انقلابی شاعر اور مقبول ادیب و ڈراما نگار رہے ہیں جو مشہور شاعر اختر شیرانی کے بعد رومانی شاعر کے طور پر ابھر کر منظر عام پر آئے۔ ان کی شاعری میں وطنیت کے سرفروشانہ جذبات اور مزدور کی محبت شامل تھی۔ سامراج پسندی کی مخالفت میں وہ سرگرم ادبی کردار ادا کرتے رہے۔ جب ملک بھر میں آزادی کی نظمیں تحریر کی جا رہی تھیں تب الطاف مشہدی نے بھی اپنی نظم "جھوم کر اُٹھو وطن آزاد کرنے کے لیے" لکھی جو کافی مشہور و مقبول ہوئی اور اسی کے سبب انہیں نمایاں شہرت بھی حاصل ہوئی۔ ان کے 107 ویں یومِ پیدائش پر، ان کی مرتب کردہ منتخب کہانیوں کا مجموعہ کلاسیکی ادب میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کی خدمت میں تعمیرنیوز کی جانب سے پیش ہے۔ تقریباً ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 9 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اس کتاب کے دیباچہ کے بطور "اظہارِ تشکر" کے زیر عنوان الطاف مشہدی لکھتے ہیں ۔۔۔میں شروع سے "ادب برائے ادب" کا مخالف اور "ادب برائے زندگی" کا حامی رہا ہوں اور میری شاعری سے بھی زیادہ تر اسی جذبہ کا اظہار ہوتا ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس روح فرسا ماحول اور مظلوم کش نظام میں وہی ادب، ادب کہلانے کا مستحق ہے جو زندگی کی صحیح ترجمانی کرے۔ جو مزدوروں کی مردہ رگوں میں بجلیوں سے تیز اور آگ سے زیادہ حرارت رکھنے والا خون پیدا کرے۔ جو مظلوموں کی زبانوں میں پڑے ہوئے زنگ آلود نالوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور جو غریبوں کے کانوں میں بآوازِ بلند کہے کہ: تم بھی انسان ہو، قدرت کے عطیوں میں تمہارا بھی برابر کا حصہ ہے۔
میں اس ادب کو ہرگز صحیح ادب سمجھنے پر تیار نہیں جو سرمایہ داروں کی تعیش پسند طبیعتوں کو بہلانے کے لیے معرضِ وجود میں آیا ہو۔ جو محکوموں کی توجہ ان کے عبرتناک حالات سے ہٹا کر زلف و رخسار کی طرف منعطف کر دے۔ میرے نزدیک ایسا ادب محض "بھلاوہ" ہے۔ میں ایسے ادب کو ہندوستانی تصنیفات میں دیکھنا چاہتا ہوں جو سماج کے بھیانک چہرے کو بےنقاب کر دے اور بوڑھے دماغوں کی قائم کی ہوئی قیود کی اینٹ سے اینٹ بجا دے۔
یوں تو ہمارے تھکے ہوئے دماغ سنیما ہال میں جا کر بھی تھوڑی دیر کے لیے آلام و افکار کو بھول جاتے ہیں۔ شراب خانوں میں بھی کچھ لمحات عیش و عشرت میں بسر ہو سکتے ہیں۔ لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کو مستقل طور پر آرام اور سکون سے دوچار کرنے میں کون سا ادب ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے تو بلاشبہ وہ ادب "ادب برائے زندگی" ہے۔
ایک مدت سے میری خواہش تھی کہ ترقی پسند ادیبوں کی کہانیوں کا ایک ایسا مجموعہ ملک کے سامنے رکھوں جو صحیح معنوں میں "ادب برائے زندگی" کا آئینہ دار ہو۔ اور آج شاید میری وہ دیرینہ خواہش پوری ہو رہی ہے۔
اس کٹھن منزل کو طے کرنے میں جن عزیزوں نے مجھے مدد دی ہے ان میں سے بعض کے نام شکریہ کے ساتھ ذیل میں درج کرتا ہوں:
عائشہ خاتون قسیم، کرشن چندر ایم۔اے، احمد ندیم قاسمی، حسن عباس، محمد امین شرقپوری وغیرہ۔
- الطاف مشہدی
فیض باغ، لاہور۔ 8/دسمبر 1940ء۔
***
نام کتاب: تازیانے (منتخب کہانیاں)
مرتب: الطاف مشہدی
تعداد صفحات: 240
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 9 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Tazyane by Altaf Mashhadi.pdf
تازیانے :: فہرست | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | تخلیق | تخلیق کار | صفحہ نمبر |
الف | اظہار تشکر (دیباچہ) | الطاف مشہدی | 8 |
1 | شطرنج کی بازی | پریم چند | 9 |
2 | نغمے کی موت | کرشن چندر | 23 |
3 | باون پتے | حسن عباس | 41 |
4 | یہ مرد | اوپندرناتھ اشک | 47 |
5 | چین نگر کے چار بیکار | سدرشن | 59 |
6 | صحرائی | رنبیر سنگھ ویر | 71 |
7 | طلائی مہر | احمد ندیم قاسمی | 129 |
8 | نجو | عائشہ خاتون قسیم | 145 |
9 | افسانہ نگار | محمد امین شرقپوری | 155 |
10 | شراب و شباب | باری | 167 |
11 | سپیرا | اختر شیرانی | 172 |
12 | غالب اور گوئٹے | حاجی لق لق | 189 |
13 | بڑا بھائی | رامانند ساگر کاشمیری | 199 |
14 | بھول | اختر انصاری | 213 |
15 | گرم کوٹ | راجندر سنگھ بیدی | 225 |
Tazyane by Altaf Mashhadi, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں