" ایک باشعور حساس اور درد مند انسان کے ذہنی رد عمل کا نتیجہ ہے کہ جس کے ماحول کو ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں نے تختہ مشق بنا لیا ہو۔"
اردو ادب میں طنز کا عروج بھی بڑی حد تک اسی رد عمل کا رہین منت ہے جو ایک غیر ملکی تشدد، مسلسل سماجی الجھنوں اور فرد کی زندگی میں مسلسل ناکامیوں کے باعث پیدا ہوا۔ مولانا نے کہیں کہیں پر ان ناسوروں پر تیز تیز نشتر چلائے ہیں جو اس دور کی سیاسی اور مذہبی بے اعتدالیوں کی پیداوار تھے اور جن کے باعث معاشرہ کے اندر الجھنیں پیدا ہو رہی تھیں مگر انہوں نے دوسروں کی پردہ دری اور عیب جوئی کرتے وقت لطیف اور فن کارانہ پیرایۂ اظہار اختیار کیا ہے اور کسی خاص فرد کے عیب کی پردہ دری کو زندگی اور سماج کی عالمگیر ناہمواریوں کی پردہ دری کا وسیلہ بنایا ہے۔
یہی نہیں بلکہ مزاحیہ موضوعات پر بحث کرتے وقت انہوں نے صنعت کارانہ سنجیدگی سے کام لیا ہے اور اسی بنا پر ان کی مزاحیہ اور طنزیہ تحریریں بھی سنجیدگی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ اس طنز میں تیزی اور تلخی کے ساتھ ساتھ آفاقیت کے بھی جوہر پوشیدہ ہیں۔
خورشید الاسلام نے ٹھیک ہی لکھا ہے کہ:
ان کی زبان عہد نامہ عتیق کی زبان ہے ، ان کا طنز بھی عہدنامہ عتیق کا طنز ہے، جس میں ہیجان و خطابت اور ظاہری شان و شوکت بھی کچھ ہے۔ مسلم یونیورسٹی فاؤنڈیشن کمیٹی کے ایک جلسہ کے سلسلے میں انہوں نے مولانا محمد علی پر وار کئے ، جن کا چھیڑنا آسان کام نہ تھا، اس لئے کہ وہ بقول ڈاکٹر عبدالحق ایک آتش فشاں پہاڑ یا گلیشیر تھے ، جس میں عظمت شان کے ساتھ خطرہ بھی موجود تھا۔ حدیث الغاشیہ کے بعض ٹکڑے اردو طنزیہ نثر نگاری کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں جس پر مولانا کی انفرادیت کی چھاپ پڑی ہوئی ہے ، ایک جگہ لکھتے ہیں:
"غرضکہ آٹھ بجے سے جلسہ منعقد ہوا اور صاحبان حل و عقد کا منتظر تھا لیکن کسی بزرگ کا پتہ نہیں، اور اب پتہ لگے تو کیونکر جس جنگ کے لئے یہاں فوج جمع تھی ، اس کی صلح رات کے دو بجے کی تاریکی ہی میں انجام پا چکی تھی ، اب جلسہ میں شرکت کے لئے کیا ایسی جلدی آ پڑی تھی جو جلدی کی جاتی؟ بہرحال ادھر رونمائی میں دیر، ادھر مشتاقان دید کی بے صبری، عجیب کش مکش تھی۔
ہوتا ہے اژدہام تمنا اسی قدر
ہوتی ہے جتنی دیر کشود نقاب میں
خدا خدا کرکے صاحبزادہ آفتاب احمد خاں صاحب بطور مقدمہ الجیش کے تشریف لائے ، گو خود ان کا آنا جلوۂ یوسفی نہ تھا، لیکن اپنے ساتھ نسیم پیرہن کی بشارت ضرور رکھتا تھا۔ انہوں نے سب سے پہلے 'صحبتِ نیم شبی' کا اعلان کیا اور 'جنگل میں منادی کرنے والے یوحنا' کی طرح خبر دی کہ: 'راہ صاف کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہت اب قریب ہے' ، یہاں تک کہ دس بجے صدہا نظر ہائے منتظرہ، اور صدا ہائے مضطرب کی صفوں سے گزرتی ہوئی 'ارباب حل و عقد' کی قطار جلوہ فروش ہوئی، اور 'حجلۂ سازش کے تمام عروسان شب زندہ دار' ایک ایک کر کے نظر نواز بزم و انجمن ہوئے ، چہروں نے پہلی ہی نظر میں ارباب نظر سے رمز فروشی کی کہ رات بھر میں رنگ بدل چکے ہیں ؎
شب تو شراب خوردۂ باتو نشاینہا مست
انہیں میں ہمارے شیوہ طراز دوست مسٹر محمد علی بھی تھے، صحبتِ نیم شبی کا خمار آنکھوں میں اور شب بیداری کی افسردگی چہرے پر، جی میں آیا کہ بڑھ کے پوچھیں:
تو شبانہ می نمائی، بہ ہر کسے بودی امشب
کہ ہنوز چشم مستت اثر خمار دارد
لیکن ہمارے دوست نے اپنی رات کی حریف پرور اداؤں سے نئے دوستوں کا ایسا حصار رو ہجوم پیدا کر لیا تھا کہ اب اس کا موقع ہی کب باقی رہا تھا؟
جو کام میں غیر کے ہوئیں صرف
افسوس وہ دل ربا ادائیں
(بحوالہ: الہلال۔ 5/مارچ 1913ء)
رعنائی سے پر اس رنگین عبارت میں یا پوری حدیث الغاشیہ کے اندر جگہ جگہ طنز کے جو تیر و نشتر چھپے ہوئے ہیں ، ان کی ادبیت تو خاصہ کی چیز ہے، لیکن یہ تیر و نشتر اس مذہبی اور دینی مٹی کی غمازی کرتے ہیں جن کے اندر دور تک ابوالکلام کے فکر و نظر کی جڑیں بکھری ہوئی ہیں۔
رشید احمد صدیقی کا طنز پہلی نظر میں ظرافت ، دوسری میں بلاغت اور تیسری میں انفرادی اور اجتماعی شامت کا احساس دلاتا ہے ، مگر ابوالکلام کے یہاں پہلی ہی نظر میں ظرافت، بلاغت اور انفرادی اور اجتماعی شامت سبھی کا احساس بیک وقت ہو جاتا ہے ، وہ مسکرا کر طنزیہ نشتر حریف کو مارتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں:
"غالباً کچھ زیادہ تکلیف نہ ہوئی ہوگی ، یہ انجکشن آپ کی بیماری کے لئے بہت ہی مفید ہے۔"
وہ بقول پنڈت جواہر لال نہرو: کبھی کبھی اپنے علم کے پہاڑوں کو نرم و نازک بناکر بلند مگر ظریفانہ انداز میں طنز نگاری بھی کرتے تھے۔ 25/مارچ 1914ء کو مسلمان رہنماؤں کا جو وفد لارڈ ہارڈنگ سے ملا تھا، اس کی تفصیل لکھتے وقت بھی مولانا نے طنز کے تیروں کا استعمال کیا ہے ؎
نازم فریب صلح کہ غالب زکوئے دوست
ناکام رفت و خاطر امید دار برد
بالآخر وہ ڈیپوٹیشن 25/ مارچ کی سہ پہر کو ہز ایکسلنسی لارڈ ہارڈنگ کے سامنے پیش ہوا:
بتوں کی دید کو جاتا ہوں دَیر میں قایم
مجھے کچھ اور ارادہ نہیں خدا نہ کرے
ایک مفصل ایڈریس کے ذریعہ مسلمانوں کی امن پسندی اور وفاداری کے میثاق قدیم کی زبان معرف اور سر اطاعت کے ساتھ تجدید کی گئی:
جز سجدہ متاع دگر از کس نہ پذیرفت
خاکے زنقش قدم او اثرے داشت
ایک واقعی بات کو دہرانے میں چنداں حرج نہیں اور ارباب محبت جانتے ہیں کہ کسی کے لب جاں بخش سے اگر ایک بار بھی جواب مہر ملنے کی امید ہو تو سودائیاں عشق کو ہزار مرتبہ پکارنے سے بھی انکار نہیں ہوتا:
گو وہ سنتے نہیں پر ہم تو کسی حیلے سے
ایک دو بات محبت کی سنا آتے ہیں
سوال عجز کے جواب میں جتنی مرتبہ نگاہ مہر کا نظارہ حاصل ہو جائے عشق کا اندوختہ اور امیدوں کا خزانہ ہے:
یاں عجز بے ریا ہے نہ واں ناز دلفریب
شکر بجا رہا ہے گلہ بے سبب تلک
تاہم موقع پر کوئی دل پسند شعر یاد آ جائے تو ضیافت ذوق سے باز نہیں رہ سکتا۔ مولانا فیض الحسن مرحوم عربی کے ادیب تھے اردو کے شاعر نہ تھے، تاہم کبھی کبھی اچھے شعر کہہ جاتے تھے، ایک دن کا پُر معاملہ شعر مجھے نہیں بھولا:
پہلے ہی اپنی کون سی تھی قدر و منزلت
پر شب کی منتوں نے ڈبو دی رہی سہی
خاص امتیاز کی بات یہ ہے کہ اس عطر مجموعہ میں ہر طرح کی خوشبوئیں شامل تھیں، پیران کہن سال بھی تھے اور جوانان عہد بھی، خرقۂ زہد بھی تھا اور قبائے رندی بھی، سرہائے سجود پیشہ بھی تھے اور نگہ ہائے عشوہ طراز بھی۔
پہلے کے لئے عذر کی ضرورت نہیں۔۔ دوسرے سے اگر سوال و جواب کی ضرورت ہو تو مفتی آزردہ مرحوم کی زبانی جواب پہلے سے سن لیجئے:
میں اور بزم بادہ کشی لے گئیں مجھے
یہ کم نگاہیاں تری بزم شراب میں
مذہبی تلمیحات ، ادبی صنائع اور مناسب شعروں کے انتخاب سے مولانا اپنی طنز نگاری میں جان ڈالتے ہیں، اس طرز تحریر میں نہ تو متانتِ زاہدانہ ہے ، نہ رنگینئ رندانہ ہے ، بلکہ بقول ڈاکٹر اعجاز حسین:
"ایک ادیب کی سنجیدگی اور فن کار کی شوخی ہے جو موقع و محل کا لحاظ کرتے ہوئے اعتدال کے ساتھ دل و دماغ کو متاثر اور روح کو بیدار کرتی ہوئی اپنی راہ چلی جاتی ہے۔"
اور یہی متانت اور رنگینی کا امتزاج ہے جو عبادت کو حسن بیان اور خیال کو شگفتگی اور رعنائی عطا کر کے ابوالکلام کی تحریروں میں انفرادیت پیدا کرتا ہے، انہوں نے خود لکھا ہے:
"اپنے طرز بیان کا شاکی ہوں کہ اسرار و رموز کی باتیں بھی حسن و عشق کی کہانی بن جاتی ہے۔"
ڈاکٹر وزیر آغاز نے الہلال کے کالم "افکار و حوادث" کو اردو صحافت کے طنز و مزاح کے سلسلے میں بہت اہم قرار دیا ہے ، وہ لکھتے ہیں:
"اس کے (افکار و حوادث) کے زیر عنوان مولانا ابوالکلام آزاد خود بھی مسائل حاضرہ پر بحث و تمحیص کرتے تھے۔۔ اکثر و بیشتر بہت سے نازک سیاسی حالات پر اپنے مخصوص انداز سے طنز کرتے جاتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب موصوف کی یہ بات مولانا کے سلسلے میں سرے سے غلط ہے ، اس لئے کہ یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ گئی ہے کہ "افکار و حوادث" مولانا ابوالکلام کی تصنیف نہیں تھے ، بلکہ انہیں سید سلیمان ندوی نے لکھا تھا، اس لئے انہوں نے اس ضمن میں جو کچھ بھی لکھا ہے اس کا اطلاق مولانا کی طرز نگارش پر اگر ہوتا ہے تو محض ایک اتفاقی امر ہے۔
***
ماخوذ از کتاب: مولانا ابوالکلام آزاد - الہلال کے آئینہ میں
تصنیف: ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد (سنہ اشاعت: جولائی-1972)
ماخوذ از کتاب: مولانا ابوالکلام آزاد - الہلال کے آئینہ میں
تصنیف: ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد (سنہ اشاعت: جولائی-1972)
Humour and satire in Maulana Azad's Al-Hilal. Article by: Dr. Malikzada Manzoor Ahmed
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں