لغوی اعتبار سے لفظ "فقہ" کے معنی فہم و ادراک کے ہیں اور اصطلاح شرع میں ، فقہ کا اطلاق اس فہم خاص پر ہوتا ہے جو کتاب اللہ اور سنتِ رسولﷺ کی ضیا پاشیوں سے ماخوذ ہو۔ اسی طرح فقیہ، سمجھدار، دانشمند اور فہیم آدمی کو کہا جائے گا۔ لیکن جب اس کا اصطلاحی معنی لیا جائے گا تو فقیہ، اس شخص کو کہیں گے جو مآخذِ شریعت میں اس طریق سے مہارت رکھتا ہو کہ پیش آمدہ مسائل کے متعلق ان سے ٹھیک ٹھیک جواب کا استنباط کر سکے۔
فقہ کی ضرورت و اہمیت
عہد رسالت مآبﷺ میں، اسلام کا دائرہ محض حدودِ عرب تک محدود تھا۔ عربوں کی معاشرت سادہ تھی۔ ضروریات کا دامن سمٹا ہوا تھا اور مسائل و وسائل کے سلسلے نہایت مختصر تھے۔ اس بنا پر تقاضائے مصلحت یہی تھا کہ لوگوں کو ضروریات کی حد تک، اصولی اور بنیادی چیزیں سمجھا دی جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان اساسی اور بنیادی اصولوں میں اتنی وسعت اور لچک بھی ملحوظ رکھی جائے کہ عند الضرورت اور عند النوازل ان سے مسائل کا استنباط ہو سکے۔
رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور تابعین عظام کے زمانے میں اسلام کی حدود بہت بڑھ گئیں اور مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ اس درجہ وسعت پذیر ہوا کہ عراق، ایران، مصر اور شام وغیرہ کے متمدن و زرخیز علاقے ان کے زیرنگیں آ گئے۔ اندلس، افریقہ، ترکستان، ایشیا اور سندھ وغیرہ کے دور دراز مقامات پر ان کی فتح و نصرت کے علم لہرانے لگے تو اسلام کو نئے مسائل، نئے تمدن، نئے معاشرے، نئی تہذیب، نئی ثقافت اور نئی معاشرتوں سے واسطہ پڑا۔ نئے ذرائع آمدنی و خرچ سامنے آئے، نئے نظام زراعت و اقتصاد سے تعارف ہوا اور معاملات کی نئی سے نئی شکلیں ظہور پذیر ہوئیں۔ قدرتی طور پر ان سے بہ طریق احسن عہدہ بر آ ہونے کے لیے نظر و بصر میں ایک حرکت پیدا ہوئی اور فکر و فہم کے زاویوں میں شدت سے احساسِ تبدیلی رونما ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تابعین کے عہد آخر میں ائمہ عظام کی ایک جماعت نے کتاب و سنت کو پیش نگاہ رکھ کر ، اس کے مقرر کردہ حدود و قوانین کے مطابق، ایک ایسا ضابطۂ زندگی مرتب کر دینے کی طرح ڈالی جو اس دور کے تقاضوں کو بہ وجہ احسن پورا کر سکے۔ اس طرح وقت و ضرورت کے مصالح ایک نئے علم کی تدوین کا باعث بنے، جس کو "علم الفقہ" کے نام سے موسوم کیا گیا۔
مآخذِ فقہ:
فقہ اسلامی میں استدلال و استنباط کی تین بنیادیں ہیں:
- کتاب اللہ
- سنت رسول اللہﷺ
- رائے و قیاسِ صحیح
قرآن کے احکام و اوامر پر رسول اللہﷺ خود عمل کرتے اور صحابہ کو ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم صادر فرماتے۔ ان احکام کی مزید وضاحت فرماتے اور پیش آمدہ مسائل کے سلسلے میں اسی کی روشنی میں لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے۔ اللہ کی طرف سے ان نازل شدہ احکام میں چونکہ قلت تکلیف اور عدم حرج خصوصیت سے ملحوظ تھا، اس لیے آنحضرتﷺ بھی تبیین و توضیح میں اس کا خاص خیال رکھتے۔
اقسام احکام:
قرآن مجید، متعدد مضامین پر مشتمل آیات کا دل نواز اور روح پرور مجموعہ ہے۔ اس میں امم سابقہ کا ذکر بھی ہے، قصص و واقعات بھی خاص اسلوب سے بیان کیے گئے ہیں اور پند و موعظت کا بھی ایک دل نشین سلسلہ موجود ہے۔ ان کے علاوہ آیاتِ احکام ہیں، جن کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے۔ اور یہ احکام دو اقسام میں منقسم ہیں:
(1) وہ احکام جو حقوق اللہ سے تعلق رکھے ہیں۔ ان کی پھر دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق صرف انسان اور اس کے خدا سے ہے، جیسے نماز، روزہ، حج اور دوسری عبادات۔
دوسرے وہ احکام، جن کا تعلق اگرچہ بظاہر انسان اور اس کے خدا سے ہے، تاہم ان میں دوسرے لوگوں کا بھی کسی نہ کسی شکل میں تعلق پایا جاتا ہے۔ مثلاً زکوٰۃ، عشر، صدقات، خیرات اور جہاد وغیرہ۔
(2) حقوق العباد کے بارے میں احکام، تین اقسام کا احاطہ کیے ہوئے ہیں:
اول: وہ جو استقلالِ خاندان اور روابط معاشرہ سے متعلق ہیں۔ مثلاً نکاح، طلاق اور وراثت وغیرہ۔
دوم: وہ جو باہمی معاملات کی وضاحت کرتے ہیں۔ جیسے بیع و شرا، تجارت، اجارہ اور ہبہ وغیرہ
سوم: وہ جو تعزیر اور انتظامِ مدن کے ضمن میں ہیں۔ مثلاً قصاص، حدود، سیاسی معاہدات، جزیہ اور مفادِ عامہ سے متعلق امور۔
احادیثِ رسول:
قرآن مجید نے رسول اللہﷺ کی اطاعت فرض اور آپ کے طریقے اور عمل کی اتباع کو ضروری قرار دیا ہے۔ دین کے باب میں آنحضرتﷺ کے تمام اعمال و ارشادات کو تسلیم کرنا لازم ہے، کیونکہ ان کی حیثیت وحیِ الہی کی ہے۔ صحابہ بلا حیل و حجت آپﷺ کے کے اعمال و فرامین پر عمل کرتے تھے۔
عہدِ نبوت میں عام طور پر احکام کے بارے میں فرض، واجب، مستحب، مباح، حرام اور مکروہ وغیرہ اصطلاحات مروج نہیں تھیں۔ صحابہ کرام نبیﷺ کی زبانِ مبارک سے جو کچھ سنتے یا جس طرح آپ کو عمل کرتے دیکھتے، اسی طرح خود بھی عمل کرتے۔ مثلاً آپﷺ کو وضو کرتے دیکھا تو اسی طرح وضو کر لیا۔ یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ افعالِ وضو میں کون سے افعال فرض ہیں، کون سے مسنون ہیں اور کون سے مستحب؟ صحابہ، نبیﷺ سے مسائل بھی بہت کم پوچھتے تھے۔ البتہ کوئی اہم واقعہ پیش آتا یا کسی معاملے میں وضاحت و صراحت کی ضرورت محسوس کرتے تو پوچھ بھی لیتے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ ان باتوں کی خود ہی ہدایت فرما دیتے، جن کی عام انسانوں کے لیے ضرورت سمجھتے۔
صحابہ اور تابعین کی اجتہادی آراء:
فقہ کا تیسرا ماخذ، کتاب و سنت کی روشنی میں رائے و قیاسِ صحیح ہے۔ اس کا ثبوت حضرت معاذ بن جبلؓ کے اس واقعہ سے ملتا ہے، جب رسول اللہﷺ نے اپنے وصال سے کچھ عرصہ قبل 10ھ میں ان کو یمن کا قاضی مقرر کر کے بھیجا۔ اس موقع پر آنحضرتﷺ نے ان سے جو کچھ فرمایا اور انہوں نے آپ سے جو کچھ عرض کیا، اس کے الفاظ یہ ہیں۔۔۔
رسول اللہﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجنا چاہا تو فرمایا کہ کوئی فیصلہ طلب معاملہ تمہارے سامنے پیش کیا جائے تو کس طرح فیصلہ کرو گے؟ عرض کیا: کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ فرمایا: اگر کتاب اللہ میں نہ پاؤ؟ کہا: سنت رسولﷺ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ فرمایا: اگر سنت رسول اللہ اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاؤ؟ بولے: پھر اپنی رائے سے کام لوں گا اور صحیح رائے قائم کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کروں گا۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے (ازراہِ مسرت) ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: سب تعریف اللہ کے لیے ہے، جس نے اپنے رسولؐ کے پیغام بر کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ جس سے اللہ کے رسولؐ کی رضامندی وابستہ ہے۔
(سنن ابوداؤد، کتاب الاقضیہ، باب اجتہاد الرائ فی القضا۔ جامع ترمذی، کتاب الاحکام، باب ماجاء فی القاضی کیف تقضی)
اسی طرح امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عامل حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو ایک مکتوب میں فرمایا:
فہم و ادراک سے کام لو۔ ان مسائل میں جو کتاب و سنت میں نہ ہونے کی وجہ سے تیرے دل میں خلجان پیدا کریں۔ مسائل میں اشباہ و امثال کو پہچانو اور پھر ان کی روشنی میں، ان کے بارے میں ایسی رائے قائم کرو، جو تمہیں اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور حق سے قریب تر نظر آئے۔
(سنن دارقطنی مع التعلیق المغنی۔ اعلام الموقعین، جلد اول، ص:72)
اجتہاد
اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت سے حکم شرعی مستنبط کرنے میں چند قیود و شرائط کے ساتھ پوری پوری کوشش کی جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں:
1: ایک یہ کہ کتاب و سنت کی منصوص عبارت سے استخراجِ مسائل کیا جائے۔
2: دوسرے یہ کہ کتاب و سنت کے منصوص مسائل سے بذریعہ قیاس استخراجِ مسائل کیا جائے۔
عصر صحابہ میں استنباط و استخراج کا سلسلہ انہی مسائل تک محدود تھا جو خارج میں پیدا ہوتے اور بطور واقعہ ظہور میں آتے۔ امکانی تفریعات کو موضوعِ بحث نہیں ٹھہرایا جاتا تھا۔ کوئی نیا مسئلہ پیش آتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو ہدفِ غور و فکر قرار دیتے۔ اولاً اس کی تلاش کے لیے قرآن مجید کی ورق گردانی کی جاتی۔ اگر قرآن میں اس کا سراغ نہ ملتا تو احادیثِ رسولﷺ کی طرف رجوع کیا جاتا۔ اگر قرآن مجید اور احادیثِ رسول اکرم، دونوں کو اس کے تذکرے سے خالی پاتے تو مجلس صحابہ میں اس مسئلے کی نوعیت پر غور کیا جاتا اور کتاب و سنت کی روشنی میں کسی امر پر سب متفق ہو جاتے تو اس اتفاق اور اجماع کو بھی حجت شرعی سے تعبیر کیا جاتا اور یہ امر معمول بہ قرار پاتا۔
اجماع نہ ہونے کی صورت میں اہل افتا صحابہ اپنے اپنے اجتہاد اور رائے سے استنباط مسئلہ کرتے۔ اختلاف کی صورت میں کسی ایک صحابی کی تخریج پر عمل کر لینے کو بھی کافی سمجھا جاتا۔ بالعموم لوگ اپنے اپنے شہر اور علاقے کے اہل افتا صحابہ اور ان کے تلامذہ یعنی تابعین کی پیروی کرتے۔
اس طرح یوں سمجھیے کہ عہد صحابہ میں استخراجِ مسائلِ فقہیہ کے چار اصول متعین ہو گئے تھے:
- قرآن
- سنت
- قیاس
- اجماع
***
ماخوذ از کتاب: برصغیر میں علم فقہ
تالیف: محمد اسحاق بھٹی (سن اشاعت: 2009ء، باہتمام بیت الحکمت لاہور)
ماخوذ از کتاب: برصغیر میں علم فقہ
تالیف: محمد اسحاق بھٹی (سن اشاعت: 2009ء، باہتمام بیت الحکمت لاہور)
Fiqh, definition and its details. Article: Md. Ishaq Bhatti
اُصولِ فقہ چار کیوں ہے؟
جواب دیںحذف کریں