اردو کی بات -2 از مہتاب عالم : اردو کہاں سیکھی جا سکتی ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-10

اردو کی بات -2 از مہتاب عالم : اردو کہاں سیکھی جا سکتی ہے؟

mahtab-alam-urdu-ki-baat-2
دہلی کے جواں سال صحافی مہتاب عالم نے سوشل میڈیا کے نوآموز و غیر اردو داں افراد کی دلچسپی اور فرمائش کے پیش نظر اردو سے متعلق، دورِ حاضر کی عام و اہم معلومات کو مختصر ویڈیو کلپ کے ذریعے پیش کرنے کے سلسلے کا نئے سال سے آغاز کیا ہے۔ ہر ہفتہ ایک نئی ویڈیو (بروز ہفتہ شام کے وقت) مہتاب عالم کی فیس بک ٹائم لائن پر لائیو یا ریکارڈ شدہ پیش کی جائے گی۔ اس سلسلے کی دوسری ویڈیو کی تحریری اسکرپٹ کو (بعد از تدوین) مہتاب عالم کی اجازت سے تعمیرنیوز پر پیش کیا جا رہا ہے۔
آداب، میں ہوں مہتاب اور آپ دیکھ رہے ہیں اردو کی بات۔۔۔

اردو کی بات کی دوسری قسط میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ پچھلی قسط میں ہم نے کیلینڈر اور ڈائری کے بارے میں بات کی تھی۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ آپ احباب نے پچھلا ایپیسوڈ پسند کیا اور کچھ دوستوں نے فیڈ بیک اور مشوروں سے بھی نوازا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ آگے بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

آج کی قسط میں ہم بات کریں گے ایک ڈاکیومینٹری فلم یعنی دستاویزی فلم کے بارے میں۔ اس کے علاوہ ہم تھوڑی سی بات چیت اس کے بارے میں بھی کریں گے کہ آپ اردو کہاں سیکھ سکتے ہیں؟
تو چلئے، سب سے پہلے بات کرتے ہیں دستاویزی فلم کی۔

پچھلے دنوں میں نے تقریباً چالیس منٹ کی ایک ڈاکیومنٹری فلم دیکھی، جس کا نام ہے: "گفتگو"۔
جی نہیں، اس کا کوئی تعلق سید محمد عرفان صاحب کے مقبول پروگرام "گفتگو" (جو کہ راجیہ سبھا ٹی وی پر آیا کرتا تھا) سے نہیں ہے۔ یہ فلم بنیادی طور پر پرانی دہلی کے تین دوستوں کی آپسی بات چیت یعنی 'گفتگو' پر مبنی ہے اور یہ بات چیت اردو میں ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی بیجا نہ ہوگا کہ اردو کے بارے میں ہے۔ اردو بازار اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے بارے میں، جو دن بہ دن ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ہم اس فلم کے ذریعہ پرانی دہلی کے متعلق ایسی بہت ساری چیزوں سے روشناس ہوتے ہیں جن کے بارے میں عام طور پر بات چیت نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اس فلم کی خوبی یہ ہے کہ یہ سب آپ کو کوئی بتاتا نہیں ہے کیوں کہ اس میں کوئی voice over نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایکسپرٹ اردو، پرانی دہلی، اردو بازار کے بارے میں "گیان"دے رہا ہوتا ہے۔ آپ فلم دیکھتے ہوئے ان سب کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور ان سب کا مشاہدہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ تین دوستوں کی آپسی بات چیت سے ہم بہت ساری چیزیں سیکھ سکتے ہیں جو کہ درجنوں کتاب پڑھ کر بھی نہیں سیکھ سکتے۔

وہ تین دوست جن کی گفتگو پر یہ فلم مبنی ہے، کے نام ہیں: گلزار دہلوی، رشید چودھری اور امیر دہلوی۔ گلزار دہلوی سے آپ واقف ہیں، ان کا ذکر پچھلی قسط میں بھی اس وقت ہوا تھا، جب ہم کیلینڈر کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ امیر دہلوی کے بارے میں بھی شاید آپ جانتے ہوں، ایک شاعر کے طور پر نہ سہی لیکن جامع مسجد کے پاس واقع حاجی ہوٹل کے حوالے سے ضرور مشہور ہیں۔ ویسے امیر صاحب عمدہ شاعر ہیں۔ یہ میں نہیں کہ رہا بلکہ اردو کے ایک بڑے اسکالر گوپی چند نارنگ کا ایسا کہنا ہے۔
امیر صاحب کے مجموعہ کلام "شرح جذبات" کے پیش لفظ میں نارنگ صاحب لکھتے ہیں:
"امیر دہلوی غزل کے شاعر ہیں، صاف اور سیدھے لفظوں میں داد سخن دینے والے اور واردات قلب کو بیان کرنے والے۔ وہ اپنی بات کو سلاست، روانی اور صفائی سے کہتے ہیں۔ ان کی نظر ایسے انسان پر ہے جس کے دل میں فلاح کا جذبہ ہے، جو ملک و قوم کے رشتوں کو عزیز رکھتا ہے اور خدمت کو شعار کر کے دوسروں کا دکھ بانٹتا ہے۔"

یہ بات نارنگ صاحب نے 1978-1979 میں شائع ہونے والے مجموعہ میں کہی ہے۔ فلم میں جب آپ امیر صاحب کو سنتے ہیں یا ان کو اپنا کلام سناتے دیکھتے ہیں تو آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ نارنگ صاحب نے اس وقت جو بات امیر صاحب کے بارے میں کہی تھی اس میں رتی بھر بھی مبالغہ نہیں ہے۔
تیسرے شخص جن سے ہماری ملاقات اس فلم میں ہوتی ہے، ان کا نام ہے، رشید چودھری۔ جو کہ رشید آرٹسٹ کے نام سے زیادہ جانے جاتے ہیں۔ ویسے یہ بنگلہ دیش کے مشہور آرٹسٹ اور پروفیسر رشید حسین چودھری، جو خورشید چودھری کے نام سے مشہور تھے، نہیں ہیں۔ سچ پوچھئے تو میں بھی ان کے نام اور کام سے واقف نہیں تھا۔ رشید صاحب کا اسٹوڈیو جس کا نام "انڈیا آرٹ اسٹوڈیو" ہے، بھی اردو بازار میں ہی حاجی ہوٹل کے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ بلکہ فلم دیکھتے ہوئے احساس ہوا کہ ان کا اسٹوڈیو میرے فیوریٹ کباب کارنر "لالو کبابی" کی دکان کے آس پاس ہی ہے۔ ایسا شاید ہی ہوا ہوگا کہ میں جامع مسجد/پرانی دہلی کی طرف جاؤں اور لالو کبابی پر حاضری نہ دوں۔ اگر یقین نہ آئے تو میرے دوستوں سے معلوم کر لیں۔ البتہ اب جب بھی اردو بازار جانا ہوگا تو "لالو کبابی" سے پہلے رشید صاحب کی خدمت میں حاضر رہوں گا۔

میں اس فلم کے بارے میں زیادہ باتیں نہیں کروں گا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ اس کو دیکھ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ کتنی اہم فلم ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس فلم میں کسی ایکسپرٹ نے گیان نہیں دیا ہے،جو میرے حساب سے فلم کی سب سے اچھی بات ہے۔ اور اس پر بہت ساری باتیں کرکے میں اس کا مزہ خراب نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن، میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ 40 منٹ لگاتے ہیں تو پرانی دہلی آپ کو اور بھی دلچسپ محسوس ہوگی۔

اس فلم کو بنایا ہے تین نوجوانوں نے جن کا اردو سے بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے نام ہیں:
آستھا گپتا، جونٹی پول اور پرتیک شنکر۔
اس پر کسی اور موقع سے بات کریں گے کہ یہ نوجوان کون ہیں اور اردو میں ان کی دلچسپی کیسے پیدا ہوئی۔ فی الحال تو بس اتنا کہوں گا کہ چالیس منٹ نکالئے اور فلم دیکھ ڈالئے۔ فلم کا لنک یہ رہا:
Guftagu | Documentary Film | The Urdu Project

جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ آج کی قسط میں ہم تھوڑی سی بات چیت اس بارے میں بھی کریں گے کہ آپ اردو کہاں سے سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس کے بارے میں کچھ بتاؤں، دو باتیں مجھے مزید کہنی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اس فلم کے بارے میں مجھے اپنے ایک صحافی دوست سے پتہ چلا تھا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انہوں نے خود مجھے اس کے بارے میں بتایا تھا۔ اس صحافی دوست کا نام ہے، فاطمہ خان۔ اس لئے میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

دوسری بات ہے کہ، ان تینوں نوجوانوں کا اردو کے حوالے سے یہ کوئی واحد پروجیکٹ نہیں ہے۔ بلکہ آنے والے دنوں میں بھی یہ لوگ اردو کے تعلق سے کچھ نہ کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور اس لئے ان تینوں نے مل کر ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کا نام ہے، دی اردو پروجیکٹ۔ اس پروجیکٹ کی ویب سائیٹ بھی ہے، جس کا پتہ ہے:
www.theurduproject.asia

پروجیکٹ کی ویبسائٹ بھی بہت مفید ہے۔ اس پر فلم کے علاہ resources کے سیکشن میں اردو کے حوالے سے بہت سارے دلچسپ اور معلوماتی مضامین جمع کر دیئے گئے ہیں۔ یہ سارے مضامیں انگریزی میں ہیں۔ اس کے علاوہ بلاگس کا سیکشن بھی بہترین ہے۔ اور ہاں، فلم میں انگریزی sub-titles بھی ہیں، یوں سننے اور پڑھنے والے دونوں طرح کے ناظرین استفادہ کر سکتے ہیں۔

اب بات ہوگی اردو سیکھنے سکھانے کے حوالے سے۔
سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ اردو سیکھنا کوئی راکٹ سائنس سیکھنے جیسا نہیں ہے۔ اگر آپ کو میری بات چیت کوئی پچاس فیصد بھی سمجھ میں آ رہی ہے تو یہ سمجھیں کہ آپ کے لئے اردو سیکھنا بہت آسان ہے۔
مجھ سے جب بھی کوئی پوچھتا ہے کہ اردو کیسے سیکھی جائے؟ تو میرا جواب ہوتا ہے ۔۔۔ جیسے ہم میں سے زیادہ تر لوگوں نے انگریزی سیکھی۔
بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اردو سیکھنا اس سے بھی آسان ہے۔ بس آپ کو تھوڑا وقت نکالنا ہوگا اور کچھ پیسہ لگانا ہوگا۔ اگر آپ ایک بار ٹھان لیں کہ آپ کو اردو سیکھنی ہے تو آپ کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ ہاں، بس ایک چیز کا خیال رکھیے گا۔ وہ یہ کہ جیسے فراٹے دار انگریزی پڑھنے، لکھنے اور بولنے کے باوجود شیکسپیئر، ملٹن، چارلس ڈکینس، وغیرہ کو سمجھنا آپ کے لیے آسان نہیں ہو جاتا، ویسے ہی یہ ممکن نہیں ہے کہ محض اردو پڑھنا لکھنا سیکھنے کے بعد غالب، میر اور سودا، وغیرہ آپ کو فوراً سمجھ میں آنے لگ جائیں۔ اس میں بہرحال وقت لگتا ہے اور یہ کوئی خراب بات بھی نہیں ہے۔
ہم کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہر انگریز یا جسے ہم انگریزی داں سمجھتے ہوں، وہ بھی شیکسپیئر، ملٹن، چارلس ڈکینس، وغیرہ کی تحریروں کو سمجھ نہیں پاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم عام اردو پڑھنے لکھنے والے سے امید کرتے ہیں کہ اس کے لیے میر، غالب، مومن، سودا کو سمجھنا لازمی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کو غالباً اردو نہیں آتی ہے۔ اس حوالے سے، میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا یہ کوئی مناسب رویہ نہیں ہے۔

اب میں آپ کو کچھ ایسے اداروں یا لوگوں کے بارے میں بتاتا ہیں جو اردو سکھانے کا کام کرتے ہیں۔

سب سے پہلے ڈاکٹر ابھئے کمار مشرا۔ ان کا کوئی ادارہ نہیں ہے لیکن یہ نہایت ہی مناسب فیس کے عوض اردو سکھانے کا کام کرتے ہیں۔ ان کا اگلا بیچ اس مہینے کی پندرہ تاریخ سے شروع ہو رہا ہے۔ تفصیل یہ رہی:
Abhay Kumar : New Batch of Basic Urdu Class (online) starts

اس کے علاوہ اسی مہینے 'اردو لرننگ' کا ایک اور بیچ شروع ہو رہا ہے۔ یہ کورس 'کارواں انڈیا' نام کے ادارے کے طرف سے کروایا جا رہا ہے۔ اس کی تفصیلات اس لنک پر:
Karvaan India : Elementary Urdu Learning Course

ایک اسکیم اور ہے جس کے ذریعہ عربی اور فارسی کے علاوہ اردو لرنگ کا کورس کروایا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کا نام ہے:
Know Your Neighbour - اپنے پڑوسی کو جانیے
یہ لوگ کولکاتہ کے رہائشی ہیں۔ ان کا لنک یہ رہا:
Know Your Neighbour

اس کے علاوہ آپ 'اردو بازار' نامی ویب سائٹ پر بھی اردو لرننگ کورس کے لئے رجسٹر کر سکتے ہیں۔ این سی پی یو ایل اور الگ الگ صوبوں کی اردو اکیڈمیز کی طرف سے جاری کورسیز سے بھی آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ویسے میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ یہ کوئی مکمل یا حتمی لسٹ نہیں ہے۔ ایسے بہت سارے لوگ اور ادارے ہوں گے جو یہ کام کر رہے ہیں اور جن کا نام میں نہیں لے سکا۔ اگر آپ ایسے کسی منصوبے سے واقف ہو تو بلاجھجک کمنٹ باکس میں بتا کر شکریہ کا موقعہ دیں۔

اب وقت ہے آپ کے سوالات کے جواب دینے کا۔
پچھلی قسط کے درمیان ہمارے ایک ناظر، جن کا نام ایچ رحمن ہے، نے پوچھا تھا کہ اچھی اردو قواعد کا نام بتائیں۔ اس تعلق سے، میں نے اردو کے جانکار اور انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سیکریٹری اطہر فاروقی سے ان کی رائے جاننی چاہی تو انہوں نے بتایا کہ اس سلسلہ میں "زبان و قواعد" نامی کتاب جس کے مصنف رشید حسن خاں ہیں مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
جب میں نے ان سے مولوی محمد اسمعیل کی "اردو زبان کا قاعدہ" کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بھی بہت اچھی کتاب ہے۔ بلکہ ایک زمانے میں شمالی ہندوستان کے بیشتر گھروں میں اردو سیکھنے و سکھانے کے لئے یہی قاعدہ استعمال کیا جاتا تھا، خاص طور پر ان طلبا کے لیے جو اسکول میں اردو نہیں پڑھ رہے تھے۔ اس لحاظ سے یہ قاعدہ 'اردو لرننگ' کے لئے خاصا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس قاعدہ کے بارے میں مجھے ڈاکٹر ابھئے کمار کی ایک پوسٹ سے پتا چلا تھا۔

آخر میں اردو کے حوالے سے پھیلائی جا رہی ایک جعلی خبر کا ذکر۔
ایسا کہا جا رہا ہے کہ:
"اردو کو اقوام متحدہ یعنی یو این او کی آفیشییل زبان کا دجہ مل گیا ہے"۔
ایسا بالکل نہیں ہے۔ صرف اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کے نئے سال کے پیغام کو اردو میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ اس سے کوئی زبان یو این کی مصدقہ زبان نہیں بن جاتی۔ اس سلسلہ میں newzwala نامی ایک ویب سائٹ نے ایک fact check کیا ہے۔ جس کا لنک یہ رہا:
Urdu Becomes Official Language of United Nations? Know the Truth

'اردو کی بات' میں آج کے لئے اتنا ہی۔ اگلے ہفتہ ہم پھر حاضر ہوں گے کچھ نئی معلومات اور باتوں کے ساتھ۔

آپ کو آج کا پروگرام کیسا لگا، ہمیں ضرور بتائیں۔۔۔اور ہاں، اردو کے متعلق کوئی سوال ہو تو پوچھنا نہ بھولیں۔ آپ سوال فیس بک پوسٹ کے کمنٹ باکس میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
شکریہ


Urdu ki baat, Episode:2. - Column: Mahtab Alam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں