن کے ماہر و کامل یہاں مسند آرا ئے علم و فضل ہوکر ہر طرف روشنیاں پھیلارہے تھے۔

سید علامہ نے حضرت شاہ رفیع الدین ؒ کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ اور کتب حدیث و فقہ و تفسیر کی تکمیل فرمائی۔ اور استاذ الکل حضرت شاہ عبدالعزیزؒ سے تبرکاً کتب حدیث وغیرہ کی سند حاصل کی ان بزرگوں کے فیضانِ صحبت نے آپ کو اپنے آبائی مذہب تشیع کے ترک کرنے کی جرات بے محابا پیدا فرمائی۔

بعد فراغت تحصیل علوم حضرت سید احمد شہید ؒ کے دست حق پرست پر باقاعدہ بیعت کر کے جہاد فی سبیل اللہ میں آپ کے ہمرکاب رہے۔ اور بعد شہادت کامل بیس برس تک دعوت ارشاد ہدایت میں مصروف رہ کر ہزارہا بندوں کوراہ راست پر لگایا۔ آپ کی آزاد روی و زہد و قناعت کے لئے یہ واقعہ شاہد ہے کہ:

جب نظام کی طرف سے ترکۂ پدری کے سلسلہ میں فرمان نافذ ہوا، تو مخلوق خدا کی خدمت کی خاطر سب پر لات مار دی۔ تقویٰ و طہارت میں ابناء عصر میں نہایت محتاط رہے۔ بیشمار دینی مذہبی تالیفات یادگار چھوڑیں۔ ایسے بزرگ و نامور باپ کے دوسرے فرزند نواب والا جاہ مرحوم اپنی ننھیال بانس بریلی 1833ء مطابق 19/جمادی الاول 1448ھ ہجری تولد پذیر ہوئے۔

ہنوز پانچ برس کی عمر تھی کہ شفیق باپ کا ظل عاطفت ان کے سر سے اٹھ گیا اور آپ کی والدہ ماجدہ نے جو اس عہد کے نامور مفتی محمد عوض مرحوم و مغفور کی صاحبزادی تھیں ملازمت کی، آپ کی والدہ ماجدہ کو اولاد کی تربیت کا خاص ملکہ تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، اور عربی تعلیم اپنے برادر حقیقی مولانا سید احمد حسن عرشی مرحوم سے ، پھر دیگر علماء سے فرخ آباد کان پور میں تحصیل کی اور اس زمانے کے مشہور علماء سے ان کی علمی صحبتیں رہیں۔ اس کے باوجود آپ کی علمی پیاس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اور اپنے ایک رفیق درس قاضی کلو کی معیت میں دارالسلطنت دہلی کی طرف بغرض تکمیل روانہ ہوگئے ، جو نہ صرف ہندوستان کا پایہ تخت تھا بلکہ علوم و فنون کا ہمیشہ مرکز بنتا رہا۔

اگرچہ آخری دور کی طوائف الملوکی نے ان کو دارالسلطنت کے بجائے بازیچہ روزگار ، اور بجائے سر چشمہ علوم وفنون کے ماتم کدہ علم و عمل بنادیا تھا۔ مگر اس اجڑے دیار میں بقیۃ السیف ایسے اصحاب ہر علم و فن کے جلوہ افروز تھے جن کی صھبت میں مس خام کو کندن بنانے کی خاصیت موجود تھی ، چنانچہ آپ کا قیام نواب مصطفی خاں شیفتہ کے دولت خانہ پر رہا۔ اور صدرالافاضل مفتی محمد ضیاء الدین جامی مرحوم سے سلسلہ درس و تدریس شروع ہوا۔ اگرچہ آپ کا تعلیمی قیام دہلی میں کل دو سال رہا۔ لیکن علمی زندگی کا عطر یا حاصل بہار جو کچھ بھی کہا جائے، یہی زمانہ آپ کے لئے اچھا ثابت ہوا ، جو علم و تجربہ کے سالہا سال کی محنتوں سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ نے دو سال کی تھوڑی سی مدت میں سب کچھ سیکھ لیا۔ اس عصر کے اکابر ملت اور ارباب عالی قدر کی ہمنیشنی و خوش بختی سے اتفاق ہوا۔

اسی زمانہ میں ان کو اپنی خوش نصیبی سے سلطنت مغلیہ کے آخری جاہ و جلال اور سطوت و جبروت کے دیکھنے کا موقع ملا۔ پھر انہیں آنکھوں سے جنہوں نے دبدبہ جاہ و جلال اور طنطلنہ شوکت و اقبال کو دیکھا۔ اس کی تباہی و بربادی کا درد انگیز منظر بھی نگاہ عبرت سے دیکھنا پڑا۔ ایک حساس دل، اور حقیقت نگر نظر اس سے جس قدر بصیرت و عبرت حاصل کرسکتی ہے، آپ نے سب کچھ حاصل کیا۔

اجڑی ہوئی دلی نے اپنے اندر ہندوستان کے ارباب و فضل و کمال کو سمیٹ لیا تھا۔ ایک طرف شاہ دہلی ابو ظفر مرحوم نواب مصطفی خاں شیفتہ، نواب ضیاء الدین خاں مرحوم کی بزم صحبت میں ندیم رہے، تو دوسری طرف مولوی مخصوص اللہ صاحب، مولوی کریم اللہ صاحب، خواجہ ضیاء الدین صاحب کی مجالس علمی میں شریک ہوئے۔ مشائخ عصر میں شاہ احمد سعید، اور شاہ عبدالغنی کی محفل صفاء میں روحانی لذتوں سے بہرہ اندوز ہوئے۔ شعراء میں مرزا غالب، خاقانی ہند، ذوق دہلوی ، امام بخش صہبائی کے مجلس سخن میں گلہائے معانی سے دل و دماغ کو معطر کرتے رہے۔

علوم متداولہ سے فراغت حاصل کرکے مراجعت فرمائے وطن ہوئے۔ پھر بغرض تحصیل معاش باہر نکل کھڑے ہوئے اور بھوپا ل کا رخ کیا۔ یہاں پہنچ کر مدارالمہام صاحب کی خدمت میں عرضداشت بلا کسی سابقہ تعارف پیش کی۔

موصوف نے خصوصی توجہ سے کام لیتے ہوئے رئیسہ مغلیہ نواب سکندر جہاں بیگم کی خدمت میں مع سفارشی کلمات پیش کرتے ہوئے حکم منظوری حاصل کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں خدمت منشی گیری سے ترقی کر کے میر دبیری کے لئے نامزد کئے گئے۔ لیکن قضا و قدر کا فیصلہ مزید ترقیات کے لئے امتحانی کشمکشوں کے گزرنے کا ہو چکا تھا۔ کچھ ایسے وجوہ پیدا ہوئے کہ نہ صرف اس عہدے سے معزول ہوگئے بلکہ بھوپال کی اقامت کو ترک کرنے کے لئے مجبور ہوئے۔

ایک عرصہ مختلف مقامات میں قسمت آزمائی کرتے رہے۔ 1857ء کے واقعات نے خانہ نشینی کی دعوت دی۔ دو سال بعد رئیس معظمہ مرحومہ کا فرمان طلبی صادر ہوا۔ اور آپ بھوپال کے لئے روانہ ہوئے۔ قضائے الٰہی سے راستہ میں ایسے مواقع پیدا ہوتے رہے کہ بھوپال پہونچنے میں تاخیر ہوئی ادھر مخالفین نے ان کے خلاف کان بھرے۔ ناکام واپس ٹونک روانہ ہو گئے۔

نواب وزیر الدولہ مرحوم کے یہاں ملازم رہے۔ لیکن جی نہ لگا، وہاں سے واپسی کا ارادہ کر رہے تھے کہ دوبارہ فرمان طلبی رئیسہ معظمہ پہنچا یہاں پہونچ کر تاریخ نگاری کی خدمت سپرد ہوئی۔ اور بہت عزت و احترام کیا گیا۔ مدارالمہام صاحب مرحوم نے اپنی دختر نیک اختر کا نکاح ثانی آپ کے ساتھ کر کے اس مردہ سنت کو اس دیار میں زندہ کردیا۔ اس عرصہ میں نواب والا جاہ مرحوم فریضہ حج سے فارغ ہوکر جب تشریف لائے تو سر رشتہ تعلیمات کے افسر مقرر ہوئے ، پھر امیر الانشاء کے معزز خطاب سے سرفراز کئے گئے۔

نواب شاہجہاں بیگم مرحومہ جو حیات بیوگی کے دور سے گزر رہی تھیں اور نظام سلطنت کے اندر جدید اصلاحات عمل میں لانے کے لئے ،جو ایسے قابل اعتماد مشیر امور مملکت کے لئے جویا تھی ، جو ہر طرح ہمدم و محترم راز ہو، چنانچہ آپ کی نگاہ انتخاب نواب صاحب مرحوم پر پڑنے لگی۔ اور بعد ضروری کارروائی یہ تقریب سادہ طریقہ پر سر انجام دے کر عقد بیوگان کا عملی نمونہ قائم کیا اور عہدہ معتمد المہام سے آپ کو ملقب کیا گیا۔

اب آپ کے جوہر قابل کے چمکنے کا دور آگیا۔ اورنواب والا جاہ امیر الملک کے خطاب سے مخاطب ہوکر نظم ریاست میں بیش بہا اصلاحات نافذ فرمائیں۔ اور دوسری طرف علمی و مذہبی اور تصنیفی قابلیتوں کو منظر عام پر نمایاں کر کے اپنے کارہائے جلیلہ سے ایک دنیا کو روشناس کیا۔

والا جاہ مرحوم کے انتظامی کارنامے علمی و تصنیفی کارنامے یہ دونوں آپ کی زندگی کے ایسے روشن عنوان ہیں کہ ان پر سیر حاصل تبصرہ کرنے کے لئے یہ مختصر سا مضمون کافی نہیں، بلکہ کئی مجلدات درکار ہیں، تاہم مالا یدرک کلہ لا یترک کلہ کے مصداق بالکل قلم انداز نہ کرتے ہوئے اتنا عرض کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم آج جس بھوپال کے روشن مستقبل کے خواب دیکھ رہے ہیں اور جس کی پنج سالہ ترقی و تنظیم نے ملک کی مشہور و معروف شخصیتوں کو متاثر کیا ہے اس کی تعمیر و تاسیس میں ہمارے اسلاف کرام بالخصوص جناب مدارالمہام صاحب اور نواب والا جاہ مرحوم کا ہاتھ ہے۔
جناب موصوف نے اپنے عہدۂ جلیلہ پر متمکن ہوتے ہی ملکی اصلاحات نظامتوں کی تقسیم، پیمائش اراضی، طریقۂ مستاجری میں ترمیم، جنگل کا انتظام اوزان کا تعین، صیغہ عدالت ، محکمہ گیرائی، مجلس شوریٰ کا قیام، ریلوے لائن اور ٹیلی گراف آفس کا افتتاح ، خصوصاً صیغہ تعمیرات میں بھوپال کی وہ بیش بہا خدمات انجام دیں کہ ریاست میں مدنیت و شہریت کی روشنیاں ہر طرف جلوہ گر ہو گئیں۔

اس کے علاوہ اخلاقی و مذہبی تنظیمات میں ایسا سفید دستورالعمل قائم کیا کہ اہل بھوپال کی دیانت داری اور ومانت داری برٹش انڈیا میں ضرب المثل ہوگئی۔، نواب صاحب مرحوم کا دوسرا علمی و تصنیفی کارنامہ وہ ہے جس نے ریاست بھوپال کی شہرت کو ہندوستان سے گزر کر دیگر ممالک اسلامی تک پہونچایا ہے۔ انیسویں صدی کا یہ دور مسلمانانِ ہندوستان کی نکبت و فلاکت کا منحوس دور تھا۔ باد صرصر کے تیز جھونکوں نے آٹھ سو برس کی سلطنت مغلیہ کا چراغ ہی گل نہیں کیا بلکہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے شیرازہ حیات کا ہر ہر ورق بکھیر دیا تھا۔

شعائر اسلامی کا زوال، علوم و معارف مذہبی کا اضمحلال بدعات و سیئات کی گرم بازاری، مشرکانہ رسوم کی ارزانی نے ہر طرف ملک کے اطراف کو گھیر رکھا۔ ایک ایسے شخص کے لئے جو درد مند دل، اور حقیقت آشنا نگاہ رکھتا ہو ، جس نے سلطنت مغلیہ کی آخری بہار وخزاں، عروج و زوال کا چشم خو د نظارہ کیا ہوا، ایسے موقع پر خاموش ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا کسی طرح قرین قیاس نہیں ہوسکتا تھا۔ خاص کر ایسی حالت میں جب کہ خلاق عالم کی طرف سے اس کی فطرت میں گونا گوں محاسن و فضائل کو ودیعت کیا گیاہو، چنانچہ نواب صاحب موصوف نے اپنے لئے لائحہ عمل منتخب کیا وہ نشر علوم اسلامی اور اشاعت معارف دینی تھا۔ اس سلسلہ میں آپ کی مساعی جملہ ارباب علم کے لئے ممنونیت کا باعث ہے۔

آپ نے سلف صالحین کی نایاب ذخیرہ کتب کو ابتداً طبع فرما کر علمی دنیا میں فیض عام کے لئے وقف کیا، پھر ان پر مزید شروح تحریر کر کے اس کے افادہ کے دائرہ کو وسیع کیا۔ آپ کا تصنیفی عمل صرف سلف صالح کی تصانیف کی نشرواشاعت پر محدود بنہیں تھا بلکہ خود آپ نے اپنے خدا داد ملکہ سے ہر علم و فن میں طبع زاد مضامین سے اردو، عربی، فارسی ہر سہ زبانوں کو ایسے بیش بہا خیالات سے رونق بخشی ہے جو اخلاف کے لئے عمدہ دستور العمل بن سکتا ہے۔ آپ کے مولفات کے ھسن قبول کے لئے اس سے بڑھ رک اور سند کیا ہوسکتی ہے کہ خود آپ کی زندگی میں اطراف ہندوستان اور بیرونی ممالک میں یہ تالیفات پھیل گئیں اور اہل علم نے ہاتھوں ہاتھ لیا ، اور اس زمانے کے مشاہیر حالی نے عمدہ راتیں بصورت تقریظ ثبت کیں، ان ممالک کی فہرست سے جہاں جہاں آپ کی تالیفات اشاعت پذیر ہوئیں خود اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس قدر ان کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ فہرست یہ ہے :

مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، حلب، جزائر، دمشق، مصر، نجد، یمن، عراق، قدس، طرابلس، قسطنطنیہ، اصفہان، تہران، ایران، کابل، قازان، بلغاریہ ، بیروت ،خود ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں جہاں ان کی اشاعت ہوئی، وہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں، کلکتہ، بمبئی، عظیم آباد، سلہٹ، اکبرآباد، دہلی، لاہور، پشاور، لکھنو، بنارس، کشمیر، حیدرآباد،ٹونک بھوپال وغیرہ آپ کی تصانیف و تالیفات کی تعداد دو سو سے تین کے درمیان ہے۔

جن علماء عصر نے والا جاہ کے مولفات پر تنقید و تقریظ لکھی ہیں ان کی فہرست بخوف طوالت ہم قلم انداز کرتے ہیں۔ نواب صاحب مرحوم کی ذوق علمی سے عشق کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس زمانے کے ایک لاکھ روپے نایاب کتابوں کی طباعت و اشاعت پر اپنی جیب سے خرچ کرکے ان کو علماء میں ہدیہ تقسیم فرمایا۔ اسی کے ساتھ نواب صاحب مرحوم دل درد مند کے ساتھ طبع موزوںاپنے ساتھ لائے تھے۔ اگرچہ عالمانہ شان کی وجہ سے فن شعروسخن سے بحد امکاں احتراز فرماتے تھے لیکن مذاق شاعری ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کئے ہوئے تھا۔ بقول غالب۔
مانہ بودیم بدیں مرتبہ راضی غالب
شعرخود خواہش آں کرد کہ گرد دفنِ ما

تینوں زبانوں میں آپ کا کلام مطبوع و معروف ہے۔
نفح الطیب، گل رعنا، آپ کے مطبوعہ دیوان ہیں۔
نواب مرحوم جو توفیق تخلص کرتے تھے۔ اب ان کے اردو کے چند اشعار پیش کر کے اس داستان کو ختم کرتے ہیں:

پہلو میں وہ شورش ہے نہ سینہ میں وہ گرمی
یارب دل سوزاں کو ہوئی کس کی نظر آج
ہم نرخ ہوس عشق ہو اللہ کی قدرت
لو شہر محبت بھی ہے اندھیر نگر آج

زمیں کہیں نظر آئی نہ آسماں دیکھا
کہو تو کچھ اثرِ آہِ ناتواں دیکھا
مرا یہ حال ہے تاثیر سے نہ ہوں ہم چشم
یہاں نظر کبھی ڈالی کبھی وہاں دیکھا

کیا بات ہے یہ دیدۂ خونبار سچ تو کہہ
دریا سے بحث ابر سے تکرار سچ تو کہہ
توفیق حال کچھ ہے ترا اور قال کچھ
نا معتبر ہیں کیا ترے اشعار سچ تو کہہ

ماخوذ:
ہفت روزہ 'ایاز' - شمارہ: جون-1982 (بھوپال نمبر)

Nawab Siddiq Hasan Khan, an introduction Essay by: Allama Wajdi Al-Hussaini

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں