حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (1238-1325ء) - ایک عظیم صوفی مرشد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-19

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (1238-1325ء) - ایک عظیم صوفی مرشد

hazrat-khwaja-nizamuddin-aulia-sufi-saint
صوفیائے متقدمین کے مناصب و مناقب کے بیان میں ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کے اطوار حیات اور ان کے نظریات کی موجودہ دور کے احوال و اطوار کے ساتھ موافقت و مطابقت ثابت کریں۔ کیونکہ وہ باتیں جو آج کے تمدنی ماحول میں موافق نہ پائی جائیں، وہ پھر محض داستان متصور ہوں گی اور موجودہ دور کی فکری و عملی زندگی میں ان کی کوئی اہمیت ہی ہوگی نہ کوئی قابل قدر حیثیت۔

ایک اور نقطۂ نظر سے بھی یہ انداز تحقیق و بیان ضروری ہے کیونکہ اس دور کے منکرینِ تصوفِ اولیاء، متقدمین کی طرز زندگی اور ان کے نظریات کو اپنے نام نہاد فہم سے دور پاتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ باتیں یا تو ایسے لوگوں سے متعلق ہیں جو اپنی دینی روایات سے بعید خیالات و عقائد رکھتے تھے یا جو محض خرق عادت اعمال و مشاغل سے لوگوں کو اپنے ساتھ لگائے رہتے تھے۔ ان کے خیال میں دینی ، ثقافتی یا سماجی لحاظ سے ان کا عمل عقلِ سلیم کے خلاف تھا بلکہ اسلام کے ہی متوازی ایک نیا دین تھا۔

اندریں بارہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی اور ان کے نظریات ہمارے سامنے ایک ایسی مثال پیش کرتے ہیں جس کے پیش نظر منکرین تصوف کے سارے اعتراضات باطل ٹھہرتے ہیں۔ حضرت خواجہؒ کی زندگی آج بھی ہمارے لئے ایک عظیم درویش مرشد کی زندگی کے نمونہ کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کی زندگی کے مطالعہ کے لئے ہمارے پاس ایسی مستند دستاویزات موجود ہیں جو کسی دوسرے ولی کے بارے میں کم ہی ملیں گی۔ ان کے عقیدت مند، ان کی مجلسوں کے حالات و ملفوظات قلمبند کرتے رہے اور خود حضرت خواجہ نظام الدین ؒ نے ان کی تصدیق فرمائی جیسے فوائد الفواد از خواجہ میر حسن سنجریؒ۔

اب میں حضرت خواجہ نظام الدین و الحقؒ کی زندگی اور ان کے افکار و آثار پر نظر ڈالنے سے پہلے صوفیاء کے ایک اسلوب شرح و بیان کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

اگرچہ تصوف و فقر کی تاریخ میں صوفیاء نے اپنی تعلیمات میں فکری عنصر کو کبھی یکسر خارج نہیں کیا اور روحانی معاملات و واردات کو بھی دانشوارانہ انداز میں پیش کرتے رہے مگر عام طور پر تذکیر کے لئے ہمارے صوفیاء نے تذکرہ نگاری یا مجلسوں میں تذکیر کے دوران میں ایسے کوائف کو مجرد منطقی یا استدلالی انداز میں بیان نہیں فرمایا بلکہ جب بھی کاملین کا تذکرہ ہوا تو خود ان کی صفات کاملہ کے حوالے سے ان کا ذکر کیا۔ حضرت سلطان باہورحمۃ اللہ علیہ جب بھی فقیر کامل کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے محاسن کو بیان کر کے اس کی پوری شخصیت کو سامنے لے آتے ہیں۔ یہ دیکھ دکھلا کر جاننے یا جتلانے کی بات ہے جیسے حضرت مولانا رومیؒ نے فرمایا:
اگر شرح خواہی ببیں شمسِ تبریز
چوں او را بہ بینی تو او را بدانی
(اگر تم شمس تبریزی کے حال و مقام کی شرح و تفصیل چاہتے ہو تو پھر اس سے جاکر ملو اور دیکھو، تب تم اس کے بارے میں جان پاؤ گے)

قونیہ میں مولانا رومی میوزیم کی ایک دیوار پر خوش خط کتبہ آویزاں ہے جس پہ لکھا ہے:
شفاء العلیل لقاء الجلیل
یعنی کسی جلیل القدرروحانی ہستی کی ملاقات سے ذہنی و جسمانی طور پر بیمار کو شفا ملتی ہے۔ یہ بھی وہی محبت و ملاقات میں دیکھنے سننے اور اس طور سے جاننے کی بات ہے۔

یوں دیکھا جائے تو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کی زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ ان کے بارے میں تذکرے ان کی پوری شخصیت کو پوری طرح ہمارے سامنے جلوہ گر کر دیتے ہیں۔ ان کی مجلسوں کی پوری تصویریں دلوں میں ذہن نشین ہوتی ہیں تو ہماری دنیا بدل جاتی ہے۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ بدایوں میں پیدا ہوئے۔(636ھ مطابق 1238ء) اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ وہاں انہوں نے بہت سے جلیل القدر اساتذہ و علماء و صوفیاء کی زیارت کی۔ پچیس سال کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ دہلی تشریف لائے۔ یہاں پھر آپ وقت کے بلند پایہ صوفیاء و علماء سے ملے۔ ابتداء سے تکمیل تعلیم تک حالات و واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے دور کے جید عالم کی حیثیت سے کوئی بھی حکومتی عہدہ حاصل کر سکتے تھے مگر آپ نے عزیمت کی راہ اختیار کی یعنی رشد و ہدایت کے لئے اپنے تئیں وقف کرنے کا ارادہ کر لیا۔

اس کے لئے روحانی تربیت کی ضرورت تھی پھر اس خاطر کسی مرشد کی صحبت اور نگرانی میں رہنا واحد اصول تھا۔ چنانچہ آپ اجودھن میں حضرت شیخ الاسلام شیخ فرید الدین و الحقؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو گویا آپ کا انتظار ہی کر رہے تھے، فرماتے ہیں:
پہلا کلام جو میں نے شیخ فریدؒ کی زبان سے سنا، یہ شعر تھا:
اے آتشِ فراقت دلہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ

دنیا داری کی طرف تو پہلے ہی آپ کامیلان نہیں تھا مگر یہاں ایک ایسے مرشد کو دیکھا: "جن کا مقصد ترک کلی تھا اور جو دونوں عالموں میں سے کسی پر نظر نہیں ڈالتے تھے۔"
آپ دو تین بار ہی اجودھن گئے اور حضرت شیخ فرید الدینؒ کے ہاں ٹھہرے مگر یہی ملاقاتیں کافی قرار پائیں اور شیخ فریدؒ نے آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا۔
شیخ فرید الدینؒ کے یہاں جو تجربات و مشاہدات ہوئے، آپ اکثر مجلسوں میں بیان فرمایا کرتے تھے، مثلاً ایک ایسا موقعہ بھی آپ کو ملا جب آپ شیخ فرید کے حجرے کے دروازے پر بیٹھے تھے کہ آپ نے شیخ کو وجد کے عالم میں یہ بیت پڑھتے سنا:
خواہم کہ ہمیشہ در ہوائے تو زیم
خاکے شوم بزیر پائے تو زیم
مقصودِ من بندہ زکونین توئی
از بہرِ تو بمیرم و برائے تو زیم

آپ اندر چلے گئے ، آپ نے دیکھا کہ شیخ وجد کی حالت میں ہیں، دونوں ہاتھ پیٹھ پیچھے کئے ہوئے قبلہ رخ کھڑے ہیں، کبھی آگے جاتے ہیں پھر پیچھے آتے ہیں، یہ بیت پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔
مقصودِ من بندہ زکونین توئی
از بہرِ تو بمیرم و برائے تو زیم

فرماتے ہیں: "شیخ فریدؒ نے مجھے دیکھ کر کہا، اچھے وقت پر آئے ہو، کیا چاہتے ہو؟ مانگو۔ میں نے عرض کیا کہ میں استقامت چاہتا ہوں۔ شیخ فریدؒ نے فرمایا، اچھا ، میں نے دی۔ اسی وقت اس کا اثر میں نے اپنے میں پایا۔"

پھر جب آپ مسند ارشاد پر بیٹھے تو صرف رشد و ہدایت سے کام رکھا اور وقت کے کسی سلطان یا حکمران سے سروکار نہیں رکھا۔ کسی کی طرف سے نہ کوئی جاگیر قبول کی اور نہ باغ اور نہ ہی زرعی زمین۔ ایک ملک نے انتقالِ ملکیت کی دستاویز پیش کی تو قبول نہ کی اور فرمایا:
"کہاں میں اور کہاں باغ۔ زمین اور زراعت ! اگر میں یہ زمین دستاویز قبول کر لوں تو لوگ کہیں گے کہ شیخ باغ جا رہا ہے۔ شیخ زراعت اور زمین کا تماشا دیکھنے جا رہا ہے۔ میری زندگی کے کام کو ان چیزوں سے کیا تعلق؟"

آپ دہلی کے باہر غیاث پور (موجودہ بستی نظام الدینؒ) میں آ کر خانقاہ میں بیٹھ رہے اور درباروں اور سلطانین کی جنگوں اور ان کے باہمی معاملات سے کوئی سروکار نہیں رکھا۔
آپ نے اپنے منصب ارشاد کا مقصد صرف ایک جانا، خدمت خلق۔ فرماتے ہیں: "مجھے ایک خواب میں ایک کتاب دی گئی جس میں لکھا تھا کہ جہاں تک ہو سکے ، دلوں کو راحت پہنچا۔"

آپ نے ایک گفتگو کے دوران میں اطاعت کی دو قسمیں بیان فرمائیں۔ اطاعت لازمی اور اطاعت متعدی۔
"اطاعت لازمی وہ ہے جس کا فائدہ صرف اطاعت کرنے والے کے نفس کو پہنچے مثلاً نماز، روزہ، حج اور تسبیحات اور اس قسم کی چیزیں۔ اطاعت متعدی یہ ہے کہ جس کی راحت اور منفعت دوسروں کو پہنچے یعنی انسان ، محبت اور شفقت کے ساتھ جہاں تک اس کے بس میں ہو، دوسروں کی خدمت کرے۔ اس کو اطاعت متعدیہ کہتے ہیں اور اس کا ثواب حد اور اندازہ سے زیادہ ہے۔ اطاعت لازمی کے لئے خلوصِ نیت ضروری ہے لیکن اطاعت متعدیہ جس طرح بھی ہو باعث ثواب ہے۔"
شیخ سعدی نے بڑے سادہ الفاظ میں یہ بہت بڑی حقیقت بیان کر دی تھی:
طریقت بجز خدمت خلق نیست

لوگوں کی رہبری و راہنمائی کرنا سب سے بڑی خدمت ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ اپنی مجلسوں میں اکثر لوگوں کو دوسروں کے ساتھ تعاون ، ہمدردی اور احسان و ایثار کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار ایک درویش کی بات آپ نے حاضرین کو سنائی جس نے بیان کیا:
"میں گجرات گیا تو وہاں میں ایک دیوانے سے ملا جوواصل اور حاجب کشف تھا۔ ہم دونوں ایک ہی مکان میں رہتے تھے اور ایک ہی کمرے میں سوتے تھے۔ میں ایک وقت اس شہر کے حوض کی طرف پہنچا جس کی نگہبان حفاظت کرتے تھے اور جس میں کسی کو پیر نہیں رکھنے دیتے تھے۔ میری اس حوض کی نگہبان سے دوستی تھی اور اس نے مجھے وضو کرنے کی اجازت دی۔ پھر کچھ عورتیں پانی بھرنے آئیں لیکن ان کو حوض میں پیر رکھنے کی اجازت نہ دی گئی۔ آخر کار ایک بوڑھی عورت میرے پاس آئی اور کہا کہ میرے برتن میں پانی بھر کر مجھے دے ددو۔ میں نے بڑھیا کا برتن بھرکر اس کو دے دیا۔ پھر ایک اور عورت آئی اور اس کا بھی برتن میں نے بھرا۔ اسی طرح چار پانچ عورتوں کے برتن میں نے بھر کردئے۔ جب میں اپنے کمرے میں واپس آیا تو دیوانہ سو رہا تھا۔ نماز کا وقت تھا۔ میں نے باآواز بلند تکبیر پڑھی اور ارادہ تھا کہ نماز پڑھوں، دیوانہ جاگ پڑا اور مجھ سے کہا۔ یہ کیا شور و غوغا ہے۔ تیرا کام تو یہی تھا کہ تو نے ان عورتوں کو برتنوں میں پانی بھر کر ان کو دیا۔"

آپ لوگوں کے اخلاق درست کرتے تھے۔ قلب میں درد رکھنے اور پالنے کی ہدایت کرتے تھے۔ ایک صاحب عقل و دانش مرشد کی طرح سطحیات سے گریز کرتے تھے اور اشارات سے کام لیتے تھے جیسے حافظ نے فرمایا ہے:
تلقین و درس اہل نظر یک اشارت است
گفتم کنایے و مکرر نمی کنم

دوسروں کے لئے صرف دعا کرتے ہی نہیں تھے بلکہ نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی پیروی میں لوگوں کو دعا کرنے کے طریقے بھی بتلاتے تھے۔ فرمایا کہ دعا کے وقت خدا کی رحمت کا خیال رکھنا چاہئے اور اپنے گناہوں کا خیال نہیں کرنا چاہئے۔ دعا آفت آنے سے پہلے کرنا چاہئے تاکہ آفت نہ آئے۔ آفت آنے کے بعد بھی دعا کرنا چاہئے تاکہ آفت کم ہو جائے لیکن ایک اہم بات آپ نے یہ کہی کہ دعا صرف تسکین دل ہے، خدائے عزوجل ہی جانتا ہے کہ کیا کرنا چاہئے۔
اس دور کے منکرین تصوف اولیاء اللہ کی کرامات کے تذکروں سے بہت شاکی ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ خود الیاء اللہ اور صوفیاء کرام ؒ ان کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔
خواجہ نظام الدین اولیاءؒ نے دوسرے ولیوں کی طرح کبھی کرامات کو مقصود سمجھا نہ ان کی تشہیر کی اجازت دی۔ بلکہ فرمایا:" خدا نے اولیاء پر کرامت کا پوشیدہ رکھنا فرض کیا ہے۔"

آپ نے خرق عادت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے چار مراتب بیان فرمائے:
معجزہ: انبیاء کے لئے، برائے تبلیغ دین اس کا اظہار ہوتا ہے۔
کرامت: ولیوں کے لئے ، اس کا پوشیدہ رکھنا ضروری ہے۔
معونت: پاگلوں اور مجنونوں سے ہوتی ہے جن میں نہ علم ہے نہ عمل۔
استدراج: جادوگروں کے خرق عادت کام۔
آپ نے فرمایا: "کرامت پیدا کرنا کوئی خاص بات نہیں ہے۔ مسلمان کو چاہئے کہ راستی کی راہ سے فقیر اور بیچارہ بن کر رہے۔"

آپ کے ایک خلیفہ مولانا حسام الدین ملتانی نے عرض کیا:
"حضور! خلق مجھ سے کرامت طلب کرتی ہے۔"
آپ نے جواب دیا:" باب الغیب پہ استقامت کرنا ہی کرامت ہے۔ تم اپنے کام میں ثابت قدم اور مستقیم رہو ، کرامت کے طالب نہ بنو۔"
آپ کے نزدیک ولایت کی بنیاد اور شہادت کرامت نہیں بلکہ استقامت ہے۔ شیخ فریدؒ نے آپ کو استقامت ہی ودیعت فرمائی تھی۔
آپ نے ایک گفتگو کے دوران میں ایک حکایت بیان کی جو اگرچہ ذرا طویل ہے مگر اس سے حضرت خواجہ نظام الدینؒ اور تمام ولیوں کی کرامت کے بارے میں رائے ظاہر ہوتی ہے۔ اس لئے حوالہ مفید ہوگا۔ آپ نے شیخ سعد الدین حمویہؒ کے بارے میں فرمایا کہ:
"وہ ایک مرد بزرگ تھے مگر شہر کا والی ان سے عقیدت نہیں رکھتا تھا ، ایک دن ایسا ہوا کہ والئ شہر شیخ کی خانقاہ کے دروازے پر پہنچا اور خانقاہ کے اندر اپنا حاجب (چوبدار) بھیجا اور حاجب سے یہ الفاظ کہے کہ اس صوفی بچے کو باہر بلالو، میں اسے دیکھوں تو، چوبدار اندر گیا اور اس نے شیخ سعد الدین ؒ کو والی کا پیغام پہنچایا۔ شیخ نے اس کی بات کی طرف مطلق توجہ نہ دی اور نماز میں مشغول رہے۔ چوبدار نے باہر آکر صورت حال بتائی۔ والی کا سارا غصہ جاتا رہا اور وہ خود شیخ کی خدمت میں پہنچا۔ شیخ نے جب دیکھا کہ والی آرہا ہے تو اٹھ کھڑے ہوئے اور خوشی کا اظہار کیا۔ چنانچہ دونوں اکٹھے بیٹھ گئے۔
پاس ہی ایک باغیچہ تھا، شیخ سعد الدین حمویہؒ نے وہاں سے کچھ سیب لانے کا اشارہ کیا۔ چنانچہ جب سیب لائے گئے۔ شیخ نے اسے کاٹا، والی اور شیخ نے اسے کھایا۔ سامنے پڑی ہوئی طشتری میں ایک موٹا سا سیب دھرا تھا۔ والی کے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ شیخ کرامت اور صفائی باطن کا مالک ہے تو یہ موٹا سیب مجھے دے دے۔ جیسے ہی والی کے دل میں یہ خیال گزرا، شیخ نے ہاتھ بڑھایا، اس سیب کو اٹھایا اور والی کی طرف منہ کر کے کہا کہ:
ایک دفعہ میں سفر میں تھا۔ دوران سفر میں، مَیں ایک شہر میں پہنچا ،شہر کے دروازے پر بھیڑ لگی تھی۔ ایک بازی گر کرتب دکھارہا تھا۔ اس بازی گر کے پاس ایک گدھا تھا، اس نے کپڑے سے گدھے کی آنکھیں باندھ رکھی تھیں۔ اسی اثناء میں اس نے اپنے ہاتھ میں ایک انگشتری لی اور وہ انگشتری تماشائیوں میں سے کسی ایک کے ہاتھ میں ڈال دی۔ اس وقت بازی گر لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ جس کے ہاتھ میں انگشتری ہے یہ گدھا اسے ڈھونڈ نکالے گا۔ اس پر وہ گدھا اس بھیڑ کے اندر چکر لگانے لگا اور اس کی آنکھوں پر پٹی اسی طرح بندھی ہوئی تھی۔ وہ ہر ایک کو سونگھتا سونگھتا اس آدمی کے پاس پہنچ گیا جس کے ہاتھ میں انگشتری تھی۔ گدھا وہاں کھڑا ہو گیا اور برابر کھڑا رہا۔ بازی گر آیا اور اس نے اس آدمی سے انگشتری لے لی۔
اس حکایت کو بیان کرنے کے بعد شیخ سعد الدین حمویہؒ نے والی شہر سے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنے کشف و کرامت کا ذکر کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس بازی گر کے گدھے کے درجے پر رکھتا ہے ، اور اگر اس بارے میں کچھ نہیں کہتا اور کوئی کرامت نہیں دکھاتا تو تمہارے دل میں یہ خیال گذرتا ہے کہ اس شخص میں صفائی باطن نہیں۔ شیخ سعد الدین حمویہؒ نے یہ فرمایا اور سیب والی شہر کے سامنے رکھ دیا۔

امیر حسن سنجری فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں زبانِ مبارک سے ارشاد ہوا کہ کشف و کرامت آدمی کے راستے کا حجاب ہے۔ کار استقامت میں محبت پائی جاتی ہے ، محبت کا عمل دخل ہوتا ہے ، والحمدللہ علی ذلک۔

اب ذرا حضرت خواجہؒ کے شب و روز کے مشاغل پر نظر ڈالئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے معمولات میں نہ کوئی تکلف والی بات تھی نہ کسی قسم کا کوئی تصنع تھا۔
آپ کھلی مجلس میں بیٹھے تھے جہاں ہر کہ و مہ کے لئے رسائی آسان ہوتی تھی۔ کوئی پروٹوکول نہیں ہوتا تھا۔ عقیدت مند اور احباب بھی بیٹھے ہوتے تھے اور اجنبی بھی، ہندو بھی اور مسلمان بھی اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ حضرت خواجہؒ ہر ایک کو انفرادی توجہ سے بھی نواز رہے ہوتے تھے۔ مشورے دیتے تھے، نصیحتیں بھی کرتے تھے اور اوراد و وظائف بھی بتاتے تھے۔ ہر ایک اپنے اندر ایک نئی تحریک اور نیا ذوق و شوق لے کر رخصت ہوتا تھا۔ امیر خسرو کے ایک شعر سے انداز ہوتا ہے کہ لوگوں میں مشہور تھا کہ حضرت خواجہ سے مل کر آدمی ایک نئی قوت لے کر جاتا ہے۔ پہلی ملاقات کے موقع پر امیر خسروؒ خانقاہ کے دروازے پر بیٹھ رہے تھے اور یہ رباعی لکھ کر حضرت کے پاس بھجوائی تھی۔
تو آن شا ہے کہ بر ایوان قصرت
کبوتر گر نشیند باز گرود
درویشے مستمندے بر در آمد
اگر خواہی بیاید وگرنہ باز گرود
(تو وہ بادشاہ ہے کہ اگر تیرے محل کی چوٹی پر کبوتر بھی بیٹھ جائے تو باز بن کر جائے گا۔ ایک حاجت مند درویش تیرے دروازے پر آیا ہے اگر تو چاہے تو آ جائے ورنہ واپس چلا جائے۔)

آپ حکایات، روایات، اقوال اور لطائف کے ذریعے لوگوں تک دانائی اور معرفت کی باتیں پہنچاتے اور ساتھ ساتھ موقع و محل کے مطابق اشعار بھی دہراتے رہتے تھے۔ آپ ایک ایسے عارف تھے کہ ہر طور کا بندہ آپ سے بات کر کے مستفیض ہو سکتا تھا۔
اپنے ارد گرد بادشاہی استبداد و غیر یقینی صورتحال کے باوجود آپ لوگوں کو امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔
امیر حسن سنجری لکھتے ہیں:
حاضرین مجلس میں سے ایک نے عرض کیا کہ بعض آدمی کیا بر سر منبر اور کیا دوسری جگہ آپ کو برابر برا کہتے ہیں۔ اب اس سے زیادہ نہیں سن سکتے۔ آپ نے فرمایا کہ:
"میں نے ان سب کو معاف کر دیا۔ اس وجہ سے آدمیوں کو عداوت اور مخالفت میں مشغول نہ ہونا چاہئے۔اگر کوئی مجھے برا کہتا ہے تو میں اس کو معاف کر رہا ہوں۔ تم کو بھی معاف کرنا چاہئے اور عداوت نہ مول لینا چاہئے۔"
پھر آپ نے ایک نہایت گہرا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا کہ اگر دو آدمیوں میں جھگڑا ہوتا ہے تو صحیح راستہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک اپنے دل کو صاف کر دے۔ گر ایک نے اپنے دل کو صاف کر دیا تو دوسرے کی طرف سے بھی عداوت کم ہو جائے گی۔

خدمت خلق کے سلسلے میں آپ کا نظریہ یہ تھا کہ جہاں بھی کوئی ہے خواہ سرکاری ملازم ہے یا تاجر، بس وہ خلق خدا سے نیکی کا معاملہ رکھے۔ نیز اپنی روحانی مشغولی کا خیال رکھے۔ اس کو ترک نہ کرنا چاہئے۔
صوفیاء کرام نے ہمیشہ حد درجہ کی مذہبی رواداری سے کام لیا۔ ہر ایک کی خدمت کی، کسی کو اپنی صحبت سے محروم نہیں رکھا۔ ان کا تبلیغ دین کا طریقہ بھی علم و فقہاء سے جدا تھا۔ انہوں نے معاشرے میں اپنے آپ کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا۔ لوگ ان کو دیکھ کر مسلمان ہوتے رہے۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے ہندوؤں کو مرید کر لیا کہ اللہ کے فضل و کرم سے ان کی اگلی نسلیں کھلم کھلا اسلام قبول کرلیں گی۔

منکرین تصوف کا خیال ہے کہ صوفیا اسلام سے ہٹ کر کسی دوسری ڈگر پر چلتے تھے۔ لیکن صوفیا کرامؒ کی سوانحی کتب پڑھ کر یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ حضرات قرآن و حدیث کے عالم ہوتے تھے۔ ہر امر کا استنباط قرآن و حدیث سے کرتے تھے۔ صرف ایک بات ان کو دوسرے مفکرین و علماء سے جدا کرتی تھی، وہ اپنا مذہب و مسلک کسی پر ٹھونستے نہیں تھے مگر اپنے عمل اور حسن اخلاق سے غیر مذہب کے لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرتے تھے۔
لکھا ہے:
"ایک مسلمان غلام جو آپ کا مرید تھا، ایک ہندو کو ساتھ لایا اور کہا کہ یہ میرا بھائی ہے۔ جب وہ دونوں بیٹھ گئے۔ حضرت خواجہ ؒ نے اس غلام سے پوچھا۔ کیا تمہارے اس بھائی کا اسلام کی طرف میلا ن نہیں؟ اس نے عرض کیا۔ میں اسے حضرت مخدوم کی خدمت میں اسی لئے لایا ہوں کہ وہ آپ کی نظر کی برکت سے مسلمان ہوجائے۔ حضرت خواجہؒ یہ سن کر آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا کہ ان لوگوں کا دل کسی کے قول سے متاثر نہیں ہوتا لیکن اگر انہیں صحبت صالح مل جائے تو امید ہو سکتی ہے کہ اس صحبت کی برکت سے یہ مسلمان ہو جائیں۔"

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے زندگی کے ابتدائی دور میں ایسے عالموں اور درویشوں کو دیکھا تھا جن کا قال بھی حال تھا یعنی ان کی تذکیر سے لوگ متاثر ہوتے تھے مثلاً قاضی منہاج السراج کی مجلس وعظ میں آپ شریک ہوا کرتے تھے۔ ایک بار آپ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
"بغیر ناغہ ہر دو شنبہ کو ان کی تذکیر میں جاتا تھا۔ کیا راحت ہوتی تھی ، ان کے بیان اور قاریوں کے پڑھنے سے۔ آپ نے دو مصرعے پڑھے۔
تو ز لب سخن کشادی، ہمہ خلق بے زباں شد
تو براہ خرام کردی ، ہمہ دیدہ ہا رواں شد
(تو نے بات کرنے کے لئے ہونٹ کھولے تو سب خلقت بے زباں ہو گئی ، تو راہ میں چلنے لگا تو سب آنکھیں رواں ہو گئیں۔)
پھر آپ نے فرمایا کہ "ایک دن میں ان کی تذکیر میں شدت ذوق سے بے خود ہو گیا۔میں نہیں کہہ سکتا تھا کہ مر گیا ہوں یا مجھے کیا ہوا ہے؟"

اسی طرح ایک بزرگ مولانا نور ترک کی تعریف کرتے تھے کہ ان کی زبان میں بڑی تاثیر تھی۔ کسی کے مرید نہیں تھے ، جو کچھ کہتے تھے وہ قوت علم اور قوت مجاہدہ سے کہتے تھے۔
اسی طرح ایک بزرگ نظام الدین ابوالموید کی ایک مجلس وعظ کا ذکرکیا جہاں انہوں نے اپنی تذکیر یوں شروع کی:
"میں نے اپنے بابا کے ہاتھ کی تحریر دیکھی ہے۔ آپ نے یہ جملہ ختم نہیں کیا تھاکہ آپ کے کلام کا مجمع پر اتنا اثر ہوا کہ سب رونے لگے۔ پھر آپ نے یہ شعر پڑھا:
بر عشق تو و بر تو نظر خواہم کرد
جاں در غمِ تو زیر و زبر خواہم کرد
حضرت خواجہ ؒ نے کہا:
"مجمع سے نعرے اٹھے، آپ نے دو تین بار یہ شعر دہرایا۔ پھر آپ نے کہا: "اے مسلمانو! دو مصرعے اور ہیں جو مجھے یاد نہیں آتے ہیں۔ کیا کروں؟ یہ بات آپ نے ایسے عاجزانہ طریقے سے کہی کہ تمام مجمع پر اثر ہوا۔"

حضرت خواجہ نے ایسے بزرگان کرام دیکھتے تھے جن کے قال سے حال پیدا ہوتا تھا۔ خود حضرت خواجہ کی زبان میں بھی ایسی ہی تاثیر تھی۔ کوئی پڑھا لکھا ہوتا یا ان پڑھ آپ کی باتوں سے یکساں متاثر ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے ملفوظات بڑے شوق سے قلمبند کئے گئے۔ آج بھی جب ہم ان مجلسوں کا حال پڑھتے ہیں تو حضرت خواجہ ؒ کی موثر شخصیت ہمارے تصور میں زندہ ہو جاتی ہے اور ہم جان لیتے ہیں کہ وہ کتنے بڑے مرشد تھے۔
مجھے یقین ہے کہ کوئی منکر تصوف بھی مطالعہ کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے ملفوظات پڑھے تو تصوف اور صوفیاء کرام کے بارے میں اس کے شکوک و شبہات رفع ہو جائیں گے اور پھر اگر اسے کوئی زندہ مرشد مل گیا تو وہ ضرور ان کے حلقے میں بیٹھنا اپنے لئے باعث سعادت سمجھے گا۔

ماخوذ از مجلہ: ماہنامہ ادبِ لطیف ، 75 سالہ نمبر (حصہ اول)
شمارہ 11-12 ، نومبر-دسمبر-2010

Hazrat Khwaja Nizamuddin Aulia, a renown Sufi saint. Article: Syed Ahmed Sayeed Hamdani.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں