مشرف عالم ذوقی (پیدائش: 24/مارچ 1962ء)کتنی ہی بار فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ ریسیور اٹھاتا ہوں ، رکھ دیتا ہوں۔
موجودہ عہد کے فکشن نگاروں کے درمیان اپنی منفرد تخلیقات کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اب تک ان کے چودہ ناول اور افسانوں کےآٹھ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے لاتعداد حقیقی واقعات کو فکشن میں ڈھالا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ:
'ادب خطرے اٹھانے کا نام ہے جبکہ میں نے کبھی خوف اورخطرے کو زندگی میں راستہ نہیں دیا۔ حقیقی واقعات کو فکشن میں ڈھالتے ہوئے سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اسے صحافت یا رپورٹنگ کا درجہ نہ دے دیا جائے۔ اس لیے حقیقی واقعات کو ادب بناتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوتا ہے'۔
ان کے یومِ پیدائش پر، انہیں خراج تحسین کے بطور، ان کا ایک یادگار اور دلپذیر افسانہ (شائع شدہ: ماہنامہ 'شمع'، شمارہ: اکتوبر-1990) باذوق قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
رانگ نمبر۔ یہ رانگ نمبر کیوں لگتے ہیں؟ ڈائل کرتے وقت جلد بازی میں ایسا ہو جاتا ہے ؟ یا آدمی سب کچھ بھول گیا ہے ؟ کتنے نام وہ یاد رکھ سکتا ہے؟
لیکن نہیں۔۔۔ میرا اسسٹنٹ سُمِت بتاتا ہے کہ اب تو اسے بہت سارے دوستوں کے نام، پتے تک یاد نہیں رہتے۔ ملاقات ہو جاتی ہے تو فون نمبر یاد آ جاتا ہے۔ نمبر ، جو اس کی پہچان کرا دیتے ہیں۔
"کتنا نمبر ہے آپ کا؟ سکس سیون ٹو فور ٹو زیرو ون۔ ٹھیک ہے۔ موقع ملا تو فون کرلوں گا"۔
ایک درد سر ہے ایڈیٹر ہونا۔ آفس میں داخل ہوتے ہی جیسے دنیا جہان کے لوگوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ایڈیٹر آ گیا ہوگا۔ پھر کال کے آنے کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے تو۔ کیا کام کر سکتا ہے آدمی؟ کسی کو پاگل بنانا ہو تو اسے ایڈیٹر بنا دو۔
فساد، دنگے ، ہنگامے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ان پر میٹر چھاپنا ہی بند کر دوں جب بھی کوئی تازہ شمارہ تیار ہونے والا ہوتا ہے ، ملک کے کسی نہ کسی علاقے سے دنگے فساد کی خبر آ جاتی ہے۔ پھر مجبوراً سرخی لگانا پڑتی ہے :
بہار جل رہا ہے، ڈبرائی میں قتل عام ، مکتسر ہتیا کانڈ۔۔۔
شمارہ چھپ کر آتا ہے تو یار دوست پوچھتے ہیں: بھائی پرکاش، کیا خوب لکھا ہے آپ نے! شاید ہی اس سے اچھی رپورٹ کسی دوسرے اخبار یا ماہنامے نے دی ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ جذباتی طور پر ان واقعات سے جڑے ہوں۔
جذباتی طور پر؟
دوستوں کی بات سے دل پر دھکا سا لگتا ہے۔ گھر آ کر سوچتا ہوں کہ اتنی فرصت ہی کب ہے کہ جذبات سے کوئی تعلق کوئی رشتہ جوڑ سکوں اور جب ہم نہیں جڑ پاتے ، اتنا قریب ہوتے ہوئے، تو عام آدمی جو محض آفس جانے کی ہڑبڑاہٹ میں یا تو سرخیوں پر نظر دوڑاتا ہے یا ادھر اُدھر سے اخبار یا میگزین کے صفحے پلٹ لیتا ہے؟
"کبھی ان کے لئے بھی وقت ہے تمہارے پاس؟"
نتاشا پوچھتی ہے تو سوئے ہوئے بچوں پر نظر ڈالتا ہوں، کمرے کا بلب اتنی کم روشنی کیوں دے رہا ہے ؟
نتاشا پھر کہتی ہے۔" دوسرے لوگ وقت نکال کر اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور تم۔۔۔"
"ہاں میں۔۔۔" میں ٹھنڈی سانس بھرتا ہوں۔ "تم دیکھتی نہیں ، کتنا پریشان رہتا ہوں۔"
"کبھی تو یہ کہو کہ پریشان نہیں ہو۔" نتاشا جھنجھلا کر کہتی ہے۔
"یہ نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟"
رات کے بارہ ، ایک بج گئے ہیں۔ ٹیبل لیمپ کی روشنی میں کام کرتے ہوئے نتاشا کا یہ جملہ کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔ نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ اس کا مطلب، خاندان، یعنی بیوی بچوں کی موت پر دستخط کر دوں؟ پھر کہاں جاؤں گا؟ کیا کھلاؤں گا؟ اور پھر ایڈیٹر کی نوکری۔ لوگ تو جھک مارتے رہتے ہیں، پروف دیکھتے دیکھتے عمر نکل جاتی ہے، مگر ایڈیٹر نہیں بن پاتے، کتنی عزت ہے، کتنی شہرت ہے، تمام مشہور ادیبوں کی چیزیں آپ کی میز پر سجی ہیں۔۔ اور آپ ان کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جن کے دم سے سمیناروں میں رونق آ جاتی ہے ، ان کے سامنے بھیگی بلی بنے کھڑے ہوتے ہیں۔
ہر وقت دماغ الجھا ہی رہتا ہے۔ دوست احباب کے بے وجہ ٹیلی فون الگ دماغ خراب کرکے رکھ دیتے ہیں۔ سوچتا ہوں، دوسرے اسسٹنٹ اور سب ایڈیٹر تو چھٹی لیتے ہی رہتے ہیں ، کیوں نہ میں بھی ایک لمبی چھٹی پر نکل جاؤں؟ اپنے گاؤں، بیوی بچوں کے ساتھ، پورے ایک مہینے کے لئے۔۔ اور اس ایک مہینے میں کتابوں، اخباروں سے بالکل کٹ جاؤں، چھو کر بھی نہ دیکھوں۔ کتنی سکھ چین کی زندگی ہوگی۔ مگر نہیں، کبھی یہ چیزیں ہی میرے لئے گلیمر تھیں۔ لیکن اب اب تو مجھے اپنے گاؤں واپس جانا ہی چاہئے ، صرف ایک مہینے کے لئے۔ اس تھکن بھری زندگی سے کچھ خوبصورت لمحے چرانے کے لئے۔
ایک مہینے کی آزادی برسوں بعد مجھے ملی تھی۔
نتاشا کو سامان باندھتے ہوئے دیکھ کر جی چاہا کہ کہوں : نتاشا، تم خوش ہو۔۔ شاید برسوں بعد گاؤں والے گھر میں چین کی چھٹیاں منانے کے احساس سے۔ مگر تم نہیں جانتیں ، آزادی کا ایک مہینہ صرف ایک دن، نہیں صرف چند سیکنڈ کے برابر ہوتا ہے۔ اتنی جلد کٹ جاتا ہے کہ شاید وہاں سے واپسی کے بعد برسوں آگے کی تھکن مجھے پھر ویسا ہی چڑچڑا اور بد دماغ بنا دے گی۔ لیکن میں یہ نہیں کہہ سکا۔ صرف دیکھتا رہا۔ بچے خوش تھے ، نتاشا خوشی خوشی سامان باندھ رہی تھی۔
یہ اپنا گاؤں ہے ، اور یہ اپنے گاؤں کا گھر ہے۔ شاید نہیں۔۔ اس گھر سے صرف میرے پرکھوں کا تعلق رہا ہے ، میں یہاں کبھی بچپن میں آیا تھا، پھر جوانی میںیا تو بابو جی بھیجتے یا تفریحاً کبھی کبھار موقع نکال کر۔ مگر گاؤں کا یہ مکان آباد تھا۔ چھوٹے بھائی کے بیوی بچے یہاں رہتے تھے ، پچھواڑے کے دو کمرے ہمیشہ ہمارے نام پر بند رہے۔ پتہ نہیں کب آنا ہو جائے۔ گاؤں اب بھی وہی ہے۔ وہی پرانے قصوں جیسا۔ آج بھی پڑھے لکھے آدمیوں کی وہاں وہی قدر ہے۔ بھائی جب گاؤں والوں کو بتاتا ہے کہ ان کا بھائی ان کے بارے میں لکھتا ہے تو وہ آنکھیں پھاڑے بڑے غور سے ، فخریہ نظروں سے دیر تک میرا جائزہ لیتے ہیں۔ پھر کوئی کہتا ہے۔
"باؤ صاحب، یہ تمہارا ہی گاؤں ہے۔ مہانگری چلے گئے تو کیا ہوا۔ دیکھ رہے ہو گاؤں کی حالت۔ سرکار صرف الیکسن سمے ہی جاگتی ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔ ایک سڑک بن جاتی تو۔۔ تم تو سب کھ لکھتے ہو۔ ایک ذرا اپنے گاؤں کے بارے میں بھی۔۔۔"
مجھے خیال آیا، اس گاؤں سے اپنا بچپن کا رشتہ رہا ہے، کچھ تو لکھنا ہی چاہئے مجھے۔ لیکن سڑک؟ سڑک نہیں بن سکتی۔ گاؤں میں بیداری نہیں آ سکتی، یہاں سب سوئے ہوئے لوگ ہیں۔ خاکی وردی دیکھ کر ڈر جانے والے لوگ۔ پولیس گاڑی سے خوف کھانے والے لوگ۔ بڑے بڑے لوگوں کی جی حضوری میں کھڑے ، سر جھکائے، انہیں تو شاید وقت ہی بدلے یا کوئی بہت بڑا حادثہ۔ سب سے دکھ کی بات تو یہ تھی کہ جس گاؤں کا اپنا ایم۔پی ہو، وہاں ترقی کے نام پر اب تک سڑکوں کی یہ حالت تھی۔
دو دن گزر گئے ، سوچتا تھا گاؤں والوں سے ملوں۔ سب اپنے لوگ ہیں، پھر ان جاہل گنوار لوگوں سے ملنے کے لئے مہا نگری کے مصروف ترین آدمی کے اندر کشمکش چلتی۔ گاؤں کبھی جم کر رہا نہیں پھر یہ لوگ میری باتیں کیا خاک سمجھیں گے ؟ لیکن ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے ان کے درمیان جانا کسی خوش گوار احساس سے کم نہ تھا۔ اس دن شام چھ بجے ہوں گے۔۔۔ ٹھنڈک کچھ بڑھ گئی تھی، بھائی سے باہر چلنے کو کہا تو وہ فوراً تیار ہو گیا۔ مریٹھا باندھ کر، باہر پڑی ہوئی ہوائی چپل پہن کر وہ تیزی سے باہر آگیا، جیسے اسی انتظار میں ہو۔
مٹی کے ایک چھوٹے سے پہاڑ کے اس طرف الاؤ جل رہا تھا۔ کافی لوگ بیٹھے آپس میں بات چیت کر رہے تھے، بھائی آگے بڑھ کر بولا۔
"بسنات چا، یہی ہمرے بھائی ہیں، تو کہت رہو تو ان کو لیوا لائے ہیں۔"
"آئیں آئیں روا۔ ہم کب سے درشن کو ترست رہیں۔"
بسنات چا کے ساتھ کئی بوڑھے پرانے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔
"نہیں نہیں بیٹھے رہئے، نمستے۔۔۔ " میں نے ہاتھ جوڑ دئیے۔
"کا بات چل رہی تھی بھکنا بابا۔۔۔" سدھیندو ایک بوڑھے سے پوچھ رہا تھا۔ آگ کے گرد بیٹھے ہوئے لوگ چپ سے ہو گئے۔
" کا بات ہے؟" سدھیندو، دونوں ہاتھ تاپنے لگا، اس کا ساتھ دینے کے لئے میں بھی زمین پر بیٹھ گیا۔ بسنات چا، نے تھوڑے سے پتے زمین سے بٹورے اور دوبارہ الاؤ میں جھونک دئے۔
"ماملا ای ہے کہ اہیرا پھر آ گیا ہے۔"
"کا؟" سدھیندو کا چہرہ فق تھا۔
"اہیرا نے گاؤں میں پھر جھمیلا کر رکھا ہے۔"
"اہیرا کون ہے؟" ان کے زرد چہروں کی بدلی جیسے میرے اس سوال سے کچھ ہٹ گئی۔
"کا کہیں باؤ ساب، تیلی ہے، باؤ ساب۔ جات کا تیلی ہے۔ اہیرا نام ہے۔"
"ای بہت برا ہوا، بسنات۔" ایک دوسرا ادھیڑ عمر کا آدمی بولا۔ اس کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں، ماتھے پر لکیریں پڑی تھیں۔ "پر ای کھبر کیسے ملئی؟"
"ہم اپنی آنکھوں سے دکھنی ہیں۔" ایک بوڑھا آدمی لاٹھی سے پتے ایک طرف کرتے ہوئے بولا۔
"کل راتری بیلا لوٹا لے کر میدان کے لئے نکلا تو پھسپھساوے کی آواز سن کر چونک گئینی۔ کا دکھنی کہ کوئی چلل آوت ہے۔ ہم لوٹا تھامے ایکو پیڑ کے پیچھے چھپ گئین، دکھنی کا۔ کہ الگو بھائی کسی کو چپے چاپ بتیاتے لوا لا رہے ہیں۔ ای آدمی اہیرا تھا۔ ہم صاف دکھنی ہاں۔"
"پر کونو کو کان نہ کان پتہ نہ ہووے کو چاہیں۔ ماملا ای ہے کہ بابو ساب کے کان میں ای جوں نہ رینگے کو چاہیں کہ اہیرا آگئیل ہے۔"
"بابو ساب کو مالوم چل گئیل تو۔"
ڈرے ڈرے لوگ الاؤ کے گرد جھک گئے۔
"اب الگو بھائی کے دن پُر گئے ، اکیلی جات بے چارے، ای ماملے میں پڑے کا مطبل گھر پھنکوانا ہے۔"
بسنات چا کے دونوں ہاتھ الاؤ کی آنچ میں لال لال ہو گئے تھے۔
"سومنتوا ان کو چھوڑے گا نہیں۔"
" تو باؤ ساب۔" ایک آدمی میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔"تم ہی کچھ لکھو نا۔ ای سدھینوکہت رہیں کہ راؤ رگور بھر منٹ پر بھی لکھت ہو۔ اہیرا پر بھی لکھونا۔"
"سومنتوا کا کچھ نا بگاڑ سکئیں ای۔ سومنتوا تو کھدے سرکار ہے۔ باؤ ساب کہاں ای جھمیلے میں پڑئیں۔"
زرد سوکھے پتے ایک بار پھر الاؤ میں جھونک دئے گئے اور الاؤ زور سے لہک اٹھا۔
شاید میں خبروں سے نہیں کٹ سکا تھا ، یہ خبریں میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔ الاؤ کے گرد بیٹھے پیلے پڑے ہوئے لوگوں کا چہرہ اپنی کمزوری اور غلامی کی کہانی کہتا ہوا اکیسویں صدی میں لے جانے والے خواب کا مذاق اڑا رہا تھا۔ خود کو ان کے درمیان اجنبی پاتے ہوئے کچھ دیر کے لئے ایسا احساس ہوا تھا کہ یہ ٹھیک نہیں کیا میں نے۔ مجھے ان سے جڑنے کی کوشش کرنا چاہئے تھی۔ جیسے نتاشا اور بچے دو ہی دن میں گاؤں کی تہذیب کا ایک حصہ بن گئے تھے۔
آگ کے گرد چھوڑی ہوئی کہانی اب سدھیندو کے سلگتے چہرے سے پوری تاریخ کا پتہ دے رہی تھی، کہانی کی تہہ تک جاتے ہوئے پوری رپورٹ جو ادھر ادھر سے معلوم ہوتی وہ اس طرح تھی:
پہلی بار جب گاؤں کے ہی آدمی چندرشیور پانڈے حکمراں پارٹی کی طرف سے چناؤ میں کھڑے ہوئے تو گاؤں میں کئی طرح کی باتیں پھیل گئیں۔ چندریشور پانڈے صرف نام کے گاؤں کے آدمی تھے۔ ہاں پکا گھر ضرور تھا۔ رشتہ دار بھی تھے۔ بس اسی ناطے یہ گاؤں ان کا تھا۔ گاؤں والوں نے سوچا ، اپنا آدمی ہو تو گاؤں کتنی ترقی کرے گا لیکن دوسرے طرف وہ لوگ بھی تھے جو کہہ رہے تھے کہ گاؤں کا آدمی باہر جاکر گاؤں کو کبھی یاد نہیں رکھتا۔ اور وہ بھی چندریشور پانڈے جیسا آدمی، جس کو گاؤں کی کبھی ہوا ہی نہیں لگی ہم اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ لیکن پھر چندریشور پانڈے نے خود ہی گاؤں کا دورہ کیا، گھر گھر گئے۔ اونچے اونچے وعدے کئے ، گاؤں میں ان کی پارٹی کا ایک دفتر کھل گیا۔ ترقی بس اتنی ہوئی کہ اب شہر سے آئے ہوئے کتنے ہی بے کار چھوکرے پکے مکان میں بنے آفس میں جمگھٹ لگانے لگے۔ پھر چندریشور پانڈے راج دھانی میں بس گئے۔ صرف کبھار کبھار آتے۔ اسی درمیان کانونٹ میں پڑھنے والی ان کی لڑکی کو گاؤں کی ہوا راس آگئی اور وہ یہیں آکر رہنے لگی۔ پارٹی ورکروں نے گاؤں کے بہت سے بے کار نوجوانوں کو نوکری کا لالچ دیا۔ کچھ لوگ پارٹی کے لئے بھی کام کرنے لگے۔ ان کو نیتا جی کی خاص جیپ پر شہر لے جایا جاتا تھا۔ چندریشور پانڈے کی لڑکی اروشی جب جینس اور شرٹ پہنے باہر نکلتی تو گاؤں کے لوگ حیرت سے اسے دیکھتے رہ جاتے۔ بڑے غور سے وہ اس مرد نما لڑکی کو دیکھتے اور اس کے پہناوے پر تبصرہ کرتے۔
گاؤں میں زیادہ تر گھر 'بڑی جات' کے لوگوں کے تھے۔ کچھ لوگ اب تک 'باؤ ساب' کی جاگیروں کو ڈھو رہے تھے، گاؤں میں پارٹی کے شامیانے لگتے ہی سومناتھ بھی پارٹی کا آدمی بن گیا تھا۔ ہمیشہ گاڑی میں دیکھا جاتا تھا۔ ویسے سومناتھ کی گاؤں میں کوئی قدر نہیں تھی۔ لڑکیوں کو چھیڑنا، فقرے اچھالنا اس کی عادت تھی۔ مگر وہ اونچی ذات کا تھا، اس لئے لوگ کچھ نہیں کہتے تھے ، جانتے تھے کہ بولنے کا مطلب گھر پھنکوانا۔ بات بات میں پورا گھر آگ کا ڈھیر اور اسی گاؤں میں تیلیوں کے کل ملاکر تیرہ گھر تھے اور ان میں سے ایک تھا اہیرا۔ ایک دن اہیرا نے سومناتھ اور پانڈے کی بٹیا اروشی کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا، تب سے ہی یہ ہنگامہ کھڑا ہوا ہے۔
پہلے تو سومناتھ نے کچھ پیسے دے کر اہیرا کا مونہہ بند کر دیا ، لیکن اہیرا سے بات پچی نہیں۔ اس نے اس کا ذکر دوسرے، تیسرے سے کر دیا۔ بات بڑھتے بڑھتے سومناتھ تک پہنچ گئی۔ بدنامی کے ڈر سے اس نے کوئی قدم تو نہیں اٹھایا۔ لیکن ایک دن اتنا ہوا کہ اہیرا کا تھوڑا سا کھیت راتوں رات سلگ اٹھا۔ پھر اہیرا کے ساتھ سارے تیلی جٹ کر ہنگامے پر اتر آئے۔ اہیرا کی صاف گوئی نے جلے پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔
"ہم سبے لوگن کو بتا دیں گے کہ ای سومنتوا گاؤں میں کا کا گل کھلا رہا ہے"۔
اہیرا کی اسی نادانی کا اثر یہ ہوا کہ بڑی ذات کے لوگ غصے میں آگئے۔ دیکھتے دیکھتے ڈنڈا، لاٹھی، گنڈاسا نکل آیا۔ رات کے پچھلے پہر گاؤں میں قیامت ٹوٹ پڑی۔ سومناتھ بھی معصوم تیلیوں پر عذاب بن کر ٹوٹ پڑا۔ معاملہ سمجھتے ہوئے دوسرے تیلیوں نے چپ چاپ اہیرا کو کھیتوں سے بھگا دیا، اس رات کو گاؤں میں بھیانک زلزلہ آیا۔ تیلیوں کے تیرہ گھر پھونک دئے گئے۔ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔
دوسرے دن صبح کو ایک قطار سے لاشیں سجی تھیں۔ گھر جلتے ہوئے شمشان کا منظر پیش کررہے تھے۔ پولیس آئی، پوچھ گچھ ہوئی ، مہینے گزرے۔ سومناتھ شیر بنا گھومتا رہا۔ اس وقت بھی الگو ہی تھا جس نے پولیس کو کچھ بتانے کے لئے زبان بولی۔ لیکن کیا ملا الگو کو؟ دس روز تک الگو لاٹھی کی اس چوٹ کو سہتا رہا جو اسے زبان کھولنے پر نصیب ہوئی تھی۔
گاؤں والے چپ کیوں تھے؟
تیلیوں کے تیرہ گھر کا پھونکا جانا کوئی مذاق نہ تھا۔ مگر حیرت ہے کہ ٹھنڈے لوگوں کے ساتھ سرکار بھی اونگھتی رہی تھی اور سرکار کس کی تھی؟
اگلے دن میں ابھی دتون کر رہا تھا کہ سدھیندو چلایا:
" بھیا، جلدی چلو، الگو بھائی کو کچھ لوگ مار رہے ہیں۔"
نیم کی دتون ہاتھوں میں کانپ گئی۔دس پندرہ مکان چھوڑ کر الگو بھائی کا مکان تھا۔ الگو بھائی کا صندوق، پٹارا، لکڑی کا ٹرنک ، چھوٹے موٹے برتن سب باہر پھینک دئے گئے تھے۔ ایک طرف گم صم سا الگو کھڑا تھا، کچھ لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔
"س۔۔ سالے!" ایک غنڈے جیسا آدمی چیخ رہا تھا ، اہیرا کو بلاتا ہے ، سازش کرتا ہے سالہ! بول کیوں آیا تھا اہیرا؟"
"اہیرا آیا ہی نہیں۔" الگو بھائی ایک ہی رٹ لگا رہے تھے۔
ایک ہٹا کٹا آدمی، سخت چہرہ لوگ بھگ ساڑھے چھ فٹ لمبا، غصے میں کھول رہا تھا۔ کسی نے اشارے سے بتایا یہی سومناتھ ہے۔ اچانک گاؤں والوں کے دیکھتے دیکھتے وہ آدمی اس بوڑھے پر ٹوٹ پڑا۔
" سالے ، سور، گاؤں میں رہنا ہے کہ نہیں؟"
بوڑھے آدمی نے پھر وہی رٹ لگائی: "اہیرا آیا ہی نہیں۔"
"پھر کبھو آیا تو۔"
غنڈے سامان پھینکنے ، مارنے پیٹنے، کے بعد لوٹ گئے۔ الگو لنگڑاتے ہوئے اٹھے، آس پاس جیسے دیکھا ہی نہیں۔ چپ چاپ گھر میں داخل ہوکر اندر سے دروازہ بند کر لیا بھیڑ چھٹ گئی۔
اس دن دیر تک میں پورے حادثے کی رپورٹ تیار کرتا رہا ، بہار میں خوف کا سامراج، غنڈہ گردی، پارٹی ورکرس اور پولیس کے آدمیوں کا ظلم۔ سوئے ہوئے عوام۔ لااینڈ آرڈر کی ڈھیل۔ کاسٹ وار۔ ذات پات کے نام پر ہونے والا کھلم کھلا سیاسی رقص۔ مگر جی نہیں مان رہا تھا۔ کئی سوال چاروں طرف گھیر رہے تھے۔ حکومت سب کچھ آنکھ بند کرکے دیکھتی کیوں ہے؟ لوگ پٹتے ہوئے دیکھتے کیوں رہتے ہیں؟ بولتے کیوں نہیں؟ مگر بولنے کا حشر سامنے تھا۔
رات ہوئی تو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ چپ چاپ بغیر سدھیندو کو بتائے الگو بھائی کی گھر کی طرف نکل گیا۔ کتے بھونک رہے تھے ، دس بجے کا وقت ہوگا ، لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند ہو چکے تھے۔ الگو بھائی کا دروازہ بھی بند تھا۔ دروازے پر دستک دی، پھر دھیرے دھیرے آواز لگائی۔ "الگو بھائی۔"
کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی۔ نام بھی نہیں پوچھا گیا، بس دروازہ کھل گیا۔
"کون؟"
"میں سدھیندو کا بھائی۔"
"تم؟" آنے والے نے خوف سے میرا چہرہ دیکھا۔ "بھاگ جاؤ، لوٹ جاؤ، وہ دیکھ لیں گے تو تم بھی پھنس جاؤ گے۔"
میں ایک دم اندر کھسک گیا۔ الگو بھائی نے دروازہ بند کرکے کنڈی چڑھا دی ، پھر لمبی سانس چھوڑی: " یہ تم نے اچھا نہیں کیا، اتنی رات گئے کسی نے دیکھ لیا تو؟"
"اہیرا کیوں آیا تھا، الگو بھائی؟"
"وہ۔۔۔۔" الگو بھائی لمبی لمبی سانس لے رہے تھے، وہ اپنی ماں سے ملنے آیا تھا۔ بچنے والوں میں اس کی ماں بھی تھی۔ یہ اہیرا کو معلوم ہوگیا تھا۔ وہ ایک دوبار گاؤں میں دیکھی بھی گئی۔ اہیرا ماں کا پتہ لگانے آیا تھا۔"
"پتہ چلا؟"
"نہیں۔"
" اور کوئی خاص بات ہے؟"
"کیا کرو گے جان کر۔" وہ مردہ سے نظر آ رہے تھے۔
"آج آپ پٹ رہے تھے اور گاؤں والے۔۔۔"
" وہ سمجھدار تھے۔" لفظوں میں عجیب سا ٹھنڈا پن تھا۔ "اب تم جاؤ، اور ہاں اتنا سن لو کہ چناؤ قریب ہے، اہیرا کا ارادہ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ کچھ کرلے گا تو۔ بتاؤ کیا یہ غلط ہوگا قانون کی نظر میں؟"
الگو بھائی کچھ پڑھے لکھے لگ رہے تھے:
"قانون ہے کہاں؟" پھر ہنسنے لگے۔ "بہار میں قانون صرف پڑھے لکھے لوگوں کے پاس ہے۔ اہیرا کچھ بولے گا تو جان سے جائے گا۔ کوئی سنوائی نہیں ہوگی ، مگر اہیرا کی جگہ میں ہوتا تو۔"
ان کی آواز کانپ کر رہ گئی۔ "خیر اب تم جاؤ، خود بھی سمجھ دار ہو۔ کسی سے ذکر نہ کرنا کہ کہاں گئے تھے۔"
گم صم دروازے سے باہر نکلتے ہوئے میں سوچ رہاتھا کہ یہ کون سی صدی ہے۔ انیس سو ستاسی یا اٹھارہ سو ستاسی۔
میری رپورٹ تیار ہو گئی تھی۔ ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ یوں تو گاؤں میں اس درمیان کتنے ہی چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہے ، لیکن کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوا۔ واپس لوٹتے ہوئے بیوی بچے اداس تھے۔ میں نے سدھیندو کو بار بار تاکید کی کہ کچھ بھی ہو، مجھے خبر کی جائے۔ خط ضرور لکھنا۔ گاؤں سے جاتے ہوئے پہلی بار مجھے جرم کا احساس ہو رہا تھا۔ یہاں مجھے برابر آتے رہنا چاہئے تھا۔ اب میں برابر آتا رہوں گا۔ اور محض گاؤں سے نہیں گاؤں کی سیاست سے نہیں، تہذیب سے نہیں بلکہ زمین سے بھی جڑنے کی کوشش کروں گا۔
دو ایک مہینے اور گزرے، سدھیندو کے خط آتے رہے۔ بہار میں خوف کا ماحول، یہ تفصیلی رپورٹ چھپ چکی تھی۔ میں نے پوری چھان بین کی تھی۔ ایک ایک مسئلے کا تفصیلی سے جائزہ لیا تھا۔ آخر لوگ اتنے ٹھنڈے کیوں ہیں۔ حکومت کے ناکارہ ہونے کی وجہ کیا ہے ؟ کس صدی میں جی رہے ہیں بہار والے ؟
مافیا گینگ ، کاسٹ وار ، پچھڑی ذہنیت دبے کچلے لوگ۔ ایم۔پی چندریشور پانڈے اور سومناتھ کے خلاف میں نے پوری رپورٹ دی تھی اور یہ بات ان دنوں کی ہے جب ایک بار پھر خوبصورت وعدوں کے پانچ سال گزر گئے تھے۔ چناؤ کی تیاریاں پورے ملک میں شروع ہو گئی تھیں۔ شاید جتنی پرزور آواز میں نے اٹھائی تھی ، اتنی کسی نے بھی نہیں اٹھائی تھی۔ اسی کا نتیجہ مجھے اس دن بھگتنا پڑا جب ساڑھے بارہ بجے کے قریب دفتر کے فون کی گھنٹی بجی اور معلوم ہوا کہ کوئی ایم۔پی صاحب مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں ، میں نے بے دلی سے ریسیور تھاما۔
ایک ٹھیری ہوئی آواز نے کہا:
"آپ کا مضمون پڑھا، اچھا لکھا ہے آپ نے کچھ اور جاننا ہو تو۔" آواز میں اب تیکھا پن اتر آیا تھا۔
"شکریہ۔"
ایم پی صاحب کی ہنسی کے بیچ میری بات دب گئی۔ میں نے پھر کہا: "کچھ جاننا ہوگا تو اس کے لئے آپ سے ملنے کی کچھ ضرورت نہیں۔"
آواز کا رخ اچانک بدلا: "جانتے ہیں کیا لکھا ہے آپ نے؟ آپ کو معاملے کی چھان بین کرنی چاہئے تھی۔ میں آپ پر ہتک عزت کا مقدمہ کر سکتا ہوں لیکن۔۔"
اس کے ساتھ ہی دوسری طرف سے فون رکھ دیا گیا تھا۔ مگر اس دھمکی بھرے فون کے 'لیکن' نے ایم پی صاحب کی کمزوری اور مجبوری کو بھی ظاہر کر دیا تھا۔ اس دن سہ پہر کے وقت میں آفس میں بیٹھا ہوا کچھ لکھ رہا تھا کہ باہر گاڑی گھڑگھڑانے کی آاوز آئی، کیبن میں بیٹھے بیٹھے سنائی دیا کہ کوئی مجھے پوچھ رہا تھا۔
"ایڈیٹر کا کمرہ کون سا ہے ؟"
پھر دھڑ دھڑاتے ہوئے بغیر اجازت کے کوئی میرے کمرے میں گھس آیا، سوٹیڈ بوٹیڈ۔ ڈاڑھی بڑھی ہوئی ، چہرے سے حیوانیت ٹپکتی ہوئی۔ سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے اپنی دونوں بڑی بڑی خونی آنکھیں جیسے میرے جسم میں اتار دیں۔
"کیوں لکھا ہے ؟سب؟ آئیں! تم سمجھ رہے ہو نا میں کہاں سے آیا ہوں۔ تمہارے ہی گاؤں سے۔ میں سومناتھ کا آدمی ہوں۔ سومناتھ اس بار ایم ایل اے کے چناؤ میں کھڑا ہو رہا ہے۔ تمہارا بڑھ چڑھ کر لکھنا اس کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔"
اچانک وہ غصے سے بے قابو ہو گیا:
" یہ بھی لکھ دینا کہ سومناتھ نے آدمی بھیجا تھا مارنے کے لئے سالے! خاندان ہے کہ نہیں رے۔"
"دیکھئے۔۔۔ دیکھئے آپ۔۔"
اس پل میرا اسسٹنٹ سُمِت میرے کمرے میں داخل ہو گیا۔
"سر، معافی چاہوں گا۔ یہ مضمون۔۔۔"
اچانک نظر گھما کر سمت نے اجنبی کے چہرے کے تیور پڑھ لئے اور ایک دم وہ جیسے غصے سے پاگل ہو گیا۔
"یو گیٹ آؤٹ، گیٹ آؤٹ" وہ چیخ رہاتھا۔ "تم سمجھتے کیا ہو؟ دوغلے ، چمچے، سمجھتے کیا ہو؟"
آفس کا پورا اسٹاف سمت کی چیخ پکار سن کر جمع ہوگیا۔
"یہ سالا نمبر ون، پرکاش صاحب کو دھمکی دے رہا تھا۔"
معاملہ اچانک بگڑتا دیکھ کر وہ شخص اچانک کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا:
" دیکھ لوں گا، ایک ایک کو دیکھ لوں گا ، آگے کچھ لکھا تو۔۔۔"
"آگے۔۔۔"سمت پھر زخمی شیر کی طرح اس پر جھپٹا۔
"نہیں، سمت جانے دو۔"
ہم سب مل کر اگر سمت کو نہ روکتے تو جانے وہ کیا کر ڈالتا۔ وہ آدمی بولتا بکتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اور گاڑی دھواں چھوڑتی ہوئی گیٹ سے باہر ہو گئی۔
اس شام اگر میں فوراً کھڈ سے نیچے نہ اترتا تو وہ نیلے رنگ کی فئیٹ مجھے روندتی ہوئی آگے بڑھ گئی ہوتی۔ اس مضمون کے خلاف یہ دوسری وارننگ تھی۔ میرے اندر ایک نئی طاقت ابھر رہی تھی۔ جو مجھے للکار رہی تھی کہ ان درباریوں کے خلاف لکھنے کی ضرورت ہے جہاں سب کے چہرے کتوں جیسے ہوگئے ہیں اور حاکم بھی ان ہی کا شہ پر دم ہلا رہا ہے۔ غصے میں بھرا میں سوچتا رہا کہ سب سے بڑی غلطی ہم سے کہاں ہوتی ہے، یقیناً سرکار چننے میں، سرکار تو ہم ہی چنتے ہیں نا۔ پورے پانچ سال کے لئے مستقبل کے فیصلے کی ذمہ داری ہمیں دی جاتی ہے اور چند چاپلوس لوگوں کے بہکاوے میں آکر ایک غنڈا سا آدمی دس لوگوں کو لے کر ہمارے آگے ہاتھ جوڑتا ہے۔ وعدے کرتا ہے اور جیت جاتا ہے ، ہم کیوں نہیں روکتے اسے؟"
"ہم کمزور ہیں۔" سمت کہہ رہا تھا :
"آپ نے ٹھیک نبض پکڑی ہے پرکاش صاحب۔ سب سے بھیانک غلطی ہوئی ہے، کہیں ہوئی ہے۔ اگر چناؤ کو ہم سنجیدگی سے لیں تو کوئی غلطی نہیں ہوگی۔"
اس درمیان پتہ چلا کہ سومناتھ اور اروشی کے ناجائز تعلقات کی خبر ایم پی صاحب کو مل گئی تھی اور وہ خفا بھی ہوئے تھے۔ سومناتھ کو پارٹی سے نکال دئے جانے کی بات بھی ہوئی تھی، اس دن ایم پی صاحب شہر کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ کافی پئے بھی ہوئے تھے۔ انہوں نے سومناتھ کو کافی گالیاں دیں۔ ہاتھا پائی کی نوبت تک آئی۔ گیسٹ ہاؤس کا چوکی دار جس وقت سومناتھ کو باہر چھوڑنے آیا تو سومناتھ کا پورا چہرہ لال ہو رہا تھا۔ یہ نام زدگی کے کاغذات داخل کرنے سے پہلے کی بات تھی۔ سومناتھ نے پی رکھی تھی۔ اس نے بھی ایم پی صاحب کو کافی گالیاں بکیں۔ پھر معلوم ہوا کہ ایم پی صاحب اسی دن گاؤں چلے گئے۔ بیٹی اور باپ میں کافی دیر تک تو تو میں میں ہوئی۔ پھر معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ سومناتھ کے نام زدگی کے کاغذات داخل کرنے کا مطلب تھا کہ ایم پی صاحب راضی ہوگئے ہیں۔۔ راجدھانی میں دوڑ دھوپ کرکے پارٹی کا ٹکٹ دلانا کوئی آسان کام نہ تھا ، لیکن یہ لاٹری سومناتھ کے نام کھل ہی گئی۔ اس بات کا بھی چرچا تھا کہ اروشی کا پاؤں بھاری ہے ، اس لئے ایم پی صاحب نے اسے گاؤں سے باہر بھیج دیا ہے۔ چناؤ جیت جانے کے بعد ہی دونوں کی شادی ہو سکے گی۔ سوچنے والی بات ایک ہی تھی ایسے کردار کے آدمی کو بھلا کون ووٹ دے گا؟ مگر جواب سامنے تھا۔ یہی چھپ چھپ کر اس کی مخالفت کرنے والے ، اس کا ظلم سہنے والے اسے جیتنے میں مدد دیں گے۔
چند روز بعد میں آفس میں بیٹھا تھا کہ معلوم ہوا کہ کوئی بوڑھی عورت مجھ سے ملنا چاہتی ہے۔ میں تیزی سے باہر لپکا، ایک جھکی ہوئی عورت کا جھریوں سے بھرا پوپلا چہرہ میری طرف پرامید نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"مجھے الگو بتلئے رہیں کہ۔"
"الگو؟" میں سن سے رہ گیا۔ "اندر آئیے"۔
میں اسے ساتھ لے کر سیدھا اپنے کیبن میں آگیا۔ "بیٹھئے اور پوری بات بتائیے۔ الگو کیسا ہے ؟"
"وہ مار دیا گیا۔"
بڑھیا کا پوپلا چہرہ کانپا، میں سناٹے میں آگیا۔ وہ دھیرے دھیرے بتارہی تھی: "ایک راتری گاون میں بندوک کی تیج آواج گونجلی، کونو گھر سے باہر نا نکلا۔۔۔ دوسرے دن مئیدان میں ٹھنڈ سے اکڑی الگو کی لاس ملی۔"
"اف!" میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔ "آپ پوری تفصیل بتائیے۔"
"میں اہیرا کی متاری ہوں۔" بوڑھی عورت سنبھل سنبھل کر بتا رہی تھی۔
"اہیرا کو مالوم چل گئیلے رہیں کہ او سوت کا جناں چناؤ میں کھڑل ہو رہل۔ اہیرا پر تو سومنتوا کا بھوت سوار رہل۔ او تیلئین کا بدلا لے وے کو سوچت رہے۔ ای وچار سے او الگو کے پاس مسورہ کرے کو گئیل رہے۔ سومنتوا کا نام درج ہووے کے باد گاون میں بہوت ہڑ بونگ مچلی۔ اہیرا کہلس رہے کہ ادای نہ ہووے دے گا۔ ای بھات سومنتوا جان گئیلے رہے اور بے چارہ الگو۔"
بڑھیا کے پوپلے ہونٹ کانپ رہے تھے:
"الگو بہوت پہلے کہلس رہے آپ کے بارے میں۔"
"مگر آپ آئیں کیسے؟"
"بس پچھتے پچھتے گاڑیا میں بیٹھ گئینی۔"
بوڑھی عورت کہہ رہی تھی۔ "الگو کہلس رہے کہ آپ اپن اکھبار میں سومنتوا کے کھلاف لکھنی ہاں۔ آپ ہمری مدد کریں روا۔ ہمرے رستہ بتائیں۔ ای اہیرا کے جیون کا۔"
"اگر اتنی سی بات تھی تو پھر آپ کو آنا نہیں چاہئے تھا۔ کسی سے خط بھجوا دیتیں۔"میں نے بوڑھی عورت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔"ویسے آپ آگئی ہیں تو کچھ نہ کچھ بندوبست تو کرنا ہی ہوگا۔" میں نے ذرا ٹھہر کر پوچھا۔ "اہیرا کو معلوم ہے کہ آپ یہاں ہیں؟"
"ہاں۔" اس نے آہستہ سے کہا۔
"نومنیشن فائل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ جیت گیا ہے۔ اب ہماری، آپ کی، سب کی لڑائی اس چناؤ میں آکر ٹھہرتی ہے ، تب تک آپ یہیں رہیں گی۔"
چناؤ کا دن جیسے جیسے قریب آرہا تھا ، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے گاؤں جانا ہی ہوگا۔ اپنے اوپر آنے والی قیامت کے لئے میں تیار تھا۔ اس درمیان سدھیندو کا خط آیا تھا:
"بھیا! ان کے خلاف لکھنا چھاپنا بند کردو۔ یہ لوگ مجھے ڈراتے ہیں، دھمکی دیتے ہیں۔ بال بچوں والا آدمی ہوں، بھیا۔ تم ادھر گاؤں بھی مت آنا۔ ان کے خلاف لکھنا بھی نہیں۔"
اس دن میں نے بوڑھی عورت سے ، جو ایک ہفتے سے دفتر میں رہ رہی تھی ، کہا: "ہم گاؤں چل رہے ہیں اور آپ بھی میرے ساتھ چل رہی ہیں۔ یہ ایک جمہوری ملک ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت ہمارے تحفظ کی ذمہ داری بھی نہ لے اور ہم ڈر کر اور کمزور بن کر رہیں۔"
چناؤ میں جب صرف ایک ہفتہ رہ گیا تو میں اپنے اسسٹنٹ سمت کو ساری ذمہ داری سونپ کر گاؤں کے لئے اپنا نیا سفر شروع کر چکا تھا۔ میں نے سب سوچ لیا تھا کہ مجھے سب سے پہلے کہاں جانا ہے۔ رام نگر چناؤ حلقے سے، اپنے ایک عزیز کے ذریعہ میں نے پوری رپورٹ منگوالی تھی ، کتنے لوگ چناؤ میں کھڑے ہوئے ہیں۔ ایم، ایل اے کی حیثیت سے سب سے اچھا امیدوار کون سا ہے ، جس میں کچھ کرنے کی ہمت ہو اور ساتھ ہی ایماندار بھی ہو۔ ایسے خط میں نے کئی لوگوں کو لکھے اور سب کے جواب مجھے ایک ہی موصول ہوئے۔
سب نے ہی مخالف پارٹی کے فقیر چند کو لائق امیدوار ٹھہرایا ہے۔ لیکن سب نے یہ شک بھی ظاہر کیا تھا کہ اچھا کارکن ہوتے ہوئے بھی سومناتھ کے ہوتے ہوئے فقیر چند شاید ہی جیت سکے۔ یوں بھی حکمراں پارٹی تو دونوں ہاتھوں سے پیسے لٹاتی ہے اور ووٹ خریدتی ہے۔ کچھ سوچ کر ہی میں اہیرا کی بوڑھی ماں کے ساتھ سیدھا اپنے گاؤں نہیں آیا تھا ، بلکہ رام نگر میں فقیر چند کے یہاں ہی ٹھہرا تھا۔ ساری بات فقیر چند سے طے ہو چکی تھی، مختلف مقامات پر ہم نے جلسہ کرنے کا بھی پروگرام بنایا تھا۔ جہاں عام سبھاؤں میں گواہ کے طور پر اہیرا اور اس کی ماں کو پیش کیا جا سکے۔ اہیرا اب تک چھپا چھپا پھر رہاتھا ان جلسوں میں بار بار عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ غلط آدمی کے آنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی کوئی جائز مانگ پوری نہیں ہوگی۔ آپ جہاں ہیں، وہیں رہیں گے۔ پانچ برسوں کا فیصلہ آپ کو پوری ہوش مندی سے کرنا ہے۔
چناؤ میں تین دن باقی رہ گئے تھے، چوبیس گھنٹے سے پہلے ہی ہمیں مختلف جگہ جلسے کرنے تھے ، اہیرا اور اس کی ماں کو بھی فقیر چند کے ہر جلسے میں کھرا کر دیا گیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ سلگتی ہوئی پرانی کہانی کے بیج پکے زخم کو چھیڑ کر عام آدمی کی نبض پر انگلی رکھ دی گئی تھی۔ سومناتھ کی پارٹی والوں نے کئی جلسوں میں ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش بھی کی۔ پتھراؤ بھی کئے، لیکن فقیر چند کے آدمی بھی مورچے پر ڈٹے رہے۔
اب آخری سبھا ہمیں اپنے گاؤں میں کرنی تھی ، اس بیج کتنی ہی بار میری جان پر بھی بن آئی۔ جب سومناتھ کے لوگوں نے کار سے ہمارا گھیراؤ کیا اور گولیاں بھی چلائیں لیکن ہماری قسمت اچھی تھی، آخری جلسہ گاؤں میں ہونا طے پایا تھا، اور یہاں وہ واقعہ ہوگیا جس کی ہم پہلے سے امید کر رہے تھے۔ اسٹیج پر اہیرا اور اس کی ماں کے آتے ہی سومناتھ کے کسی آدمی نے بھیڑ سے گولی چلا دی، لیکن نشانہ چوک گیا۔ گولی چلانے والا آدمی پکڑ میں آ گیا۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے، دوسری طرف سومناتھ کی پارٹی کے لوگ بھی غصے میں تھے، پورا گاؤں جیسے بارود کی کگر پر تھا، ادھر سومناتھ کی سبھا پرانی پہاڑی پر ہونے والی تھی، ادھر اہیرا پراسرار ڈھنگ سے کہیں غائب ہوگیا۔
پوری تیاری کے ساتھ فقیر چند کے آدمی کالی پہاڑی کی سبھا میں پھیل گئے ، پولیس فورس بھی موجود تھی۔ ایک نیتا دھاری آدمی مائیک پر آیا اور سومناتھ کے قصیدے پڑھنے لگا۔ پنڈال سے سومناتھ کی شان میں فلمی طرز پر بنایا گیا گانا بھی بج رہا تھا۔ اچانک فضا "سومناتھ چور ہے" کے شور سے گونج اٹھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بھالے، گنڈا سا اور لاٹھیاں نکل آئیں، شور اتنا تھا کہ کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔ اچانک اسٹیج پر سوم ناتھ کا چہرا ابھرا۔
اس سے پہلے کہ بپھرے ہوئے مجمع کو سومناتھ قابو میں کرتا نہ جانے کب کس گوشے سے گمچھے میں مونہہ چھپائے اہیرا نکلا۔ وہ کب اور کیسے اسٹیج سے بالکل قریب پہنچ گیا، یہ بھی کوئی نہیں جان سکا۔ اسے ریوالور کہاں سے ملا، یہ بھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا۔ مگرایک ساتھ کئی گولیاں، شاید جتنی بھی گولیاں ریوالور میں بھری تھیں اس نے سومناتھ کے سینے میں اتار دیں۔
میں واپس مہانگری پہنچ چکا ہوں۔
میں اپنے مشن میں کامیاب رہا یا ناکام۔ یہ میں نہیں جانتا۔ مگر میں نے رام نگر چناؤ کی رپورٹ مکمل کرلی ہے۔ یہ رپورٹ ہندوستان میں ہونے والے کسی بھی چناؤ کی ہوسکتی ہے رپورٹ میں نے اس جملے پر ختم کی ہے:
"۔۔۔ پولیس نے اہیرا کو گرفتار کر لیا ہے۔ اب چاہے اسے جو بھی سزا ہو، عمر قید ہو یا پھانسی لیکن شاید اس نے تیلیوں کے قتل عام کا بدلہ لے لیا ہے۔ رام نگر کا چناؤ کینسل ہو گیا ہے۔ یہ بات رام نگر کی جنتا کے حق میں ہے ، اس لئے کہ ان کے بیچ سے غلط آدمی اٹھ گیا ہے۔ جب بھی چناؤ ہوگا، وہ اپنی مرضی کا امیدوار منتخب کر سکتے ہیں اور یہی ان کی اصلی جیت ہوگی۔"
یہ بھی پڑھیے :
مشرف عالم ذوقی کی کہانیاں اور جبلت
آتش رفتہ کا سراغ - بٹلہ ہاؤس کی سچائی کو بےنقاب کرنے والا ناول
بابری مسجد زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نہیں ہے - مشرف عالم ذوقی
ذوقی کی فکری جہت نالۂ شب گیر کے حوالے سے
اردو کے فروغ میں میڈیا اور فلم کا کردار - مشرف عالم ذوقی
ماخوذ:
ماہنامہ "شمع" نئی دہلی۔ شمارہ: اکتوبر 1990۔
ماہنامہ "شمع" نئی دہلی۔ شمارہ: اکتوبر 1990۔
***
Zauqui2005[@]gmail.com
موبائل : 09310532452 , 09958583881
Zauqui2005[@]gmail.com
موبائل : 09310532452 , 09958583881
مشرف عالم ذوقی |
Dahshat ki kheti. Short Story by: Musharraf Alam Zauqi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں