اردو کے ممتاز ڈراما نگار اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ فلم ساز، ہدایت کار، مکالمہ نویس اور اسکرین پلے رائڑ بھی رہے ہیں۔ اردو مصنف کی حیثیت سے اپنے کرئیر کا آغاز کرتے ہوئے وہ پہلے تھیٹر اور بعد ازاں فلمی دنیا میں داخل ہوئے۔ انہوں نے 1976 میں یش چوپڑہ کی فلم "کبھی کبھی" کی اسکرپٹ رائٹنگ کے ذریعے فلمی دنیا میں داخلہ لیا۔
ساگر سرحدی کا اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ عام انسانوں کی طرح حقیقت پسندانہ زندگی گزارتے ہیں۔ ان کا اصل ادبی اور فنکارانہ مخاطبہ عام انسانوں کے ادراک اور آگاہیوں کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے اور لوگوں کے رد عمل کو وہ جاننا چاہتے ہیں۔
"آوازوں کا میوزیم" ساگر سرحدی کے پرفکر افسانوں کا واحد ایسا مجموعہ ہے جس کے ذریعے صنف افسانہ میں ان کی تخلیقی قوت کو جانچا جا سکتا ہے۔ یہی کتاب ساگر سرحدی کو خراج عقیدت کے بطور تعمیر نیوز کے ذریعے پیش خدمت ہے۔ تقریباً سوا سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم 5 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
ساگر سرحدی کے فن کا جائزہ لیتے ہوئے محمد اسلم پرویز اپنے مضمون "ممبئی کے عصری افسانے کا منظر نامہ" میں لکھتے ہیں ۔۔۔ساگر سرحدی ایک فلم کار اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ انہوں نے افسانے بھی لکھے ہیں۔ ان کے افسانوں کی ایک کتاب "آوازوں کا میوزیم" اردو میں اور "جیو جناور" (جیون جانور) ہندی میں شائع ہو چکی ہے۔ ساگر سرحدی کی ذہانت، بذلہ سنجی اور تخلیقیت کا جو جلوہ ہمیں ان کے ڈراموں اور مکالموں میں ملتا ہے، وہ افسانوں میں تحلیل ہو گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ موضوعات کا جو تنوع ان کے ڈراموں میں ہے، افسانے میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ بیشتر افسانے مرد و زن کے تعلقات کی تفتیش پر قائم ہیں۔ اس رشتے کو دیکھنے والی آنکھیں ایک مرد کی ہیں اور ناک پر ٹکی ہوئی عینک کے عدسے بھی خالص مردانہ ہیں۔
عورتوں کے مختلف روپ ساگر کے افسانوں میں نظر آتے ہیں مگر وہ مرد کی ہم سفر یا دوست کم اس کی sleeping partner زیادہ ہے۔ عورتوں کی نفسیات، ان کے خواب اور خوف پر ساگر کی نظر گہری ہے اور پینی بھی۔ محبت میں سرشار عورت ہو یا خود فریبی میں گرفتار، نوعمر لڑکی ہو یا بیوہ عورت، ماضی سے خوف زدہ ہو یا مستقبل سے پرامید۔۔۔ ساگر سرحدی کے افسانوں میں عورتیں اپنے ہاڑ مانس اور سوچ کے ساتھ موجود ہیں۔ لیکن مختلف افسانوں کے مرد کرداروں کی گردن پر چہرہ ایک ہی ہے۔ اور یہ کوئی اور نہیں ساگر سرحدی کا ہمزاد ہے۔ شاید اسی لیے ساگر کے ان افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ڈائری یا یاداشتوں کا گمان سا ہوتا ہے۔ پرسنل ٹچ ان افسانوں کی طاقت ہے تو کمزوری بھی۔ ساگر ہر لفظ، جذبے اور احساس کے پیچھے سے جھانکتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ افسانے ساگر سرحدی کی شخصیت سے اپنے آپ کو بچا پاتے تو شاید اور زیادہ کامیاب ہوتے۔
مکالمہ نگاری ساگر سرحدی کا fortay ہے اور اس میں ان نبض دھڑکتی ہے۔ مکالمہ نگاری ساگر کے افسانوں میں کبھی کردار نگاری کے فرائض انجام دیتی ہے تو کبھی منظر نگاری کی۔
***
نام کتاب: آوازوں کا میوزیم (افسانے)
مصنف: ساگر سرحدی ، سن اشاعت: 1989ء
تعداد صفحات: 118
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Awazon Ka Museum by Sagar Sarhadi.pdf
فہرست افسانے | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | آوازوں کا میوزیم | 5 |
2 | کٹا ہوا پیڑ | 11 |
3 | بوگن ولا کے پھول | 16 |
4 | اندر پرستھ | 23 |
5 | خالق | 26 |
6 | نوحہ گر | 31 |
7 | ہم پیشہ | 35 |
8 | ٹیبلو | 39 |
9 | متوازی لکیریں | 43 |
10 | سمجھوتہ | 48 |
11 | تیرہواں مہینہ | 55 |
12 | بانجھ | 60 |
13 | تعاون | 65 |
14 | یوگ - یوگی - یوگیش | 71 |
15 | تیسرا آدمی | 81 |
16 | کاغذی کارروائی | 88 |
17 | رام لیلا کا رام | 92 |
18 | بدلتا ہوا چہرہ | 97 |
19 | اداسی | 102 |
20 | باہر کی دنیا | 111 |
Awazon Ka Museum (Short stories), By Sagar Sarhadi, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں