سالار جنگ میوزیم - بانیٔ میوزیم کا کمرہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-20

سالار جنگ میوزیم - بانیٔ میوزیم کا کمرہ

salarjung-museum-founder-room
سالار جنگ میوزیم کا نام نواب میر یوسف علی خان بہادر المخاطب بہ "سالار جنگ" سے منسوب ہے ۔ سالار جنگ نواب صاحب کا خاندانی خطاب تھا، آصف جاہی سلاطین نے "سالار جنگ" کا خطاب نہ صرف میر یوسف علی خان کو دیا تھا بلکہ آپ کے والد محترم نواب میر لائق علی خان اور دادا نواب میر تراب علی خان 'مختار الملک' کو بھی عطا کیا تھا ۔ اس طرح نواب میر یوسف علی خان "سالار جنگ سوم" کہلائے ۔ یہ تینوں سالار جنگ یکے بعد دیگرے مملکت حیدرآباد کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔
سالار جنگ کے آبا و اجداد عرب کے شہر مدینہ شریف سے ہندوستان آئے ۔ جبکہ ننھیالی رشتہ دار ایران کے شہر 'شوستر' سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے آبا و اجداد میں سب سے پہلا نام شیخ اویس قرنی کا ملتا ہے ۔ جن کا سلسلہ نسب قبیلہ قرن سے تھا ۔ اور آپ جنگ صفین میں شہید ہوئے ۔ (سالار جنگ میوزیم کی) اس گیلری میں خاندانی شجرہ کے علاوہ شیخ اویس قرنی کی تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔

شیخ اویس قرنی کے خاندان سے شیخ اویس سوم ہندوستان تشریف لائے اور بیجا پور کے حکمران علی عادل شاہ کے عہد میں آپ کے فرزند محمد علی وزارت کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ آہستہ آہستہ آپ کے اہل خاندان کی مغلیہ حکومت میں رسائی ہوئی ۔ وہ آصف جاہ اول کے ساتھ دکن چلے آئے۔ اسی خاندان کے ایک فرد علی زماں خان حیدر یار جنگ منیر الملک جو میر عالم کے بعد دیوان ہوئے ، ان کی شادی سید ابوالقاسم میر عالم بہادر دیوان مملکت آصفیہ کی صاحبزادیوں سے یکے بعد دیگرے ہوئی۔
محمد علی خان بہادر شجاع الدولہ اور میر عالم علی خان سراج الملک کی پیدائش دوسری صاحبزادی سے ہوئی۔ سالار جنگ اول میر محمد علی خان کے فرزند تھے ۔ ان کی پرورش میر عالم علی خان کے زیر سایہ ہوئی اس طرح سالار جنگ اول میر عالم بہادر کے پر نواسے ہوتے ہیں۔
علی زماں خان، سید ابوالقاسم میر عالم، عالم علی خان اور محمد علی خان کی تصاویر ان کے ہمعصر سلاطین آصفیہ سکندر جاہ، ناصر الدولہ اور افضل الدولہ کے ساتھ "باب الداخلہ" کے پاس ہی لگائی گئی ہیں۔ اس کے آگے سالار جنگ اول کی مسند اور ان کے زمانہ کے نوادرات رکھے گئے ہیں ۔ یہ مسند کشیدہ کاری کا ایک عمدہ نمونہ ہے، جس میں سونے اور چاندی کے باریک تاروں کا استعمال کیا گیا ہے ۔ اور اوپر ایک چھوٹا سا شامیانہ ہے۔ مسند کے دونوں جانب گاؤ تکئے رکھے ہوئے ہیں۔ چاندی کے ڈنڈوں کے سہارے جو شامیانہ ہے وہ بھی سونے اور چاندی کے تاروں سے سجایا اور سنوارا گیا ہے۔ شہر وینس کے کانچ کے بنے ہوئے شمعدان جو دونوں جانب رکھے گئے ہیں، مسند کے شاہانہ طرز کی عکاسی کرتے ہیں۔

شوکیس میں رکھے گئے اس عہد کے چینی ظروف میں وہ نیلے رنگ کا گلدان ہے جو سالار جنگ کے سفر لندن کے وقت 1876ء میں 'منٹن پورسیلین فیکٹری' میں فوری تیار کیا گیا اور بطور تحفہ پیش کیا گیا تھا۔ یہاں ایک بہت ہی قدیم اور یادگاری گلدان بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو ان پچاس تحائف میں سے ایک ہے جو ملکہ وکٹوریہ کو کولوپر فیکٹری کی جانب سے 1897ء میں ان کی ڈائمنڈ جوبلی تقاریب کے موقعہ پر لندن میں پیش کئے گئے تھے ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی چینی کے منقش ظروف رکھے گئے ہیں جن پر فارسی تحریر ثبت ہے جو چین میں حیدرآبادی نوابوں کی خواہش پر خصوصی طور پر تیار کئے گئے ۔

اس عہد کی شان و شوکت ان نایاب تحفوں سے بھی ظاہر ہوتی ہے جو سالار جنگ اول کو ان کے دورۂ انگلینڈ کے دوران مختلف مواقع پر دئیے گئے تھے ۔ ان میں سے قابل ذکر ایک طلائی ڈبہ ہے جو 1876ء میں انہیں لندن کی مجلس بلدیہ کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ چاندی کا ایک بڑا طشت جو شہزادہ ویلز۔ ایچ آر ایچ البرٹ ایڈورڈ کی جانب سے انہیں پیش کیا گیا اور چاندی کی ہی ایک سیلابچی و آفتابہ جو ایڈن برگ کے ڈیوک نے بطور یادگاری تحفہ پیش کیا تھا، دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس کے بعد آپ سالار جنگ دوم کی ایک قدم آدم تصویر اور ان کے عہد کے نوادرات ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔ بلوری شیشہ (کٹ گلاس) کے کئی نادر نمونے یہاں ایک شوکیس میں رکھے گئے ہیں۔ جو اس عہد کی نفاست اور اعلی طرز صناعی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ چیکو سلواکیہ کے سرخ اور گہرے نیلے رنگ کے حقے، بلجیم کے کٹورے ، انگلستان کی بنی پتلی پرت کی کانچ کی بوتلیں آپ کی توجہ اپنی جانب منعطف کریں گی ۔ اس کے بعد والے شوکیس میں انگلستان کے کارخانوں کے چینی مٹی سے تیار کردہ نایاب چائے دان وغیرہ دیکھے جا سکتے ہیں۔

میر یوسف علی خاں 1889ء میں پیدا ہوئے ، اور ساٹھ سال کی عمر پاکر 1949ء میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ آپ ساری عمر مجرد رہے ۔ آپ کو نادر و نایاب آرٹ نمونوں سے غیر معمولی دلچسپی تھی ۔ اس میوزیم کے گرانقدر ذخیرہ سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ انہیں ہر ملک کے فنون لطیفہ سے والہانہ محبت تھی ۔ گوکہ ان میں سے چند اشیاء آپ کے والد اور دادا کی جمع کردہ ہیں ۔ اس خاندان کا جمع کردہ یہ بیش بہا سرمایہ سالار جنگ سوم کے گزر جانے کے بعد ہی میوزیم کی شکل اختیار کر سکا۔

گیلری کے آخری حصہ میں سالار جنگ سوم کی تصویر، ان کی استعمال شدہ مسند، مستعملہ اشیاء ، مخطوطات ، کتابیں اور ان کے حاصل کردہ انعامات رکھے گئے ہیں۔ دو شوکیسوں میں سالار جنگ سوم کی نہایت قیمتی جامہ دار کی شیروانیاں اور ان کے ساتھ مماثلت رکھنے والی ٹوپیاں اور دستار رکھے گئے ہیں۔ ایک بہت بڑے شوکیس میں مرحوم نواب صاحب کے حاصل کردہ چاندی کے یادگاری تمغے اور تحفے رکھے گئے ہیں۔ سالار جنگ سوم "فری میسن سوسائٹی" کے ایک فعال رکن تھے۔ چنانچہ اسی تحریک سے متعلق اشیاء ایک شوکیس میں رکھی گئی ہیں۔ تصاویر کی ایک بڑی تعداد اس کمرے میں رکھی گئی ہے ۔ جس سے اس زمانہ کے حالات اور تینوں سالار جنگ کی سماجی سر گرمیوں پر روشنی پڑتی ہے۔
سالار جنگ خاندان کی تصاویر ، ان کی استعمال شدہ اشیاء ، اور دیگر اشیاء پر مشتمل یہ کمرہ اس لیے تشکیل دیا گیا ہے کہ خانوادۂ سالار جنگ کی یادہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے اور ہم ان کو بھرپور خراج عقیدت پیش کر سکیں۔

Room of founder of Salarjung Museum.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں