ایمان کی حقیقت اور مسئلہ تکفیر میں کون لوگ گمراہ ہیں اور ان کی گمراہی کیا ہے؟
جواب:
ایمان کی حقیقت اور لوگوں کو کافر قرار دینے کا مسئلہ ایسا ہے کہ اس میں بہت زیادہ بحث ومباحثہ ہورہا ہے بہت سے لوگ اس بحث میں مصروف ہیں اور بہت گہرائی تک جاتے ہیں ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ جن سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ یہ باتیں مسلمانوں میں مزید گمراہی اور باطل مذہب پیدا ہونے کا سبب بن رہی ہیں مسلمان ان باتوں اور بحث ومباحثے سے دو قسم کی گمراہی کا شکار ہورہے ہیں دو باطل مذہب پروان چڑھ رہے ہیں:
1-
اللہ کی طرف سے عذاب اور وعید کی جو آیات ہیں ان میں افراط و غلو کرنا یہ خوارج کا مذہب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان کی حقیقت بیان کرنے میں گمراہی کا شکار ہوئے کہ انہوں نے ایمان کو اس طرح کی ایک شئے واحد بنا دیا کہ اگر اس کا کچھ حصہ ختم ہو جائے تو سارا کا سارا ہی ختم ہوجاتا ہے لہٰذا اس عقیدے اور مذہب نے ایک گمراہی کو رواج دیا اور وہ ہے مرتکب کبیرہ کو کافر قرار دینا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امت میں اختلاف و افتراق پیدا ہوا مسلمان کی عزت اور اللہ کے دین کی حرمت کا پامال کیا جانے لگا۔
2-
اللہ نے جنت اور نعمتوں کا جو وعدہ کیا ہے اس میں تفریط اور کمی وعید کے دلائل کو یکسر نظر انداز کرنا جیسا کہ فرقہ مرجیہ نے کیا۔ وہ بھی ایمان کی حقیقت کے بارے میں گمراہی کا شکار ہوئے انہوں نے ایمان کو ایک ہی چیز قرار دیا جس میں برتری و کمتری کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کے ہاں سارے ایمان والے برابر ہیں اس لئے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ایمان صرف دل کی تصدیق کا نام ہے اس میں اعضاءِ بدل کے اعمال کا کوئی دخل نہیں ہے۔
اسی طرح انہوں نے کفر دلی تکذیب کو قرار دیا ہے جب کہ تکذیب کا کچھ حصہ دل میں آجائے تو مکمل تکذیب ہی شمار ہوگی۔ مرجیہ کے اس عقیدے سے یہ گمراہی پیدا ہوئی کہ کفر صرف اور صرف تکذیب و انکار کا نام ہے جسے "کفر الاستحلال "کہا جاتا ہے ان کے اس طرح کے عقائد سے جو نقصانات ہوئے کہ لوگ واجبات کی ادائیگی سے بے پرواہ ہوئے ، محرمات میں مبتلا ہو گئے۔ ہر فاسق و رہزن کو ہر قسم کی برائیوں اور گناہوں کی جسارت ہوئی اور ایسے ایسے اعمال قبیحہ میں مبتلا ہو گئے کہ جو دین سے خارج کرنے والے ہیں۔ جو اسلام کی حرمت کو پامال کرنے والے ہیں۔
اس نظریے اور عقیدے سے یہ بھی نقصان ہوتا ہے کہ کافروں کو بھی کافر نہیں کہہ سکیں گے اس لیے کہ وہ دلی طور پر تو رسول ﷺ کی نبوت کے اقراری تھے (جبکہ مرجیہ صرف دلی تکذیب کو ہی کفر کہتے ہیں) اور ظاہری طور پر نبیﷺ کا انکار کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ کا خطاب نبی ﷺ کو بایں الفاظ میں موجود ہے :
فانھم لا یکذ بونک ولکن الظالمین باٰیات اللہ یجحدون۔
(اے محمدﷺ )یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اللہ کی آیات کا انکار کررہے ہیں۔
(انعام :33)
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں فرمایا :
وجحدو بھا واستیقنھا انفسھم ظلما و علوًا۔
انہوں نے اس (شریعت )کا انکار کیا ظلم وتکبر کی بنا پر حالانکہ ان کے دلوں نے اس یقین کر لیا تھا
(النحل :14)
امام زہری رحمہ ﷲ اسی بنا پر فرماتے ہیں:
ما ابتدعت فی الاسلام بد عۃ ھی اضر علی اھلہ من ھذہ یعنی الارجاء۔ (رواہ ابن بطۃ فی الانابۃ)
"اسلام کیلئے ارجاء (عقیدہ مرجیہ )سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی اور بدعت نہیں ہے "۔
یہ دونوں باطل مذہب ہیں جنہوں نے اعتقاد میں گمراہی، بندوں میں ظلم پیدا کیا، اور آبادیوں کو ویران کر دیا فتنوں کو جنم دیا اسلامی کاز کو کمزور کیا اسلام کی حرمات و بدیہات کو پامال کیا اس طرح دیگر بہت سی خرابیاں ان دونوں مذہبوں کی وجہ سے وجود میں آئیں اور یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ انہیں سمجھا نہیں گیا یا دلائل سے غلط مطالب لیے گئے۔ علماء کے اقوال و آراء کو اہمیت نہیں دی گئی متشابہ اقوال کو اپنایا گیا۔
اس کے برعکس مسلمانوں کی متفقہ جماعت اہل سنت والجماعت (جماعت المسلمین) کو اللہ نے سیدھے راہ کی ہدایت دی اس جماعت نے خالص اسلام کو اپنی اصلی صورت اپنایا اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں کی۔
قول حق مذہب عدل اور عقیدہ اعتدال کو اپنایا، افراط و تفریط دونوں سے گریز کیا صرف اس قول و عمل و عقیدہ کو اختیار کیا جس پر قرآن وسنت کے دلائل موجود ہیں اور سلف صالحین صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین و تابعین رحمہم اللہ اجمعین اور ان کے صحیح جانشین آج تک جس راہ پر گامزن ہیں۔
علمائے اسلام نے کتب عقائد میں جس کو بیان کیا ہے، شریعت مطہرہ کی فقہ کی کتب میں 'حکم المرتد' کے تحت علماء نے لکھا ہے کہ ایمان زبان کے اقرار ،دل کے اعتقاد اور اعضاء کے عمل کا نام ہے اور یہ ایمان اطاعت سے بڑھتا ہے معصیت سے گھٹتا ہے مگر معصیت سے بالکلیہ ختم نہیں ہوتا۔
اس طرح ان علماء نے وعدہ اور وعید کے دلائل میں مطابقت پیدا کی ہے ہر آیت کو اس کے صحیح مقام پر رکھا ہے اس کا صحیح مقام واضح کیا ہے اس طرح ان کتب میں یہ بھی لکھا ہے کہ کفر اعتقاد ، قول و عمل ، شک ، ترک سے لازم آتا ہے۔ کفر صرف دلی تکذیب میں منحصر نہیں ہے جس طرح کہ مرجیہ کا عقیدہ ہے۔ اور نہ ہی ایمان کے کچھ حصہ کے زوال سے پورا ایمان زائل و ختم ہوتا ہے جیسا کہ خوارج کا عقیدہ ہے۔
The Reality of Imaan and the issues of Takfir.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں