ایک پیالی چائے - افسانہ از عاتق شاہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-20

ایک پیالی چائے - افسانہ از عاتق شاہ

aik-pyali-chai-story-aatiq-shah
عاتق شاہ (پ: 7/نومبر 1933 - م: 20/مئی 1999)، حیدرآباد (دکن) کے ممتاز طنز و مزاح نگار رہے ہیں۔ وہ اردو کے ان معدودے چند ادیبوں میں سے ہیں جن کی تحریریں ان کی اپنی زندگی کا عکس ہیں۔ اپنے افسانوں کا وہ خود کردار ہیں۔ عاتق شاہ نے اپنی زندگی میں جن اقدار کو اپنایا اسے نہ صرف صفحۂ قرطاس پر بکھیرا بلکہ اس پر خلوص دل سے عمل کیا۔ وہ خود کہتے ہیں کہ: "ادب کی دنیا میں کوئی ایسا انجکشن ایجاد نہیں ہوا جو لکھنے والے کو تخلیقی کرب کی بھٹی میں جھونک دے۔ یہ آگ تو زندگی کی اور حالات کی دین ہوتی ہے جو فنکار کے دل میں روشن رہتی ہے۔ یہ آگ بڑی مقدس ہے جو فنکار کو کبھی چین سے سونے نہیں دیتی اور ہمیشہ بیدار رکھتی ہے۔"
جہیز کی لعنت کے موضوع پر ان کا ایک یادگار افسانہ پیش ہے۔ یہ افسانہ ہرچند کہ تین دہائی پرانا ہے، مگر افسانے میں بیان کردہ حالات، بدقسمتی سے آج بھی تقریباً اسی طرح قائم ہیں۔
بڑی دیر سے وہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔
اور اسے پتہ نہ چل سکا کہ اس کی اچھی سہیلی نجمہ کب سے پلنگ پر بیٹھی ہوئی اسے بغور دیکھ رہی ہے۔

وہ سوچ رہی تھی کہ آخر اس میں کیا کمی ہے؟ کنگھی کرتی ہوئی اس نے ناک کی سیدھ میں مانگ نکالی ، خود کو ایسے ہی دیکھا جیسے وہ، وہ نہیں کوئی اور ہے۔ اس نے دیکھا اس کے سامنے ایک شہزادی کھڑی ہے۔ اس شہزادی کو ایک بار دیکھنے کے بعد جی چاہتا تھا کہ دیکھتے ہی رہیں۔ چاندنی میں دھلا ہوا جسم، اونچا قد، کتابی چہرہ اور روشن آنکھیں، مسکراتی ہوئیں اور بولتی ہوئیں آنکھیں۔ لیکن نہ جانے ان آنکھوں کو کیا ہو گیا تھا۔ یہ آنکھیں کچھ دنوں سے کچھ سوچتی ہوئیں اور کچھ پوچھتی ہوئیں معلوم ہوتی تھیں۔ آخر کیا کمی ہے مجھ میں؟

تم میں کچھ کمی نہیں ہے۔ تم ہزاروں اور لاکھوں میں ایک ہو۔ تم جس گھر میں جاؤگی وہ اس دنیا کا خوش قسمت شخص ہوگا، تم صرف نام کی نہیں بلکہ سچ مچ کی شہزادی ہو، جیسے کوئی اس کے اندر بیٹھا کہہ رہا تھا۔
اس نے خود کو نیچے سے اوپر اور پھر اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر اس نے سوچا کہ وہ ایک ایسی بدنصیب شہزادی ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے اب تک کوئی شہزادہ نہیں آیا!

نہیں یہ غلط بات ہے ، جیسے کسی نے تردید کی۔ البتہ کسی نے مجھے پسند نہیں کیا۔ نہیں یہ بھی تم جھوٹ کہتی ہو۔ سامنے آئینے میں نظر آنے والی شہزادی نے اسے جواب دیا۔
تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک گھر میں بیٹھ ہوئی ہوں اور اب تک کسی شہزادے نے میرے ہاتھ کو تھاما ہی نہیں؟!

"صرف اس لئے کہ تیرے ابو کے پاس دینے کو ریفریجریٹر ، کولر، صوفہ سیٹ ، ٹیلی ویژن، ٹیک کا فرنیچر، گودریج کی الماریاں اور اسکوٹر نہیں۔ اور ہر ایک جو گھر پر دستک دیتا ہے یہی پوچھتا ہے"۔ کسی نے اندر سے کہا۔
وہ سوچتی ہی چلی گئی۔ اور اسے نانی اماں اور دادی اماں کی سنائی ہوئی وہ کہانیاں یاد آ گئیں، جب شہزادے اپنی شہزادیوں کی خاطر تخت و تاج کو چھوڑ کر جنگل جنگل، ملک ملک اور گاؤں گاؤں گھومتے پھرتے تھے۔ جانے وہ کیسے شہزادے تھے، اس نے سوچا۔

یہ تیرھواں لڑکا تھاجو اس کے گھر پر آرہا تھا، اس کا مطلب ہے ابو کے لئے زائد خرچ۔ آخر بابا کب تک ان آنے والوں کے لئے ریفریشمنٹ کا انتظام کرتے رہیں گے؟ اور کب تک وہ ان کے سامنے جھکی جھکائی سمٹی سمٹائی بیٹھی رہے گی؟ کاش وہ پیدا ہی نہ ہوتی۔ اور اپنے بابا کے لئے پریشانیوں کا باعث نہ بنتی۔ کیا اس بار بھی ایسا ہوگا جیسے اس سے پہلے ہوا تھا، ایک ان جانا خوف اس کے دل اور اس کی روح کو متھ رہا تھا ، اس خوف سے وہ کانپ کانپ گئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھیں بھر آئیں۔

نجمہ جو دور بیٹھ کر یہ تماشا دیکھ رہی تھی، تیزی کے ساتھ اٹھ کر اس کے قریب آئی، اور اسے گلے لگاتے ہوئے بولی:
"پگلی! یہ کیا۔ یقین کر یہ لڑکا جو آ رہا ہے بہت اچھا ہے ، نمازی، پرہیزگار اور اس کے گھر والے بھی۔ وہ ایک پیسہ نہیں چاہتے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ اسلامی نظریات کے عین مطابق نکاح ہو۔ اور وہ بھی مسجد میں، صرف ایک پیالی چائے پر۔ اور اس سے زیادہ کچھ نہیں، چل ہنس دے ، مسکرا دے۔

نجمہ نے شہزادی کے پیٹ کو کچھ اس طرح گدگدایا کہ وہ روتی ہوئی ہنس دی اور ہنستے ہنستے رو دی۔ لیکن اندر ہی اندر شہزادی کا دل کہہ رہا تھا کہ شاید، اس بار کچھ بات بن جائے۔ ایک ان جانی خوشی اور خوف کے زیر اثر اس نے اپنی سہیلی نجمہ سے پوچھا ہی نہیں کہ وہ کب آئی اور کتنی دیر سے کمرے میں بیٹھی ہوئی، اس کے پاگل پن کو دیکھ رہی ہے؟

پھر مردانے سے آوازیں آنے لگیں، دلہا والے آ گئے، آ گئے۔
آئینہ کے سامنے سے وہ فوراً ہٹ گئی جیسے وہ کوئی گناہ کر رہی تھی، اپنے پلنگ پر جا کر وہ خاموش بیٹھ گئی۔ پتہ نہیں کب بلاوا آئے اور کب اسے جھکی جھکی، سمٹ سمٹائی کسی کے ساتھ دالان تک جانا پڑے ، اب وہ خود اپنے دل کی دھڑکن سن رہی تھی ، دھڑ۔۔۔ دھڑ۔۔۔۔ دھڑ!!

پھر اسے بلاوا آیا، اس کی اچھی سہیلی نجمہ اس کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ اسے لے گئی جیسے اس کے پاؤں کو مہندی لگی ہے اور کہیں وہ گر نہ جائے۔
نجمہ کے کہنے پر وہ آنکھیں بند کئے ایک مقام پر بیٹھ گئی۔ سبھوں نے اسے دیکھا، بچوں نے دیکھا، بڑوں نے دیکھا، اور پھر اس کی ہونے والی ساس نے اسے اٹھا بٹھا کر اور چلا کر دیکھا، اور چٹ چٹ بلائیں لیں، اور پھر اعلان ہوا کہ وہ پسند کر لی گئی!

مردانے میں دونوں سمدھیوں نے ایک دوسرے کا منہ میٹھا کیا۔ اور پھر گلے ملنے لگے۔ اب صرف نکاح کی تاریخ طے ہونی تھی اور نکاح بھی مسجد میں ہوگا۔ صرف ایک پیالی چائے پر۔ کون کہتا ہے کہ اس دنیا میں اچھے لوگ نہیں ہیں۔ وہ یہاں آئیں اور آکر دیکھ لیں ، کہ اب بھی انسانیت باقی ہے۔ اور انسان زندہ ہے۔ نجمہ سچ کہتی تھی کہ لڑکا بے حد شریف ہے ۔ اور اس کے گھر والے بھی۔ اس نے سوچا، اللہ وہ بھی کتنے اچھے ہوں گے!
وہ سوچتی ہی چلی گئی ، اب میرے ابو، اچھے ابو کی پریشانیاں دور ہو جائیں گی، ورنہ ہزاروں روپے وہ کہاں سے لاتے۔ دفتر کا ایک کلرک کیا اور اس کی تنخواہ کیا؟ اے اللہ تو میرے ابو کی مدد اسی طرح فرما، اور دوسری بہنوں کے رشتے کے وقت ایسے ہی فرشتوں کو بھیج دے۔
اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر
بے شک اللہ ہر شئے پر قادر ہے! اس نے دل یہ دل میں کہا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

مولوی نصیر کسی دفتر میں اکونٹنٹ تھے۔ پیٹ میں ڈھیر سے پانچ لڑکیاں تھیں اور ان میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت۔ اور وہ ان میں سب سے بڑی تھی۔ ہر لڑکی کی پیدائش پر عزیز و اقارب کہتے: "داماد مبارک ہو"، جس کا مطلب ہوتا ابھی سے جہیز جمع کرو۔
لیکن نصیر الدین، بات کو سمجھ کر دل ہی دل میں کہتے، لڑکیوں کا اصلی جہیز تو ان کی تعلیم ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنی تمام بچیوں کو پڑھایا اور پڑھا رہے تھے۔ شہزادی نے حال حال میں بی ، اے درجہ اول میں پاس کیا تھا۔ اپنے کالج کی وہ ذہین ترین طالبہ سمجھی جاتی تھی۔ لیکن کیا مجال جو اس کی طرف کوئی نظر اٹھا کر دیکھ لے۔

مولوی نصیر الدین کو جب بھی ان کی بیگم، لڑکیوں کی شادی بیاہ کی طرف توجہ دلاتیں تو وہ قہقہہ لگاکر کہتے: بیگم، ! تم خواہ مخواہ پریشان ہو جاتی ہو۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ وہ کسی نہ کسی شریف لڑکے کو ہمارے گھر ضرور بھیج دے گا۔
اور وہ شریف لڑکا اور اس کے بزرگ بغل والے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مبارک باد کی آوازیں آ رہی تھیں، بغیر لین دین کے ہر چیز طے ہو گئی تھی۔ سبحان اللہ۔۔۔ ماشاء اللہ!
کتنی مثالی اور آئیڈیل شادی ہوگی۔ سیدھی سادھی بغیر جہیز اور باجے گاجے کے، اور ہاں بغیر سہرے کے، سو فیصد اسلامی اور شرعی شادی سبحان اللہ۔۔ ماشاء اللہ!
"لیکن ۔۔۔"

"لیکن کیا؟" نصیرالدین نے پوچھا۔

"بھئی کچھ نہیں"۔ لڑکے کے والد نے اپنے منہ میں پان رکھ کر اپنی نورانی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: "آپ سے ایک استدعا ہے"۔
"نہیں۔۔۔ نہیں آپ کیا فرما رہے ہیں" نصیر الدین موم کی طرح پگھل کر بولے:
"آپ حکم دیجئے۔۔۔ تعمیل ہوگی"۔
"حکم نہیں، آپ کی خدمت میں ایک درخواست ہے۔ استدعا ہے ، اور وہ یہ کہ ہمارا بچہ باہر جانا چاہتا ہے ، آپ اس کے ویزا اور ٹکٹ کا انتظام فرما دیں"۔
"کیا؟" نصیر الدین نے حیرانی سے پوچھا۔
"صرف ویزا اور ٹکٹ کا انتظام۔ پاسپورٹ تیار ہے"۔

نصیر الدین کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اور وہ بجائے کانوں کے منہ سے سننے لگے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ انہیں کیا جواب دیا جائے؟
لڑکے کے باپ کی گونجیلی آواز سارے میں گونج رہی تھی ، وہ کہہ رہے تھے:
"بھائی صاحب ! آپ تو جانتے ہیں کہ میں شرع کا شادی کا قائل ہوں، مجھے ایک ماسہ سونا نہیں چاہئے۔ لیکن میرے یہ سب کچھ کہنے سے کیا ہوتا ہے، دنیا کا کوئی باپ اپنی بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت نہیں کرتا۔ آپ اپنی نور نظر اور لخت جگر کو کچھ نہ کچھ دیں گے ہی۔۔۔ لیکن اس تعلق سے میری گزارش ہے کہ آپ کا جو بھی بجٹ ہے اسے یوں ہی ضائع مت کیجئے۔ خواہ وہ بجٹ پچاس ہزار کا ہو یا پچہتر ہزار کا۔ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ پلنگ، الماری، ڈریسنگ ٹیبل، ریفریریجٹر، کولر، ٹیلی ویژن اور ڈنر ٹیبل۔۔ میری درخواست ہے کہ ان اشیا پر فضول روپیہ خرچ کرنے کی بجائے نقد رقم عنایت فرما دیں۔ یہ رقم آپ ہی کی نور نظر اور داماد کے کام آئے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۔۔۔"

آوازیں آ رہی تھیں اور اب تک وہ جھکی جھکائی بیٹھی ہوئی سب سن رہی تھی۔۔ پسینہ میں شرابور۔ اس کے خیالات کے سارے سلسلے ٹوٹ چکے تھے۔ اس کے اطراف آوازیں ہی آوازیں آ رہی تھیں۔
اسلام۔۔۔ خدا۔۔ نکاح۔۔۔ شرعی شادی۔۔ ویزا۔۔۔۔ ٹکٹ۔۔۔ پچاس ہزار۔۔۔۔ پچھتر ہزار۔۔ لڑکا بے حد شریف ہے، پانچ وقت کا نمازی۔۔
نجمہ نے سچ کہا تھا کہ نکاح مسجد میں ہوگا۔ صرف ایک پیالی چائے پر۔۔۔!

اکیلے میں شہزادی نے نجمہ کے گلے لگ کر سسکیاں لیتے ہوئے کہا:
"نجّو! کچھ ایسی دعا کر کہ اللہ مجھے موت دے دے!"

ماخوذ از کتاب:
دو منٹ کی خاموشی (افسانوی مجموعہ)
مصنف : عاتق شاہ
ناشر: شگوفہ پبلی کیشنز، حیدرآباد۔ (سن اشاعت: دسمبر 1986)

Aik pyali chai. Short Story: Aatiq Shah

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں