دستاویزی فلم - تعریف تاریخ مقاصد و عناصر - از انجم عثمانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-21

دستاویزی فلم - تعریف تاریخ مقاصد و عناصر - از انجم عثمانی

documentary-film-anjum-usmani
انجم عثمانی (پیدائش: 8/اکتوبر/1952 - وفات: 20/اپریل/2021)
اردو دنیا کے معروف افسانہ نگار اور آل انڈیا ریڈیو اور دور درشن سے وابستہ مقبول صحافی رہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند سے 1968ء میں فارغ التحصیل انجم عثمانی، دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے مفتی اعظم مفتی عزیر الرحمٰن عثمانی کے پوتے اور پنجاب کے سابق مفتی مولانا فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی کے چھوٹے بھائی تھے ونیز مفسر قرآن اور عظیم مجاہد آزادی مولانا شبیر احمد عثمانی آپ کے چچازاد دادا تھے۔ تعلیمی فراغت کے بعد مختلف علمی و ادبی جریدوں کی ادارت سے انہوں نے وابستگی اختیار کی تھی جن میں دیوبند کا مشہور پندرہ روزہ جریدہ "دیوبند ٹائمز" بھی شامل ہے۔ ان کے چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں: شب آشنا (1978)، سفر در سفر (1984)، ٹھہرے ہوئے لوگ (1998)، کہیں کچھ کھو گیا ہے (2011)۔
اپنی تہذیب و ثقافتی وراثت کے امانت دار انجم عثمانی نے، زبان و بیان پر مہارت، سمعی و بصری ذرائع ابلاغ کی تکنیک پر قدرت رکھنے کے سبب افسانہ نگاری کے علاوہ دیگر حوالوں سے بھی شہرت حاصل کی ہے۔ برقی نشریات پر تحریرکردہ ان کی کتاب "ٹیلی ویژن نشریات" ایسی اہم کتاب ہے جو کئی جامعات کے نصاب میں شامل بھی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ٹیلی ویژن کے حوالے سے مکمل تفصیلات درج کی ہیں۔
اسی کتاب سے ایک اہم مضمون "دستاویزی فلم" ، انجم عثمانی کو خراج عقیدت کے بطور تعمیرنیوز کی جانب سے پیش خدمت ہے۔
دستاویزی فلم کیا ہے؟
اس کا اسکرپٹ لکھنے کے لیے کن کن بنیادی چیزوں کا خیال ضروری ہے؟
یہ سب جاننے سمجھنے سے پہلے ٹی۔وی اسکرپٹ کے لیے طےشدہ بنیادی مراحل یاد رہنا چاہیے۔ ویژول میڈیم کا اسکرپٹ لکھنے میں مندرجہ ذیل مرحلے ہوتے ہیں:
  • بنیادی خیال [Original Idea or Basic Concept]
  • خلاصہ / تلخیص [Synopsis]
  • اسلوب / طریقہ کار [Treatment]
  • منظرنامہ - پوری کہانی کے ساتھ [Shooting Script with Story Board]
  • منظرنامہ میں لفظی/صوتی اور تصویری تسلسل [Visual and Sound Continuity]
  • تسلسل زمانی/مکانی [Sequence]
  • منظر [Scenes]
  • شاٹ [Shot]
  • فریم [Frame]
  • زاویۂ نظر [Point of View]
یاد رکھیے کہ ویژول میڈیا کے کسی بھی فارمیٹ [format] میں لکھنا ہو تو مندرجہ باتوں کا دھیان ضروری ہے۔
دستاویزی فلم بھی ویژول میڈیم کا ایک فارمیٹ ہی تو ہے۔

دستاویزی فلم کیا ہے؟
جیسا کہ اس کے نام میں شامل لفظ 'دستاویز' سے ظاہر ہے، اس کے لیے تحریر میں دستاویزی حقیقتوں کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ گویا کہ "جو کچھ ہو چکا ہے" اور جس "ہو چکے ہوئے" کا ثبوت ( دستاویز ) موجود ہے اسی کو بنیاد بنا کر فلم تیار کی جاتی ہے ، دوسرے لفظوں میں یہ فکشن کی ضد ہے اور اس میں تصوراتی ، غیر حقیقی باتوں سے صرف نظر کرنا ہوتا ہے۔

دستاویزی فلم کا مقصد
گرچہ کچھ دستاویزی فلمیں ایسی حقیقتوں پر بھی بنتی ہیں جو آج تو دستاویزی اہمیت کی نہیں ہیں مگر جن کے دستاویزی اہمیت ہونے کے امکانات ہیں۔ مگر عام طور پر دستاویزی فلم کا مقصد ان دستاویزی حقیقتوں کو سامنے لانا ہوتا ہے جو ماضی کے گرد و غبار میں چھپ گئی ہیں، اور جن کے بارے میں دیکھنے سننے والوں کو دلچسپی اور تجسس ہو سکتا ہے۔
دستاویزی فلم کسی بھی موضوع پر ہو سکتی ہے مگر عام طور پر یہ کسی تاریخی مقام، ادارے، دور یا شخصیت سے متعلق ہوتی ہے۔
شخصیت پر بنی فلم کے لیے عام طور پر فیچر کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔ ٹی وی فیچر اور دستاویزی فلم میں بہت کم فرق ہوتا ہے۔

دستاویزی فلم کی مختصر تاریخ
1922ء میں امریکی فلم ڈائرکٹر ROBERT FLEHERTY نے پہلی مکمل دستاویزی فلم بنائی جس کا نام تھا NANOOK OF THE NORTH ، بہ قطب شمالی میں رہنے والے برف کے آدمی کی زندگی ، رہن سہن خوراک اور عادات سے متعلق فلم تھی۔ ظاہر ہے اس کو بنانے میں ہدایت کار نے اپنی جان جوکھم میں ڈالی تھی اور عرصہ دراز تک خود بھی برف کی جلن جھیل کر وہ یہ فلم بنا پایا تھا۔
یہ فلم آج بھی دستاویزی فلموں کی تاریخ میں اپنی اولیت کے علاوہ فنکارانہ لحاظ سے بھی اہم ترین مانی جاتی ہے۔ اس کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جامد حقیقتوں کا فنکارانہ استعمال اور اظبار کس قدر موثر، معلوماتی اور
دلچسپ ہو سکتا ہے؟ اس فلم نے دستاویزی فلموں کے لیے ایسی راہ ہموار کی جس پر آگے چل کر LENI REIFENSTAL ، فرانس کے ALAINS PENAIS وغیرہ جیسے دستاویزی فلموں میں نام کمانے والے آگے چلے۔
ہندستان میں بھی بعد میں کئی عالمی شہرت یافتہ دستاویزی فلم ساز آگے آئے جن میں سکھدیو، ستیہ جیت رے، ایس مکھرجی، گلزار، شیام بینگل ، ایم ایس سیتو، مظفر علی وغیرہ وغیرہ نے ہندی/اردو اور علاقائی زبانوں میں بہت سی قابل ذکر دستاویزی فلمیں بنائیں اور اگرچہ کم مگر آج بھی بنا رہے ہیں۔

دستاویزی فلم کی تعریف
ابھی تک دستاویزی فلم کی کوئی جامع و مانع متفقہ تعریف طے نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی تعریف (DEFINITION) میں خاصا اختلاف ہے۔ کچھ لوگ اسے غیرتخلیقی فلم NON FICTIONAL FILM اور کچھ لوگ اسے FACTS FILM کہتے ہیں۔ مگر یہ طے ہے کہ "حقیقی اشیا کا حقیقی شکل میں تخلیقی اظہار" دستاویزی فلم کا لازمی اور بنیادی حصہ ہے۔ گویا یہ نہ تو حقیقی اشیا کی سیدھی سادی رپورٹنگ ہے اور نہ تخیلی وارداتوں کا نتیجہ۔
اس لحاظ سے ویژول میڈیم کی دنیا میں دستاویزی فلم کو مشکل ترین طریقہ اظہار ( FORMAT) مانا گیا ہے۔ شاید اسی لیے فیچرز، فیچر فلموں، ڈراموں، ڈانس ڈراموں ، نوٹنکیوں اور ویژول میڈیم کی دیگر اصناف کے مقابلے میں بہترین دستاویزی فلموں کی تعداد بہت کم ہے۔

دستاویزی فلموں کے عناصر
ویژول میڈیم کی دوسری اصناف کی طرح دستاویزی فلم میں بھی کم و بیش انبی عناصر کو یکجا کرنا ضروری ہوتا ہے جن کی نشاندہی مضمون کے شروع میں مختصراً کی گئی ہے، مگر اس صنف میں مندرجہ ذیل بنیادی عناصر کو مزید یکجا کرنا ہوتا ہے:
** موضوع (مقام/ فرد / ادارہ/ دور / وغیرہ) کے انتخاب کے بعد ریسرچ
** ان جزیات کا انتخاب جو فلم کے مقصد کو دیکھنے، سننے والوں تک پہنچانے میں مدد کر سکیں۔ (یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک ہی دستاویزی فلم کے کئی مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے خاص مقصد طے کیا جانا ضروری ہے تا کہ اس کو مدنظر رکھ کر اسکرپٹ لکھا جا سکے)۔
** دستاویزی ثبوتوں کی پیشکش کا طریقہ۔
** دستاویزی حقیقتوں کو ویژولائز کرنا وغیرہ وغیرہ۔

دستاویزی فلم میں سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے "ماضی" کو "حال" میں بدلنا ، خاص طور پر اس وقت جب یہ ماضی بعید ہو۔ اگرکسی قدیم عمارت / شخصیت / ادارے یا دور پر دستاویزی فلم بنانی ہو تو کیونکہ بات ساری "گزرے ہوئے" کی کرنی ہے اور گزرنے کے عمل میں مجوزہ موضوع (عمارت، شخصیت، ادارہ، دور وغیرہ وغیرہ) کے متعلق دیکھے اور دکھائے جا سکنے والے حقائق بھی "گزر چکے" ہوتے ہیں اس لیے ان کو ویژولائز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر اس وقت کی کچھ تصویریں، کتابیں، اسکیچز ، پینٹنگز وغیرہ مل جائیں تو ٹھیک، ورنہ تاریخی حقائق کو دکھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ریسرچ کی بنیاد پر ہاتھ لگے حقائق کو اسکیچ کرا کے، نقشے بنوا کر کسی حد تک اس مسئلے کو حل کر لیا جاتا ہے۔
اسی لیے اب کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ آج کی وہ حقیقتیں جو کل کی تاریخ بننے کا بڑا امکان رکھتی ہیں ان پر دستاویزی فلمیں بنا لی جائیں تاکہ مستقبل میں کام کرنے والوں کو اس دشواری کا سامنا نہ ہو۔
دستاویزی فلم میں ان ہی دشواریوں کی وجہ سے دستاویزی فلم کی ایک کافی مقبول شاخ ڈاکیو ڈراما (دستاویز + ڈراما = ڈاکیو ڈراما) کی ایجاد ہوئی۔

ڈاکیو ڈراما [DOCU DRAMA]
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس میں دو اصناف 'ڈاکیومنٹری' اور 'ڈراما' کو یکجا کیا گیا ہے۔ یعنی کچھ دستاویزی حقیقتوں کو ڈرامائی روپ دے کر الگ سے فلما لیا جاتا ہے اور نریشن (Narration) کے درمیان جگہ جگہ مناسب طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس سے ڈکیومنٹری کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور ٹھوس حقائق کی خشک بیانی میں کمی آ جاتی ہے مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اس کی دستاویزی اہمیت کا وہ معیار باقی نہیں رہ پاتا جو خالص دستاویزی فلم کا خاصا ہے کیونکہ ڈرامے کے عناصر فکشن کو ساتھ لاتے ہیں جس سے دلچسپی تو بڑھ جاتی ہے اور ماضی جیتے جاگتے روپ میں اسکرین پر نمودار ہوتا ہے مگر اکثر اس سے دستاویزی فلم کی بنیادی اہمیت مجروح ہوتی ہے۔ تاہم ڈکیومنٹری فلم سے کہیں زیادہ اس کی شاخ "ڈاکیو ڈراما" آج کل مقبول ہے اور دھیرے دھیرے اس میں اس بات کا اہتمام بھی نظر آنے لگا ہے کہ دستاویزی عناصر مجروح نہ کیے جائیں۔ ڈاکیو ڈراما کی ایک اچھی مثال ٹی۔وی (دوردرشن) پر دکھایا جانے والا سیریل "بھارت ایک کھوج" ہے۔ دراصل ڈراما لکھنے اور بنانے میں ڈاکیومنٹری اور ڈراما دونوں میں مہارت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ خرچ کے اعتبار سے ڈاکیومنٹری کے مقابلے میں ڈاکیو ڈراما کا خرچ بہت زیادہ ہے، بایں ہمہ یہ صنف آج کل زیادہ مقبول ہے۔

دستاویزی فلموں میں بیانیہ
دستاویزی فلم میں بیانیہ (Narration) کی بہت اہمیت ہے اور یہ خالصتاً اسکرپٹ پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح کی کمنٹری لکھتا ہے۔ دستاویزی فلم کے بیانیہ میں مندرجہ ذیل باتوں کا دھیان رکھیں:
  • زبان آسان اور شگفتہ ہو
  • جملے مختصر اور موثر ہوں
  • شاٹ کی مدت (duration) کے مطابق ہوں
  • موضوع سے مطابقت رکھتے ہوں
  • بیانیہ میں جگہ جگہ ایسے مواقع ہوں کہ اگر کسی مخصوص جملے کو درمیان سے نکالنا چاہیں تو سیاق و سباق مجروح نہ ہوں
  • بیانیہ کی بنیاد ریسرچ کی دستاویزات کو بنایا جائے
  • اگر فلم تاریخی ہے اور اس میں اس دور کی مخصوص اصطلاحات کا استعمال ناگزیر ہے تو ان اصطلاحات کے ساتھ ان کے موجودہ متبادل کا استعمال ساتھ ساتھ کریں۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
مشہور افسانہ نگار انجم عثمانی بھی داغِ مفارقت دے گئے - روزنامہ قومی آواز
انجم عثمانی کے افسانوں میں قصباتی زندگی کی عکاسی - ڈاکٹر عزیر احمد
***
ماخوذ از کتاب: ٹیلی ویژن نشریات (تاریخ - تحریر - تکنیک) ، تیسرا ایڈیشن (2008ء)
مصنف: انجم عثمانی
Documentary Film - Definition, History, Elements and Objectives. Article: Anjum Usmani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں