مذہب - کیا ٹکراؤ اور جنگ کی بنیاد ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-01

مذہب - کیا ٹکراؤ اور جنگ کی بنیاد ہے؟

is-religion-basis-of-conflict-and-war
سعودی عرب کے مقتدر روزنامہ "عرب نیوز" کے ایڈیٹر اسلامیات 'عادل صلاحی' اپنے پڑھنے والوں کے ان سوالات کا جواب دیتے ہیں جن کا تعلق اسلام سے اور مسلمانوں کو آج کی دنیا میں پیش آنے والے مسائل سے ہے۔ بہت سے مذہبی مسائل میں الگ الگ مکاتیب خیال سے تعلق رکھنے والے افراد میں اختلافِ رائے کی گنجائش ہوتی ہے۔ پھر بھی، ہر مسلک کے ماننے والے مسلمان عادل صلاحی کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور ان کے دئے ہوئے جوابات ہر مسلمان کے لیے مشعلِ راہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے ماہنامہ شمع میں ہر ماہ ان کے کچھ جوابات ترجمہ کر کے پیش کیے جاتے ہیں۔
نوٹ: مندرجہ ذیل سوال/جواب، ماہ جنوری 1994ء کے "شمع" سے اخذ کیا گیا ہے۔
سوال:
آج کل ایک نئی فکری رو ابھر رہی ہے۔ اس نظریہ کے مطابق:
مختلف عقائد رکھنے والوں کے درمیان نفرت اور لڑائی کی آگ بھڑکانے کا سبب مذاہب اور فرقے ہیں۔ اگر مذہب نہ ہو تو مذہبی بنیاد پر لوگوں کے درمیان لڑائی ہوگی ہی نہیں۔ لہٰذا اگر دنیا بھر میں ایسا تعلیمی نظام رائج ہو جائے جس کے ذریعہ بہترین انسانی قدروں کو عام کرنے میں مدد ملے تو ساری برائیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے اور جھگڑے فساد کی بہت حد تک روک تھام ہو سکتی ہے۔
مذہب پر انسانی قدروں کو فوقیت دینے والے اس نظریہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب:
یہ نظریہ نیا نہیں ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں لوگ اس تصور کو پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن اگر بےلاگ ہوکر غور سے انسانی تاریخ اور مختلف قوموں، نسلوں، مذہبی گروہوں کے درمیان ٹکراؤ کے اسباب کا مطالعہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اپنی اپنی خود غرضانہ منزلوں کو پانے کے لئے لوگ کسی بھی پرچم تلے، کسی بھی نصب العین کو حیلہ بنا کر لڑ سکتے ہیں۔
اس مطالعہ سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ لالچ اور خود غرضی، جو دوسرے کے پاس ہے اسے ہتھیا لینے کی ہوس، ذاتی یا گروہی فائدے کے لئے چھین، جھپٹ کا میلان ہی اکثر صورتوں میں مسلح ٹکراؤ شروع کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ساری انسانی قدریں، سارے آدرش اس وقت فراموش کر دئے جاتے ہیں جب ذاتی یا قومی مفاد کو بڑھاوا دینے کا معاملہ ہو۔

مغربی تہذیب نے عیسائی قدروں سے دامن چھڑانے اور ان کی جگہ لادینی انسانی قدروں کو اپنے اندر رچانے کی بڑی سرگرمی کے ساتھ کوشش کی ہے۔ مذہبی قدروں پر انسانی قدروں کو فوقیت دینے والے کہتے ہیں کہ انسانی قدروں میں انسانی بھائی چارے ، آزادی اور برابری پر زور دیا جاتا ہے۔
فرانسیسی انقلاب کے دنوں سے لے کر آج تک یورپین افکار پر یہ انسانی قدریں چھائی رہی ہیں، جب کہ مذہبی قدروں کی گرفت رفتہ رفتہ کم زور ہوتی گئی ہے۔
مگر کیا اس فکری تبدیلی سے یورپ کو یا پوری مغربی دنیا کو جنگوں کی شدت یا مسلح ٹکراؤ کی گنتی کم یا ختم کرنے میں کوئی مدد ملی ہے؟ یورپین مملکتوں اور قوموں کے باہمی تعلقات پر نظر ڈالی جائے یا مغربی قوموں اور باقی دنیا کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے ، نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسانی قدروں کی بالا دستی کا نظریہ عملاً لڑائی کو ٹالنے اور امن کو مستحکم بنانے کا ذریعہ نہیں بن سکا ہے۔

انیسویں صدی میں یورپین قوموں کے درمیان بہت سی خوں ریز لڑائیاں ہوئیں، اس حقیقت کے باوجود ہوئیں کہ تقریباً سارا یورپ عیسائی ہے۔
مزید ستم یہ ہوا کہ یورپین قومیں دنیا بھر میں بڑے بڑے خطوں کو اپنا غلام، اپنی نو آبادی بنانے کی مہم پر نکل کھڑی ہوئیں۔ اور اپنے سامراج کو پھیلانے کے جنون میں وہ عیسائی قدروں کا کبھی کبھی زبان سے، صرف زبان سے ورد کرتی رہیں۔ آزادی، برابری، بھائی چارے کے بارے میں تو وہ سب کچھ بھول گئیں۔
جن خطوں پر انہوں نے اپنا قبضہ جمایا، وہاں رہنے والوں کو انہوں نے دوسرے درجے کا انسان سمجھا اور اپنے اس اسلوب پر وہ خوش بھی ہوتی رہیں۔ انہوں نے نعرہ لگایا کہ ان پچھڑے ہوئے لوگوں کو تہذیب کی اعلیٰ سطح پر لانا ان کی یعنی سفید فام لوگوں کی ذمہ داری ہے اور وہ یہی کام کر رہی ہیں۔ محکوم لوگوں سے حقارت آمیز برتاؤ کر کے، انہیں ان کی ملکی دولت سے محروم کر کے ، ان کو جاہل ، بے خبر اور ان پڑھ رکھ کر وہ نازاں رہیں کہ دنیا ان کے جھنڈے تلے ہے۔
ان محکوم ملکوں کے عوام میں آپس کی نفرت اور دشمنی پیدا کرنے کے لئے انہوں نے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی۔ بیسویں صدی میں مغربی قوموں نے دنیا کو دو عالم گیر جنگوں کی بھٹی میں جھونکا۔ ان جنگوں میں مذہب کا کسی بھی پہلو سے کوئی عمل دخل نہ تھا۔

انسانی قدروں کا نعرہ بلند کرنے والے مغرب کا ہی یہ "کارنامہ" تھا کہ اس نے فلسطینی قوم کے حقوق کو نظر انداز، بلکہ پامال کرتے ہوئے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے قیام میں مدد دی۔
کون سی انسانی قدریں مستقبل میں جنگوں کو روک سکتی ہیں، جب انسان خود نہایت آسانی سے ایسے نظام کی بنیاد ڈال سکیں جو ایک پوری قوم کو اس کی سرزمین سے نکال بھگانے اور اس کی جگہ ایک دوسری قوم کو وہاں آباد کرنے کو جائز ٹھہرائے۔۔۔؟ ایک ایسی قوم کو جو اس سر زمین پر کوئی دعویٰ نہیں کر سکتی ، کوئی حق نہیں جتا سکتی ، سوا اس کے کہ 2000 سال پہلے اس کے آبا و اجداد وہاں رہتے تھے؟

یہ صحیح ہے کہ مذہب کو بھی جنگ کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ صلیبی جنگیں اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ انسانی دنیا کے لئے جنگ سے بچنے کی امید مذہب ہی فراہم کر سکتا ہے۔
اگر لوگ مذہب کو اوپری لبادہ نہ سمجھیں بلکہ سنجیدگی سے اسے اپنی روح میں بسا لیں، اگر وہ مذہب کی تعلیمات پر سچے دل سے عمل کریں تو ان کے لڑنے بھڑنے کا امکان از خود کم ہو جائے گا کیوں کہ ان کے دل میں دوسروں کے لئے نفرت نہیں محبت ہوگی ، خود غرضی نہیں ہمدردی اور ایثار کا جذبہ ہوگا ، زور زبردستی کی خواہش نہیں، دوسروں کے کام آنے اور انہیں بھی بھلائی کے راستے پر لانے کی آرزو ہوگی۔
اس کے بر عکس وہ لوگ لڑائی پر جلد اتر آئیں گے جن کی زبان تو انسانی قدروں کی دہائی دے ، لیکن جن کے دلوں میں خود غرضی اور ہوس بھری ہو اور اس کے ساتھ یہ زعم بھی کہ ان کے اندر دوسروں پر اپنی مرضی لادنے کی طاقت ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مذہب انسان میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے لئے اپنے رب کے سامنے جواب دہ ہے۔
جب کہ انسانی قدریں، خواہ وہ کتنی ہی بلند آہنگ کیوں نہ ہوں، انجام کار انسان کو ہی آخری فیصلہ کرنے کا اختیار دینے اور اسی کو منصف ماننے پر مجبور ہیں۔ اور انسان چونکہ فطرتاً لالچی اور خود غرض ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے ہی خلاف فیصلہ نہیں دے سکتا۔ وہ تو اپنے ہر ناروا عمل کے لئے بھی جواز ڈھونڈ نکالتا ہے۔
جب انسان کا نظریہ یہ ہو کہ وہ اپنے اعمال کے لئے کسی کے سامنے جواب دہ نہیں تو اس سے انصاف کی آس کیسے کی جا سکتی ہے؟

***
بشکریہ: کالم "آج کے مسائل (دین کی روشنی میں)"
از: عادل صلاحی (مدیر شعبہ اسلامیات، روزنامہ عرب نیوز، جدہ، سعودی عرب)۔
شائع شدہ: ماہنامہ "شمع" دہلی، شمارہ: جنوری-1994

Is religion the basis of conflict and war?

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں