رام لعل (پ: 3/مارچ 1923 ، م: 15/اکتوبر 1996) - اردو کے قدآور افسانہ و ناول نگار، ڈراما، سفرنامہ و خاکہ نویس اور ایک اعلیٰ پایہ کے ادیب تھے۔ وہ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اور جدید دور کی درمیانی کڑی کی ایک اہم شخصیت بھی رہے ہیں۔ ان کا ایک کلاسیک افسانہ "" جو ماہنامہ "شمع" (نئی دہلی) کے خاص نمبر جولائی-1950 میں شائع ہوا تھا، قارئین کے ذوق نظر کے لیے پیش ہے۔ اپنے اس افسانے کے متعلق خود افسانہ نگار لکھتے ہیں کہ: "کچھ عرصہ ہوا، نرولا ریستوران کی ایک ٹیبل پر جناب یونس دہلوی (مدیر ماہنامہ شمع) نے ایک واقعہ سنایا تھا۔ یہ افسانہ اسی سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے"۔نرولا ریستوران میں مسز بنرجی اور مہیش کی ملاقات اچانک ہو گئی۔۔ بالکل اچانک! اس سے پہلے بھی وہ ایک دوسرے کو دیکھ چکے تھے۔ وہیں نرولا میں، کناٹ سرکس میں گھومتے ہوئے یا پلازہ یا ریگل سنیما میں۔۔ انہیں یاد آتا تھا کہ ایک دوسرے کو کہیں دیکھا ضرور ہے۔ ضرور ان ہی جگہوں پر دیکھا ہوگا۔ ان کے علاوہ دوسرے ان کے کوئی مشغلے تھے ہی نہیں۔ بہر کیف وہ دونوں ایک دوسرے کو ایک ہی ٹیبل پر دیکھ کر بہت محظوظ ہوئے۔ لیکن صرف ذہنی طور پر ، دل ہی دل میں۔ یہ اشتیاق نہ آنکھوں میں چمک بن کر جھلکا، نہ ہونٹوں پر مسکراہٹ کی پتلی سی لکیر کی صورت میں۔ یہ ملاقات بظاہر ایک سرد ہنگامے کی طرح۔۔ ایک ٹھنڈی بے توجہی کی مانند شروع ہوئی۔
بات یوں ہوئی کہ مہیش بھاگتا ہوا ہال کے اندر داخل ہوا۔ دراصل اسے بہت نازک وقت میں پتہ چلا کہ نرولا والے شام کو ڈنر سے پہلے ایک ڈانسنگ پارٹی کو پیش کررہے ہیں اور اس وقت وہ اپنے ایک افسر کے ہمراہ اس کی بیمار لڑکی کو ہسپتال میں دیکھنے کے لئے جارہا تھا۔ یہ سن کر وہ عجیب شش و پنج میں پڑ گیا تھا کہ اب کس طرف کا رخ کرے۔ ایک طرف چند گھنٹوں کی رقص و سرود سے بھرپور محفل تھی ، دوسری طرف اس لڑکی کا بیمار زرد چہرہ جس سے ایک پھیکی مسکراہٹ تک کی توقع ختم ہوچکی تھی۔ اور وہ وہاں صرف اپنے افسر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی جاتا تھا۔ ہسپتال سے لوٹ کر اسے اس محفل میں کوئی جگہ نہیں مل سکتی تھی۔ اور اب بھی بہت تھوڑی سی امید باقی تھی۔ کیونکہ ایسی محفلوں میں عموماً بہت پہلے ٹکٹ فروخت ہوجاتے ہیں، بہر حال اس نے اجمیری گیٹ کا موڑ مڑنے سے پہلے ہی کار سے اتر پڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ اور ا پنے افسر سے معافی مانگ واپس آ گیا۔
ہاں، تو نرولا میں وہ بھاگتا ہوا داخل ہوا، منیجر اور بیروں نے تو اسے مایوس کر ہی دیا تھا لیکن وہ سگریٹ سلگاتا ہوا ہال کے ایک کونے میں جاکر کھڑا ہو گیا، اور دیکھنے لگا کہ کس ٹیبل پر اسے جگہ مل سکتی ہے۔ اس کی نگاہ گھومتے گھومتے مسز بینرجی پر جارکی۔۔ جس کے پاس ایک کرسی خالی پڑی تھی۔ وہ سیدھا وہاں پہنچا اور چھوٹی سی درخواست پر اسے فوراً وہ کرسی مل گئی۔۔اور دونوں فوراً ہی اسٹیج پر سے لپکتی ہوئی دھن کی طرف متوجہ ہوگئے۔ جس کے خاتمہ پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا، سپید کالروں اور سیاہ ٹائیوں والے بھورے رنگ کے چہرے ایک عجیب سی فتح مندی کے اظہار کے لئے ابھرکر ادھر اُدھر گھومنے لگے۔ اور ان کے سامنے رنگے ہوئے ہونٹ پھیل کر کانوں کی طرف بڑھ گئے۔ اور بالوں کے خوشبو دار جوڑوں اور ترشے ہوئے بہاؤپر اس طرح انگلیاں سہلائی جانے لگیں جیسے آرکسٹرا کی کامیابی ان کے بغیر کیا معنی رکھتی ہے۔
مہیش نے بلیک اینڈ وائٹ کاٹن میز پر رکھ دیا۔ اور بیرے سے سکاچ کا پیک لانے کو کہا۔ کچھ دیر تک وہ یوں ہی سگریٹ کا دھواں اڑاتا رہا۔ مسز بینرجی نے اس کی جانب کوئی توجہ نہ دی۔ وہ صرف اپنے پیگ کی طرف ہی نیم وا آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ جو اس کے سامنے میز پر پڑا تھا۔ اور جو تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اس کے ہونٹوں سے ہمکنار ہوکر پھر پلٹ آتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سرخ ڈورے دیکھ کر یہی معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت تک وہ دو تین پیگ چڑھا چکی تھی۔ اس کے چوڑے ماتھے سے پسینے کی ایک بوند ڈھلک کر اس کے دائیں ابرو پر آاٹکی تھی۔ سپید ریشمی ساڑھی کا پلو کاندھے سے کھسک کر گود میں آپڑا تھا۔ اسی رنگ کے ریشمی بلاوز میں سے اس کی چھاتیاں کبھی کبھی متحرک ہو اٹھتی تھیں۔ اس کی پتلی گردن پر سیاہ ریشمین بالوں کا ایک دلفریب جوڑا بنا ہوا تھا۔
مہیش نے اس کی طرف سنجیدہ نظروں سے دیکھا اور اسے اپنی طرف متوجہ نہ پاکر مونہہ پھیر لیا۔ اچانک آرکسٹرا کی دھنیں بدلیں اور ایک نہایت ہی دلفریب نغمہ بلند ہوا جس کے زیروبم پر ایک چھریرے بدن کی اینگلو انڈین لڑکی اسٹیج پر تھرکنے لگی۔ رقص اور نغمے اور شراب اور مسکراہٹوں میں اس قدر ہم آہنگی تھی کہ ہر طرف سے بے ساختہ واہ واہ کے نعرے بلند ہوتے تھے ، بار بار تالیاں بج اٹھتی تھیں۔ داد دینے کے دوران میں مہیش اور مسز بینرجی کے درمیان حائل ہوئی اجنبیت بھی دور ہو گئی۔ اور جب ناچ ختم ہو گیا تو وہ بے تکلف ہوکر فن رقص اور موسیقی پربحث کرنے لگے پھر آپس میں باقاعدہ تعارف کیا اور پھر جلد ہی ایک ہی آرڈر میں وسکی کے دو دو پیگ منگائے جانے لگے۔
مسز بینرجی نے اسے بتایا کہ وہ بھی موسیقی میں گہری دلچسپی رکھتی ہے اس کے گانوں کے دو ریکارڈ بھی تیار ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر مہیش کا اشتیاق اور بڑھا اور اس سے کبھی کچھ سنانے کی خواہش ظاہر کی ، مسز بینرجی نے اسے ابھی اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا تو وہ فوراً راضی ہو گیا۔
وہ باہر آگئے۔
سرد ہوا کے ایک ہی جھونکے سے مسز بینرجی لڑکھڑا گئی اور مہیش کے کاندھے کا سہارا لے کر بولی۔
"یہ میری خوش قسمتی ہے کہ تم میرے ساتھ ہو، ورنہ ایسی حالت میں اپنے فلیٹ تک پہنچنا تو محال ہو جاتا۔"
مہیش خود نشے کی حالت میں تھا، مگر پھر بھی ٹانگوں میں کوئی جھول نہ آنے دیا، اور اسے بازو کے حلقے میں لئے مدراس ہوٹل کے پیچھے لے گیا۔ جہاں اس کا فلیٹ تھا، وہاں پہنچ کر مہیش بہت حیران ہوا کہ اتنے بڑے فلیٹ میں مسز بینرجی اکیلی رہتی تھی۔ چار کمرے تھے ، ایک بالکونی، ادھر باتھ روم ادھر۔۔ کچن،، مرصع فرنیچر مخملیں قالین، خوشنما اور رنگین تصاویر۔۔ وہ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
مسز بینرجی کی نشے میں چور ہوئی آنکھوں میں جھانک کر بولا:
"کیا تم یہاں اکیلی رہتی ہو؟"
وہ مسکرائی ، بہت کوشش سے مسکرائی۔
"نہیں۔۔ یہ تم نے کیسے سمجھ لیا؟ دیکھو وہ تصویر جو سنگھار میز پر رکھی ہے میرے خاوند کی ہے۔ وہ گزشتہ دو ماہ سے کان پور میں ہیں۔ وہاں دو ملوں کے درمیان حساب کتاب کا کچھ جھگڑا ہے، وہ ایک پارٹی کی طرف سے آڈیٹر ہیں۔"
"اوہ۔۔۔!" مہیش نے کمرے میں اِدھر اُدھر نگاہ ڈالی جو گھوم پھر کر پھر مسز بینرجی کی نیم باز آنکھوں پر آکر رکی۔
"تمہارا کوئی بچہ نہیں ہے؟"
مسز بینرجی ہنس کر دوہری ہو گئی۔۔
"تمہیں بچوںکا خیال کیوںکر آگیا۔۔ ہم تو اس تلخ کہانی کو کبھی نہیں چھیڑتے۔۔ یہ ہمارا متفقہ فیصلہ ہے جس پر ہم شادی سے لے کر اب تک کاربند ہیں۔ آج پینتیس برس کی ہوکر بھی میرا جسم اسی طرح سڈول ہے اور خوبصورت نظر آتا ہے، تو صرف اس اصول کی بدولت، لیکن چھوڑو، ان باتوں کو۔۔۔آؤ میں تمہیں اپنے ریکارڈ سناؤں۔"
وہ اسے اپنے سونے کے کمرے میں لے گئی، اور دونوں ریکارڈ سنا دئیے۔ مہیش کی فرمائش پر ایک نیا گانا اس کے سامنے گاکر سنایا جسے وہ اپنی بے چینی کی باعث ٹھیک طرح نبھا نہ سکی ، بدن کے اندر اچانک ایک اینٹھن سی شروع ہوگئی ،پیانو چھوڑ کر وہ مہیش کے پاس صونے پر جاکر لیٹ گئی۔
مہیش اس کی بے چینی کا باعث سمجھتا تھا۔ آج اس نے بہت شراب پی لی تھی۔ اپنے آپے میں نہیں آرہی تھی۔ اس کے جسم کے اعضا ایک عجیب بے خبری کے عالم میں ادھر اُدھر بہہ جاتے تھے۔ اسے یہ بھی دھیان نہ رہا تھا کہ پیانو سے لے کر صونے تک اس کی ریشمین ساڑھی کھلتی اور ڈھلکتی چلی آتی تھی۔ اور اب وہ نیم عریاں حالت میں گڈ مڈ سی ہوئی پڑی تھی۔ جیسے کوئی برسی ہوئی بدلی ہو، جیسے کوئی دھنکی ہوئی روئی ہو، یا جیسے لتاڑی ہوئی پھولوں کی کوئی کیاری۔ خوبصورت بال جو پہلے ایک ریشمیں گٹھڑی میں بند تھے اب کھل کر اس کے سپید چہرے کا احاطہ کئے ہوئے تھے۔
وہ کچھ دیر تک ہوں، ہاں کہہ کر مہیش کی باتوں کا جواب دیتی رہی اور جب نیند نے اس پرمکمل غلبہ پالیا تو مہیش وہاں سے چلا گیا۔ اس کے نوکر نے شیشے کے عقب میں سے اپنی مالکن کو سویا ہوا پایا تو اندر آکر بجلی کا بٹن دبادیا، اور کمرے میں ایک عمیق تاریکی امڈ پڑی۔
صبح مسز بینرجی بیدار ہوئی تو اس کے جسم میں رات کی نسبت زیادہ اینٹھن اور درد تھا۔ جیسے کسی نے اس کے جوڑ جوڑ کے اندر نشتر توڑ توڑ کر رکھ دئیے ہوں۔ اس نے اپنے کپڑے اور بالوں کی بگڑی ہوئی ترتیب دیکھی تو اس کے دل میں اچانک ایک خدشے نے سر اٹھایا۔ اوروہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اپنے بدن کو غور سے دیکھا ، چھوا اور پھر قدم آدم آئینے کے سامنے جا رکی۔ اس کی ساری اور بلاؤز پر پڑی ہوئی بے شمار شکنیں جانے کس کی شکایت کر رہی تھیں۔ اس نے گرسنہ نگاہوں سے اپنی آنکھوں کو دیکھا۔ اور جیسے ان سے جواب طلب کیا ہو ، کہ اس گزری ہوئی رات کی تلخی کا کون ذمہ دار تھا؟ اپنے آپ پر سوال کرنے کے بعد اس کے حلق پر کانٹے سے پڑ گئے۔ اس نے اپنے ہونٹ کاٹے، جن پر پپٹریاں جم رہی تھیں، اس نے اپنے ہونٹوں کو بھی غور سے دیکھا، اور شک ہوا کہ انہیں بھی کوئی رات بھر چوستا رہا ہے۔
وہ وہاں سے ہٹ کر پھر صونے پر جا پڑی اور گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ مہیش سے اسے ایسی توقع نہیں تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں اسے اس قدر گہر اربط نہیں قائم کرنا چاہئے تھا۔ مہیش نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا تھا۔ اس کے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ ابوہ چاہے تو مہیش کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرسکتی ہے۔ لیکن ثبوت! اور بدنامی؟ اسنے ہتھیلیوں میں سر ڈال لیا۔ اب کیا کرے ؟ اس کے خاوند کو اطلاع ہوگئی تو وہ کس قدر غیظ و غضب میں آئے گا۔ اس کا جی چاہا مونہہ میں انگلی ڈال کر قے کر دے۔۔۔!
اسی وقت اس کا نوکر کسی ضرورت سے اس کے کمرے میں آ گیا۔ سترہ اٹھارہ برس کا جنگلی قسم کا چھوکرا ، نہ بات کرنے کی تمیز نہ کپڑے پہننے کا شعور!
اس نے اسے گھور کر دیکھا، اور پھر اپنے آپ سر ہلا دیا، اور دل میں کہا۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا، لیکن کچھ نہ کچھ ہوا ضرور ہے۔ اس کی بے چینی بلا وجہ نہیں، پھر وہ حافظہ پر زور ڈال کر مہیش کا اتہ پتہ یاد کرنے لگی۔ ریسٹورنٹ میں تعارف کراتے وقت اس نے اپنے کسی دفتر کا ذکر کیا تھا۔ وہ دفتر فوج کا ،کچہری کا، خزانے کا، یونیورسٹی کا، کسی کا بھی نہ تھا، اس نے دماغ پربہت زور دیا، لی کن کچھ یاد نہ آیا ، معاً اسے امپرومنٹ ٹرسٹ کے دفتر کاخیال آیا۔ اور ایسے معلوم ہوا جیسے اسے کچھ ٹھیک ٹھیک سا یاد آ رہا ہو۔ لیکن امپرومنٹ ٹرسٹ کے دفتر میں وہ کس عہدے پر تھا، اس کا کچھ پتہ نہ تھا۔
اس نے جلدی جلدی بکھرے ہوئے بال سمیٹے ، کپڑے تبدیل کئے ، اور امپرومنٹ ٹرسٹ کے دفتر کی طرف چل دی۔ وہ گیٹ پرپہنچی تو اس کی گھڑی آٹھ بجا رہی تھی۔ وہ اپنی جلد بازی اور پریشانی کے باعث بہت شرمندہ ہوئی کہ دفتر تو دس بجے ہی کھلتا تھا ، وہ وہاں سے ہٹ کر گھاس کے پلاٹ میں جا بیٹھی، جو دفتر کے سامنے ہی تھا۔ وہاں جاکر بھی اس کے دل میں وہی وسوسے اٹھتے رہے۔ اور اگر سچ مچ اس کے پیٹ کے اندر کسی بچے نے پرورش پانا شروع کر دیا، تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ اسے اپنی دنیا مسمار ہوتی ہوئی نظر آئی یا جیسے کوئی بہت بڑی حقیقت سراب میں مبدل ہو جائے۔۔۔یا افق پر جھکی ہوئی قوس قزح اچانک سیپد دھوئیں کی ایک لکیربن کر رہ جائے۔
اس نے شادی کرنے سے پہلے ہی اپنے خاوند کے ساتھ عہد کر لیا تھا کہ وہ بچے کبھی پیدا نہ کریں گے۔ اور جب کالج میں پڑھتی تھی تو اکثر ایسے مباحثوں میں حصہ لیا کرتی تھی۔ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی ہی اوسطاً اقتصادی مشکلات کا باعث ہے۔ عام شہری اپنی حکومت سے ہر قسم کا تحفظ اور مالی و خوراک کی سہولیات حاصل کرتا ہے لیکن اوسطاً اس کے عوض سے بمشکل ایک پیسہ سالانہ بطور ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اس صورت میں اسے کیا حق ہے کہ وہ ملک کی سر زمین پر آکر ایک سانس بھی لے۔ وہ پیدا ہوکر نہ اچھا سپاہی بن سکتا ہے نہ اچھا کسان۔ صرف رونے اور چلانے والا ایک بیکار انسان بن کر جب تک زندہ رہتا ہے اپنی حکومت کے لیے درد سر بنا رہتا ہے۔ ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے ایک تصور سامنے رکھا جاتا ہے۔ ایک نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے ہی جدو جہد کا آغاز کیا جاتا ہے۔ لیکن انسان کی یہ کتنی بڑی جہالت ہے کہ وہ اپنی اولاد پیدا کرنے سے قبل اپنے سامنے کوئی واضح مقصد نہیں رکھتا۔
اس کی کالج کی گرما گرم تقریروں سے اس کے پروفیسر کس قدر خوش ہوتے تھے۔ آج وہ تقریریں ایک چیخ بن کر گم ہوچکی تھیں۔ ایک طویل اور بے آواز چیخ جو اس کے ذہن میں ٹکراتی پھرتی تھی ، سوچ سوچ کر اس نے فیصلہ کرلیا کہ آج اگر مہیش سے ملاقات نہ ہوسکی تو کسی لائق لیڈی ڈاکٹر کا مشورہ حاصل کرے گی۔
پونے دس بجے ہی دفتر کے گیٹ پر جاکھڑی ہوئی، آنے والوں کی ایک طویل قطار بندھ گئی تھی۔ حد نظر تک آگے پیچھے سپید اجلے کپڑوں، والے انسان اپنے ذہن میں ایک گھر ، ایک بیوی، بے شمار بچوں، اور کم تنخواہ کا تصور لئے بھاگتے چلے آ رہے تھے۔
اچانک ایک شخص سیاہ چشمہ اتارتے ہوئے اس کے سامنے آ کھڑا ہوا ، اور مسکرا کربولا۔
"ہیلو مسز بینرجی۔"
"ہیلو مسٹر مہیش!"
مہیش کی طرف دیکھ کر بہت سی باتیں ایک ساتھ اس کے حلق میں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگیں لیکن وہ کچھ نہ کہہ سکی ، مہیش کے پوچھنے پر وہ صرف اتنا کہہ سکی۔
"مجھے تمہارے ساتھ ایک ضروری کام ہے۔"
مہیش اسے کینٹین میں لے گیا اور ایک ہی گلاس میں اس کے ساتھ لیمن پینے کی پیشکش کی ،جسے مسز بینرجی نے ٹھکرا دیا۔ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی مہیش بہت حیران ہوا، گھبرا کر اسے خاموش کرانے کی سعی کی تو مسز بینرجی نے انگریزی میں اسے دو چار گالیاں دے ڈالیں۔ ان گالیوں کوبھی مہیش نے فراخ دلی سے برداشت کیا، اور اصرار کرتا رہا کہ وہ اپنی ناراضگی اور رونے کا سبب توبتادے جب مسز بینرجی نے بہت دیر کے بعد اسے سارا قصہ سنایا تو وہ زور سے ہنس پڑا۔ اور بولا۔
"اپنے الفاظ واپس لو، مسز بینرجی ! میں کہتا ہوں اپنی گالیاں واپس لو۔"
مسز بینرجی نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، یہ رٹ لگاتی رہی۔
"اس حرکت کے ذمہ دار تم ہو، اس لئے تم دھوکے باز ہو، فریبی ہو! مجرم ہو!"
"مسز بینرجی۔۔ تم دنیا کی سب سے بڑی بےوقوف عورت ہو۔ یہ وہم تمہاری زندگی لے ڈوبے گا۔ میں اپنی زندگی کی عزیز سے عزیز چیز کی قسم کھانے کو تیار ہوں کہ ایسی حرکت میں نے نہیں کی۔"
مسز بینرجی پھر رونے لگی۔
"تم اندازہ نہیں لگا سکتے۔ میری سماجی زندگی کا ڈھانچہ پرزے پرزے ہو کر رہ گیا ہے۔"
مہیش اسے ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا، اور سارا ماجرہ کہہ سنایا۔ لیڈی ڈاکٹر نے مسز بینرجی کا معائنہ کرنے کے بعد صاف کہہ دیا کہ اسے محض وہم ہو گیا ہے۔ دراصل اسے کچھ نہیں ہوا۔ لیکن مسز بینرجی نے اس کے سرٹیفکیٹ پر اعتبار نہ کیا۔ مہیش کے ساتھ ایک دوسرے ڈاکٹر کے پاس گئی۔ پھر تیسرے اور پھر چوتھے ڈاکٹر کے پاس بھی گئی۔جنہوں نے لکھ کر دے دیا کہ اس کے پیٹ میں کوئی بچہ نہیں ہے۔ کئی دن گزر گئے ، لیکن وہ اسی وہم میں مبتلا رہی کہ اس کے پیٹ میں ضرور کوئی بچہ پل رہا ہے۔
اسی مہینے اسے سینٹیری ٹاول استعمال کرنے کا بھی موقع نہ ملا، اور یہ اس کے وہم کو یقین میں بدلنے کے لئے کافی ثبوت تھا۔ اور اسی بنا پر وہ پھر ان ڈاکٹروں کے پاس گئی۔ لیکن ڈاکٹر اپنے پرانے فیصلے پر قائم رہے۔ اب تو انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر وہ اپنی بات پر اڑی رہی اور وہم کو مٹانے کی کوشش نہ کی تو بہت ممکن ہے کہ کچھ ایسے آثار بھی نمودار ہو جائیں جو بچے کی پیدائش کے ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کا فیصلہ اٹل ہے کہ اس کے پیٹ کے اندر کوئی بچہ نہ ہوگا۔
اب مہیش کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہ گیا تھاکہ یاتو شہر چھوڑ کر کہیں بھاگ جائے یا مسز بینرجی کے آگے سر تسلیم خم کرکے وہ الزام قبول کرلے جو اسنے اس پرلگایا تھا ، اور اب تو مسز بینرجی یہ بھی اصرار کررہی تھی کہوہ اس کے ساتھ ہمیشہ کیلئے وابستہ ہونے کے لئے تیار ہوجائے۔ وہ اپنے خاوند کو چھوڑ دینے کے لئے تیار تھی۔
اور مہیش اسے اس طرح خطرناک طور پرآگے بڑھتے دیکھ کر گھبرا گیا۔ کیونکہ ایک تو وہ اس سے چند برس عمر میں چھوٹا تھا۔ دوسرے اس کی ایک اور لڑکی کے ساتھ سگائی بھی ہو چکی تھی۔ یہ لڑکی وہی بیمار لڑکی تھی جو اس کے افسر کی صاحبزادی تھی۔ اگرچہ اب وہ اس لڑکی سے بھی شادی کرنے کا خواہشمند نہ تھا۔ لیکن اس سے بچنے کے لئے مسز بینرجی کو لے کر بھی وہ راضی نہ تھا۔ یہ تو آسمان سے گرا کھجور پر اٹکا والی مثل تھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ مسز بینرجی کے خاوند کو مطلع کر دے گا۔ اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہ تھا۔
مسز بینرجی کو وہ بظاہر تسلی بھی دیتا رہا۔ وہ کبھی کبھی خود کشی کر لینے کی دھمکی دیتی تو اس کے ساتھ شادی کرنے کا وعدہ بھی کردیتا تھا۔ آخری وعدہ اس نے چند روز کے اندر پورا کرنے کا کیا، اور مجبور ہوکر اس نے خاوند کو بلا بھیجا، اور اسے ہدایت کردی کہ وہ یہاں آکر سیدھا گھر کی طرف نہ جائے بلکہ اسٹیشن پر اسے ملے، کیونکہ اس کے سیدھا گھر پہنچنے سے مسز بینرجی کے خود کشی کرلینے کا بھی احتمال پیدا ہو سکتا تھا۔
وہ مسٹر بینرجی سے اسٹیشن پر ہی ملا،سپینسر کے ریستوران میں بیٹھ کر اسے مکمل روئداد سنائی۔ جسے سن کر مسٹر بینرجی نے گہری سنجیدگی کا اظہار کیا۔ اس کا کوئی صحیح حل ڈھونڈنے کیلئے وہ سر توڑ کوشش کرتے رہے۔ کیونکہ ذرا سا غلط قدم اٹھانے پرمسز بینرجی کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ پھر مہیش اسے ان ڈاکٹروں کے پاس لے گیا۔ جنہوں نے مسز بینرجی کا معائنہ کیا تھا، جس سے مسٹر بینرجی کو یقین ہو گیا کہ اس کی بیوی واقعی وہم میں مبتلا ہے۔
ایک تجویز کے ماتحت، وہ اپنی بیوی سے ملے بغیر کان پور لوٹ گیا اور مہیش مسز بینرجی کو مسوری لے گیا۔ جہاں پر لے جاکر اس نے اس کے ساتھ شادی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن پہاڑ پر پہنچ کر اس نے بھی ایک شرط پیش کر دی کہ شادی سے پہلے وہ ہونے والے بچے کا مونہہ دیکھے گا ، اگر اس کے چہرے کے نقوش کا کوئی ہلکا سا عکس بھی اس کے ساتھ مل گیا تو وہ بچے کو جائز سمجھ کر اس کے ساتھ شادی کر لے گا۔ ورنہ وہ اس عہد کا پابند نہ ہوگا۔ مسز بینرجی کو اس کی یہ شرط منظور کر لینی پڑی۔ کیونکہ صرف یہی مہیش پر بچے کا باپ ہونے کا الزام لگاتی تھی۔۔!
جوں جوں وقت گزرتا گیا ، مسز بینرجی کا پیٹ پھولتا گیا، اگرچہ ابھی تک ڈاکٹر اپنے پرانے فیصلے پر قائم تھے۔ اور اس کے جسم کی تبدیلی کو اس کے وہم کا نفسیاتی اثر بتاتے تھے۔
دونوں ایک ہی ہوٹل میں ایک ہی کمرے میں مقیم تھے۔ ان کی زندگی عجیب تلخی کی زندگی تھی۔ وہ دونوں آپس میں میاں بیوی نہیں تھے بلکہ اس قسم کا صرف مظاہرہ کرنے پر مجبور تھے۔
اب بھی مہیش نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ اس کے خاوند سے معافی دلا دینے کا وعدہ کیا، لیکن مسز بینرجی اپنی ضد پر اڑی رہی ، اس کا بتدریج پھولتا ہوا پیٹ دیکھ کر کبھی کبھی مہیش کو بھی ڈاکٹروں کے سرٹیفکیٹ جھوٹے معلوم ہونے لگتے۔ جیسے وہ سب مسز بینرجی کے ساتھ سازش کرکے ایسا کہتے ہوں۔ اور اس کا جی چاہتا کہ بچے کی ذمہ داری لینے سے صاف انکار کردے۔ کیونکہ وہ جانتا اور سمجھتا تھا کہ وہ اس معاملے میں بالکل بے قصور تھا۔ ممکن ہے یہ کسی اور کی حرکت ہو اور وہ خواہ مخواہ تصویر کی رنگ آمیزی میں لایا جا رہا ہو۔۔۔ لیکن جب مسز بینرجی اپنی انتہائی معصومیت سے اسے اپنے ہونے والے بچے کا باپ بتاتی تو اسے یقین آ جاتا کہ اس کے ذہن میں ایک وہم کے سوا کچھ بھی نہیں۔
آخر وہ گھڑی آ پہنچی جس کے انتظار میں نہ صرف اوہام کا فریب زندہ تھا بلکہ سچے اعتقاد کی دیواریں کھڑی تھیں۔ مسز بینرجی کو ایک ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ، جہاں ماہران نفسیات نے ایک متفقہ فیصلہ دے دیا کہ اسے کلوروفارم سونگھا کر اوپریشن کے ذریعے بچے کو نکال لیں گے۔
مسز بینرجی نے انکار نہ کیا۔
مہیش نے خفیہ طور پر مسٹر بینرجی کو بھی بلالیا تھا تاکہ وہ خود موقع پر موجود رہ کر اپنے اعتقاد کا امتحان لے سکے۔ اوپریشن کے وقت جب مسز بینرجی کو کلوروفارم سونگھا دی گئی تو مسٹر بینرجی کو بھی وہیں میز کے پاس بلا لیا گیا۔ مسز بینرجی کا وہم اپنے اصلی روپ میں ظاہر ہوا۔ اس کا پیٹ آہستہ آہستہ سکڑتا ہوا اپنی اصلی حالت میں تبدیل ہو گیا۔ یہ سب کچھ ایک یقین کے ماتحت ہوا کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ اس کا بچے کے جنم کے لئے اوپریشن کیا جا رہا ہے ، لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔
جب وہ ہوش میں آئی تو آپریشن کی میز کے گرد لوگوں کو ہنستا ہوا دیکھا اور ان کے درمیان اسی طرح ہنستا ہوا اپنے خاوند کو دیکھا تو سناٹے میں آ گئی۔ اس نے فوراً ایک بچے کے لئے نظریں دوڑائیں اپنے پاس گود میں۔۔ ادھر،۔۔۔ اُدھر۔۔۔ لیکن بچہ کہیں نہ تھا اس کی گھبراہٹ کو سمجھتے ہوئے بڑے ڈاکٹر نے سامنے ریک میں رکھی ہوئی موٹی موٹی کتابوں کی طرف اشارہ کر دیا، اور تمام لوگ قہقہہ لگاکر ہنس پڑے۔
اسی جھرمٹ میں مہیش نے اسے صرف زبان نکال کر چڑانے پر ہی اکتفا کیا، اور اس کے خاوند مسٹر بینرجی کے کان میں کچھ کہہ کر باہر چلا گیا۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
زرد پتوں کی بہار - پاکستان سفرنامہ - رام لعل - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
ماخوذ:
ماہنامہ "شمع" نئی دہلی۔ شمارہ: جولائی 1950 (خاص نمبر)۔
ماہنامہ "شمع" نئی دہلی۔ شمارہ: جولائی 1950 (خاص نمبر)۔
Tha junoon mujhko magar. Short Story by: Ram Lal
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں