محمد سراج - جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-25

محمد سراج - جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ

ہندوستانی ٹیم کے تیز گیند باز محمد سراج کے ساتھ مضمون نگار عبدالرحمن پاشا
19/جنوری 2021 کا دن ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے لیے بڑا تاریخ ساز اور عظیم ترین دن ہے۔ کیونکہ اسی دن ہندوستان کی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا میں شاندار انداز میں کھیل کر خود آسٹریلیا کی سرزمین پر ٹیم آسٹریلیا کو تقریباً 32 برس بعد ہرا دیا اور اپنی زبردست فتح درج کرائی۔
بارڈر گاؤسکر ٹرافی کے چوتھے ٹیسٹ میچ میں ہندوستانی ٹیم نے میزبان آسٹریلیا کو تین وکٹوں سے شکست دے کر سیریز 1-2 کو اپنے نام کر لیا۔ آسٹریلیا میں واقع گابا انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے گئے چوتھے ٹیسٹ میچ کے پانچویں روز ہندوستانی ٹیم نے آسٹریلیائی ٹیم کے 328 رنز کے ہدف کا تعاقب کیا اور جملہ 329 رنز بنا کر یہ میچ اپنے نام کر لیا۔
ہندوستانی ٹیم میں رشبھ پنت، چیتیشور پجارا اور شبھمن گل کی شاندار بلے بازی کی بدولت اس طرح کی زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ ٹیم انڈیا میں شامل نمایاں نام اور تیز رفتار گیند باز محمد سراج نے بھی اپنا کلیدی رول ادا کیا۔ محمد سراج نے آسٹریلیا کے خلاف ہندوستان کے لیے سب سے زیادہ یعنی 13 وکٹیں حاصل کیں۔ جس کے بعد ان کی عالمی سطح پر ایک منفرد شناخت بن گئی ہے۔ اسی بنا پر محمد سراج کی نمایاں کارکردگی کی ستائش کے لیے کرکٹ فیڈریشن آف انڈیا (سی ایف آئی) نے اعلان کیا ہے کہ ایک تقریب منعقد کر کے محمد سراج کو اہم اعزاز سے نوازا جائے گا۔
علاوہ ازیں بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) کے صدر سورو گنگولی نے ہندوستانی ٹیم کی کامیابی کو ناقابل فراموش تاریخ قرار دیا ہے۔ روزنامہ سیاست (اشاعت: 24/جنوری) کی ایک خبر کے مطابق محمد سراج کو مہندرا اینڈ مہندرا کی جانب سے اس کے چیرمین آنند مہندر نے تہار ایس یو وی کار تحفہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ آنند مہندرا نے سوشل میڈیا پر ہندوستانی نوجوان کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی کی دل کھول کر ستائش کرتے ہوئے محمد سراج کے علاوہ پانچ دیگر نوجوان کھلاڑیوں شبھمن گل، این انڑاجن، شردول ٹھاکر، نودیپ سائنی اور واشنگٹن سندر کو بھی یہ کار تحفہ میں دینے کا اعلان کیا ہے۔

محمد سراج کی جستجو اور کارکردگی:
حیدرآباد کے ٹولی چوکی سے تعلق رکھنے والے محمد سراج کا ٹیم انڈیا میں کھیلنا کئی اعتبار سے منفرد رہا اور بہت چیلنجنگ بھی، اس کے لیے کہ کھیل کے دوران ان کے والد گرامی کا انتقال ہو گیا، جو کہ سراج کا سب سے بڑا سہارا تھے۔
والد کے انتقال کے بعد انھیں آپشن بھی دیا گیا کہ وہ چاہیں تو میدان چھوڑ کر اپنے والد کے دیدار اور نمازہ جنازہ کے لیے حیدرآباد جا سکتے ہیں، لیکن انھوں نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا اور اپنے ملک کے لیے کھیلنے کو سب سے زیادہ ترجیح دی۔ ابھی سراج اس غم سے دوبھر بھی نہیں ہوئے تھے کہ انھیں آسٹریلیا میں نسلی بنیادوں پر نکتہ چینیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کئی لوگوں نے ان کے نام اور شخصیت کی بنا پر طرح طرح کے فقرے کسے اور ان کی ہتک عزت بھی کی گئی، لیکن سراج کا مطمع نظر ایک تھا۔ سراج نے راہ کی ان الجھنوں پر کبھی اپنی توجہ کو منتشر نہیں کیا۔ انھیں اپنے مقصد سے جنون کی حد تک عشق ہے۔

محمد سراج کی پیدائش 13/مارچ 1994 کو حیدرآباد میں ہوئی۔ ان کا بچپن غریبی اور نامساعد حالات میں گزرا۔ انھیں بچپن ہی سے کرکٹ کھیلنے کا شوق رہا۔ سراج نے اپنے شروعاتی دور ہی سے جی جان لگا کر زبردست محنت کی۔ ان کے والد محمد غوث کا بھی خواب تھا کہ ان کے فرزند ہندوستان کی ٹیم کے لیے کھلیں اور پوری دنیا میں حیدرآباد کے ساتھ ساتھ ملک کا نام روشن کرے۔ محمد سراج نے اپنے کیریئر کا آغاز ٹینس بال کرکٹ سے کیا۔ اس دوران وہ چارمینار کرکٹ کلب (سی سی سی) میں ایک بلے باز کی حیثیت سے جوائن ہوئے اور ساتھ ساتھ انھوں نے ایک بہترین اور تیز گیند باز کے طور پر اپنی منفرد پہچان بھی بنائی۔ اس کے بعد انھوں نے سنہ 16-2015 میں حیدرآباد کے لیے رجنی سیزن میں داخلہ لیا اور سنہ 17-2016 میں حیدرآباد کے لیے سب سے زیادہ وکٹ لینے والے کھلاڑی بن گئے۔

والد کے خواب کو فرزند نے حقیقت میں بدلا:
والدین اپنی اولاد کے لیے خوب دیکھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بہتر سے بہتر زندگی گزارے۔ ان کی اولاد جس کسی شعبہ میں رہے، اس میں اعلی سے اعلی ترین کامیابی حاصل کرے۔ اسی بنیاد پر وہ اپنی اولاد پر فخر بھی کرتے ہیں اور یہ اولاد اپنے والدین کے لیے چین و سکون، عزت و شہرت اور قلبی اطمینان کا باعث بنتی ہے۔
محمد سراج کے والد محمد غوث آٹو رکشا ڈرائیور تھے۔ ان کا ذاتی مکان نہیں تھا بلکہ وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ مگر اپنی اولاد کے سلسلے میں ان کی امیدیں، آرزؤیں اور خواب بہت بلند تھے۔ وہ آٹو رکشا ڈرائیور تو تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے سواریوں کو منزلِ مقصود تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنے فرزند محمد سراج کو اعلی مقام تک پہنچانے کے خواب بھی دیکھا کرتے۔ انھیں لگتا کہ جیسے میں اپنے سواریوں کو ان کے مقام تک پہنچا رہا ہوں، اسی طرح میرا فرزند بھی ایک دن مقام بلند تک پہنچے گا۔ وہ بھی اپنے سفر کا راہی ہے۔ اسے بھی ایک طویل سفر طئے کرنا ہے۔ یہ سفر مرحوم محمد غوث کا خواب تھا، جسے محمد سراج نے ہندوستانی ٹیم کے لیے کھیل کر پورا کیا۔ اس سے قبل سراج نے سب کو اس وقت چونکا دیا، جب سنہ 2017 میں انڈین پریمیئر لیگ میں کھیلنے کے لیے سَن رائزس حیدرآباد نے انھیں 2.6 کروڑ روپیے میں اپنی ٹیم کے لیے منتخب کیا۔

آسٹریلیا میں میچ کے دوران ان کے والد محمد غوث کا 20/نومبر 2020 کو انتقال ہو گیا۔ یہ محمد غوث (مرحوم) ہی تھے، جنہوں نے اپنے ہونہار فرزند کو بچپن ہی سے ایک خواب دکھایا جسے وہ پورا کرنے میں لگے رہے۔ جب سراج نے اپنے والد کے اس خواب کو پورا کیا تب ان کے والد اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس لیے انھیں میچ کے دوران اپنے والد کی جدائی کا شدید غم ہوا، وہ جذباتی کرب میں مبتلا ہوئے۔ سراج کے بڑے بھائی محمد اسماعیل کا کہنا ہے کہ اس غیر متوقع سانحہ پر بھی ان کی والدہ ماجدہ نے انھیں سہارا دیا اور صبر کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کی تاکید کی۔
یہی وجہ ہے کہ سراج آسٹریلیا سے واپسی کے فوری بعد 21/جنوری 2021 کو راجیو گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترتے ہی قبرستان چلے گئے، جہاں ان کے والد مدفون ہیں۔ انھوں نے اپنے والد کی قبر پر گل ہائے عقیدت پیش کیا اور دعائے مغفرت کی۔ یوں لگ رہا تھا کہ سراج زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں کہ ۔۔۔
ابّا! آپ دیکھنا چاہتا تھے نا کہ میں ہندوستانی ٹیم کے لیے کھیلوں۔ ابّا میں نے آپ کے اس خوب کو پورا کرنے کی جی جان سے کوشش کی۔ ابّا میں نے ہندوستانی ٹیم کے لیے کھیل کر دنیا بھر میں ہندوستان کا سر بلند کیا ہے۔ ابّا آپ کے خواب کو میں نے حقیقت میں بدل دیا۔ ابا جی! میں آپ کے خواب کو پورا کرنے اور ہندوستان کے لیے کھیلنے کے جذبہ کے تحت آپ کی نماز جنازہ سے بھی محروم رہا۔ ابا آپ نے ہی تو میری پرورش کر کے مجھے اس مقام تک پہنچایا ہے۔ ابا آپ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ لیکن میں ہمیشہ آپ کو یاد رکھوں گا۔۔ ابا اللہ تعالٰی آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ آمین۔

ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ روی شاستری نے تیز گیندباز محمد سراج کو دورہ آسٹریلیا کی دریافت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ذاتی نقصان اور تماشائیوں کی طرف سے نسلی تبصروں کا سامنا کرنے کے باوجود انہوں نے ہندوستانی ٹیم کی تاریخی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
جوانوں کو خواب دکھائیے!
محمد سراج کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سراج کو محض 26 برس کی عمر میں اتنی بڑی کامیابی کیسے ملی؟ کیسے وہ ایک مقامی نوجوان سے ایک عالمی شہرت یافتہ تیز گیند باز بن گئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ ان کی اپنی جستجو ہے، ان کی اپنی محنت ہے، ان کی اپنی لگن ہے، ان کا اپنے پیشے سے بے پناہ محبت و تعلق ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان کی سینے میں اس طرح کی چنگاری کس نے پیدا ہے؟
اس بارے میں سراج کا بار بار کہنا ہے کہ: "میرے والد کا خواب تھا کہ میں ٹیم انڈیا کے لیے کھیلوں"۔ والد کا یہی خواب سراج کے لیے زبردست تحریک (Motivation) بن گیا۔ جس کو پورا کرنے میں وہ دل و جان سے لگ گئے۔
mohammad-siraj

معروف نیو کلیر سانئس دان و سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام (پیدائش: 15/اکتوبر 1931 - وفات: 27/جولائی 2015) کا مشہورقول ہے کہ:
خواب وہ نہیں ہے جو آپ نیند میں دیکھیں، خواب وہ ہے جو آپ کو نیند ہی آنے نہ دے۔
سراج اس قول کی عملی شکل بن گئے۔
اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں عموماً دیکھا جاتا ہے کہ معمولی کاموں اور چند پیسوں کے لیے کم عمر بچوں کو کسی کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ جس سے وقتی ضرورت تو پوری ہو جاتی ہے، لیکن بچے کا ذہنی یکسوئی مفقود ہو جاتی ہے اور وہ شروع ہی سے حقیر چیزوں کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔ اسی وجہ سے نہ اس کے سامنے کوئی واضح مقصد ہوتا ہے اور نہ وہ کوئی بڑاخواب دیکھ سکتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو ان کے بچپن ہی سے سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔ ان کی تربیت اس انداز میں ہو کہ وہ اپنے لیے، اپنے خاندان کے لیے اور ملک و قوم کے لیے کچھ مثبت کر سکیں۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کم عمر لوگوں نے ہی دنیا میں بڑے بڑے کام کر دکھائے ہیں۔ وہ اس لیے ممکن ہو پایا ہے کہ انہیں اپنے بچپن ہی سے اس طرح کی تربیت ملی تھی۔ ان کے بڑوں نے انھیں بامقصد زندگی جینے کا سلیقہ سکھایا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کن چیزوں میں زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔ کون سے ایسے شعبے ہیں، جن میں وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر کے ترقی کر سکتے ہیں۔ اس لیے بڑوں کا تجربہ اور چھوٹوں کی جدت ضروری ہے۔

محمد سراج کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ انھیں دنیا کو اپنی کارکردگی دکھانی پڑتی ہے۔ تب ہی ان کی قدر میں اضافہ ہوگا۔ محمد سراج کی اس شاندار کامیابی سے بہت سے نوجوانوں میں امید کی نئی کرنیں پیدا ہوئی ہیں۔ اگر کسی کے اندر صلاحیت، بہترین کارکردگی اور مقابلہ کرنے کی قوت ہے، تو دنیا اس کا استقبال کرتی ہے، بس ضرورت ہے کہ وہ آگے بڑھ کر کسی بھی شعبہ میں اپنی اہمیت کو منوائیں۔
بقول علامہ اقبال:
تو رہ نورد شوق ہے ، منزل نہ کر قبول
ليلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

***
AbdurRahman Pasha, Musheerabad, Hyderabad.
mrpasha1994[@]gmail.com
موبائل : 09014430815
محمد رحمٰن پاشا

Mohammad Siraj, the rising star of Indian Cricket. Article: AbdurRahman Pasha

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں