چھبیس (26) جنوری 1950 - یومِ نفاذ دستور - دستور ہند کا خاکہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-26

چھبیس (26) جنوری 1950 - یومِ نفاذ دستور - دستور ہند کا خاکہ

india-constitution-enforcement-and-outline
26/جنوری 1950ء کو ہندوستان میں اس جدید دستورکا نفاذ ہوا۔
یہ تاریخ اس لئے مقرر ہوئی کہ اسی تاریخ کو 20 سال پہلے مہاتما گاندھی جی کی زیر قیادت آزادئ ہند کی قرارداد اہل ہند نے منظور کی تھی۔ اس دستور کی نوعیت شاہی جمہوریہ عمومی ہے۔ شاہی اقتدار عوام سے پیدا ہوا ، انصاف، آزادی ، مساوات اور بھائی چارگی جمہوری حکومت کے لوازم ہیں، جن کا ذکر اس دستور کی تمہید میں صراحتاً کیا گیا ہے اور احکام مابعد میں مذکورہ اصولوں کی نسبت یقین دلایا گیا ہے۔ چنانچہ عمومیت کے تصور میں حکومت کا صدر کوئی موروثی حکمران مقرر نہیں کیا گیا، دستور کی ترکیب وضعی وفاقی ہے یعنی مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں دونوں موجود ہیں۔ جس میں ہر حکومت اپنے حدود میں پورے اختیارات استعمال کرتی ہے۔

دستور میں ہندوستان کو ریاستوں کی ایک یونین کہا گیا ہے، اگرچیکہ 'وفاق' کی بجائے لفظ 'یونین' استعمال ہوا ہے لیکن یہ یونین دراصل ایک وفاقی یونین ہے جو امریکہ کی وفاقی حکومت کے مماثل ہے۔ ہمارے دستور کی خاص خوبی یہ ہے کہ بظاہر اس کی دوہری وحدت ہے مگر یونین کے استحکام کے لئے اس کے مقاصد یکساں ہیں مثلاً امریکہ میں دوہری شہریت ہے (1) وفاقی شہریت اور (2) ریاستی شہریت۔ مگر ہندوستان میں یونین کی ایک ہی شہریت ہے اور یہ بھی 26/جنوری 1950ء کی بجائے، 26/نومبر 1949ء یعنی تاریخ منظورئ دستور سے قائم ہو گئی (دفعہ 394)۔

ہمارے دستور میں عدلیہ واحد ہے۔ دیوانی اور فوجداری قوانین میں یکسانیت ہے۔ کل ہند خدمات یونین اور ریاستوں کے لئے ایک ہی حدود میں محدو د ہیں، کسی ریاست کو ہرگز یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ یونین سے الگ ہو جائے یا اپنا علیحدہ دستور بنائے۔ امریکہ کے دستور میں مقننہ، عاملہ اور عدلیہ ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں، مقننہ جو کوئی قانون جاری کرے عدلیہ کو اس کی جانچ کا پورا اختیار حاصل ہے، یہاں تک کہ وہاں نظریہ پولیس کا ایک جدید اصول وضع کیا گیا ہے جو عوام کے سود و بہبود سے متعلق ہے ، جس میں حفظان صحت، معاشری سماج اور عافیت عامہ کی ترقی شامل ہے۔
(ملاحظہ ہو دستوری قیود مصنفہ کولے، جلد 2 صفحہ 1223۔ اشاعت ہشتم)
اس کے برعکس انگلستان کی پارلیمان اعلی ترین ادارہ ہے، عدلیہ کو کوئی اختیار نہیں ہے ، کہ پارلیمان کے بنائے ہوئے قانون پر کوئی نقد و تبصرہ کرے۔ ہمارے دستور کی مقننہ اور عدلیہ ، امریکہ اور انگلستان کے بین بین ہے کہ جہاں ایک طرف مقننہ اپنی قانون سازی میں بلند ترین درجہ میں ہے اس کے ساتھ ہی عدلیہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کی جانچ کرے کہ کسی جدید قانون کے ذریعہ یا سابقہ قانون سے دستور کے بنیادی حقوق تو متاثر نہیں ہوتے؟ جس صورت میں عدلیہ کے ذریعہ ضمانت دی گئی ہے کہ تاحد مغائرت نافذہ قانون کالعدم ہوگا۔
اس طرح ہمارا دستور مقننہ انگلستان کے اعلی ترین اقتدار اور امریکہ کی سپریم کورٹ کے اعلی ترین اقتدار کے درمیان ایک صلحنامہ ہے۔ ہمارے دستور کی عدلیہ کا یہ معین اختیار بظاہر اس لئے بھی ضروری تھا کہ مقننہ اور عاملہ ہندوستان کے پارٹیوں کی اکثریت پر موقوف ہیں جہاں باعتبار حالات و زمانہ، تبدیلی کا امکان ہے اس لئے عدلیہ کو خود مختار ی بخشنا ہمارے دستور کا خاصہ ہے جو اپنے اقتدار میں بالکل آزاد ہے۔
اس طرح ہمارے دستور میں ہر قسم کی گنجائش اور لچک موجود ہے کہ جہاں یونین کی پارلیمان کو ایک طرف اپنے ابواب کی نسبت قانون سازی کے پورے اختیارات حاصل ہیں تو دوسری طرف آسٹریلیا کے دستور کے مطابق پارلیمان کو متبادل فہرست کے اختیارات قانون سازی بھی حاصل ہیں ، نیز ہمارے دستور میں ترمیم دستور کی بھی کافی لچک اور گنجائش موجود ہے جس کے لئے نہ استصواب عامہ کی ضرورت ہے اور نہ کسی میثاق کی پابندی۔ ہمارے دستور کی اہم خوبی یہ ہے کہ وہ جہاں ایک طرف وفاقی ہے ساتھ ہی باعتبار حالات وحدانی بھی ہے مثلاً جنگ یا قومی مفاجاتی حالت میں سارا ہندوستان ایک واحد اکائی ریاست میں مبدل ہوجاتا ہے۔

دستور ہند میں صدر جمہوریہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ امریکہ کے صدارتی طرز کا صدر ہے بلکہ پارلیمانی جمہوریہ کی طرز کا صدر ہے۔ اسی طرح ہند کی عاملہ بھی عوام کے پاس ذمہ دار ہے جو پارلیمان کی اکثریت پر قائم ہوتی ہے چنانچہ یہی عمل انگلستان کا ہے لیکن امریکہ میں عاملہ عوام کے پاس ذمہ دار نہیں ہے بلکہ صدر جمہوریہ ہی میعادی عاملہ کا اعلی ترین صدر ہے۔

دستور ہند کے 395 دفعات اور 8 ضمیمے ہیں۔
بظاہر یہ دستور طویل معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں کے کئی احکام کو دیگر ممالک کے دستور میں عام قوانین کے ذریعہ طے کیا گیا ہے مگر اس کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہو جاتا ہے جب کہ ہندوستان کی وسعت اور اس کی آبادی اور مختلف النوع مفادات کا خیال رکھا جائے جس کے باعث تحفظات ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی جدید آزاد شدہ مشنری کو خاطر خواہ چلانے کے لئے دیگر ممالک کے مختلف دساتیر پر نظر رکھ کر تفصیل سے احکام مدون کرنا ضروری تھا۔ مثال کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہدایتی اصول کو باب چہارم میں قائم کرنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ کسی اور دستور میں ایسے اصول محکوم نہیں ہیں جن کی پابند عدلیہ نہ ہو۔ یہ صحیح ہے کہ ہدایتی اصول کو صرف آزاد ریاست آئر لینڈ کے دستور کے مد نظر شریک کیا گیا ہے ، مگر یہ اصول عاملہ اور مقننہ کے لئے ایک ہدایت نامہ ہے بلکہ ہر انتخاب کے موقعہ پر ایک نظام نامہ ہے کہ جن کے ذریعہ برسر اقتدار پارٹی اپنی کارکردگی کو نمایاں کر سکتی ہے۔

ہند کی یونین (28) ریاستوں اور جزائر انڈومان و نکوبار پر شامل ہے۔ ریاستیں تین درجوں میں تقسیم ہیں۔ (باب:الف) جن کو سابق میں گورنر کے صوبہ جات کہا جاتا تھا (باب:ب) جو دیسی ریاستوں کے نام سے موسوم تھے اور (باب:ج) جو چیف کمشنر کے علاقے سمجھے جاتے تھے۔
15/اگست 1947ء کی آزادئ ہند کے بعد ہندوستان کا یہ عظیم الشان تاریخی کارنامہ ہے کہ اس کی (500) سے زیادہ دیسی ریاستیں ہندوستان میں ضم یا شریک ہوکر اس وقت باب(ب) میں (9) اور باب(ج) میں (7) اس طرح کل (16) ریاستوں کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس وقت یہ ریاستیں ہندوستان کے دوسرے صوبوں کے دوش بدوش مساوی وحدتوں کے موقف میں ہیں۔

دستور ہند پہلے شہریت سے بحث کرنے کے بعد بنیادی حقوق کو واضح کرتا ہے جن کی تعداد (7) ہے۔
(1)مساوات کا حق (2) آزادی کا حق (3)غصب کے خلاف حق (4) مذہب کی آزادی کا حق۔ (5) ثقافتی اور تعلیمی حقوق (6)جائداد کا حق (7) آئینی چارہ کار کا حق۔
دفعہ 17 میں چھوت چھات کو جرم قرار دیا گیا ہے ، دفعہ 19 ہر شہری کو آزادی کا حق بخشتا ہے۔

(1) تقریر اور اظہار خیال کی آزادی (2) مجتمع ہونے اور (3) جماعتیں قائم کرنے کی آزادی۔ (4) نقل و حرکت کی آزادی (5) سکونت اور قیام کی آزادی (6) جائداد حاصل اور اس پر قبضہ اور تصرف کی آزادی۔ (7) پیشہ تجارت یا کاروبار کی آزادی۔
دفعہ (21) شخصی اور ذاتی آزادی عطا کرتا ہے ، دفعہ (31) جائداد کی آزادی پر موثر ہے اور دفعہ (32) بنیادی حقوق کے حصول کا چارہ کار عطا کرتا ہے۔ دفعہ(21) میں الفاظ ضابطہ "معینہ قانون" جاپان کے دستور سے اخذ کئے گئے ہیں۔ امریکہ کے دستور میں "مناسب طریقہ قانون" کے الفاظ درج ہیں جس کے باعث وہاں عدلیہ کو ہر جہت سے برتری دی گئی ہے ، ہدایتی اصول میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ہر ریاست کو کیا کرنا چاہئے جس میں اہم امور یہ ہیں کہ:
(1) عوام کے سود و بہبود کو ترقی دے (2) شہریوں کے ذرائع معاش کے لئے مناسب وسائل مہیا کرے (3) کام کرنے اور تعلیم پانے کا حق ہو (4) بیروزگاری کی صورت میں امداد حاصل ہو مثلاً ضعیفی بیماری اور معذوری کی حالت میں امداد (5) کام لینا انسانی ہمدردی پر مبنی ہو اور عورتوں کو زچگی کی سہولتیں دی جائیں۔ (6) چودہ سال کے بچے تک جبری اور مفت تعلیم ہو (7) مئے نوشی کا انسداد ہو (8) بین الاقوامی چین اور امن میں اضافہ ہو۔

یونین کے اعضا رئیسہ (1) عاملہ (2) مقننہ (3) عدلیہ ہیں۔
عاملہ کا اعلیٰ ترین افسر صدر جمہوریہ ہے ، تمام عاملانہ کاروبار اسی کے نام سے انجام پاتے ہیں، اس کا انتخاب ایک انتخابی کالج کے ذریعہ ہوتا ہے جو مرکز اور ریاستوں کے ایوان ہائے مقننہ کی متناسب نمائندگی پر واحد قابل انتقال رائے کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کی میعاد پانچ سال کی ہے مگر انتخاب مکرر کا بھی صدر جمہوریہ اہل قرار دیا گیا ہے۔ دستور کی خلاف ورزی کا الزام اس کی علیحدگی کا موجب ہو سکتا ہے۔ نائب صدر جمہوریہ بھی مرکزی ایوان مقننہ سے متناسب نمائندگی کے اصول پر منتخب ہوتا ہے جس کی میعاد پانچ سال ہے۔ امریکہ کی طرح ہندوستان کے وہ بالائی ایوان کا باعتبار عہدہ صدر نشین ہے ، صدر جمہوریہ کی اتفاقی غیر موجودگی میں نائب صدر جمہوریہ فرائض صدارت انجام دیتا ہے مگر امریکہ کی طرح نائب صدر صدارت کی مقررہ میعاد تک وہ فرائض انجام نہیں دیتا ، بلکہ صدر جمہوریہ ہند کے انتخاب تک فرائض صدارت انجام دیتا ہے۔

مرکزی حکومت کی نوعیت بالکلیہ پارلیمانی طرز کی حکومت ہے۔ صدر جمہوریہ کی وہی پوزیشن ہے جو انگلستان کے دستور میں بادشاہ کا درجہ ہے۔ صدر جمہوریہ کو امداد اور مشورہ ایوان وزراء کی جانب سے دیا جاتا ہے جو زیریں ایوان کے پاس اجتماعی طور پر ذمہ دار ہے۔ صدر جمہوریہ اپنے وزراء کے مشورہ کا پابند ہے اور اس کے تعلقات وزراء کے ساتھ اس طرح ہیں جس طرح شاہ انگلستان کے تعلقات اپنے وزراء سے مربوط ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس دستور میں صاف اور کھلے الفاظ میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ صدر جمہوری ہمیشہ وزراء کے مشورہ پر عمل کرے مگر اس عمل کو انگلستان کی طرح صرف میثاق پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
پارلیمان صدر جمہوریہ اور دو ایوان پر مشتمل ہے بالائی ایوان مجلس مملکت اور زیریں ایوان مجلس عمومی کے نام سے موسوم ہے۔ مجلس مملکت کے (250) ارکان ہیں جن میں (12) صدر جمہوریہ کے نامزد شدہ ہوتے ہیں جو خصوصی علم یا وسیع تجربہ کے حامل ہوں اور بقیہ ریاستوں کے نمائندگان ہیں۔ یہ نمائندگی آبادی کے تناسب سے قائم کی گئی ہے۔ ریاستوں میں جہاں ایوان مقننہ ہوں تو نمائندگان انتخاب کے ذریعہ مقرر ہوتے ہیں اور جہاں ایوان قانون نہ ہو تو نمائندگان کو اس طرح منتخب کیا جاتا ہے جس طرح پارلیمان مقرر کرے۔ ایوان عمومی (500) سے کم ارکان پر مشتمل نہیں ہے جو ریاست میں ہر بالغ رائے دہی کی اساس پر منتخب ہوتا ہے۔
ہر ساڑھے سات لاکھ کی آبادی پر جو پانچ لاکھ سے کم نہ ہو ایک رکن کو منتخب کیا جاتا ہے۔ ایوان مملکت ایک مستقل ادارہ ہے، وہ کبھی تحلیل نہیں ہوتا ہر دوسرے سال کے ختم پر ایک تہائی ارکان علیحدہ ہوتے ہیں۔ ایوان عمومی کی عام میعاد پانچ سال ہے۔ پارلیمان کے انتخابات، ریاستوں کے ایوان ہائے قانون کے انتخابات، صدر جمہوریہ ہند اور نائب صدر جمہوریہ کے انتخابات میں غیر جانبداری اور انصاف سے کام لینے کے لئے صدر جمہوریہ ایک کمیشن مقرر کرنے کا مجاز ہے۔ صدر انتخابی کمشنر کا مرتبہ بھی سپریم کورٹ کے جج کی طرح ہے جو اپنے عمل میں آزاد اور عاملہ کی دستبرد سے محفوظ ہے۔ فرقہ وارانہ اور جداگانہ انتخابات کو اس دستور میں ختم کر دیا گیا ہے۔ پارلیمان کی ایوان عمومی اور ریاستوں کی ایوان مقننہ کے انتخابات ہر بالغ رائے دہی کے اساس پر مبنی ہیں۔

صدر جمہوریہ پارلیمان کی ہر میقات پر شاہ انگلستان کی طرح اپنا خطبہ پیش کرتا ہے جس میں پارلیمان کو بحث کا موقعہ ملتا ہے۔ مالی مسودہ قانون کے سوا ہر مسودہ قانون کی ابتدا پارلیمان کے کسی ایک ایوان سے ہوسکتی ہے ، اور دونوں ایوان منظور کرلینے کے بعد صدر جمہوریہ کی منظوری سے وہ مسودہ بہ شکل قانون نافذ ہوتا ہے۔ دونوں ایوان میں اختلاف کی صورت میں مالی مسودہ قانون کو چھوڑ کر دوسرے مسودات کی نسبت صدر جمہوریہ دونوں ایوان کا مشترکہ اجلاس طلب کرتا ہے اور اکثریت آراء سے وہ مسودہ منظور کیا جاتا ہے۔ مالی مسودہ صرف ایوان عمومی میں پیش ہوتا ہے جہاں سے منظور ہونے کے بعد مجلس مملکت میں اپنی سفارشات کے ساتھ چودہ دن کے اندر واپس بھیجنے روانہ کیا جاتا ہے۔ اگر ایوان عمومی مجلس مملکت کے سفارشات سے اتفاق نہ کرے تو وہ مالی مسودہ پارلیمان کا منظور شدہ مسودہ سمجھا جائے گا عام اس سے کہ مجلس مملکت کے سفارشات قبول ہوں یا نہ ہوں۔ ایوان عمومی جو خرچ منظور کرے اس کو صدر جمہوریہ مصدق نہیں کرتا بلکہ اس منظورہ خرچ کو مسودہ قانون کی شکل میں بغرض منطوری پیش کیا جاتا ہے اس طرح سالانہ موازنہ کے وقت ایوان عمومی کو ہر مطالبہ پر کافی بحث و غور کا موقعہ ملتا ہے۔

عدلیہ، اس دستور کا اہم عنصر ہے کہ کیونکہ عدلیہ کا ہی واسطہ کار ہے جہاں ریاستوں کے مختلف عناصر میں متعدد قیود پر نگرانی اور ان کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کی ساری عدالتیں ایک ہی واحد رشتہ میں منسلک ہیں جس کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ ہے۔ سپریم کورٹ کے ماتحت ریاست کی ہائی کورٹ ہے اور ہائیکورٹ کے زیر اثر عدالت ہائے تحت ہیں۔ سپریم کورٹ کا ہر جج منجانب صدر جمہوریہ مقرر ہوتا ہے اور 65 سال کی عمر تک مامور بہ خدمت رہ سکتا ہے ، جج کی ماموری کے لئے وہ ہندوستان کا شہری ہونا، کسی ہائی کورٹ کا پانچ سال کے لئے جج ہونا یا دس سال تک ایڈوکیٹ ہونا ضروری ہے ، ایسے جج کو قبل از وقت صدر جمہوریہ کے حکم سے اس وقت علیحدہ کیا جا سکتا ہے جب کہ پارلیمان کے ہر ایوان کی اکثریت اور ارکان موجودہ کی دو تہائی اکثریت رائے سے اس کی علیحدگی کا مطالبہ ہو۔ ہر جج علیحدہ ہونے کے بعد وکالت نہیں کر سکتا اس طرح جمہوریہ ہند میں عدلیہ کی آزادی کو قائم رکھنے کے ہر ممکنہ وسائل اختیار کئے گئے ہیں۔

ہندوستان کے دستور میں سپریم کورٹ کو جس قدر وسیع اختیارات ہیں وہ کسی اور وفاق کی اعلیٰ ترین عدالت کو حاصل نہیں ہے۔ امریکہ کی سپریم کورٹ بھی ایک عام عدالت مرافعہ نہیں ہے ہندوستان کی سپریم کورٹ کو یونین اور ریاست یا ریاستوں کے درمیان یا آپس میں ریاستوں کے درمیان ہر نزاع کا جداگانہ اختیار سماعت حاصل ہے ، سپریم کورٹ سارے ہائی کورٹوں کی عدالت مرافعہ ہے جس میں مسائل قانونی جو دستور ہند کی تعبیر پر موثر ہوں اس کے اختیار سماعت میں داخل ہیں اس کے اختیارات بعینہ انگلستان کی پریوی کونسل کے مماثل ہیں۔
سپریم کورٹ کو بعض خاص مقدمات فوجداری میں بھی مرافعہ کے اختیارات سماعت حاصل ہیں، اس کو نگرانی کے اختیارات نہ صرف ہائیکورٹوں پر حاصل ہیں بلکہ ان خصوصی حکام پر بھی حاصل ہیں جو قانون کی خاص اصطلاح میں عدالتیں نہیں سمجھے جا سکتے۔ اس کو بنیادی حقوق کے اختیارات نافذ کرنے میں خصوصی اقتدار حاصل ہے، سپریم کورٹ کناڈا کے سپریم کورٹ کی طرح خاص مشاورتی عدالت بھی ہے۔ ہائیکورٹوں کی تعظیم بھی اس اصول پر مبنی ہے جس طرح کہ سپریم کورٹ کی قرار دی گئی ہے اور جج صاحبان جو صدر جمہوریہ کی جانب سے مقرر ہوتے ہیں اونہی حقوق اور مراعات سے مستفید ہوتے ہیں جو سپریم کورٹ کے ججوں کو حاصل ہیں ہائیکورٹ کا جج صرف 60 سال کی عمر کو پہونچنے پر علیحدہ ہوگا۔
ہائی کورٹ کو وہی اختیار سماعت حاصل ہیں جو نفاذ دستور ہند سے عین ماقبل حاصل تھے لیکن بعض قیود جو سابق میں اختیار سماعت کے استعمال میں عارض تھے وہ دور کر دئے گئے۔ ہر ہائی کورٹ کو حکمنامہ کے شاہی اختیارات اپنے ایسے حدود میں، جہاں کہ مرافعہ کا اختیار سماعت نافذ ہے یہاں تک کہ وہ حکمنامہ "کسی اور غرض کے لئے" بھی مستعمل ہو سکتا ہے۔ یہ اختیار سپریم کورٹ کو بہ نوبت ابتدائی حاصل نہیں ہے ، (ملاحظہ ہوں دفعات 226 و 32) امور مالگزاری کے اختیار سماعت سے متعلق سابق میں جو قیود تھے وہ اب برخاست ہوکر ہائیکورٹ سے متعلق کئے گئے ہیں (ملاحظہ ہو دفعہ 225) نیز ٹریبونل پر بھی نگرانی کا اقتدار ہائی کورٹ کو حاصل ہے۔

ریاستوں میں باب (الف) کی ریاستوں کا صدر گورنر ہے اور باب(ب) کی ریاستوں کا صدر راج پرمکھ ہے جسے صدر جمہوریہ نے تسلیم کیا ہو۔ گورنر کا تقرر منجانب صدر جمہوریہ پانچ سال کی میعاد کے لئے ہوگا، نظم و نسق کا دستوری طریقہ دونوں اقسام کی ریاستوں میں یکساں اور متحد ہے۔ گورنر یا راج پرمکھ مجلس وزراء کے مشورہ پر عمل کرتا ہے جو مجلس ریاستی ایوانی مقننہ کے پاس یعنی ریاست کی زیرین ایوان کے پاس ذمہ دار ہے۔ ہر ریاست کی ایک ایوان مقننہ ہے جو گورنر یا راج پرمکھ پر مشتمل ہے اور بعض ریاستوں میں دو ایوان ہیں ایک مجلس مقننہ اور دوسری مجلس قانون ساز۔ پارلیمان بذریعہ قانون ایسی مجلس قانون ساز کو یا تو ختم کر سکتا ہے یا جدید طور پر قائم کرسکتا ہے۔ مجلس مقننہ ایسے ارکان پر مشتمل ہوگی جو بالغ رائے دہی کی اساس پر منتخب ہوں۔ ہر رکن پون لاکھ کی آبادی کے تناسب سے مقرر ہوگا مگر کسی مقننہ میں ساٹھ سے کم اور پانچ سو سے زیادہ ارکان نہ ہونگے۔ مجلس قانون ساز کے ارکان مجلس مقننہ کے ارکان کے ایک چوتھائی پر مشتمل ہونگے مگر کسی حال اس میں چالیس سے کم ارکان نہ ہون گے جس میں سے نصف ارکان مجلس مقامی جامعات کے طیلسانین اور مدرسین کی طرف سے منتخب ہوں گے ایک تہائی ارکان مقننہ کی جانب سے منتخب ہونگے جو فی الواقع ارکان مقننہ نہ ہوں اور بقیہ گورنر کے نامزد شدہ ہونگے۔

مسودات قانون کی پیش سازی کا طریقہ کار قریب قریب ایسا ہی جیسا کہ پارلیمان کا ہے لیکن کسی ایسی ریاست میں جہاں قانون کے دو ایوان ہوں وہاں کسی مسودہ قانون کی نسبت اختلاف ہونے پر مشترکہ ایوان کے اجلاس کی نسبت کوئی احکام نہیں ہیں جیساکہ پارلیمان کے دونوں ایوان کی صورت میں ہیں۔ مگر کسی حال بھی زیرین ایوان کا فیصلہ قطعی اور قابل عمل ہوگا۔
تیسرا جزو ریاستون کے باب (ج) کا ہے ان کا نظم و نسق مرکزی حکومت کی جانب سے بواسطہ چیف کمشنر مقرر کردہ صدر جمہوریہ ہوتا ہے البتہ پارلیمان کو ایوان مقننہ یا مشاورتی مجلس یا کوئی اور اقتدار قائم کرنے کا اختیار حاصل یہ تاکہ خود اختیاری طریقہ نظم و نسق قائم ہوسکے جزائر نکو بار اور انڈمان کا نظم و نسق مثل سابق مرکزی حکومت ہند سے متعلق ہے اور صدر جمہوریہ عمدہ حکمرانی کے لئے دساتیر العمل جاری کر سکے گا۔

پست علاقوں کے نظم و نسق کے لئے بھی دستور میں خاص احکام وضع ہوئے ہیں ضمیمہ جات پنجم اور ششم درج فہرست فرقوں اور قبائل کی نسبت مختص ہیں جس میں یہ اصول ملحوظ رکھا گیا ہے کہ اس رقبہ کے سکونتی باشندوں کا قریبی ربط حکومت سے رہے۔ درج فہرست فرقوں اور قبائل کے لئے ایوان ہائے مقننہ میں دس سال کے لئے خصوصی نشستوں کی مراعات دی گئی ہیں اس طرح ان کو تحفظات عطا کرنے کے لئے صدر جمہوریہ ایک خصوصی عہدہ دار بھی مقرر کرے گا دس سال کی مدت گزرنے پر ان کے حالات کی دریافت کے لئے ایک کمیشن کے تقرر کو بھی محفوظ کیا گیا ہے نیز دیسی عیسائیوں کو بھی تعلیم اور ملازمتوں سے متعلق میعادی مراعات دئے گئے ہیں۔

یونین اور ریاستوں کے یہ تعلقات ہیں کہ اس دستور کی تین فہرستیں ہیں۔ فہرست اول یونین کے اختیارات، فہرست دوم ریاستوں کے اختیارات اور فہرست سوم یونین یا ریاست کے متبادل اختیارات سے متعلق ہے جو امور کسی ایک فہرست میں درج نہ ہوں وہ کناڈا کے پارلیمان اور یونین سے متعلق ہیں۔ پارلیمان کو باب(ج) کی ریاستوں کے لئے نیز جزائر انڈمان اور نکو بار کے لئے ان قوانین کے وضع کرنے کا اقتدار حاصل ہے جو ریاستی فہرست میں مندرج ہیں۔
ریاستی ابواب میں مرکز کو غیر متوقعہ قومی مفاجات سے عہدہ برآ ہونے کے لئے مداخلت کا اختیار حاصل ہے چنانچہ حال میں 15 اگست 1950ء سے رسد اور قیمتوں پر قابو پانے کے لئے مرکزی نگرانی کا ایک قانون نافذ کیا گیا۔ مرکز کا یہی اقتدار جنگ اور بیرونی حملوں کی صورتوں پر بھی محیط ہے متبادل فہرست کے ابواب میں جہاں مرکزی قانون اور ریاستی قانون میں فرق یا اختلاف ہو تو مرکزی قانون قابل نفاذ ہوگا۔

مالیات سے متعلق انگلستان اور مملکت آسٹریلیا اور کنیڈا کو ملحوظ رکھتے ہوئے یونین اور ریاستوں کے لئے علیحدہ علیحدہ منضبط فنڈ قائم کئے گئے ہیں۔ یونین کی یا ریاستوں کی جو بھی متعلقہ آمدنی ہو وہ اپنے اپنے متعلقہ فنڈ میں جمع ہوگی۔ مالیاتی مسائل میں پارلیمان کا اقتدار اعلیٰ اس طرح تسلیم کیا گیا ہے کہ یونین یا ریاستوں کے منضبط فنڈ کی گنجائش سے کوئی رقم برداشت نہیں کی جائے گی جب تک کہ یونین کی پارلیمان سے ریا ریاستی ایوان مقننہ سے ایسی منظوری بذریعہ قانون نہ لی جائے۔ پارلیمان یا ایوان مقننہ کی منظوری مجاز صادر ہونے تک غیر متوقعہ اخراجات کی سبیل کے لئے خواہ وہ یونین کے ہوں یا ریاستوں کے جداگانہ فنڈ بنامزد 'ناگہانی فنڈ' قائم کئے گئے ہیں۔
مرکز اور ریاست میں آمد اور خرچ کی تقسیم اور تبویب حسابی انہی اصولوں پر قائم ہے جو سابق میں قانون وفاق ہند بابت 1935ء کے تحت قائم تھی البتہ ایک مالیاتی کمیشن کے تقرر کا اس دستور میں اعلان کیا گیا ہے جو صدر جمہوریہ کے پاس اپنے سفارشات پیش کرے گا کہ مرکز اور وحدتوں میں آمدنی اور خرچ کے تناسب سے کیا مالیاتی امدادیں مہیا کی جائیں۔

یونین کے ایوان مقننہ کی عالیہ میقات اگست 1950ء میں وزیر مالیہ نے ایک رکن کے سوال کا جواب دیتے ہوئے مستقبل قریب میں مالیاتی کمیشن کے تقرر کی جانب اشارہ کیا۔ دستور میں صدر ناظم حسابات و تنقیح کاعہدہ قائم کیا گیا ہے جس پر تقرر صدر جمہوریہ کرے گا یہ عہدہ دار نہ صرف یونین کے حسابات پر نگرانی رکھے گا بلکہ ریاستوں کے جملہ حسابات بھی اس کے زیر نگرانی رہیں گے۔
چنانچہ بیرون ہند دیگر ممالک کی ریاستوں میں جہاں کہیں سفارت خانے قائم ہیں وہاں کے حسابات کی نگرانی بھی اسی عہدہ دار سے متعلق ہے اس عہدہ دار کا اہم اور اولین کام یہ ہے کہ نہ صرف یونین اور ریاستوں کے مالیات پر موثر نگرانی قائم رکھے بلکہ یہ معلوم کرے کہ کوئی خرچ جیسے پارلیمان یا ریاستی مقننہ نے منظور کیا ہو اور وہ قانون منظورہ میں شریک ہو اس میں کسی قسم کا تجاوز یا تبدیلی تو نہیں ہوئی ہے۔
تجارت، کاروبار، بیوپار ہندوستان کے سارے علاقہ میں آزاد ہے البتہ پارلیمان یا ریاستی مقننہ کو مفاد عامہ کی خاطر مناسب قیود عائد کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ہندی کو یونین کی سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے البتہ ریاستوں کو یہ آزادی حاصل ہے کہ ایک یا اس سے زیادہ مستعملہ زبانوں کو یا ہندی کو سرکاری زبان قرار دیں۔ بحالت موجودہ نفاذ دستور سے عین ماقبل صرف پندرہ سال تک انگریزی کا استعمال قائم رہے گا ، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں میں انگریزی زبان فیصلوں ڈگریات یا کارروائیات عدالتی کے لئے جاری رہے گی۔ نیز مسودات قوانین اور قواعد وغیرہ کو بزبان انگریزی مدون کرنے کی نسبت اس دستور میں احکام دئے گئے۔

صراحت صدر تجزیہ سے دستور ہند کا ہمہ گیر تجزیہ نہیں ہوتا، یہ صرف ایک کوشش ہے کہ اس دستور کے اہم ابواب واضح کئے جائیں۔ دستور ہند سے نہ صرف اصلی جمہوریت کی داغ بیل ڈالی گئی ہے بلکہ ایک ایسی مشنری قائم کی گئی ہے جو اگر باقاعدگی سے چلائی جائے تو قومی خوشحالی اور عوام کی بہبودی کا صاف اور سیدھا راستہ نکل آئے گا اور ہمارے ملک کو استحکام اور استواری حاصل ہوگی۔

***
ماخوذ از کتاب: دستور ہند 1951 (منظورہ صدر جمہوریہ ہند مورخہ 18/جون 1951)
اردو ترجمہ: مولوی محمد علی حسین ایڈوکیٹ
طباعت زیر اہتمام: محکمہ معتمدی قانون، حکومت حیدرآباد دکن۔

26th January, Enforcement of the Constitution - Outline of the Constitution of India.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں