اڑن طشتری - سائی فائی ناول از خان محبوب طرزی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-17

اڑن طشتری - سائی فائی ناول از خان محبوب طرزی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

udan-tashtari-khan-mahboob-tarzi
خان محبوب طرزی (پیدائش: 1910ء ، وفات: 1960ء) اردو کے ان اولین مصنفین میں سے ایک ہیں جنہوں نے سائنس فکشن ناولیں لکھیں اور جنہیں سائنس فکشن کا موجد بھی کہا جاتا ہے۔ ونیز انھوں نے تاریخی ،جاسوسی، مہماتی موضوعات پر بھی ناول تحریر کیے ہیں۔ عرصہ دراز تک وہ نسیم بک ڈپو لکھنؤ سے وابستہ رہے۔
زیر نظر ناول "اڑن طشتری" 1952 میں، یعنی ہندوستان کی تقسیم کے چند برسوں بعد لکھا گیا ہے۔ تقریباً ہزار برس ہندوستان پر حکومت کرنے کے بعد انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو کر، اپنے گزرے ہوئے ماضی کو یاد کرتے ہوئے اس ناول میں مسلمانوں کے تاریخی کارناموں کو رجائیت پسندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول کو لکھتے ہوئے مصنف خوش گمانی ظاہر کرتے ہیں کہ آنے والی دنیا کی ترقی کا محور مغرب کے بجائے مشرق ہوگا۔
ناول "اڑن طشتری" کا مختصر خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ۔۔۔۔
نویں صدی عیسوی کے آخر میں اندلسی مسلمانوں نے سائنسی ایجادات سے دنیا کو محو حیرت کر دیا تھا۔ آج کل کے سائنسداں بھی ان کی ایجادات پر دنگ رہے۔ ایک اندلسی انجنیر اور سائنسداں ابوصلت نے ایک اڑن طشتری بنائی۔ وہ اور اس کے چالیس ساتھی ایک نئی دنیا میں جا کر آباد ہو گئے۔ دور حاضر کے ایک سائنسداں نے ٹیلی ویژن کی مدد سے اس سیارہ کا پتہ لگایا اور اپنے رفقائے کار کے ساتھ وہاں پہنچا۔

معروف ناقد، محقق اور ادیب شمس الرحمن فاروقی، خان محبوب طرزی کے تعارف میں لکھتے ہیں ۔۔۔
آج کا زمانہ ہوتا تو خان محبوب طرزی پر دو چار رسالوں کے نمبر نکل چکے ہوتے، یا نمبر نہ سہی گوشے ضرورہوتے۔ ایک دو کتابیں بھی ان پر آچکی ہوتیں۔ لیکن وہ زمانہ اور تھا، اردو معاشرے میں تمول کی اتنی فراوانی نہ تھی، اور ہمارے ادیبوں کو بھی اپنی تشہیر سے زیادہ اپنی تحریر کی فکر تھی، کہ اچھے سے اچھا لکھا جائے۔ شہرت تو حاصل ہوتی رہے گی۔
خان محبوب طرزی ہمارے ان ادیبوں میں تھے جنھوں نے قلیل معاوضے پر اپنی صلاحیتیں قربان کر دیں۔ اردو کا مفلوک الحال ادیب، کایہ فقرہ ان پر صادق آتا ہے۔ وہ زمانہ بھی ایسا ہی تھا، اردوکو پو چھنے والے کم تھے اور کم ہوتے جارہے تھے۔ ایسے حالات میں اردو فکشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے خان محبوب طرزی کو داد دینی پڑتی ہے۔ اردو میں سائنس فکشن کا انھیں موجد کہا جا سکتا ہے، اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ خان محبوب طرزی جیسا سائنس فکشن اردو میں پھر نہ لکھا گیا۔ اسرار اور مہم جوئی بھی ان کا ایک میدان تھا۔ پھر بچارے کو وہی وہانوی کے نام سے فحش یا نیم فحش افسانے اور مختصر ناول بھی لکھنے پڑے۔ مجھے وہی وہانوی کا کوئی ناول یاد نہیں آتا، لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان ناولوں میں کوئی شاق انگیز بات نہ تھی اور آج کے معیاروں سے انھیں فحش شاید نہ بھی قرار دیا جائے۔

طرزی صاحب کا پہلا ناول جو مجھے یاد ہے، "برق پاش" تھا۔ اس میں ایک تھوڑے سے جنونی سائنسداں نے لیسر کی طرح کی شعاعوں کو دور سے مار کرنے والے ہتھیارکی شکل میں تبدیل کردیاتھا۔ تفصیل ٹھیک سے یاد نہیں، لیکن لیسر کا اس میں ذکر شاید نہ تھا، ہاں فاصلے سے بجلی کی طرح گرنے اور ہدف کو بے دریغ ہلاک کرنے کامضمون ضرور تھا۔ اس سائنسداں نے کچھ طریقہ ایسا ایجاد کیا تھا کہ وہ لیسر کی قوت کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں مرتکز کر کے انگلی کے اشارے سے قتل کی واردات انجام دیتا تھا۔ ایک طرح سے اسے انگریزی کے ایک فرضی لیکن مقبول کردار "دیوانہ سائنسداں" کا نقش اول کہا جا سکتا ہے۔
پھر میں نے تلاش کر کے، اور کبھی کبھی خودخرید کر کے خان محبوب طرزی کے کئی ناول پڑھے۔ان میں سائنسی ناول "دو دیوانے" مجھے خاص طور پر یاد ہے کیونکہ اس کے مرکزی سائنسداں کردار نے دعویٰ کیا تھا کہ میں اپنے خلائی جہاز میں ابد الآباد کائنات کا چکر لگاتا رہوں گا اور سورج کی شعاعوں سے اپنی غذا حاصل کروں گا۔ اس کا انجام مجھے یاد نہیں، لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ سورج کی شعاعوں سے غذا حاصل کرنے کا تصور اس زمانے میں بالکل نیا تھا اور سائنس نے شاید اس وقت اتنی ترقی بھی نہ کی تھی کہ ایسا ممکن ہوسکے۔ اس ناول میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ خلا کے سفر کے دوران اس سائنسداں کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آواز کبھی مرتی نہیں، مختلف طرح کی اور مختلف زبانوں کی تقریریں اور خطاب کائنات کے مختلف گوشوں میں اب بھی سنے جا سکتے ہیں۔ یہ خیال بھی،جہاں تک میں جانتا ہوں، بالکل نیا تھا۔ ایک اور ناول "سفر زہرہ"کا عنوا ن میرے ذہن میں رہ گیا ہے لیکن اس کے بارے میں اور کچھ مجھے یاد نہیں آتا۔
"شہزادی شب نور" ناول میں مہم جوئی،اسرار اور جستجو کے کئی عنا صر موجود تھے۔ پورے ناول پر ایک خاموش، پر اسرار فضا چھائی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔جن ناولوں کا میں ذکر رہا ہوں،انھیں میں نے آج سے کوئی ستربہتر برس پہلے پڑھا تھا۔ ان کا دلکش نقش اب بھی باقی ہے، اگر چہ مطالعے کا ذوق مجھے جلد ہی انگریزی ادب کی طرف لے گیا۔

میں سمجھتا تھا کہ طرزی صاحب کو آج کوئی نہیں جانتا اور مجھے اس کا رنج بھی تھا کہ اس زمانے میں اردو نے کئی مقبول ناول نگار دنیا کو دئیے تھے: رشید اختر ندوی، رئیس احمد جعفری،قیسی رامپوری، اے۔آر۔خاتون، اور ان سے ذرا پہلے منشی فیاض علی اور ایم۔اسلم۔ان میں کوئی ایسا نہ تھا جو خان محبوب طرزی کی طرح کا ابداع اور تنوع رکھتا ہو۔

ہم سب کو عمیر منظر کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ انھوں نے خان محبوب طرزی کی تحریروں کو یکجا کرنے اورشائع کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس طرح ماضی قریب کا ایک قیمتی سرمایہ محفوظ ہو گیا اور شایداس طرح خان محبوب صاحب کے کارناموں سے دنیا دوبارہ واقف ہو سکے۔عمیر منظر نے یہ کام کئی برس کی تلاش اور محنت سے انجام دیا ہے۔ان کا دیباچہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔
میں اس کتاب کی اشاعت کا شدت سے منتظر ہوں۔

اس ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے زہیر عباس نے معروف ڈسکشن فورم "اردو محفل" پر مارچ-2019 میں لکھا تھا ۔۔۔
اس ناول کے زیادہ تر کردار مسلمان ہی ہیں۔ دوسرے سیارے پر بھی مسلمان ہی غالب ہیں اور بڑی فصیح و بلیغ عربی بولتے نظر آتے ہیں۔ اہم کرداروں میں ایک مولوی، مولوی عبدالسلام بھی ہیں جو خلا نوردوں کی رہنمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مولانا صاحب نا صرف خلائی سفر کے دوران بلکہ دوسرے سیارے پر نماز باجماعت بھی کرواتے ہیں۔

ناول میں جابجا بڑے مزے مزے کی عربی مارکہ اردو اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے۔ بہت سی اصطلاحات ایسی بھی ملیں جو عام قاری بغیر کسی لغت کی مدد سے سمجھ نہ سکے گا۔ ناول میں استعمال ہونے والی کچھ اصطلاحات یہ ہیں جیسے دارلتجارب (غالبا تجربہ گاہ کے لئے استعمال ہوا ہے)، دارلبرق (غالبا پاور ہاؤس کے لئے استعمال ہوا ہے)، معمل (غالبا تجربہ گاہ کے لئے استعمال ہوا ہے)، برق پاش مشین (لیزر گن)، ہوائی (خلائی جہاز)، ماہر برقیات، بین السیاری، تحت البحر (آبدوز)، برقی جال (فورس فیلڈ)، آلہ نشرالصوت (غالبا مائیکرو فون)، بین الاقامتی آلہ نشرالصوت، نشر گاہ، مقیاس الحرارت (تھرمامیٹر)، مقیاس الہوا (بیرومیٹر) وغیرہ۔

کچھ روزمرہ استعمال میں آنے والی چیزوں کی اردو اصطلاح جان کر بہت خوشی ہوئی جیسے کہ ایش ٹرے کے لئے خاک دان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ناول کی سب سے مزے کی چیز خواتین خلا نوردوں کا لباس ہے۔ ذرا چشم تصور سے دیکھیں کہ خلائی جہاز میں خواتین غرارہ اور شمیض پہنے ہوئے کیسی لگتی ہوں گی۔ پھر جب خلائی جہاز دوسرے سیارے پر اترنے کے قریب ہوتا ہے تو خواتین خلانورد ایک گھنٹے پہلے سے بناؤ سنگھار میں مصروف ہوجاتی ہیں اور اس وقت تک مصروف رہتی ہیں جب تک خلائی جہاز دوسرے سیارے پر اتر نہیں جاتا۔

ناول پڑھتے ہوئے ہم اس بات کا اندازہ اچھی طرح لگا سکتے ہیں کہ برصغیر کے لوگوں کی نوابی طبیعت کیسی ہوگی۔ اس دور کے جتنے سائنس فکشن ناول میری دسترس میں آئے ہیں، ان میں دیکھا گیا ہے کہ خلائی سفر کی کہانی میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ خلائی جہاز میں دو چار ملازم ضرور ہوں جو خلا نوردوں کے کھانے پینے اور دوسری خدمت کے لئے دستیاب ہوں۔ اس ناول میں بھی چار ملازم بطور خدمت گار کے خلائی جہاز میں موجود ہوتے ہیں۔ اور ہاں ایک فوٹوگرافر بطور خاص صرف اس لئے خلائی سفر میں شامل ہوتا ہے تاکہ وہ اس سفر کی روداد کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرسکے۔

اس ناول میں پیش کردہ بہت سی باتیں درست نہیں ہیں۔ مثلا سیارہ زہرہ یا سیارہ مریخ تک آنے جانے کے لئے لگائے گئے ایندھن کا حساب، یا خلا میں موجود بے وزن ہونے سے لاعلم ہونا، یہاں تک کہ خلائی جہاز میں حفاظتی بند کا بھی موجود نہ ہونا یا کسی سیارچہ کے بغیر بین الاقوامی ٹیلی ویژن کی نشریات کو بغیر کیمرے کے براہ راست موصول کرنا۔ مصنف سیارے، ستارے، نظام شمسی اور ملکی وے کہکشاں کے بارے میں بھی تردد کا شکار رہے۔ کہیں ستاروں کو سیارہ اور کہیں سیاروں کو ستارہ سمجھا۔ کہکشاں کو چھوڑنے کے باوجود جس سیارے پر پہنچے اس سیارے سے سورج کا فاصلہ اتنا ہی رہا جتنا کہ زمین کا، اس بات کے باوجود کہ مریخ، مشتری اور زحل کو کافی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ کشش ثقل اور رد ثقل کو بھی تیکنیکی طور پر غلط پیش کیا گیا۔

بہرحال ان تمام خامیوں کے باوجود اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ یہ ناول آج سے لگ بھگ ستر (70) برس پہلے لکھا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت نہ تو ذرائع آمدورفت اس قدر ترقی یافتہ تھے اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کہ دنیا میں ہونے والی کوئی بھی پیش رفت آناْ فاناْ عوام تک پہنچ جاتی۔ اس وقت تک نہ تو انسان خلا میں گیا تھا اور نہ ہی کوئی سیارچہ یا خلائی جہاز زمین سے فرار حاصل کرسکا تھا، لہٰذا اس ناول میں موجود غلط یا نامکمل سائنسی نظریات سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔ پھر اس زمانے میں رومانی اور جاسوسی ناول کا دور دورہ تھا۔ سائنس میں دلچسپی لینے والے بہت ہی کم تھے اس لئے خان محبوب طرزی صاحب کی جرت اور حوصلہ مندی کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے اس دور میں ایک ایسی صنف میں لکھنے کی کوشش کی جس کے پڑھنے والے بہت کم تھے۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
خان محبوب طرزی :لکھنؤ کا ایک مقبول ناول نگار -محمد اویس سنبھلی

***
نام ناول: اڑن طشتری
مصنف: خان محبوب طرزی
تعداد صفحات: 336
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 26 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Udan Tashtari by Khan Mahboob Tarzi.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

Udan Tashtari, an old Sci-Fi Urdu Novel by Khan Mahboob Tarzi, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں