نسیم انہونوی اور نسیم بک ڈپو لکھنؤ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-03-03

نسیم انہونوی اور نسیم بک ڈپو لکھنؤ

ایک زمانہ تھا جب ہمارا لکھنؤ ایسا نہیں تھا، جیسا اب نظر آتا ہے۔ اپنی نزاکت، لطافت، نفاست اور مروت کی خوبیوں سے مہکتا گلستاں تھا جو حقیقی معنوں میں باغوں اور باغیچوں سے مزین تھا۔ لاٹوش روڑ ہو، ٹھاکر گنج ہو، چوک ہو یا اکبری دروازہ، امین آباد ہو یا قیصر باغ ، سب کچھ واقعی باغ و بہار تھا۔ اور جب چاروں طرف 'فردوس بریں' کا نظارہ ہو تو اطراف سے اپنے اپنے فن کے باکمال لوگ بھی متوجہ ہوتے اور 'فردوس بر روئے زمیں است' کی طرف کا رخ کرتے۔

'اچھے زمانے' کی باتیں ہیں کہ لکھنؤ میں کئی مشہور 'پرنٹنگ پریس' تھے جو لگاتار اردو ادب کے گلستاں کی آبیاری کر رہے تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک کتابیں اور رسالے شایع ہو رہے تھے اور پرانے شہر کی منظم لائبریریاں نادر و نایاب کتابوں سے بھری رہتی تھیں اور اپنے مستقل ممبران کی ادبی تشنگی کو کم کرنے یا انہیں سیراب کرنے کا کام کرتی تھیں۔ مظہر عالم لائبریری، ذوق ادب لائبریری کو بھلا پرانے لکھنؤ والے کیا کبھی فراموش کر سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ درجنوں ہوٹلوں اور اڈوں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ، جہاں محض ایک آنہ چائے کی پیالی پی کر گھنٹوں دقیق ترین ادبی مسائل پر گرما گرم بحث ہوا کرتی تھی۔ معمے حل کئے جاتے تھے۔ امین آباد میں دانش محل کے مالک نسیم صاحب اور فروغ اردو کے مالک جناب شمس علوی عرف بوٹن بھائی کو کون بھلا سکتا ہے؟ امین آباد میں دانش محل ، فروغ اردو کے علاوہ ، صدیق بک ڈپو، خورشید بک ڈپو اور مرحوم والی آسی کی کتابوں کی دکان۔ چوک میں اردو کتابوں کی دوکان جو فرقانیہ مدرسے اور حنا بلڈنگ اور ببو صاحب گھڑی ساز کی دکان کے آس پاس تھی، جہاں بچوں کے لئے 'کہانیوں کی کتابیں' ملا کرتی تھیں، اور قرب و جوار کے بچے بھاگ بھاگ کر کتابیں خریدا کرتے تھے۔ ننھے منے دماغ 'سبز پری اور کالا دیو'، 'لنگڑا بادشاہ' اور ابصار عبدالعلی کی 'انگلیوں کی چوری' یا 'پھولوں کی شہزادی' کی داستانیں پڑھا کرتے اور خوابوں کی نگری سجایا کرتے تھے۔

شہر میں بہت سے پرنٹنگ پریس تھے، جن میں 'لاٹوش روڈ' پر ایک عمارت کی بالائی منزل پر 'نسیم بک ڈپو' تھا، جو اس لحاظ سے منفرد تھا کہ وہاں سے ہر ماہ "حریم" نام کا ایک رسالہ خواتین کے لئے اور "کلیاں" نام کا ایک خوشنما پرچہ بچوں کے لئے بڑی آب و تاب اور پابندی سے برسہا برس نکلتا رہا۔
نسیم بک ڈپو کے مالک جناب سیم انہونوی صاحب کی پیدائش انیس سو آٹھ (1908ء) کی تھی۔ وہ اپنے والد محترم کے ساتھ لکھنؤ بغرض تعليم آئے تھے، اور میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ننھی سی عمر یعنی محض بیس سال کی عمر میں "حریم" نام کا رسالہ نکالنا شروع کیا، جو قریب ستر سال (1928 تا 1998ء) نکلتا رہا۔ نسیم صاحب خود ایک منجھے ہوئے ناول نگار تھے ، اور ہر سال گرمی کے موسم میں پابندی سے نینی تال جایا کرتے تھے اور وہاں ایک ناول ضرور لکھا کرتے تھے۔ ان کے ناول سماجی پس منظر میں ہوتے تھے اور اصلاح معاشرہ اس کا خاص مقصد ہوا کرتا تھا۔ ایسے معاشرے کی اصلاح کی کوشش، جو آج بھی اپنی تمام تر کمزوریوں کے ساتھ موجود ہے، ایسے میں نسیم صاحب کے اصلاحی ناولوں کی آج زیادہ ضرورت ہے۔ کاش کوئی اخبار یا ادارہ ان ناولوں کو قسط وار شائع کرنا شروع کر دے۔ یہ وہ خزانہ ہے جس کا ہر نگینہ الگ الگ جگمگا رہا ہے۔

نسیم صاحب کی عنایت تھی کہ پابندی سے 'حریم' اور 'کلیاں' ہمارے گھر بھیجتے تھے، اور سب لوگ بہت شوق سے پڑھتے اور دونوں پرچوں کا انتظار کیا کرتے تھے۔ ہم اکثر اپنے ابو کے ساتھ 'نسیم بک ڈپو' جایا کرتے تھے، اور بڑی خوشی سے وہاں کام کرنے والوں اور کتابوں اور رسالوں کو دیکھا کرتے تھے۔ ہم نے کلیاں اور حریم رسالوں کی جلدیں اپنے جیب خرچ سے بنوائی تھیں۔ جیب خرچ ، ہر ماہ آٹھ آنے ملتا تھا ، جو اس وقت بہت بڑی رقم ہوتی تھی۔ 'کلیاں' کی کئی نظمیں ہم کو آج بھی زبانی یاد ہیں اور ہم اپنے بچوں اور اپنی پوتیوں کو سناتے ہیں۔
'کلیاں' بہت معیاری پرچہ تھا ، اور 'کھلونا' اور 'پیام تعلیم' سے کسی طور کم نہیں تھا۔ اس میں بڑے نامور لوگ لکھتے تھے۔ ہمارے رشتہ داروں میں بچوں کے لئے کئی رسالے منگائے جاتے تھے، اور سب بچے آپس میں بدل بدل کر سب رسالے پڑھتے تھے۔ 'کلیاں' کے اڈیٹر نسیم صاحب کے بڑے بیٹے شمیم انہونوی تھے، جو حلیم کالج کانپور سے وابستہ ہو گئے تھے اور ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی صاحب کے داماد تھے۔ ہاشمی صاحب کی بیوی محترمہ سرور فاطمہ ہاشمی نے اپنے بچپن میں ایک کہانی لکھی تھی 'کاش میں چڑیا ہوتی' وہ کہانی 'حریم' میں چھپی تھی۔ سرور صاحبہ، نسیم صاحب کی منہ بولی بہن تھیں، اور انہی کی بیٹی نجمہ ہاشمی کی شادی نسیم صاحب کے بڑے بیٹے شمیم صاحب سے ہوئی ہے۔

رسالہ 'حریم' جو خواتین کے لیے شائع ہوتا تھا، بہت معیاری اور مختلف پرچہ تھا ، اس کے اڈیٹر خود نسیم انہونوی صاحب تھے اور ادارتی ٹیم میں ان کی بیگم کا نام بھی شامل رہتا تھا۔ نسیم صاحب روزمرہ کے اپنے مشاہدات پر تبصرہ کرتے تھے۔ ایک خاص کالم ہوتا تھا جس میں شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش پر مبارک باد اور خبریں ہوتی تھیں، جیسے 'فلاں باجی اور دولہا بھائی کے گلشن حیات میں ماشا اللہ دوسری کلی مسکرائی ہے، اللہ ہم سب کو مبارک کرے'۔ یا 'فلاں محترم کے بیٹے اور فلاں محترم کی بیٹی کا عقد مبارک ہو، اللہ ان کی ازدواجی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے۔ آمین'۔

حریم میں اکثر خواتین افسانے لکھتی تھیں، ہر ماہ ایک ناول قسط وار شائع ہوتا تھا اور سالنامہ 'الگ سے ایک ناول' کی شکل میں آتا تھا۔ اکثر عفت موہانی کے ناول ہوتے تھے۔ مسرور جہاں ، عفت موہانی ، رضیہ بٹ، ہاجرہ نازلی اور بہت سی خواتین سے ہمارا تعارف "حریم" ہی کے ذریعے ہوا۔ مشہور بالی ووڈ اداکار شتروگن سنہا کی ایک عزیزہ 'اسنیہ لتا سنہا' اردو کی بڑی پرستار تھیں اور اکثر نسیم صاحب کے پاس آیا کرتی تھیں۔

ہم نے جب پہلا افسانہ لکھا تو تو نسیم چچا کو بھیجا، انہوں نے ازراہ عنایت شائع بھی کیا اور پابندی سے ڈاک کے ذریعے ہم کو 'حریم' دلی میں ملتا رہا۔ ہم عمان چلے گئے، لیکن پرچہ ہمارے نام پابندی سے لکھنؤ کے پتے پر آتا رہا۔ ہم چھٹی میں آتے تو سال بھر کا اسٹاک پڑھا کرتے تھے۔
نسیم چچا کی یہ اردو سے محبت تھی یا وضع داری کہ بہت سے لوگوں کو وہ 'مفت' رسالہ بھیجا کرتے تھے۔ نسیم صاحب نہیں رہے، ایک روز ہم لاٹوش روڈ سے گزر رہے تھے کہ بے اختیار جی چاہا کہ 'حریم' کے دفتر جائیں۔ سو ہم وہاں گئے اور وہاں ان کے بیٹے فہیم سے ملاقات ہوئی اور 'حریم' اور 'کلیاں' بلکہ نسیم بک ڈپو کی تمام کتابوں کے سرورق اور تصاویر بنانے والے آرٹسٹ صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔

نسیم بک ڈپو سے بہت معیاری اور اچھی کتابیں شائع ہوتی تھیں۔ ہم نے جو سب سے پہلا اردو ناول پڑھا وہ نسیم بک ڈپو کا چھپا ہوا تھا۔ خان محبوب طرزی کا ناول "آغاز سحر" تھا۔ پھر تو شاید ہی ہم سے کوئی ناول چھوٹا ہو۔ طرزی صاحب کے علاوہ نامعلوم اردو کے کتنے لکھنے والوں کی کتابیں وہاں سے چھپتی تھیں۔ شوکت تھانوی کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔
امین آباد کے عبداللہ ہوٹل میں روز نسیم انہونوی صاحب ،خان محبوب طرزی اور شوکت تھانوی بیٹھا کرتے تھے اور اپنی اپنی تحریریں ڈسکس کرتے تھے۔ نسیم صاحب کا رجحان ہمیشہ سے مذہب کی طرف زیادہ تھا۔ شوکت تھانوی اپنی طبیعت کے مزاح سے مجبور تھے، کہا کرتے تھے کہ اگر ایک طرف مٹھائی اور دوسری طرف کوئی لڑکی ہو تو نسیم مٹھائی کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے۔
یہ یھی کہا جاتا تھا کہ طرزی صاحب ایک رات میں ایک ناول لکھ لیا کرتے تھے۔ ہمارے ابو اخبار "قومی آواز" میں کام کرتے تھے اور کتابوں پر تبصرہ بھی کرتے تھے، جس کے لیے کتابوں کے دو نسخے آتے تھے۔ تبصرہ 'قومی آواز' میں شائع ہوتا تھا اور کتاب کا ایک نسخہ تبصرہ نگار کے لئے ہوتا تھا ، جو ہمارے گھر آتا تھا۔ شوکت تھانوی کی کتابیں ،خان محبوب طرزی، رام لعل اور بہت سے لوگوں کی کتابیں ہم نے تبصرہ نگار والے نسخے ہی سے پڑھیں۔

نسیم چچا بہت وضع دار انسان تھے ، مذہبی خیالات کے مالک تھے۔ مولانا ناصر میاں کے یہاں پابندی سے جایا کرتے تھے۔ اپنی آخری عمر یعنی تقریباً ساٹھ سال تک انہوں نے اردو کی بہت خدمت کی۔ آج جب کہ 'غیر معروف لوگوں' کے نام پر اردو ادارے اور اکیڈمیاں انعامات تقسیم کر رہی ہیں ، کیا بہتر نہ ہوتا کہ نسیم انہونوی جیسے اردو کے پرستار کے نام سے کوئی ٹرافی یا تمغہ بھی مخصوص کیا جاتا۔

***
ماخوذ: روزنامہ "آگ" لکھنؤ۔ بتاریخ:3/مارچ 2021 ، صفحہ:7

Naseem Inhonvi and Naseem Book Depot Lucknow.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں