گلاب کانٹے اور کونپل - افسانہ از مکرم نیاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-10

گلاب کانٹے اور کونپل - افسانہ از مکرم نیاز

gulab-kante-aur-konpal

"آدمی کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ کچھ پوچھتا ہے تو کسی مجبوری کے تحت مگر ظاہر یہ کرتا ہے کہ جیسے اس دریافت سے اس کی کوئی غرض وابستہ نہیں۔"


صدر محفل کی بات سن کر سب لوگوں نے ایک دوسرے کو خفت بھری نگاہوں سے دیکھا۔ وہ سب حسب روایت چھٹی کے دن اپنے ایک دوست کے گھر جمع ہوئے تھے۔ ہفتے میں ایک دن مل جل کر چند گھنٹوں کی نشست جمانا ان لوگوں کا معمول تھا۔ ہر ہفتے ایک الگ ساتھی کے گھر بیٹھک ہوتی جہاں اپنے وطن کی یادیں تازہ کی جاتیں۔ چونکہ آدمی کو زندہ رہنے کے لئے سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے خواہ وہ سہارا خط کی شکل میں یا کسی سہانی یاد کی صورت میں۔ اسی سبب سمندر پار بسنے والوں نے ایک دن کے چند گھنٹے اپنی مصروف زندگی سے مستعار لے کر وطن کی یادوں کے نام معنون کر دئے تھے۔
یادوں کے موسم کے وہ خوبصورت لمحات انہیں، ایک ایسی البیلی دنیا میں دھکیل لے جاتے جہاں محبتوں کی خوشبو مہکتی، امیدوں کے دیپ جلتے اور خوشگوار مستقبل کی آرزو پل پل لطیف انگڑائیاں لیتی محسوس ہوتی۔ تمام لوگ اس محفل کی رفاقت سے ایک مرتبہ بھی بچھڑنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ بلاناغہ ہر ہفتے محفل میں ذوق و شوق سے شریک ہوتے ، کچھ اپنی کہتے کچھ دوسروں کی سنتے کبھی کسی کی الجھن سلجھائی جاتی تو کبھی کسی مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس کا متفقہ حل تلاش کیا جاتا۔ ایسے مواقع پر ان سب کی نظریں اپنی محفل کے صدر کی جانب اٹھ جاتیں جو ہر چند کہ نوجوان تھا مگر اس کے اعلیٰ کردار ، اس کی لیاقت، دور اندیشی اور اس کے تعمیری رویے کے وہ سب معترف تھے۔ اس کی فعال شخصیت کا جادو پہلی ہی ملاقات میں ملنے والے کے سر چڑھ جاتا تھا۔


چندہفتوں سے محفل اپنے صدر کے بغیر روکھے پھیکے انداز میں سجائی جا رہی تھی۔ اس سے قبل بھی انہیں نوجوان صدر کے رویے میں تبدیلی کا احساس ہوا تھا۔ برجستہ گفتگو کا مظاہرہ، پرلطف فقروں کی بارش اور شائستہ مذاق کرنے والا انہیں اچانک خاموش اور سنجیدہ سا نظر آنے لگا تھا۔


کئی ہفتوں بعد جب نوجوان صدر دوبارہ شریک محفل ہوا تو اراکین نے اس کے تبدیل شدہ رویے کی وضاحت طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ محتاط طریقے سے سبب دریافت کرنا چاہتے تھے تاکہ صدر کو یہ شک نہ گزرے کہ وہ سب اس کی کھوئی کھوئی طبیعت اور بیزار رویے سے ناراض ہیں۔ مگر صدر محفل نے ان سب کی بے چینی اور ناراضگی بھانپ لی تھی اس لئے جب وہ بولا تو اس کے لہجے میں خفیف سے طنز کا شائبہ تھا:
"یہ آدمی کی کمزوری ہے کہ وہ کچھ پوچھتا ہے تو کسی مجبوری کے تحت مگر ظاہر یہ کرتا ہے کہ اس دریافت سے اس کی کوئی غرض وابستہ نہیں۔"


اس کی بات سن کر سب لوگوں نے شرمندگی سے ایک دوسرے کی طرف نظر دوڑائی۔
"بات وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔"
ان میں سے ایک کم عمر نوجوان جلدی سے بول اٹھا، مگر صدر نے دھیمے سے مسکرا کر اسے آگے کہنے سے روک دیا اور پھر اپنی بات دوبارہ شروع کی۔


مکمل افسانہ عنقریب شائع ہوگا۔

"دوستو! میں جانتا ہوں کئی ہفتوں کی غیر حاضری کے سبب میں آپ سب کا قصوروار ہوں۔ آپ جو سزا چاہیں میرے لئے تجویز کر سکتے ہیں، میں بخوشی اسے قبول کروں گا۔ لیکن قبل اس کے کہ آپ سزا کا حکم نافذ کریں، میری درخواست ہے کہ آج آپ میری کہانی بھی سن لیں۔
آپ میں سے بیشتر غالباً یہ سمجھتے ہوں گے کہ مجھ جیسے تنہا شخص کی کوئی کہانی نہیں ہوتی۔ آپ نے سوچا ہوگا کہ میں نے ابھی وقت کے زیادہ موسم نہیں دیکھے، لہٰذا میری اب تک کی زندگی کسی خاص واقعے کے بغیر گزر گئی ہوگی۔ لیکن نہیں۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر شخص اپنی ایک کہانی کے ساتھ جیتا ہے۔ اس سلسلے میں اس بچے کی مثال لیجئے جس کا کوئی پسندیدہ کھلونا ٹوٹ گیا ہو ، اور جو رو رو کر یہی تکرار کئے جا رہا ہو کہ اس کا پیارا سا دوست ختم ہو گیا۔ گو ہمارے نزدیک کسی کھلونے کا ٹوٹ جانا کوئی قابل ذکر بات نہیں مگر یہی معمولی سا واقعہ اس بچے کی زندگی میں ایک المیاتی کہانی سے کم نہیں۔۔"


وہ کہتے کہتے دم بھر کے لئے رکا، سب لوگ آنکھوں میں حیرت لئے ہمہ تن گوش تھے، کیونکہ انہوں نے اب تک صدر کے اصرار پر اپنی ہی کہانیاں محفل میں پیش کی تھیں۔ انہیں اس کا خیال تک نہیں آیا تھا کہ کبھی صدر سے بھی اس کی اپنی کہانی کو سننے کا تقاضا کریں۔
اپنے دکھ سکھ میں دوسروں کو شریک کرنے والے کبھی کبھی بھول جاتے ہیں کہ شراکت کا یہ فرض انہیں بھی دوسروں کے تئیں نبھانا لازم ہے۔ نوجوان صدر نے کھنکار کر انہیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا:
"اجازت ہو تو میں اپنی کہانی سنا ہی دوں؟"
ان سبھوں نے بلا سوچے سمجھے اپنے سر ہلا دیے۔


اس نوجوان طالب علم کے دو ہی شوق تھے۔ ایک تو محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کرنا اور دوسرے باغبانی۔ باغبانی کے شوق کو پورا کرنے میں اس کی معاشی حالت سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ پھر بھی اس نے اپنی ذہانت سے کام لے کر اپنے گھر کے مختصر سے صحن میں مختلف پودوں کے گملے سجا لیے۔ ان سب میں سرخی اور سفیدی کے بین بین رنگ کے گلاب کا پودا اپنی ایک عجیب شان رکھتا تھا۔ جب بھی اس میں کوئی نئی کلی پھوٹتی تو ایسا لگتا جیسے پل کے پل میں کسی نوخیز دوشیزہ کے رخسار کی سپیدی کسی خوبرو نوجوان کے رومانی مکالمے کے سبب بھرپور لالی میں تبدیل ہو جائے گی۔


ایک دفعہ ہوا یہ کہ ابھی کلی نے شرما کر اپنی سرخی کا اظہار کیا ہی تھا کہ دوسرے دن ہی اپنا مکمل شباب دکھائے بغیر غائب ہو گئی۔ طالب علم کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی نے اس کے نادر گلاب پر ہاتھ صاف کر دیا تھا۔ ابھی وہ اس صدمے سے سنبھلا بھی نہ تھا کہ کچھ دن بعد دوسرا گلاب بھی رخصت ہو گیا۔ اور جب اس نے چوری کی تحقیقات شروع کرنے کا ارادہ کیا تو جیسے چور نے بھی اسے پے در پے شکست دینے کی شرط باندھ لی تھی۔ مگر چور کے پاؤں کتنے لمبے؟ لہٰذا ایک دن اچانک صبح سویرے اس نے چور کو رنگے ہاتھوں چھاپ لیا، کھڑکی سے جھانک کر چور کا سایہ دیکھ لینے کے بعد اس نے فوراً دروازے سے نکل کر اس کے وجود کو اپنے مضبوط بازوؤں میں جکڑ لیا مگر ایک سریلی چیخ پر دوسرے ہی لمحے گھبرا کر اس نے اپنے ہاتھ کھول دئے۔ اس ناگہانی افتاد سے نسوانی گلاب کا ہاتھ کانٹوں نے زخمی کر دیا۔ وہ گلاب چور دوشیزہ جھلا کر پلٹی اور اس کے سرخ سرخ ہونٹوں سے صرف ایک لفظ ادا ہوا:
"بدتمیز۔"
پھر اس نے اپنی زخمی انگلیاں دکھاتے ہوئے کہا:
"دیکھا اپنی بدتمیزی کا انجام۔"


"سوری۔" وہ بوکھلا گیا ، مگر اگلے ہی پل اپنے عزیزاز جان گلابوں کی پراسرار گمشدگی کا صدمہ اسے یاد آ گیا۔
"مس۔۔ یہ میری نہیں بلکہ کانٹوں کی سزا ہے اور یاد رہے کہ کانٹے ہی گلاب کی بقا کے ضامن ہیں۔"
"ہونہہ۔۔۔ تمہاری بات میرے پلّے نہیں پڑی۔" یہ کہہ کر اس نے توڑا ہوا گلاب بڑی بے نیازی سے اپنے گریبان میں ڈالا اور چند پتھروں کے سہارے صحن کی مشترکہ دیوار پر چڑھ کر عقبی مکان میں کود گئی۔


نوجوان نے گردن کو اونچا کر کے پڑوسی کے مکان میں جھانکا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ وہاں کے وسیع آنگن میں قسم قسم کے پودوں کی کیاریاں لگی ہوئی تھیں ، جس میں مختلف رنگ کے گلاب کے پودے بھی تھے۔ بس کمی تھی تو اس مخصوص رنگ کے گلاب کی جو اس کی دسترس میں تھا۔
پھر اسے اپنے گھر والوں سے معلوم ہوا کہ پڑوس میں جو نیا نیا خاندان آکر آباد ہوا تھا، وہ لڑکی اسی سے تعلق رکھتی تھی اور اسے بھی پودوں سے بے پناہ لگاؤ تھا۔ اپنی بہن کی زبانی اس لڑکی سے متعلق قصے سن سن کر اس نے گمان کیا تھا کہ ہوگی کوئی موٹے چشمے والی عمر رسیدہ بھدی سی لڑکی۔ مگر وہ تو جیتا جاگتا گلاب نکلی۔ اس واقعے کے بعد مشترکہ شوق کی بدولت جب دونوں کے درمیان دوستی کی راہیں ہموار ہوئیں ، تو ایک دن نوجوان نے اسے شرمندہ لہجے میں بتایا کہ ملاقات سے قبل اپنے پڑوسی کی لڑکی کو اس نے آپا جان اور آنٹی کا لقب دے رکھا تھا، جواب میں جیتے جاگتے گلاب نے کھنکتا قہقہہ لگایا:
"میں بھی سمجھتی تھی کہ یہ گلاب والے صاحب کہیں کوئی چڑچڑے چچا نہ نکلیں"۔ پھر کچھ رک کر اس نے کہا:
"ہم دراصل یک طرفہ طور پر سوچتے ہیں، دو طرفہ سوچ سے شاید اسی لئے کتراتے ہیں کہ شرمندگی یا پشیمانی کے نادر مواقع سے کہیں محروم نہ ہو جائیں۔"


نوجوان طالب علم نے سچ مچ صرف ایک رخ سے سوچنا شروع کیا تھا۔ حقیقت کے دوسرے پہلو کی طرف سے اس نے نظریں چرا لی تھیں۔ مگر وہ دوسرا رخ ایک حادثے کی شکل میں جلد ہی اس وقت سامنے آیا جب سمندر کے منصوبہ بند گرداب نیے مضرت رساں خس و خاشاک کو پرامن ساحل پر لا پھینکا اور شہر کا شہر زہریلے کانٹوں کی چبھن سے لہو لہان ہو اٹھا۔
ایک دن اس کے گھر پر پتھراؤ ہو گیا۔ سارے بے زبان پودے بے رحم پیروں تلے روند دئے گئے۔ پھر اسی کے محلے کے چند لڑکے اسے گریبان سے پکڑ کر باہر کھینچ لائے اوراس کی ماں بہنیں محض چیخ چیخ کر رحم کی دہائی دیتی رہ گئیں۔
"کیوں بے؟ ہماری ذات کی لڑکی پر نظریں ڈالتا ہے۔۔۔"


موٹی سی گالی دینے والے اپنے ہم محلہ نوجوان کی طرف اس نے حیرت اور خوف سے دیکھا۔ تب اسے پتہ چلا کہ محبت کا رشتہ کسی ذات ، فرقہ، دھرم ، زبان یا علاقے کو نہیں دیکھتا ، یہ بے اختیار اور پاکیزہ رشتہ تو بہت معصوم اور بڑا نازک ہوتا ہے یوں جیسے کچے دھاگے سے بنا ہوا ہو۔ ذرا سی کھینچا تانی اسے ان گنت ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے۔ مگر اس وقت گلاب کی اس سے محبت ایک گالی بن گئی تھی اور جب لاتوں ، گھونسوں اور ٹھوکروں سمیت وہ گالی اسے گولی کی طرح آکر لگی تو اس کے جسم اور اس کی روح پر بے شمار گھاؤ ابھر آئے۔


گلاب کی حوصلہ افزائی ، اس کی ہمدردی اور اس کی ڈھیروں تسلیاں بھی اس کے اندرونی زخم کو مندمل نہ کر سکیں۔ تشدد میں گھرے حالات کے بھنور سے وہ کبھی نکل نہ سکا۔ آخرکار ایک دن اس نے شہر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس فیصلے پر گلاب کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ مگر اس کا دل نہیں پسیجا، بلکہ وہ چراغ پا ہو کر کہنے لگا:
"کیوں؟ اس شہر نے میری خدمات کا مجھے کیا صلہ دیا؟ محبت کے پھولوں کے جواب میں نفرتوں کے پتھر برسائے مجھ پر۔ بے پناہ توہین، بے شمار طعنے اور نچلے درجے کے شہری کا خطاب دیا ہے اس نے مجھے۔ تب تو یہاں میرے قیام کا جواز ہی نہیں پیدا ہوتا۔"


گلاب اسے روکتا ہی رہ گیا مگر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سمندر پار چلا گیا۔ پھر اس نے وہ سب کچھ پا لیا جس کے حصول کا اس نے اپنے زمانہ طالب علمی میں خواب دیکھا تھا۔
اس کے باوجود اس کے دل کی کسک باقی رہی۔ رہ رہ کر اسے اپنی کسی اہم چیز کے کھو جانے کا احساس تڑپا جاتا۔ وہ سوچتا کہ کھونے اور پانے کے کھیل میں آدمی جس قدر کھوتا ہے اس سے کہیں زیادہ اپنی کم مائیگی کے احساس سے دوچار ہوتا ہے۔ یہ کم مائیگی کا احساس ہی تو تھا جس کے باعث وہ صاحب دولت اور صاحب ثروت ہونے کے باوجود اپنے وطن میں قیام پذیر اپنی ماں اور اپنی بہنوں کی حفاظت نہ کر سکا اور وہ کئی سال بعد دوبارہ پھوٹ پڑنے والے خونی سیلاب کی نذر ہو گئیں۔
اسے گلاب کا مختصر خط ملا تھا۔


"تمہاری ماں اور بہنوں کے اجتماعی قتل کے وقت میں ان کے پاس ہی تھی۔ مگر آہ اس کے باوجود میں انہیں بچا نہ سکی ، جس کے باعث اب تم سے آنکھیں ملانے کا مجھ میں حوصلہ باقی نہیں رہا۔ یہ وطن اب واقعی تمہاری سکونت کے قابل نہیں رہا میرے گل! میں نے تم سے اتنی شدید محبت کی ہے کہ تمہیں ذرا سا نقصان پہنچتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتی لہٰذا اب تم یہاں کبھی نہ آنا، کبھی مت آنا گل!


نوجوان صدر اچانک خاموش ہو گیا تو جیسے وہ سب اس کی کہانی کے سحر سے نکل آئے۔ ابھی وہ پوری طرح سنبھلے بھی نہ تھے کہ دھماکہ ہو گیا، نوجوان صدر کہہ رہا تھا:
"اور اب میں اپنے وطن واپس لوٹ رہا ہوں۔"
"کیا؟" وہ سب بوکھلا کر چیخے۔
"ہاں، اب کہیں جاکر مجھ پر یہ حقیقت روشن ہوئی ہے کہ تربیت اور حالات ایسا کردار نہیں بناتے جس کی لوگ لگاتار تعریف یا اس پر متواتر تنقید کریں بلکہ اصل کردار تو زندگی کے اس مقصد سے بنتا ہے جو ہم نے اپنے لیے بنا لیا ہو۔ اہم بات یہ نہیں کہ ہمیں وطن سے، اہل وطن سے کیا مل رہا ہے بلکہ غور طلب امر یہ ہے کہ ہم وطن کو ، اپنے سماج کو کیا دے رہے ہیں؟ زندگی کو ہماری ذات سے کیا حاصل ہو رہا ہے؟"


نوجوان صدر کچھ لمحے رکا پھر بولا:
"محبت کا بے لوث رشتہ جب ذات، زبان اور علاقے کے فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے محبوب کی سلامتی کا آرزو مند ہو سکتا ہے تو اپنے ہم وطنوں کو فتنہ فساد کے منجدھار میں پھنسے دیکھ کر ہم کیوں اور کیسے الگ تھلگ رہ سکتے ہیں ؟ ہمارے سینوں میں دفن محبت کیوں بیدار نہیں ہوتی؟"
مگر۔۔۔ مگر آپ کا تو اب وہاں کوئی نہیں رہا۔" ان میں سے کسی کی کمزور سی آواز آئی۔
جواب میں نوجوان صدر نے باحوصلہ لہجے میں کہا:
"مانا کہ سب کچھ تباہ ہوچکا ہے ، گلاب کے پودے میں گلاب کم کھلے ہیں اور کانٹے بے شمار، لیکن ہم نت نئی پھوٹتی کونپلوں کے وجود سے بے خبر ہیں۔ ہمیں اسی لئے اس پودے کی آبیاری کرنا ہے کہ ابھی امید کی کونپلیں زندہ ہیں۔"


"بجا فرمایا۔" محفل کی ایک بزرگ ہستی کا چبھتا لہجہ گونجا۔
"مگر ان کونپلوں کی صحیح نشو و نما اور سرد و گرم موسموں سے ان کے بچاؤ کی زائد اور نازک ذمے داری کا بوجھ اٹھانے کے لئے کیا ہم تیار ہیں؟"


اور سب لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہ گئے۔

نوٹ:
مکرم نیاز کا یہ افسانہ ماہنامہ 'بیسویں صدی' کے شمارہ نومبر:1993 میں شائع ہو چکا ہے۔ ویب پورٹل "ادبی میراث" پر بھی یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
biswinsadi-nov1993

***
سید مکرم نیاز
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔
taemeer[@]gmail.com
syed mukarram niyaz
Syed Mukarram Niyaz
سید مکرم نیاز

Urdu short story 'Gulab Kaante aur Konpal'. By: Syed Mukarram Niyaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں