سہ ماہی نئی کتاب - پہلا شمارہ 2007 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-22

سہ ماہی نئی کتاب - پہلا شمارہ 2007 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

nai-kitab-first-issue
شاہد علی خاں (پیدائش: 1930ء - وفات: 21/اپریل 2021ء)
سہ ماہی 'نئی کتاب' کے مدیر اور مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کے سابق ڈائرکٹر، باقاعدہ ادیب، شاعر یا صحافی نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ میں ایک ایسا ادارہ تھے جس کے بغیر "مکتبہ جامعہ" کا تصور ہی محال ہے۔ وہ مکتبہ جامعہ کے معیاری جریدے "کتاب نما" کے بھی ایڈیٹر تھے اور ہر شمارے کے لئے کسی سرکردہ ادیب یا صحافی سے مہمان اداریہ لکھواتے تھے۔ مکتبہ جامعہ سے مستعفی ہونے کے بعد انھوں نے نہ صرف " نئی کتاب" کے نام سے ادبی جریدہ نکالا بلکہ اسی نام سے ایک مکتبہ بھی قائم کیا۔
شاہد علی خاں کی وفات پر انہیں بطور خراج عقیدت ان کے رسالے "نئی کتاب" کا پہلا شمارہ شعر و ادب کا ذوق رکھنے والے قارئین کی خدمت میں تعمیرنیوز کی جانب سے پی۔ڈی۔ایف فائل شکل میں پیش ہے۔
ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم 11 میگابائٹس ہے۔ رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

معروف و معتبر صحافی حقانی القاسمی، شاہد علی خاں کے انتقال پر اپنے تعزیتی مضمون "محبت کا جلی عنوان شاہد علی خان" میں لکھتے ہیں ۔۔۔
شاہد علی خاں صاحب میرے لیے ایک شجر سایہ دار تھے۔ میں نے ان کی صحبتوں میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ ادیبوں کے بہت سے قصے سنے ہیں۔ وہ خاص طورپر بمبئی کی داستان ضرور سناتے تھے۔ مکتبہ جامعہ بمبئی میں جب تک رہے، مکتبہ میں ادیبوں کا جمگھٹا رہتا۔ یوسف ناظم، باقر مہدی اور بھی دیگر شخصیات وہاں تشریف لاتیں۔ شاہد علی خاں صاحب نے پوری زندگی مکتبہ جامعہ کے لیے وقف کردی تھی۔ وقت کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ صبح جاؤ یا شام کو وہ اپنی کرسی پر بیٹھے نظر آتے اور سگریٹ ان کے ہاتھ میں ہوتا اور چائے کی پیالی بھی اکثر ہوتی۔ میں نے بہت کم سگریٹ اور چائے کے بغیر بہت کم انہیں دیکھا ہے۔
شاہد صاحب کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ دُھن کے پکے ہیں جو ٹھان لیتے ہیں وہ کرگزرتے ہیں۔ انجام کی پرواہ نہیں کرتے، چنانچہ جیسے ہی مکتبہ جامعہ سے رشتہ ٹوٹا تو انہوں نے فوراً نئی کتاب کی داغ بیل ڈال دی۔ ابوالفضل انکلیو کے ٹھوکر نمبر 3 میں انہوں نے اپنا اشاعتی ادارہ قائم کیا۔ وہاں وہ اکثر اکیلے بیٹھے رہتے تھے۔ دیگر بیٹھنے والوں میں پروفیسر توقیر احمد خاں کے علاوہ خاکسار تھا۔ بعد میں تعداد بڑھتی گئی، کرسیاں کم پڑنے لگیں۔ مصروفیات کی وجہ سے میرا آنا جانا بھی کچھ کم ہونے لگا۔ کچھ دنوں کے بعد وہاں پہنچا تو انہوں نے نہ آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے کہا: اب ہمارے لیے کرسیاں ہی کہاں بچی ہیں۔ ان پر پھر سے پروفیسروں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ کتاب کی دکان تو وہاں نہیں چلی، مگر وہاں ایک ریسٹورینٹ کھل گیا ہے جو خوب چل رہا ہے کہ ہمارے معاشرے کو کتابوں کی خوشبو سے زیادہ کھانے کا ذائقہ عزیز ہے۔ ادب ہمارے معاشرے کی ترجیحی فہرست سے غائب سا ہوگیا ہے۔ نئی کتاب کے بجائے لوگوں کو نئے ذائقے زیادہ پسند آرہے ہیں۔ ہمارے سماج کو مغلوں کی تاریخ نہیں مغلئی ڈش چاہئے۔ شاہد صاحب نے نئی کتاب کا دفتر اوکھلا ہیڈ شفٹ کردیا اور وہاں انہوں نے کتابوں کی فروخت اور اشاعت کا سلسلہ قائم کیا جو جاری ہے۔ انہوں نے اس دوران نئی کتاب نامی ایک رسالہ بھی جاری کیا جس کے سرپرستوں میں مقتدر شخصیات بھی شامل تھیں۔ شاہد صاحب کی وجہ سے کتاب نما کی طرح نئی کتاب کو بھی ایک نئی پہچان ملی۔

اس پہلے شمارے میں "حرف آخر" کے زیرعنوان شاہد علی خاں رسالہ "نئی کتاب" کے اجرا کی وجوہات اور اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔۔۔
مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کی آدھی صدی سے زیادہ خدمت کرنے کے بعد ستمبر 2006ء کو میں نے مکتبہ سے رخصت حاصل کر لی۔ اپنی الوداعی پارٹی میں، میں نے کہا تھا کہ میرے خاندان کے زیادہ تر لوگ کام کرتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوئے ہیں، میں بھی یہی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی مجھے بھی اردو کی خدمت کرتے ہوئے اٹھائے۔ قارئین سے بھی اسی دعا کی درخواست ہے۔ الله تعالی قبول فرمائے۔

میں نے رسالہ شائع کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن سوچ میں پڑ گیا کہ بغیر کسی مددگار کے پرچہ نکالنا آسان نہیں، ناممکن ہے۔ لیکن چند ہی دنوں بعد جب میں نے اپنے دوستوں سے پرچہ نکالنے کا خیال ظاہر کیا تو: ع
لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتا گیا

ادیبوں سے مضامین منگوانے سے پہلے میرے ذہن میں جس اہم عہد ساز شخصیت کا خیال آیا وہ تھا شمس الرحمن فاروقی صاحب کا۔ میں نے نئی نسل کے ادیبوں سے معلوم کیا کہ کیا فاروقی صاحب سے صدر مجلس ادارت بننے کی درخواست کی جائے؟ تو سب نے پر زور الفاظ میں تائید کی۔ لیکن شک ظاہر کیا کہ شاید فاروقی صاحب اپنی دیگر اہم مصروفیات کی بنا پر تیار نہ ہوں۔
میں نے کہا: یہ بات مجھ پر چھوڑ دو۔ میرے ان کے بہت پرانے تعلقات ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ انکار نہیں کریں گے۔
پھر میں نے اسی وقت فاروقی صاحب کو فون کیا اور بتایا کہ میں پرچہ "نئی کتاب" کے نام سے نکال رہا ہوں۔ اس میں آپ کا نام صدر مجلس ادارت کے طور پر دے رہا ہوں۔
فاروقی صاحب نے کہا: میں نے کبھی آپ کی بات کو ٹالا نہیں ہے۔ ڈال دیجیے۔
میں نے کہا: ایک بات اور، اس پرچے میں پہلا اداریہ بھی آپ ہی لکھیں گے۔ ہنس کر بولے : منظور۔ اور کہیے؟
میں نے کہا: اپنے مضامین کا مجموعہ 'نئی کتاب پبلشرز' کو دیجئے۔
بولے : چلیے یہ بھی منظور اور کچھ۔۔۔؟ میں نے جواب دیا: فی الحال بس۔

اب میرے حوصلے بلند ہو گئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد جو نفسیاتی دباؤ تھا، وہ یکلخت ختم ہو گیا اور یوں سمجھیے میں پھر سے جوان ہو گیا۔ میں نے مضامین کے لیے ادیبوں سے رابطہ شروع کر دیا۔ ہمارے دیرینہ رفیق ایس۔ اے۔ رحمن صاحب ( سابق اڈیٹر، نیشنل بک ٹرسٹ) نے ترتیب اور پروف ریڈنگ کا کام سنبھالا۔ رحمن صاحب کے ساتھ نئی نسل کے چند ادیب بھی شامل ہو گئے۔
نئی نسل کے تعلق سے ہم نے فاروقی صاحب کے اس مشورے پر عمل کیا ہے کہ نئی نسل کو ساتھ لے کر چلو۔ زیادہ سے زیادہ ذمے داری ان پر ڈالو۔ یہ پرچہ جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے، یقین ہے اس میں کچھ کمزوریاں، کمیاں نظر آئیں گی مگر یہ نئی نسل کے ادیبوں کی پہلی کوشش ہے اور ان کو آپ کے مشوروں کے ضرورت ہے۔ تو لیجیے پرکھیے 'نئی کتاب' کو اور اپنی رائے سے ہمیں مطلع فرمائیے۔

***
نام رسالہ: نئی کتاب سہ ماہی، نئی دہلی (پہلا شمارہ: اپریل-جون-2007)
تعداد صفحات: 250
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 11 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Nai Kitab, 1st Issue 2007.pdf

Direct Download link:

GoogleDrive Download link:

فہرستِ مضامین
نمبر شمارتخلیقتخلیق کارصفحہ نمبر
الفاداریہشمس الرحمن فاروقی4


Nai Kitab, First Issue (Apr-Jun-2007) pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں