احتشام حسین اور جدید اردو تنقید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-24

احتشام حسین اور جدید اردو تنقید

ehtesham-hussain-jadid-urdu-tanqeed
تاریخی اعتبار سے سے اردو تنقید کی ابتدا حالی کے مقدمہ شعروشاعری سے کی جاتی ہے اس لئے کہ حالی نے سب سے پہلے ادب کی تفہیم کے سلسلے میں بعض اصولوں اور نظریات کو مرتب کرنے کی کوشش کی۔ مقدمہ میں انہوں نے پہلی بار ایک ایسا پیمانہ پیش کرنے کی کوشش کی جس پر ادب کے محاسن و معائب کو پرکھا جا سکتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ مقدمہ شعر و شاعری نے اردو میں ایک ایسے دور کا آغاز کیا جس میں تنقید کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور جس نے اردو تنقید کو خالص جمالیات یا ادب کو شخصی پسند و ناپسند کے دائرے سے نکال کر ایک ایسی فضا دی جس میں صرف فنکاری یا مرصع سازی کے مقابلے میں مواد، تجربے اور مشاہدے کی اہمیت پر زور دیاگیا۔ اردوتنقید کی اسی روایت کو جس کا پودا حالی نے لگایا تھا احتشام حسین نے آگے بڑھایا اور اسے ایک فن کی صورت دی۔

موجودہ عہد میں مغربی علوم سے واقفیت ، نئے نفسیاتی اور سائنسی انکشافات ، انسان اور سماج کے رشتوں کی اہمیت، حسن اور فن کے بدلتے ہوئے معیار نے تنقید کو بھی مختلف خانوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ادب کے بارے میں اب صرف یہ تصور کہ اس کا مقصد مسرت و حظ یا لطف اندوزی اور تفریح کا سامان بہم پہنچانا ہے ، نہیں رہا۔ زندگی اور ادب کے اٹوٹ رشتوں کو مان لینے کے بعد اس کا احاطہ اتنا وسیع ہوگیا کہ تمام علوم و فنون، نئے تجربات و مشاہدات اور ان کے اثرات ادب کے مطالعے اور اس کی پرکھ کا جز بن گئے۔ صرف انتخاب الفاظ، تشبیہ و استعارات محاروں کا بر محل استعمال، رعائتِ لفظی، ندرت بیان، قوافی اور ردیف کو مختلف انداز سے نظم کرنے کی ذہنی کسرت، عروض اور فن شعر گوئی پر غیر معمولی زور ہی تنقید نہیں رہی بلکہ جدید دور میں تنقید کے مختلف دسبتان وجود میں آگئے اور ان دبستانوں کو اپنے اپنے حلقوں میں کافی عروج ہوا، لیکن ادب کی تفہیم، پرکھ اور تنقید کے سلسلے میں جس نظریے نے سب سے زیادہ مقبولیت اور اعتبار حاصل کیا وہ ادب کا سماجی نظریہ تھا۔

اردو میں اس نطریے کو سب سے زیادہ تقویت احتشام حسین کی تحریروں سے ملی، انہوں نے پچھلے تیس سال میں اپنی نظریاتی تنقید اور عملی تنقید دونوں میں پورے خلوص کے ساتھ اس نظریے کو برتا ہے۔ ان کی تحریروں نے اردو ادب و تنقید کو اس طرح متاثر کیا ہے کہ ان کی شخصیت خود ایک مکتبہ فکر کی ہوگئی ہے۔ اس دور کے ادیبوں اور ناقدوں پر ان کے گہرے اثر کے پیش نظر شاید یہ کہنا صرف جذباتی اظہار بیان نہ ہو کہ اس عہد کو عہد احتشام کا نام دینا چاہئے۔

احتشام حسین اردو تنقید کا ذہن تھے۔ جو فکر اور فلسفیانہ گہرائی انہوں نے تنقید کو دی اس سے اردو تنقید کا دامن یکسر خالی تھا۔ انہوں نے اس کو فلسفیانہ فکر اور فن کی معراج پر پہنچایا۔ وہ اردو کے پہلے نقاد تھے جنہوں نے سماجی نقطہ نظر اردو میں سائنٹفک تنقید کی بنیاد رکھی اور سماجی نقطہ نظر کو انتہا پسندی اور افراط و تفریط کے الزام سے بچایا۔ وہ لوگ جو ادب کے سماجی نظریے کو نہیں مانتے وہ ہوسکتا ہے کہ ان کے بعض نظریات سے اختلاف کریں ، لیکن جس طرح انہوں نے ادب کو ایک وسیع فنی، جمالیاتی اور سماجی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اس سے اختلاف کرنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر مکتبہ فکر میں مقبول اور ان کی تحریروں کو ہر دبستان میں احترام کی نظر سے دیکھاجاتا ہے۔ ان سے پہلے کسی نقاد نے واضح طور پر تنقید کے اصول و نظریات کو نہیں پیش کیا تھا۔ جن لوگوں کے مضامین میں اس کی طرف کچھ اشارے ملتے ہیں وہ اتنے واضح نہیں ہیں جن پر جدید تنقید کی عمارت تعمیر کی جاسکتی۔ احتشام حسین نے پہلی بار اس کی کوشش کی، یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے ورنہ اردو میں نئے رجحانات کے تحت مختفل دبستانِ نقد تو ممکن ہے نظر آتے لیکن کوئی فلسفیا سائنٹفک نظریہ تنقید نہ ہوتا۔

اردو تنقید کی تاریخ جن کے ذہن میں ہے انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ترقی پسند تحریک کے شروع ہونے کے بعد اردو میں مارکسی نظریات کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے واضح نقوش اس وقت کی عام تخلیقات نظم و نثر میں نطر آتے ہیں۔ یہ نظریات رومانویت ادیب کی ماورائیت ، تخیل پرستی، تصور کی تخلیق کی ہوئی جنت میں جینا اور حقیقت سے فرار پر ضرب کاری کی طرح پڑے جس کا اثر یہ ہوا کہ افسانہ ہو یا نظم، ناول ہو یا غزل ، انشائیہ ہو یا طنز و مزاح ہر جگہ عام زندگی کی تصویر اور عام زندگی کے مسائل جگہ پانے لگے۔ ان مسائل کے ادبی موضوع بننے کی دو سطحیں تھیں۔ ایک راست بیان، دوسرے فن کے دائرے میں ادبی انداز اظہار۔۔ جس میں ایک کو انتہا پسندی یا پروپیگنڈہ کا نام دیاگیا اور دوسرے کو نئے ادب یا ادب و زندگی کے بہترین نمونوں میں شمار کیا گیا۔ اس نئے ادب یا ترقی پسند ادب اور نظریات نے ادیبوں اور شاعروں اور شعریات و ادبیات سے دلچسپی رکھنے والں پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ وہ ادیب و شاعر جو براہ راست اس تحریک سے وابستہ نہیں تھے ، وہ بھی اپنی نظم و نثر میں انہیں مسائل کو پیش کررہے تھے۔ جنہیں ترقی پسند تحریک نے پیش کیا تھا۔ ادبی فضا کی اس شدید تبدیلی کے زمانے میں تنقیدی نظریات کا تبدیل ہونا بھی ضروری اور لازمی تھا۔ جب تخلیق کا موضوع خیال سے نکل کر حقیقت ہوا، جب ہیئت کی اہمیت کے بجائے ،مواد کسی فن پارے کی اہمیت کی بنیا قرار پایا۔ جب صرف گل و بلبل ، عارض و رخسار یا دہان و کمر کے بیان کے بجائے زندگی کے تجربات و مشاہدات کو پیش کیاجانے لگا، جب زندگی کے خالص رومانوی تصور کے بجائے سماجی حقیقت نگاری ادب کا موضوع بنی اور یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ ادب زندگی اور سماج سے توانائی حسن اور دل کشی حاصل کرتا ہے اور اسی حسن و دلکشی کو پیش کرتا ہے جو ہمارے ماحول ،سما ج اور زندگی کی دین ہے تو اس وقت تنقید کا پرانا انداز اور فنی پرکھ کا نتیجہ بھی تبدیل ہوا۔ یہ نیا نظریہ تنقید وہی تھا جس نظریہ کے تحت نیا ادب تخلیق ہورہا تھا اور جس کی بنیاد تاریخیت، روح عصر اور جدلیاتی مادیت پر تھی۔ اس عہد میں جہاں تخلیقی سطح پر دو رجحان نظر آتے ہیں جن کا اوپر ذکر آچکا ہے وہیں تنقید اور ادب کے اقدار کے تعیین کے سلسلے میں بھی دو نظریے ملتے ہیں۔کچھ ناقدین وہ ہیں جو ادب کو سمجھنے کے لئے صرف طبقاتی کش مکش ، ذرائع پیداوار اور جدلیاتی مادیت پر زور دیتے ہیں۔ یہ ناقدین مارکس کے معاشی اور سماجی نظریات کو بعینیہ ادب پر منطبق کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی تنقید ادب اور فن سے بحث کرنے کے بجائے معاشی اور سماجی عمل اور رد عمل کا ایک بیورانظر آتی ہے۔ ان کے فیصلوں اور رایوں میں شدت ہے، اسی لئے انہیں انتہا پسند مارکسی نقاد کہاگیا ہے۔ شاید مارکس نے بھی ادبی تفہیم کو اس طرح خاص جدلیت اور تاریخیت سے وابستہ نہیں کیا ہے جس طرح ان ناقدین نے کیا۔ اس انتہا پسندی سے ادب اور تنقید کسی کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ لیکن احتشام حسین نے اس انتہا پسندی کو توازن ، فلسفیانہ انداز اور سائنٹفک نقطہ نگاہ دیا۔

احتشام حسین بنیادی طور پر سماجی نظریات کے ماننے والے ہیں اور ادب کو اس کے گرد و پیش اور ماحول کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ ادب میں حسن، دلکشی اور جاذبیت، اس کا تاثر اور قبول سب اسے سماج سے ملتا ہے۔ فن کار جس سماج میں رہتا ہے اسی سے اپنی تخلیق کا مواد حاصل کرتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ:
"ادیب کے تخلیقی کارنامے ان حقیقتوں کا عکس ہوتے ہیں جوسماج میں پائی جاتی ہیں۔۔"ادیب کے گردو پیش کی دنیا اس کا حسن اس کی بد صورتی اس کی کشمکش اور اس کا الجھاؤ، اس میں بسنے والوں کی امیدیں اور مایوسیاں خواب اور امنگیں ، رنگ اور روپ ، بہار اور خزاں اس کے موضوع ہوتے ہیں۔"

اس اقتباس سے ان کے ادبی نظریے کی بڑی حد تک وضاحت ہوجاتی ہے۔ ادب کے اس نظریے پر انہوں نے سائنٹفک تنقید کی بنیاد رکھی۔ اصول تنقید یا نظریاتی تنقید کے سلسلے میں ان کی کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے۔ لیکن تنقیدی نظریات کو مرتب کرنے اور نظریاتی تنقید کا ایک راستہ بنانے کے سلسلے میں انہوں نے اتنے مضامین لکھے ہیں کہ اگر انہیں یکجا کردیاجائے تو کسی مبسوط تصنیف سے کہیں زیادہ اہم ہوں گے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ آج تک اردو کے کسی نقاد نے نظریاتی اور عملی تنقید پر اتنا کام نہیں کیاجتنا احتشام حسین نے کیا ہے۔ ان کا تنقیدی نظریہ فلسفیانہ ہونے کے باجود بہت سلجھا ہوا ہے۔ وہ موضوع اور فن کے کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوٹے۔ وہ کسی فن پارے کے سلسلے میں اس طرح بات نہیں کرتے جس کے کئی پہلو نکالے جاسکیں۔ وہ قاری کو فن اور فنی تخلیق کے سلسلے میں ایک نتیجے تک لے جاتے ہیں۔ ان سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے بعض باتوں میں ان سے اختلاف تو کرسکتے ہیں لیکن اس کی شکایت نہیں کرسکتے کہ ان کے نظریات فن پارے کے بارے میں کسی واضح رائے کو قائم کرنے یا ادب کے اقدار کے تعین کے سلسلے میں رہنمائی نہیں کرتے۔

مارکسی انتہا پسندی کے ساتھ ہماری تنقید رومانی انتہا پسندی جمالیاتی، انتہا پسندی، تاثراتی انتہا پسندی ، نفسیاتی انتہا پسندی، مغرب پرستی اور رائے زنی ک ابھی شکار رہی ہے۔ کسی نے ادب کے مطالعے میں صرف لذتیت اور کیفیت و مسرت کی باز آفرینی لفظی حسن اور فنی صناعی پر سارا زور صرف کیا۔ کسی نے فن پارے سے ذہن پر مرتب ہونے والے اثرات کے بیان کو تنقید کا معیار بنایا۔ کسی نے فن کار کے نہاں خانوں میں جھانک کر اس کی کمزوریوں ، مایوسیوں، جنسی کجریوں، شعور لا شعور کے پیچیدہ اور تاریک گوشوں کی تلاش کو فنی تفہیم کے لئے سب سے زیادہ اہمیت دی۔ کسی نے مغربی اصولوں اور مغرب کے ادب سے اردو، ادب کا موازنہ کرکے اور اس پر فنی تخلیقات کو منطبق کر کے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا اور کسی نے صرف تشریح اور تلخ و تند رائے زنی کو اپنی تنقید کے اسلحوں کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس طرح کا کوئی نظریہ قطعی یا مکمل طور پر ادب کی پرکھ یا اس کی قدروں کے تعین کے لئے صحیح نہیں تھا۔ نظریوں یا اصولوں کی کشمکش میں احتشام حسین نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اقدار و معیار کے سلسلے میں ایک ایسے سائنٹفک نظریہ تنقید کی ضرورت ہے جو ادب کے محاسن، اس کی افادیت ، اس کے حسن اور اس کی فنی خوبیوں کو بہتر طریقے پر واضح کرسکے۔ اس لئے انہوں نے ایک ایسے مدرسہ فکر کی بنیا د ڈالی جو ادب کے مطالعے کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ معاونت کرسکے اور ان اصولوں پر ادب کو پرکھنے کے بعد فن اور فنکاری کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین سے اگر ہم ادبی تنقید کے کچھ بنیادی اصول وضع کرنا چاہیں اور انہیں کوئی نام دینے کی کوشش کریں تو اسے صرف فلسفیانہ سائنٹفک تنقید کا نام دیاجاسکے گا۔ شروع میں اس کا ذکر کیاجاچکا ہے کہ ان کے نظریے میں بنیادی اہمیت تاریخ، ماحول اور سماج کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے الگ کرکے نہ اچھے ادب کا تصور کیاجاسکتا ہے اور نہ ادب اور اس کے حسن سے پورا لطف لیاجاسکتا ہے۔ احتشام حسین کے ابتدائی مضامین میں ان باتوں پر کچھ زیادہ ہی زور ملتا ہے۔ شاید اس کی وجہ اپنے نظریے کی زیادہ سے زیادہ وضاحت تھی ورنہ مجموعی طور رپ ان کے نظریاتی اور عملی تنقید کے مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کے تنقیدی اصولوں کی جو شکل بنتی ہے اسے کسی صورت میں بھی انتہا پسندانہ مارکسیت یا خشک سماجیت کا نام نہیں دیاجاسکتا۔ انہوں نے سب سے پہلے ادب کی فنی قدروں اور اسکی صحت مند روایات کی اہمیت پرزور دیا اور بارہا اپنی تحریروں سے اس بات کوواضح کیا کہ اچھے ادب کی تخلیق میں ادب کی جمالیاتی اور فنی قدروں کا بہت بڑا حصہ ہے اور ان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ادب کے روایتی اصناف، خصوصیت کے ساتھ غزل کی کبھی مخالفت نہیں کی جب کہ ایک طرف ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں اسے معتوب قرار دیا گیا اور دوسری طرف اس گروہ سے الگ لوگوں نے اسے گردن زدنی سمجھا۔ احتشام حسین نے اپنے نظریے کے مطابق اس کی تحلیل کی اور اس کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا خیال تھا کہ غزل ہماری زندگی کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی قدروں اور مطالبات کی پوری طور پر ترجمانی نہیں کرسکتی۔ لیکن وہ اپنے انداز وحدود میں ہماری زندگی کی ، ہمارے احساسات و تجربات اور ہمارے مشاہدات کی تصویر پیش کرتی ہے۔ انہوں نے کبھی نظم کو غزل کا رقیب نہیں قرار دیا اور دونوں کی اپنی حدود میں یکساں اہمیت پر زور دیا۔

احتشام حسین نے فنکار اور ادب کی نفسیات کو بھی اپنے نظریے میں اہمیت دی۔ وہ لاشعور کے کرشموں یا تحلیل نفسی کے معجزات کے قائل نہیں تھے اور نہ خالص لاشعور کی بنیاد پر ادب کو سمجھنے کی کوشش کرنیو الوں کو صحیح سمجھتے تھے۔ لیکن ادبی تفہیم اور فنکار کی ذات یا تخلیق کے عمل کو سمجھنے میں جس حد تک نفسیات مدد کرتی ہے اس کو انہوں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اسی طرح مغربی ادب کی صحت مند قدروں یا مغربی اصولوں سے ادبی مطالعے میں جو مدد مل سکتی ہے اس کو اہم سمجھا۔ لیکن خالص مغربی پیمانوں پر اپنے ادب کے پرکھنے کو درست نہیں سمجھا۔ ادب کا مقصد ان کے نزدیک اجتماعی اور سماجی ہے جو زندگی کو فلاح و بہبود، حسن و مسرت اور دلکشی و شادمانی عطا کرنے کے لئے ہے۔ اپنے اس تنقیدی نظریے کی تعمیر میں انہوں نے مغرب کے فلسفیوں اور ناقدین کے افکار و خیالات سے استفادہ ضرور کیا ہے لیکن اسے اپنے ذوق و شعور ، اپنے تفکر و گہرائی اور دروں بینی وگیرائی، بالغ نظری اور وسعت نگاہ سے ایک نیا اور دلکش رنگ دے دیا ہے جس کے وہ خود قائد ہیں۔

احتشام حسین کی تنقیدوں میں شاعرانہ انداز بیان خوبصورت گڑھی ہوئی ترکیبیں، بے مقصد تراشے ہوئے جملے اور تشبیہ و استعارات کی زبان نہیں ملتی بلکہ سادگی ،وضاحت، قطعیت ، اور ایک جچا تلا طرز بیان ان کے اسلوب کی خصوصیت ہے۔ احتشام حسین سے پہلے تنقید تشریح، توضیح، موازنہ، فن کاری کا مطالعہ سب تھی۔ لیکن فلسفیانہ عمل نہ تھی۔ تنقید کو جس سنجیدگی ، توازن اور جس فلفسیانہ نقطہ نگاہ کی ضرور ت تھی، وہ اسے احتشام حسین ہی نے دیا جس کے بانی اور پیش رو سب ہی کچھ وہی تھے۔ بعض لوگوں نے ان کی سماجیت پر اعتراض کیا ہے۔ بعض لوگوں کو ان کی تنقید خشک معلوم وہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ فلسفہ میں جو لو گ غزل کی تازگی یا تنقید میں شاعرانہ زبان تلاش کرنا چاہتے ہیں وہ ادب کو دل بہلانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اور تنقید کو بھی تفنن طبع یا افسانے اور ناول کی طرح وقت گزاری کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ تنقید میں یہ لطف بعض تاثراتی نقادوں کے یہاں مل بھی جائے گا۔ لیکن تنقید قدر و معیار کی بات کرتی ہے اور ایسے تاثرات مضامین میں لطف تو آسکتا ہے لیکن اقدار و معیار کی بات نہیں کی جاسکتی۔ جب کسی فن پارے کو بہتر طریقے پر سمجھنا یا اس کی قدروں کا تعیین کرنا ہو تو اس پر فلسفیانہ انداز سے غور کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر ہمارا مطالعہ سائنٹفک نہیں ہوسکتا۔ احتشام حسین اسی سائنٹفک نقطہ نظر کو پیش کرتے اور اسی نقطہ نظر کو مکمل اور ہمہ گیر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ:

"سائنٹفک نقطہ نظر وہ ہے جو ادب کو زندگی کے معاشی ، معاشرتی اور طبقاتی روابط کے ساتھ متحرک اور تغیر پذیر دیکھتا ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر نقطہ نظر ہے اور ادبی مطالعہ کے کسی اہم پہلو کو نظر انداز نہیں کرتا۔۔"

سائٹنفک نقطہ نظر کی یہ تعریف بہت جامع ہے اور تمام علوم و فنون، جمالیاتی و فنی خوبیوں، انداز و اسالیب اور روایت و تجربات کا احاطہ کرلیتی ہے۔

احتشام حسین نے صرف تنقید ی اصولوں کو ہی اپنے مضامین میں نہیں پیش کیا بلکہ اپنی عملی تنقید میں انہیں کامیابی اور دیانتداری، کے ساتھ برتا بھی ہے۔ تنقید کو ایک عرصے تک تخلیق سے بالکل الگ رکھ اگیا۔ اب بھی بعض ناقدین اور محققین دونوں کو الگ الگ خیال کرتے ہیں، اور تنقید و تحقیق کے رشتہ کو اہمیت نہیں دیتے۔ اس طرح کے ناقدین یا محققین ادب کے ساتھ پورا انصاف نہیں کرتے، اسی لئے بعض موقعوں پر گمراہی یا غلطی کا شکار ہوتے ہیں۔ نقاد کے فیصلوں کے لئے تحقیق ناگزیر ہے اور اس کے بغیر صحیح نتیجے تک اس کا پہنچا بہت دشوار ہے۔ احتشام حسین نے تحقیق و تنقید کے رشتوں پر زور دے کر اس کی وضاحت کی کہ:
"اصول نقد کا تعین کرنے میں تحقیق کے ہر گوشے تک نگاہ کو جانا چاہئے۔"
اس طرح انہوں نے نقاد اور تنقید کو ان کے کوتاہیوں کا سد باب کیاجو تحقیق پر نگاہ نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔ یہ ایک ایسی کوشش تھی جس سے اردو تنقید میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔

اس میں شک نہیں کہ احتشام حسین نے اردو تنقید کو پہلی بار فلسفیانہ انداز نظر، سماجی بصیرت اور واضح انداز بیان دیا۔ ان کے اسلوب میں تازگی ، قطعیت صفائی اور تنقیدی جرات ہے۔ انہوں نے اپنے حکیمانہ انداز و فلسفیانہ ذہن، عملی گہرائی اور وضاحت سے اردو تنقید کو جمالیاتی ، نفسیاتی اور خالص فنی تشریح اور توضیح کے دائرے سے نکال کر سائنٹفک بنایا جس کے پیش نظر بجا طور پر انہیں اردو میں جدید سائنٹفک تنقید کا بانی اور صحت مند ادبی اقدار کا علمبردار کہہ سکتے ہیں۔

ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ "نیا دور" لکھنؤ۔ (مئی/جون-1973) ، احتشام نمبر۔

Ehtesham Hussain aur Jadid Urdu tanqeed. Essay by: Prof Sharib Rudaulvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں