لالہ لاجپت رائے (پیدائش: 1865ء لدھیانہ ، وفات: 1928ء لاہور) غیرمنقسم ہندوستان کے معروف و مقبول انقلابی رہنما اور تحریکِ آزادئ ہند کے مجاہد ہونے کے ساتھ ساتھ مورخ اور ادیب بھی تھے۔ ایک سرکاری اسکول کے اردو اور فارسی کے مدرس منشی رادھا کرشن اگروال کے وہ فرزند تھے۔ وہ سیاسی میدان میں بال گنگادھر تلک کے مرید تھے۔ 1907ء میں انہوں نے ایک بھرپور زرعی تحریک شروع کی تھی جس کے نتیجے میں انگریز حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا۔ انہیں پنجاب کیسری یا شیرِ پنجاب کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا تحریر کردہ ایک اہم مضمون پیش خدمت ہے۔غلامی کی علامتیں و نتائج مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ غلام کو اپنے آقا کی زبان بولنی پڑتی ہے ، یہاں تک کہ وہ آہستہ آہستہ اپنی زبان بھول جاتا ہے ، اور اس کی زبان وہی ہو جاتی ہے، جو اس کے آقا کی تھی۔
افریقہ کے حبشیوں کو یورپین اقوام نے غلام بنایا، وہ اپنی اپنی زبانیں بھول گئے اور جس قوم نے ان کو غلام بنایا ان کی زبان انہوں نے اختیار کرلی۔ ممالک متحدہ امریکہ میں جو حبشی غلام ہو کر گئے، انہوں نے انگریزی سیکھ لی اور اب انگریزی ان کی مادری زبان ہو گئی۔ اس وقت سارے ممالک متحدہ میں ایک بھی ایسا حبشی نہ ملے گا جو اپنی اصلی مادری زبان جانتا ہو۔ اسی طرح جو حبشی جنوبی یا وسط امریکہ یا میکسیکو میں غلام ہو کر گئے ، انہوں نے ہسپانیہ یا پرتگال کی زبان سیکھ لی۔ یوروپ میں جو حبشی جس جس ملک میں غلام ہو کر گئے انہوں نے وہان کی زبان سیکھ لی۔
غلامی کے علاوہ جو لوگ ایک ملک و قوم کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں جاتے ہیں اور وہاں کی مستقل رہائش اختیار کر کے اپنے آپ کو ایک نئی قومیت کا رکن بناتے ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ اپنی زبان بھول جاتے ہیں اور ان کے بچے اپنے نئے ملک کی زبان سیکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ اسی طرح امریکہ میں جو قومیں آباد ہوئیں ان میں سے اکثر نے دوسری یا تیسری نسل میں اپنی زبان بالکل بھلا دی۔ لیکن آزاد انسانوں کی حالت میں کچھ عرصہ تک اپنی پرانی زبان کے ساتھ انس و محبت بھی رہتی ہے ، چنانچہ امریکہ میں لاکھوں بلکہ کروڑوں آدمی ایسے ملیں گے جنہوں نے امریکہ کی مستقل رہائش اختیار کرنے اور انگریزی زبان سیکھ لینے کے باوجود بھی اپنی مادری زبان کو نہیں بھلایا۔ امریکہ میں قریباً دنیا کی تمام زبانیں بولی جاتی ہیں اور دنیا کی تمام لٹریری زبانوں میں اخبار و کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ یہ بقایا ہے اس محبت و انس کا جو آزاد انسانوں کو اپنی مادری زبان سے رہتا ہے۔
دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیٹکل انقلابات و پولیٹکل غلامی سے بھی زبانوں میں تبدیلیاں و انقلابات ہوتے رہتے ہیں، مثلاً عرب حملہ آور جہاں گئے وہاں انہوں نے عربی زبان کو پھیلایا۔ اس وقت مصر ، شمالی افریقہ کے تمام باشندوں کی خواہ وہ عرب نسل سے ہوں یا حبشی نزاد یا کسی اور نسل کے، زبان عربی ہے۔ برخلاف اس کے ایران و افغانستان کے باشندوں کی زبان فارسی ہے ، ترکستان کی ترکی۔ اسی طرح ہندوستان نے بھی ایک ہزار برس تک مسلمانوں کی پولیٹکل ماتحتی کے باوجود اپنی زبان کو نہیں چھوڑا، ہندوستانی زبان میں عربی و فارسی کے بہت سے لفظ شامل ہو گئے مگر ہندوستانی کی بنیاد اور ہندوستانی زبان کا ذخیرہ ہندوستان کی قدیم زبان ہی ہے۔ ہندوؤں نے ایک ہزار برس کی پولیٹکل ماتحتی کے باوجود اپنی زبان کو کسی بڑی حد تک تبدیل نہیں کیا، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوؤں نے بھی ایک منٹ کے لئے بھی مسلمانی تہذیب کو اپنے سے برتر اور بہتر نہیں مانا۔
مسلمانی تہذیب کا ہندو مذہب و ہندو کلچر پر اچھا خاصا اثر پڑا اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا ، اور اسی طرح مسلمانی تہذیب و کلچر، مسلمانی مذہب و مسلمانی معاشرت پر ہندو تہذیب اور ہندو مذہب کا بھی نمایاں اثر پڑا۔ لیکن تاہم ہندوؤں نے کبھی مسلمانوں کی برتری کو تسلیم نہیں کیا ، پولیٹکل طور پر ان کے سامنے سر تسلیم خم کیا، مگر مذہبی طور پر، کلچرل طور پر یا اخلاقی طور پر اپنی ہار تسلیم نہیں کی۔ مسلمانوں کے عہد میں لاکھوں ہندوؤں نے فارسی اور عربی پڑھی ، کروڑوں مسلمان ہو گئے مگر ہندوؤں کی عام جماعت نے نہ اپنا مذہب تبدیل کیا اور نہ اپنی زبان تبدیل کی اور نہ اپنے طریق رہائش و معاشرت میں ایسی تبدیلیاں آنے دیں جس سے کوئی یہ کہہ سکے کہ وہ ہندو نہیں رہے۔ اصل میں اگر غور سے دیکھا جائے تو ہندوؤں نے پولیٹکل طور پر بھی کبھی اپنی شکست کو آخری قاطع تسلیم نہیں کیا، وہ ہمیشہ اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔
مسلمان بادشاہوں نے ہندوستان کو اپنا گھر و اپنا وطن بنا لیا اور گو انہوں نے ہندوؤں پر حکومت کی مگر ہندوؤں سے وصول شدہ ٹیکس کو کسی غیر ملک میں خرچ نہیں کیا، انہوں نے بہت حد تک اپنی رعایا کی زبان اور ان کے کلچر کو اختیا ر کر لیا۔ مگر انگریزی راج میں ٹھیک اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ لاکھوں ہندو گھرانے اس وقت اس ملک میں ایسے ہیں، جن کے ارکان انگریزی تہذیب کو اپنی تہذیب سے برتر مانتے ہیں۔ اور جن کی کوشش یہ ہے کہ قریباً ہر بات میں انگریزوں کی نقل کریں ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندو مسلمان دونوں اپنی قومیت کو گرا رہے ہیں اور اپنے مستقبل کے راستہ میں کانٹے بو رہے ہیں۔
میں انگریزی زبان کے مطالعہ کے خلاف نہیں، نہ میں مغربی تہذیب کے برخلاف ہوں۔ میری رائے میں غیر زبانوں کی واقفیت اور غیر زبانوں میں سے انگریزی کی واقفیت ہماری تعلیم کا ایک ضروری جزو ہونی چاہئے۔ لیکن مجھے اس امر کا رنج ہے کہ ہم اپنی زبان کی طرف سے غافل ہو کر ایک غیر زبان کو اپنے دل و دماغ پر اس قدر حکومت دے رہے ہیں جو ہم کو قومیت کے ایک ضروری معیار سے نیچے گرا رہا ہے۔ ہندوستان کے بعض صوبہ جات میں تعلیم یافتہ جماعت نے اپنی اس کمزوری کو اچھی طرح پہچان کر اس کو دور کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور اس کوشش میں ان کو پوری کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ مثلاً ہمارے بنگالی اہل وطن نے اس بارے میں بہت کچھ کیا ہے۔ بنگالی تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ سب ہی عموماً اپنی زبان کا استعمال نہایت شوق سے کرتے ہیں۔ اسی طرح ہماری مہاراشٹری و گجراتی بھائی بھی اپنی زبانوں کو بہت تقویت دے رہے ہیں، مگر اہل پنجاب اور یو۔پی والے اس بارے میں سب سے بڑے مجرم ہیں۔ اکثر تعلیم یافتہ پنجابی انگریزی میں گفتگو کرنا، انگریزی میں خط و کتابت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ سڑکوں پر چلتے پھرتے ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً نوجوان انگریزی میں باتیں کرتے ہیں ، ریل میں بیٹھے ہوئے بھی انگریزی میں گفتگو سنائی دیتی ہے ، خط و کتابت بھی بغیر ضرورت کے انگریزی میں ہوتی ہے اور سب سے ناقص یہ امر ہے کہ بہت سے پنجابی گھرانوں میں "ٹیبل ٹاک" بھی انگریزی میں ہوتا ہے۔ اس قدر انگریزی جاننا کہ جس سے میز پر کھانا کھاتے ہوئے انگریزی میں گفتگو کر سکیں، ہماری نئی مستورات کی تعلیم کا ضروری جزو سمجھا جاتا ہے۔
یہ ہماری غلامی کی قیمت اور اس کی زبردست شہادت ہے۔ دنیا کے پردے پر ہم نے کہیں نہیں دیکھا کہ خاوند بیوی کو اور بیوی خاوند کو ایک غیر زبان میں خط لکھے یا بیٹا باپ کو اور باپ بیٹے کو غیر زبان میں خط لکھے ،لیکن اس ملک میں لاکھوں تعلیم یافتہ ہر روز یہ کرتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ ہندوستانی کلب گھروں میں عموماً گفتگو انگریزی زبان میں ہوتی ہے ، یہاں تک کہ تعلیم یافتہ ہندوستانی جب سوشل موقعوں پر بھی اکٹھے ہوتے ہیں تو انگریزی میں گفتگو کرنے لگ جاتے ہیں، وہ لوگ دیدہ و دانستہ ایسا نہیں کرتے، بلکہ اب تو ان کی عادت ہی ایسی ہو گئی ہے۔
جب میں طالب علم تھا تو اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے یہ قاعدہ جاری کیا تھا کہ کوئی لڑکا اسکول کے احاطے میں سوائے انگریزی کے اور کوئی زبان نہ بولے ، اب بھی شاید بہت سے اسکولوں اور کالجوں میں یہ قاعدہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ ہماری تعلیم کا بڑا بھاری حصہ انگریزی زبان میں ہوتا ہے ، ہم انگریزی کتابیں پڑھتے ہیں، انگریزی اخبار پڑھتے ہیں اور انگریزی میں ہی سوچتے ہیں۔ اس لئے انگریزی ہم کو زیادہ آسان پڑتی ہے، اور چونکہ اس میں سہولت ہے ، اس لئے اس سہولت کے شکار ہو کر ہم اس کے برخلاف کوئی جدوجہد نہیں کرتے۔ یہ ہماری قومی گراوٹ کی سب سے زبردست علامت ہے۔ ہماری کامیابی کا نشان انگریزی زبان کی واقفیت ہے ، ہماری سوسائٹی میں سب سے لائق وہ شخص ہے جو انگریزی اچھی لکھتا اور انگریزی اچھی بولتا ہے۔ ہمارے پروفیسروں اور استادوں میں سب سے زیادہ تنخواہ اس کو ملتی ہے جو انگریزی زبان میں زیادہ لیاقت رکھتا ہو۔
آخر اس کا انجام کیا ہوگا ، یہ تو ممکن نظر نہیں آتا کہ انگریزی ہندوستان کی قومی زبان بن جائے۔ بنگالی، مرہٹے، گجراتی، مدراسی سب اپنی اپنی زبانوں کو ترقی دینے میں مصروف ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ انگریزی نے جو رسوخ ان کے دل و دماغ پر حاصل کیا ہے اس کو کم کیا جائے۔ مگر پنجابی اس بارے میں بالکل کوئی کوشش نہیں کر رہے ، اس لئے ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبہ کی کانگریس کمیٹی نے اپنی سیکریٹریوں کو حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ جملہ خط و کتابت ہندوستانی میں کریں، اپنی کارروائی ہندوستانی میں لکھی اور بہت جلد اپنا حساب کتاب بھی ہندوستانی میں کر لیں۔ لاہور کے قومی کالج میں بھی تعلیم ہندوستانی میں دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ، چونکہ انگریزی ہمارے دل پر قابو پا چکی ہے اس لئے اس کو اپنے سنگھاسن پر سے اتارنے میں وقت لگے گا۔
میری رائے میں ہر ایک تعلیم یافتہ ہندوستانی کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ انگریزی زبان کے استعمال کو حتی الواسع کم کرتا جائے۔ ہر ایک شخص کو چاہئے کہ ہندوستانی زبان میں مطبوعہ اخبارات خریدے اور پڑھے۔ اردو ہندی کے رسالہ جات منگوایا کرے اور تھوڑا بہت وقت اردو ہندی کے لٹریچر کے پڑھنے میں صرف کرے۔ لڑکوں کی ابتدائی تعلیم میں انگریزی پانچ (5) سال سے پہلے شروع نہیں ہونی چاہئے اور لڑکیوں کی تعلیم میں آٹھ (8) سال قبل انگریزی نہیں پڑھانی چاہئے۔ صرف ان لڑکوں و لڑکیوں کو انگریزی پڑھانی چاہئے جو پہلے اپنی زبان میں اچھی مہارت و لیاقت پیدا کر لیں۔ صرف ایسی لڑکیوں کو انگریزی پڑھانی چاہئے جن کے لئے انگریزی زبان میں کم از کم اس قدر لیاقت پیدا کرنا ممکن ہو کہ وہ انگریزی کے لٹریچر کو پڑھ سکیں۔ ہر ایک ہندوستانی قوم پرست کے دل میں اپنی قومی زبان کے واسطے پیار و محبت ہونی چاہئے۔ ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ قومی زبان کو ترقی دے، اور غلامی کی اس علامت کو کم از کم اس قدر کم کر دے، جتنی کہ حالات اس کو کم کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
***
ماخوذ از کتابچہ: غلامی کی علامتیں اور غلامی کے نتائج (تصنیف: لالہ لاجپت رائے)
ماخوذ از کتابچہ: غلامی کی علامتیں اور غلامی کے نتائج (تصنیف: لالہ لاجپت رائے)
Language Slavery - Symptoms and Consequences. Article by: Lala Lajpat rai
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں