مدرسہ عالیہ کلکتہ - برصغیر کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-18

مدرسہ عالیہ کلکتہ - برصغیر کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ

madrasa-aliah-kolkata
کلکتہ کے مشہور تعلیمی ادارے "مدرسہ عالیہ" کا قیام اکتوبر 1780ء میں عمل میں آیا تھا۔ 2015 میں ممتا بنرجی حکومت نے عوامی تقاضوں پر اس قدیم تعلیم گاہ کو یونیورسٹی کا درجہ دیا اور نام رکھا "عالیہ یونیورسٹی"۔ اس کے فی الحال تین کیمپس ہیں۔ کراچی کے گورنمنٹ نیشنل کالج نے اپنے کالج میگزین "علم و آگہی" کے سالانہ شمارے (1973-74) کا موضوع "برصغیر پاک و ہند کے علمی ادبی و تعلیمی ادارے" مخصوص کیا تھا اور اس خصوصی شمارے کے مرتب ابوسلمان شاہجہاں پوری تھے۔ اسی مجلے میں مدرسہ عالیہ پر جو مختصر تعارفی مضمون شائع ہوا تھا، وہ یہاں پیش ہے۔
مدرسہ عالیہ کلکتہ کا شمار برصغیر کی قدیم ترین اسلامی درسگاہوں میں ہوتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی وہ واحد درس گاہ ہے جو تقریباً دو سو سال تک اسلامی تعلیم و تدریس کی ضرورتوں کی تکمیل کرتی رہی ہے۔ اس کا قیام عجیب و غریب حالات میں پیش آیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی جس کا ظاہری مقصد تجارت اور اصل مقصد ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ اور اقتدار کا حصول تھا، رفتہ رفتہ ہندوستان کے انتظامی معاملات میں مداخلت کرنے لگی، دوسری طرف مغلیہ سلطنت اندرونی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا شکار ہو کر کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ آخر کار شاہ عالم کے دورِ حکومت میں طوائف الملوکی کا ایسا ہنگامہ گرم ہواکہ بادشاہ نے مجبور ہوکر اگست 1765ء میں بنگال کا انتظام و انصرام ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپرد کر دیا، لیکن شرط یہ رکھی گئی کہ حکومت کے قدیم نظام میں کوئی رد و بدل نہیں کیا جائے گا۔
بنگال کی تقدیر کا مالک بننے کے بعد انگریز دل سے چاہتے تھے کہ حکومت کو تبدیل کردیں، مگر کچھ تو شرائط کا پاس و لحاظ تھا اور کچھ سیاسی مجبوریاں کہ وہ فوری یہ قدم نہیں اٹھا سکے۔ کچھ عرصہ تک انہیں پرانے نظام کو قائم رکھنا تھا جس کے لئے وہ اپنی پسند کے ایسے افراد کی تلاش میں تھے جو اسلامی قوانین اور تعلیمات میں ماہر ہوں اور انتظامی اور عدالتوں کا کام سنبھال سکیں۔
دوسری طرف انگریزوں کے دن بہ دن بڑھتے ہوئے غلبے کے پیش نظر بنگال کے مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کا دین و ایمان اور ان کی اسلامی تعلیمات و روایات غیر محفوظ ہیں۔ اس سوچ کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ کلکتہ کے مسلمانوں نے دینی تعلیم کی ترغیب اور مذہب کے تحفظ کے لئے ایک اسلامی تعلیمی ادارہ کے قیام کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا۔ لیکن ان کی مالی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ کسی مدرسہ کے قیام کی خواہش کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
اتفاق سے اس دور میں ایک عظیم المرتبت علمی شخصیت ملا مجدالدین (جو عرف عام میں مولوی مدن کے نام سے مشہور تھے) کلکتہ میں قیام فرما تھے اور کلکتہ کے لوگ جو مولوی صاحب کی علمی اور مذہبی حیثیت سے واقف تھے ، چاہتے تھے کہ مولوی صاحب کلکتہ میں رہ کر لب تشنگان علم کو سیراب کریں۔ چنانچہ کلکتہ کی برگزیدہ علمی شخصیتوں کا ایک وفد مدرسہ کے قیام کی درخواست کے ساتھ وارن ہسٹنگر [Warren Hastings] (گورنر جنرل) سے ملا۔
انگریز پہلے ہی یہ سوچ رہے تھے کہ کوئی ایسی ٹکسال قائم کی جائے جہاں سے ان کی مرضی کے مطابق ڈھلے ہوئے افراد دستیاب ہو جائیں، جن کے ذریعہ نظام حکومت چلانے میں آسانی ہو، چنانچہ انہوں نے یہ موقعہ غنیمت سمجھا اور درخواست فوراً منظور کرلی۔

یہ درخواست ستمبر 1780ء میں پیش کی گئی اور اکتوبر 1780ء کو مدرسہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس مدرسہ کے پہلے نگراں یا مدرس اول ملا مجد الدین مقرر کئے گئے۔ ابتداء میں یہ مدرسہ کرایہ کی عمارت میں قائم کیا گیا تھا۔ تھوڑے عرصے کے بعد ایک وسیع رقبۂ زمین گورنر نے اپنی جیب خاص سے خریدا جس پر بعد میں مدرسہ کے لئے ایک شان دار عمارت کی تعمیر کی گئی۔ مدرسہ کا نصاب تعلیم درس نظامیہ کے مطابق رکھا گیا۔ مدرسہ کا ابتدائی ماہانہ خرچ کل چھ سو پچاس روپیہ ہوتا تھا جو گورنر برداشت کرتا تھا۔ اپریل 1781ء تک تمام اخراجات گورنر نے ذاتی طور پر برداشت کئے بعد ازاں مجلس نظماء کو اس کی باقاعدہ اطلاع دی اور یہ گزارش بھی کی کہ کمپنی اس ادارہ کو اپنی تحویل میں لے لے۔ مدرسہ کی عمارت کی تعمیر کے لئے اکیاون ہزار روپیہ کا تخمینہ پیش کیا گیا۔ یہ تجویز 1782ء کو منظور ہوئی۔ تمام مصارف جو اب تک مدرسہ کے سلسلے میں ہوئے تھے۔ بورڈ نے گورنر کو ادا کر دئے۔

1790ء تک مدرسہ میں درس نظامیہ کے مطابق تدریس ہوتی رہی۔ 1791ء میں ایک اصلاحی کمیٹی قائم کی گئی اس کمیٹی نے ملا مجد الدین پر مدرسہ کے سلسلے میں بدعنوانیوں کے چند الزامات عائد کر کے سبک دوش کر دیا۔ اور ان کی جگہ مولوی محمد اسرائیل کو مدرس اول مقرر کیا۔
مدرسہ کے نصاب میں حکمت ، عقائد، فقہ، ہیئت، اقلیدس، ریاضی، منطق ، بلاغت، صرف، نحو وغیرہ علوم شامل تھے۔ اسٹاف میں ایک ہیڈ مولوی، چار مدرس، ایک خطیب اور ایک موذن کا تقرر عمل میں آیا۔

انگریز اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے رفتہ رفتہ مدرسہ میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک نگراں کمیٹی قائم کی گئی جس نے 1819ء میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ ہیڈ مولوی کی جگہ ایک انگریز سکریٹری مقرر کیا اور ساتھ ہی گورنر جنرل کو مدرسہ کی ضروری اصلاحات کے سلسلے میں ایک رپورٹ پیش کی، جس کو گورنر نے بہت سراہا، لیکن اس پر فوری عمل درآمد سے روک دیا۔ اس سلسلے میں گورنر جنرل کے مراسلے کا اقتباس قابل توجہ ہے :
"میں بھی کمیٹی کی رائے سے متفق ہوں کہ اصلاحات کئے جائیں لیکن تدریجاً تاکہ مقامی لوگوں کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے ، اگرچہ یہ بہت دشوار ہوگا کہ تعلیم کے اس نظام کو جو سالہا سال سے چلا آ رہا ہے اور جس کی عظمت و عزت مسلمانوں کے دلوں میں جاگزیں ہے یکایک بدل دیا جائے۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ اس تجویز پر اس وقت تک عمل درآمد نہ کیاجائے جب تک مغربی علوم کی ضرورت اور اس کی افادیت کو معقول اور موثر ذرائع سے مسلمانوں کے ذہن نشین کرا دیا جائے۔"

1820ء میں مدرسہ لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ جس سے طالب علموں کو خاطر خواہ حصول علم میں مدد ملی۔ پہلے اسلامی مدارس میں یہ رواج تھا کہ معلم خود طالب علم کی استعداد اور علم پر اس کے عبور کا اندازہ کر کے سند جاری کرتے تھے۔ جدید طرز پر پہلا امتحان اس مدرسہ میں 1821ء میں ہوا۔ 1826ء میں مسلمانوں کی انگریزی تعلیم کے لئے مدرسہ میں انگریزی تعلیم کی ایک جماعت قائم کی گئی۔ مگر مسلمان انگریزی تعلیم کو اپنے مذہبی خیالات کے حق میں مضر سمجھتے تھے۔ اس لئے انگریزوں کو اس میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔ علماء نے اس پروگرام کی مخالفت مذہبی یا نسلی تعصب کی بنیاد پر نہیں کی تھی، بلکہ وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ مغربی تہذیب اسلامی اقدار کے حق میں مضر ہے۔ اس لئے انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں نے انگریزی تعلیم کو فوراً قبول کر لیا۔

1837ء میں لارڈ میکالے نے اپنا تعلیمی قانون نافذ کر دیا جس کی رو سے فارسی کی جگہ انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم قرار دے دیا گیا اور سرکاری ملازمت کے لئے انگریزی دانی کی شرط لازمی رکھی گئی۔ یہ وہی لارڈ میکالے ہیں جن کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ؎
اک لردِ فرنگی نے کہا اپنے پسر سے
محکوم کو تیغوں سے نہیں کرتے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

لارڈ میکالے کے قانون کے اجراء کے بعد انگریزوں کی دلچسپی اس مدرسہ سے باقی نہیں رہی تھی کیونکہ اس کی اصل ایک ضرورت پوری ہو چکی تھی۔ لیکن مسلمانوں کے نقطہ نظر سے اس مدرسہ کے قیام کا اصل مقصد دین کا احیاء اور اسلامی تعلیمات کی اشاعت تھا جو باقی رہا اورنتیجہ یہ ہوا کہ اسی قسم کے مدارس کے تعلیم یافتہ لوگوں نے عیسائی مشنریوں کی یلغار کا مقابلہ کیا۔ ان مدرسوں نے عظیم المرتبت مبلغین، واعظین، علماء اور صوفیہ پیدا کئے جن کی گرانقدر دینی خدمات سے انکار ناممکن ہے۔

اس مدرسہ سے انگریزوں کی وقتی اور صرف سیاسی دلچسپی تھی۔ اس قسم کی کوئی دلچسپی ان کو اس مدرسہ سے نہیں تھی، جیسی فورٹ ولیم کالج سے تھی۔ (اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ 1781ء سے 1934ء تک اس مدرسہ کا کل مصارف تیس ہزار سات سو بہتر روپیہ سالانہ رہے، جب کہ فورٹ ولیم کالج کے مصاف ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ سالانہ اور فورٹ ولیم کالج کے مقابلے میں اس میں طالب علموں کی تعداد بھی کثیر تھی۔)
1850ء میں ڈاکٹر اسپرنگر کو مدرسہ عالیہ کا پہلا انگریز پرنسپل مقرر کیا گیا۔ اس سے پہلے مدرس اول ہی پرنسپل کے فرائض انجام دیتا تھا۔ عربی ڈپارٹمنٹ پہلے ہی سے قائم تھا۔ 1829ء میں انگلش ڈپارٹمنٹ کھولا گیا۔ 10/جولائی 1854ء کو اینگلو پرشین ڈپارٹمنٹ وجود میں آیا۔ 1850ء کے بعد انگریزوں نے مدرسہ کو کلکتہ یونیورسٹی سے ملحق کرنے کی تجویز کی کیونکہ ان کے خیال کے مطابق بغاوت میں اس مدرسہ کے فرزندوں کا بھی دخل تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ مدرسہ متعصب اور تنگ نظر مسلمان پیدا کرتا تھا۔ اس تجویز پر بعض وجوہات کی بنا پر عمل نہ ہو سکا۔

یہ بتایا جا چکا ہے کہ 1826ء میں مدرسہ میں انگریزی تعلیم کے لئے ایک کالج کلاس کا قیام عمل میں آیا تھا جو ناکام ہو گئی تھی۔ پھر 1866ء میں دوبارہ کالج کلاس کا آغاز ہوا۔ یہ کلاس بھی دو سال کے عرصہ میں ختم ہوگئی۔ انگریزوں نے جب دیکھا کہ اس مدرسہ سے ان کے مقاصد کی تکمیل خاطر خواہ نہیں ہورہی ہے تو انہوں نے کسی نہ کسی بہانے اس کو بند کرنے یا نقصان پہنچانے کی سازشیں کیں۔ لیکن یہ مساعی بارآور نہ ہو سکیں اور بنگال کے مسلمانوں کو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے جو بے پناہ عقیدت تھی اس کی بنا پر اس مدرسہ نے ناسازگار حالات میں بھی اپنے وجود کو برقرار رکھا بلکہ اپنی اہمیت کو انگریزوں سے بھی تسلیم کرا لیا۔ اس سلسلہ میں گورنمنٹ کے ریزولیوشن نمبر 450 ٹی۔جی مورخہ 31/جولائی 1914ء کا اقتباس ملاحظہ ہو:
"مسلمان بحیثیت ایک قوم ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت محسوس کرتے ہیں جو واقعی اسلامی علوم میں ماہر ہوں۔ مسلمانوں کے اسی جذبہ کا لحاظ کرتے ہوئے گورنر جنرل باجلاس نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک سرکاری مدرسہ صوبہ میں ایسا باقی رہنا چاہئے جو مخصوص اسلامی تعلیم دے سکے۔ اس مسئلے میں مسلمانوں کی رائیں بھی طلب کی گئیں اور باتفاق رائے یہی طے پایا کہ مدرسہ عالیہ کلکتہ ہی وہ مدرسہ ہے جہاں قدیم تعلیم باقی رکھی جائے۔"

اس فیصلے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے مدرسہ میں انگریزی تعلیم کی بھی مناسب گنجائش رکھی گئی۔ لیکن یہاں کے زیادہ تر طالب علموں نے دینی تعلیم کو انگریزی تعلیم پر ترجیح دی اگرچہ ان کو اس کے نتیجہ میں سرکاری ملازمتوں سے خارج کر دیا گیا۔
1947ء میں مدرسہ عالیہ کو کلکتہ سے ڈھاکہ منتقل کرنے کی تجویز ہوئی۔ لیکن طے پایا کہ صرف عربی شعبہ ڈھاکہ منتقل کیا جائے اور ایسا ہی ہوا۔ اس تقسیم کے بعد دونوں ملکوں میں مدرسہ کسمپرسی کے عالم سے دوچار رہا۔ لیکن ہندوستان میں مولانا ابوالکلام آزاد کی توجہ سے جلد ہی اس کی حالت سدھر گئی۔ مولانا نے ہندوستان کے مشہور صاحب علم مولانا سعید احمد اکبر آبادی کو مدرسہ عالیہ کلکتہ کا پرنسپل بنا کر بھیجا، انہوں نے چند سال وہاں رہ کر مدرسہ کے بگڑے ہوئے حالات کو ٹھیک کیا اور اسے دوبارہ ترقی کی راہوں پر گامزن کر دیا۔
آج مدرسہ عالیہ ہندوستان کے جدید نظام تعلیم میں نہایت اہم کردار ادا کر رہا ہے لیکن اس کا جو حصہ ڈھاکہ منتقل ہوا تھا وہ 1971ء کے انقلاب تک کسمپرسی کے عالم میں مبتلا رہا اور اب کون کہہ سکتا ہے کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا؟!

***
ماخوذ از مجلہ: علم و آگہی (خصوصی شمارہ "برصغیر پاک و ہند کے علمی ادبی و تعلیمی ادارے")
گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی میگزین (1973-74) (مرتبہ: ابوسلمان شاہجہاں پوری)

Madrasa Aliah, Aliah University, Kolkata. Article by: Ameer-ul-Islam.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں