تمام دنیا ہلاری [Sir Edmund Hillary] اور تین سنگ [Tenzing Norgay / Sherpa Tenzing] کے اس کارنامہ پر فخر کر رہی ہے کہ ان دو بہادروں نے کوہ ایورسٹ کی چوٹی کو سر کر لیا (بتاریخ: 29/مئی 1953ء)۔ لیکن بہت کم لوگ ان مصائب، خطرات اور تکالیف کا اندازہ کر سکتے ہیں جن سے ان دو بہادروں کو گزرنا پڑا۔ ایورسٹ پر پہنچنے والے ایڈمنڈ ہلاری نے اپنی اس مہم کا حال خود لکھا ہے۔
یہ مضمون ہفت روزہ 'آئینہ' (نئی دہلی) کے شمارہ 4/اپریل 1955ء میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ واضح رہے کہ یہ ہندوستان کا وہ یادگار ہفت روزہ تھا جس کی اشاعت کا آغاز ادارۂ شمع جیسے موقر ادارے نے اپنے مقبول عام رسائل شمع، بانو، کھلونا، مجرم، شبستان کے ساتھ کیا تھا، مگر متذکرہ رسائل کے بالمقابل یہ اخباری شکل کا میگزین زیادہ عرصہ تک شاید جاری نہیں رہ سکا۔ امکان غالب ہے کہ سر ہلاری کے اس مضمون کا اردو ترجمہ خود ادارۂ شمع نے کیا ہو۔
27/مئی کو صبح میں جلدی ہی اٹھ بیٹھا ، سخت سردی کے باعث تمام رات مشکل سے ہی نیند آئی تھی ، اور میری حالت بہت ہی خستہ ہو رہی تھی ، میرے ساتھی لو، جارج اور تین سنگ مخروطی خیمہ میں پڑے ہوئے کروٹیں بدل رہے تھے۔ تاکہ سخت سردی کے احساس میں کچھ کمی ہو سکے ، ہوا بہت تیز تھی اور پوری طاقت سے چل رہی تھی، ہوا کی زور دار آواز کے باعث تمام رات گہری نیند سونا ممکن نہیں ہوسکا تھا ، بستر میں سے ہاتھ نکالنے کو دل تو نہیں چاہتا تھا لیکن بادل ناخواستہ ہاتھ نکالا اور گھڑی دیکھی صبح کے چار بجے تھے ، دیا سلائی جلائی اور اس کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں تھرما میٹر دیکھا ، درجہ حرارت 35 ڈگری تھا، یعنی نقطہ انجماد سے 25 ڈگری کم، ہمارا کیمپ کوہ ایورسٹ کے جنوبی درہ میں تھا۔
ہمیں امید تھی کہ ہم اس دن جنوب مشرقی پہاڑی بلندی پر اپنا کیمپ قائم کر سکیں گے لیکن سخت ہوا کے باعث اس مقام سے روانہ ہونا ہی ناممکن تھا، لیکن ہمیں تیار رہنا تھا تاکہ جوں ہی ہوا کا زور ختم ہو ہم اپنے سفر پر روانہ ہو سکیں۔ میں نے تین سنگ کو بلایا اور اس سے کھانے پینے کے متعلق چند باتیں کہیں، تین سنگ کی عجیب عادت یہ ہے کہ اس کو کبھی کوئی شکایت کرتے ہوئے نہیں سنا گیا، تین سنگ سے باتیں کرنے کے بعد پھر میں اپنے بستر پر لیٹ گیا ، جلد ہی سٹوو جلنے کی آواز آئی اور خیمہ کی ہوا میں گرمی پیدا ہوگئی ، ہم اٹھ بیٹھے ، ہمارے اندر تازگی پیدا ہوگئی اور ہم بسکٹ کھانے اور گرم پانی پینے لگے جس میں شکر اور لیموں ڈالا گیا تھا ، گریگوری اور میں اپنے دن کے پروگرام کے متعلق گفتگو کرنے لگے ، لیکن ہم پر مایوسی کی ایک کیفیت چھائی ہوئی تھی۔
9 بج چکے تھے لیکن ہوا کا زور و شور بدستور تھا، میں اپنے گرم کپڑے پہنے ہوئے خیمہ سے باہر نکلا اور اس چھوٹے سے خیمہ کی طرف چلا تھا جس میں جان ہنٹ چارلس ایون اور ٹام بورڈیلن تھے۔ ہنٹ نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ ایسے خراب موسم میں آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ آنگ ٹیمبا بیمار ہو چکا تھا اور اس کو آگے لے جانا بظاہر ممکن نہیں آتا تھا، اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو ایونس اور بورڈویلن کے ساتھ نیچے کیمپ میں بھیج دیا جائے۔ دوپہر کے قریب یہ لوگ ساتویں کیمپ کے لئے روانہ ہو گئے، آخری لمحہ ہنٹ نے بورڈیلن کی کمزور حالت کے باعث اس جماعت کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرلیا میں اور ان لوگوں کی مدد کے لئے درہ کے اوپر تک گئے اور وہاں کھڑے ہوکر ہم نے ان لوگوں کو ساتویں کیمپ کے لئے نیچے جاتے ہوئے دیکھا۔
تمام دن ہوا کا زور نہیں ٹوٹا اور ہم نے مایوس ہوکر اگلے دن درہ سے نکل کر اوپری حصہ میں کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا، کیوں کہ اگر ہم اس درہ میں پڑے رہتے تو نتیجہ حالات کے اور زیادہ خراب ہونے اور ہماری کمزوری کی صورت میں ظاہر ہوتا ، سخت ہوا کے باعث دوسری رات بھی بے چینی سے گزری لیکن چوں کہ ہم فی منٹ ایک لیٹر کے حساب سے آکسیجن کا استعمال کررہے تھے اس لئے ہم چھ یا سات گھنٹہ تک نیم خوابی اور نیم بیداری کی حالت میں گزار سکے۔
دوسرے دن صبح بھی ہوا کا وہی زور تھا لیکن آٹھ بجے کے قریب اس کے زور میں کمی ہو گئی اور ہم نے روانہ ہونے کا فیصلہ کرلیا لیکن ایک اور مصیبت آن پڑی۔ پیمبا سخت بیمار ہوگیا ، وہ آگے نہیں جا سکتا تھا ، اب صرف ایک قلی رہ گیا ، جو ہمارا سامان لے جاسکتا تھا وہ تھا آنگ نائما، ہمارے ساتھ تین قلی تھے اب ان میں سے صرف ایک رہ گیا تھا۔ لیکن ہم آگے بڑھنے کی کوشش کو ترک بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لئے ہم نے خیمہ خود ہی لے جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے سامان باندھ لیا ، البتہ غیر ضروری چیزوں کو وہیں چھوڑ دیا، یہاں تک کہ بوجھ کو ہلکا کرنے کے لئے ہمیں آکسیجن کے ذخیرہ میں بھی کمی کرنی پڑی۔
پونے نو بجے گریگوری آنگ نائمبا روانہ ہوگئے ، ہر ایک کے پاس چالیس پونڈ وزن تھا اور ہر شخص چار لیٹر فی منٹ کے حساب سے آکسیجن سانس کے ساتھ جذب کر رہا تھا، تین سنگ اور میں بعد کو روانہ ہونے والے تھے تاکہ ہم اس راستے پر جو ہم سے آگے جانے والے بنائیں آسانی سے چل سکیں اور اس طرح ہماری طاقت بھی برقرار رہے اور ہم آکسیجن کا استعمال بھی کم کریں۔ ہم نے اپنے کپڑے، بستر، خوراک اور آکسیجن سیٹ باندھے اور دس بجے روانہ ہوگئے ، ہم آہستہ آہستہ طویل ڈھالوں پر چڑھتے رہے ، اور برفانی چشمے کے نچلے حصہ تک پہنچ گئے، اس کے بعد ہم اس زینہ پر چڑھنے لگے جو لونے برف کے چشمہ کے ڈھال پر بنایا تھا، جب ہم اس زینہ پر چڑھ رہے تھے تو برف کے ٹکڑے ہمارے اوپر گر رہے تھے ، کیوں کہ ہم سے اوپر لو اور گریگوری برف کو کاٹ کر سیڑھیاں بنا رہے تھے ، ہم دوپہر کے وقت جنوب مشرقی پہاڑی پر پہنچ گئے یہاں ہمیں اپنی جماعت کے وہ لوگ مل گئے جو ہم سے آگے جاچکے تھے۔ قریب ہی ہمیں ٹوٹا پھوٹا خیمہ نظر آیا جو سوئزر لینڈ کے کوہ پیماؤں نے گزشتہ سال قائم کیا تھا اور جہاں سے تین سنگ اور لیمبرٹ نے چوٹی پر پہنچنے کی بہادرانہ کوشش کی تھی۔
یہ جگہ بہت ہی حیرت انگیز تھی ، چاروں طرف خوبصورت مناظر تھے، ہم نے اس مقام پر بہت سے فوٹو لئے ، یہاں ہم بہت خوش تھے اور ہمیں یقین تھا کہ ہم جنوب مشرقی پہاڑی پر اپنا خیمہ نصب کرسکیں گے۔ ہم اپنے سامان کو کھینچتے ہوئے ایک سو پچیس فٹ اوپر چڑھ گئے اور اس ذخیرے تک پہنچ گئے جو ہنٹ اور اورن پہلے بنایا تھا۔ پہاڑی سخت ڈھلوان تھی لیکن برف کی اوپری تہہ کے باعث ہم بہ آسانی اپنے قدم جماسکے۔ یہاں چڑھا زیادہ مشکل نہیں تھا اگرچہ بعض ڈھلوان چٹانوں پر برف ایسا تھا کہ قدم رکھتے ہی اکھڑ جاتا تھا ، اس وجہ سے یہاں ہمیں زیادہ احتیاط سے کام لینا پڑا۔
ذخیرہ 27350 فٹ بلندی پر تھا لیکن چوٹی کے مقابلہ میں پھر بھی بہت نیچے تھا اور ہمیں زیادہ اوپر جانا تھا، اس لئے اپنے سامان کے علاوہ ہم نے اس ذخیرے سے بھی کچھ سامان لیا۔ گریگوری نے کچھ آکسیجن بھی لی ،لونے خوراک اور تیل وغیرہ لیا اور میں نے ایک خیمہ لیا، آنگ نائمبا کے پاس تقریبا چالیس پونڈ وزن تھا لیکن ہمارے پاس 35 یا 36 پونڈ وزن تھا۔ ہم آہستہ آہستہ پہاڑی پر چڑھتے رہے، وزن کے باوجود ہم برابر آہستہ آہستہ اوپر چڑھ رہے تھے۔ چٹان بہت ڈھلوان تھی اور لونے پچاس فٹ تک زینہ بنادیا تھا۔ تین بجے ہم تھک گئے اور کیمپ قائم کرنے کے لئے جگہ کی تلاش کرنے لگے۔ لیکن کوئی مناسب جگہ نہیں مل سکی اور ہم اوپر چڑھنے پر مصروف ہوئے ہم آہستہ آہستہ چڑھتے رہے لیکن ہمیں پھر بھی کیمپ کے واسطے مناسب جگہ نہیں ملی۔ ہم نامید ہوتے جارہے تھے کہ تین سنگ کو یکایک خیال آگیا کہ اس مقام پر گزشتہ سال اس نے کہیں کوئی چوڑ اخطہ دیکھا تھا چنانچہ اس نے ہم کو بائیں طرف چلنے کو کہا اور ہم بالآخر ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں کیمپ قائم کیا جا سکتا تھا۔
ڈھائی بج چکے تھے اور ہم نے یہاں کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، تمام دن لوہسٹے کی شان دار چوٹی کو دیکھتے رہے تھے لیکن اب یہ چوٹی ہمیں اپنے نیچے نظر آرہی تھی ، اس وقت ہم 27900 فٹ کی بلندی پر تھے ، لوگریگوری اور آنگ نائمبا نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے اپنے وزن زمین پر ڈال دئے وہ تھکے ہوئے تھے لیکن انہیں یہ اطمینان ضرور تھا کہ وہ کافی بلندی تک پہنچ چکے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے دن کی کامیاب چڑھائی ان کی ہی کوششوں کے باعث عمل میں آئی، انہوں نے وقت ضائع نہیں کیا اور وہ جنوبی درہ کے عقب میں چلے گئے۔
ہم نے اپنے ساتھیوں کو خوش خوش واپس جاتے ہوئے دیکھا، گو ہم تنہا رہ گئے ، پھر بھی ہمیں اس کا کامیابی پرمسرت تھی، ہمیں بہت کام کرنا تھا، ہم نے آکسیجن سیٹ علیحدہ کردئے اور کدالوں سے اس جگہ کو صاف کرنے لگے۔ ہم تمام برف کھودنے میں کامیاب ہوگئے ، چٹان نظر آنے لگی اور ہم خیمہ کے نصب کرنے کے لئے دو گز لمبے اور ایک گز چوڑے دو ٹکڑے بناسکے۔ لیکن ان دونوں کی سطح میں ایک فٹ کا فرق تھا، یہاں ہم نے اپنا خیمہ نصب کردیا،تین سنگ پانی گرم کرنے لگا اور میں نے آکسیجن کا جائزہ لینا شروع کیا، بد قسمتی سے آکسیجن کا ذخیرہ ہماری توقعات سے کم نکلا۔ ہم پروگرام کے مطابق فی منٹ چار لیٹر آکسیجن جذب نہیں کرسکتے۔ اس لئے تین لیٹر فی منٹ جذب کرنے کا فیصلہ کیا، خوش قسمتی سے ایونس اور بورڈیلن آکسیجن کی دو بوتلیں چھوڑ گئے تھے ، اور یہ دو نوں ہی بوتلیں ہمارے اس کیمپ سے کئی سو فٹ دور پڑی ہوئی تھیں اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ ان بوتلوں کو ہم واپسی کے وقت استعمال کریں گے۔
سورج غروب ہونے پر ہم اپنے خیمہ میں داخل ہوگئے ،تمام گرم کپڑے پہن لئے اور بستروں میں گھس گئے ، ہم نے بہت کچھ کھایا پیا، بسکٹ کھجوریں شہد وغیرہ۔ ہم نے خصوصیت سے استعمال کیا، اگرچہ ہم بہت بلندی پر تھے لیکن ہماری سانس ٹھیک چل رہی تھی ، البتہ ذرا سی جسمانی محنت سے ہم ہانپنے لگتے تھے ، تین سنگ نے ہوا سے بھرے ہوئے گدے کو چٹان کے ابھرے ہوئے حصہ پر لٹکا لیا تھا اور سونے کے لئے نیم دراز ہوچکا تھا۔
میں نے بھی زیادہ سے زیادہ آرام دہ نشست اختیار کرنے کی کوشش کی اور میں آدھا بیٹھا اور آدھا چٹان کے ابھرے ہوئے حصہ سے ٹک گیا اس طرح کہ میرے پاؤں چٹان کے نچلے حصہ سے جاکر لگ گئے ، یہ نشست بالکل آرام دہ تو نہیں تھی لیکن اس سے فائدہ پہنچا، ہر دس منٹ کے وقفہ سے سخت ہوا کے جھونکے چل رہے تھے ، ہوا آنے سے پہلے ہلکی چیخ سی آواز کرتی تھی جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ہوا کا جھونکا چلنے والا ہے۔ میں اس وقت اپنے پاؤں اور کاندھوں سے خیمہ کو سنبھال لیتا تھا ہوا کے جھونکے سے خیمہ دوہرا ہوجاتا تھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ اب یہ اکھڑ جائے گا لیکن اس طرح دبانے سے وہ رکا رہتا تھا۔ ہمارے پاس چار گھنٹے کی نیند کے لئے کافی آکسیجن تھی، جو ایک لیٹر فی منٹ کے حساب سے جذب کی جاسکتی تھی ، میں نے اس کو استعمال کرنے کا فیصلہ اس طرح کیا کہ نو بجے سے گیارہ بجے تک اور ایک بجے سے تین بجے تک اس کو استعمال کیاجائے۔ میں اونگھنے لگا، یہ اونگھنا ہی ہمارے لئے بہت کافی تھا لیکن جوں ہی آکسیجن ختم ہوگئی ہمیں سخت سردی محسوس ہونے لگی، رات کو درجہ حرارت منفی 27 سینٹی گریڈ تھا، لیکن خوش قسمتی سے ہوا بعد میں بالکل بند ہو گئی تھی۔
چار بجے ہوا خاموش تھی ، میں نے خیمہ کا دروازہ کھولا اور باہر دیکھا وہاں نیپال کی وادیاں نظر آئیں برفیلی چوٹیاں ہمارے نیچے صبح کی ہلکی روشنی میں چمک رہی تھیں، تین سنگ نے تھیانگ بوش کے بت خانے کی طرف اشارہ کیا۔ جو ہم سے 16ہزار فٹ نیچے دھندلا دکھائی دے رہا تھا ، ہمیں یہ خیال کرکے بڑا اطمینان ہوا کہ اس عبادت خانہ میں بدھ لامہ اس وقت ہماری حفاظت اور سلامتی کی دعائیں کررہے ہوں گے ، ہم نے چولھا جلایا اور پانی کی کمی کو دور کرنے کے لئے لیمو کا رس شکر کے ساتھ کافی مقدار میں پیا، میں نے آکسیجن سیٹ خیمہ کے اندر رکھ کر اس کی برف جھاڑی اور اس کی جانچ کی، کل میرے بوٹ تر ہوگئے تھے ، اس لئے میں نے ان کو اتار دیا تھا ، اب وہ برف سے جم گئے تھے میں نے ان کو چولھے پر رکھا اور بڑی مشکل سے ان کو استعمال کے قابل بنایا ہم نے اپنے کپڑوں اور ہاتھوں پر ہوا سے بچانے والے کپڑے چڑھا لئے۔
ساڑھے چھ بجے صبح ہم خیمہ سے نکل کر برف پر آئے، آکسیجن سیٹ اپنی پیٹھ پر لادا اور آکسیجن جذب کرنے لگے، چند گہری سانسیں لینے کے بعد ہم پھر چلنے کو تیار ہوگئے ، میرے پاؤں میں کچھ تکلیف تھی اس لئے تین سنگ میرے آگے چلنے لگا، ہم اس طرح برف میں اپنا راستہ بناتے ہوئے پہاڑی کی طرف بڑھنے لگے، پہاڑی پر روشنی تھی اور ہمیں ایورسٹ کی جنوبی چوٹی صاف نظر آرہی تھی، تین سنگھ اور میں آگے بڑھتے چلے جارہے تھے یہاں تک کہ ہم 28 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ گئے۔ یہاں پہاڑی کا حصہ نوکیلا تھا اور چونکہ میرے پاؤں کی تکلیف جاتی رہی تھی اس لئے میں آگے بڑھ گیا اور تین سنگھ میرے پیچھے پیچھے آنے لگا۔
ہم آہستہ آہستہ مستقل بڑھتے چلے جارہے تھے ہمیں رک کر سانسیں لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ پہاڑی پر برف نرم اور غیر قائم تھی جس کی وجہ سے چلنے میں نہ صرف دقت ہورہی تھی بلکہ چلنا خطرناک بھی تھا۔ اس لئے میں پہاڑی کے اوپری حصہ کو چھوڑ کر جنوب کی طرف کچھ نیچے ڈھال پر چلنے لگا، اس جگہ ہوا کے باعث برف اس طرح اکٹھا ہوگئی تھی کہ ایک کنارہ سا معلوم ہوتا تھا جو کبھی کبھی ہوا کے زور سے گر پڑتا تھا، کئی سو فٹ اس طرح احتیاط سے چلنے کے بعد ہم ایک مقام پر پہنچے جہاں آکسیجن کی دو بوتلیں پڑی ہوئی تھیں جن کو ایونس اور بورڈ یلن چھوڑ گئے تھے ، میں نے دونوں بوتلوں کو اٹھا کر برف صاف کی اور یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ دونوں میں کئی سو لیٹر آکسیجن موجود ہے اور ہم واپسی میں ان کی مدد سے جنوبی درہ تک پہنچ سکتے ہیں۔
میں نے بوتلیں وہیں چھوڑ دیں اور ہم دونوں آگے بڑھنے لگے ، میں راستہ بناتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور تین سنگ میرے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔ کچھ دور آگے پہنچ کر پہاڑی کا یہ اوپری حصہ چوڑے حصہ میں تبدیل ہوگیا ، یہاں سے جنوبی چوٹی صرف 400 فٹ دور تھی، یہ راستہ بہت خطرناک تھا لیکن چونکہ دوسرا کوئی راستہ موجود نہیں تھا۔ اس لئے ہم اسی پر چلنے پر مجبور ہوئے اس دوران میں کبھی میں آگے ہوکر راستہ بناتا ہوا چلتا اور کبھی تین سنگ آگے ہوجاتا اور راستہ بنانے لگتا۔ ایک مرتبہ میں راستہ بناتے ہوئے بڑھ رہا تھا کہ برف پھسل گئی اور ہم تین یا چار قدم پیچھے جا پڑے۔ میں ؎نے تین سنگھ سے مشورہ کیا کہ ہمیں اس خطرناک راستہ پر آگے بڑھنا چاہئے یا نہیں۔ تین سنگھ برف کی خطرناکی کے باعث خود بددل ہورہا تھا ، لیکن اس نے جواب دیا کہ جیسا آپ چاہیں کریں ، میں نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔
کچھ دور آگے بڑھنے کے بعد ہمیں جمی ہوئی برف ملی۔ یہاں ہمیں برف کو کاٹ کر سیڑھیاں بنانی پڑیں، یہاں سے چوٹی تھوڑی دور تھی اور ہمیں صاف نظر آرہی تھی ، صبح کے نو بجے تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایونس اور بورڈیلن نے اس مقام کی خطرناکیوں کو محسوس کرلیا ہوگا، یہ چوٹی پہلی ہی نظر میں سخت خوفناک معلوم ہورہی تھی ، سیدھے ہاتھ کی طرف بل کھاتے ہوئے برف کے چھجے تھے جو برف سے نکلے ہوئے اور اس کے اوپر لٹکتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے ان پر چلنے کی کوشش کا انجام موت کے سوا دوسرا نہیں ہو سکتا تھا ان برفانی چھجوں سے بائیں طرف ڈھلوان حصہ تھا ، لیکن کچھ اور چل کر سخت برف دار چٹان نکلی ہوئی دکھائی دیتی تھی، چھجوں اور چٹان کے درمیان ڈھلوان راستہ پر برف سخت جمی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔
اس برف کو دیکھ کر آگے بڑھنے کی ہمت ہوئی اگر برف نرم ہوتی تو ہمارا آگے بڑھنا ناممکن تھا لیکن اگر برف سخت ہے تو سیڑھیاں کاٹتے ہوئے آگے بڑھ سکتے تھے ، ہم نے جنوبی چوٹی کے نیچے برف کاٹ کر بیٹھنے کی جگہ بنائی ، ذرا سی دیر کو آکسیجن سیٹ اتار دئے میں نے حساب لگانا شروع کیا۔ ہمارے پاس آکسیجن کی صرف ایک بوتل رہ گئی تھی جس میں آٹھ سو لیٹر آکسیجن تھی ہمیں فی منٹ تین لیٹر کی ضرورت تھی۔ ہم نے حساب لگایا کہ اس کی مدد سے ہم ساڑھے چار گھنٹے اور چل سکتے ہیں ، ہمارا وزن تقریبا 30 پونڈ تھا، اس لئے ہمیں آگے بڑھنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی اور ہم کسی قدر آسانی سے آگے بڑھنے لگے جوں ہی میں نے اپنی کدال برف پر ماری تو میری خوشی کی انتہا نہیں رہی برف سخت تھی ، دو تین مرتبہ کدال مارنے سے سیڑھی بن جاتی تھی ، اور ہم آسانی سے اس پر پاؤں رکھ سکتے تھے ہم دونوں تقریباً ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہے تھے لیکن ہم نے محسوس کیا کہ ہماری حفاظت اور سلامتی کے امکانات کم ہیں اس لئے ہمیں زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہئے ، چنانچہ میں سیڑھیاں کاٹنے لگا اور تین سنگھ مجھے رسی سے سنبھالنے کی کوشش کرنے لگا، سیڑھی بنانے کے بعد میں تین سنگ کو کھنچتا اور وہ میرے پاس آ جاتا۔
جس مقام سے ہم گزر رہے تھے وہ نہایت خطرناک تھا ، آٹھ ہزار فٹ نیچے ہمیں چوتھا کیمپ نظر آرہا تھا۔ لیکن ہم نے نہ محنت میں کمی اور نہ احتیاط کو ہاتھ سے چھوڑا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا تین سنگھ کے قدم آہستہ پڑنے لگے اور اس کے لئے سانس لینا مشکل ہورہا ہے تین سنگھ کو آکسیجن کے اثرات کا بہت کم احساس تھا میں نے اس کی حالت دیکھ کر محسوس کیا کہ آکسیجن کی کمی ہوگئی، میں نے اس کی آکسیجن ٹیوب دیکھی تو اس کو برف سے بند پایا ، میں نے اس ٹیوب کو صاف کیا اور تین سنگھ آکسیجن سانس کے ذریعہ جذب کرسکا، میں نے اپنی ٹیوب دیکھی وہ بھی برف کے باعث بند ہوگئی تھی اس کو بھی میں نے صاف کیا۔
اسی طرح ایک گھنٹہ چلنے کے بعد ہمیں ایسی مشکل پیش آئی جو بظاہر حل ہوتی ہوئی نہیں معلوم ہوتی تھی، ہمارے سامنے تقریباً چالیس فٹ اونچی ایک چٹان کھڑی تھی جس پر چڑھنا بالکل ناممکن معلوم ہوتا تھا، اس چٹان کو میں ہوائی جہاز کے ذریعے لئے ہوئے فوٹو میں دیکھ چکا تھا، نیز اس کو اپنی دور بین کے ذریعے بھی دیکھ چکا تھا۔ اتنی بلندی پر اتنی بڑی چٹان کا عبور کرنا کسی طرح ممکن نہیں معلوم ہوتا تھا ، اس چٹان پر برف کے بڑے بڑے ٹکڑے چھجوں کی صورت میں نکلے ہوئے تھے۔ ان چھجوں اور چٹان کے درمیان ایک شگاف اوپر تک چلا گیا تھا، میں نے ہمت کی اور تین سنگ کو نیچے چھوڑ کر اس نکلی ہوئی برف کو پکڑ کر اور اس شگاف میں اپنے پاؤں کاندھے اور ہاتھ جماتا ہوا آگے اوپر چڑھنا شروع کیا اوپر چڑھتے ہوئے میں یہ دعا بھی کرتا جاتا تھا کہ یہ برف کے چھجے ٹوٹیں نہیں ورنہ سوائے موت کے اور کوئی صورت ہی نہیں تھی۔
اس طرح میں ایک ایک انچ اوپر بڑھتا گیا اور تین سنگھ تھوڑی تھوڑی رسی چھوڑتا گیا آخر کار میں چٹان کے اوپر پہنچ گیا ، جہاں میں سانس لینے کے لئے کچھ دیر پڑا رہا، تین سنگھ بھی اسی طرح اوپر آیا، میں نے پھر سیڑھیاں بنانی شروع کردیں چٹان کا اوپری حصہ دائیں طرف مڑتا تھااور ہمیں وہاں سے چوٹی نظر نہیں آرہی تھی۔ برف کچھ اس طرح تھی کہ جب میں ایک ٹیلہ کو کاٹ چکتا تو دوسرا ٹیلا اس سے بڑا نظر آنے لگتا۔ وقت گزررہا تھا اور چٹان ختم ہوتی نہ معلوم ہوتی تھی۔ ایک جگہ چٹان کو موڑ ختم ہوگیا، میں نے یہاں برف کو کاٹے بغیر اپنے پاؤں برف میں جمادئے۔ میرا خیال تھ اکہ اس طرح وقت بچ جائے گا، لیکن فوراً ہی میں نے احساس کرلیا کہ اس بلندی پر اور ایسے ڈھلوان حصوں پر ہمارے لئے زیادہ خطرہ ہے۔ اس لئے پھر میں نے برف کاٹ کر سیڑھیاں بنانی شروع کردیں میں دو گھنٹہ تک اس طرح برف کاٹتے ہوئے آگے بڑھتا رہا، تین سنگھ بھی آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔
ایک دوسرا موڑ آیا اور جب میں برف کاٹنے لگا تو میں سوچنے لگا کہ ہم اس طرح کہاں تک بڑھتے چلے جائیں گے اس وقت چوٹی پر پہنچنے کا ہمارا جوش ختم ہوچکا تھا ، اور ہم اپنے آپ کو موت سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف تھے میں نے اوپر دیکھا اور ایک تنگ حصہ چوٹی تک جاتا ہوا نظر آیا، سخت جمی ہوئی برف میں میں نے تھوڑی دیر اور راستہ بنایا اور ہم دونوں چوٹی پر پہنچ گئے۔
چوٹی پر پہنچ کر مجھے بڑا سکون محسوس ہوا، ہمارا سفر ختم ہوچکا تھا ، اب ہمیں نہ برف کو کاٹنا تھا نہ چٹانوں کو عبور کرنا تھا اور نہ ٹیلوں کو پار کرنا تھا، میں نے تین سنگ کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ آکسیجن نقاب اور برف سے چھپا ہوا تھا پھر بھی وہ مجھے چمکتا ہوا نظر آیا۔ وہ اپنے چاروں طرف دیکھ رہا تھا ہم دونوں نے ہاتھ ملائے، تین سنگ نے اپنے ہاتھ میرے گلے میں ڈال دئے ہم دونوں نے ایک دوسرے کو تھپتھپایا، یہاں تک کہ ہم تھک گئے، ساڑھے گیارہ بجے تھے اور ڈھائی گھنٹہ میں ہم نے پہاڑ کے اس ابھرے ہوئے حصہ کو طے کیا تھا جو چوٹی سے نیچے واقع تھا۔
میں نے آکسیجن سیٹ اتار دیا ، میرے پاس کیمرہ تھا جس میں رنگین فلم چڑھی ہوئی تھی میں نے اس کو نکالا اور تین سنگھ کو کھڑا کر کے اس کا فوٹو لیا، تین سنگ کے ہاتھ میں کدال تھی جس پر جھنڈے لہرا رہے تھے، یہ جھنڈے برطانیہ، نیپال ،اقوام متحدہ اور ہندوستان کے تھے۔
تب میں نے اپنے چاروں طرف دیکھا چوٹی سے ارد گرد کاملک صاف نظر آرہا تھا۔ مشرق میں مکالو کی چوٹی تھی ، جس پر ابھی تک کوئی نہیں پہنچ سکا تھا۔ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ کر مری ہمتیں بڑھ گئی تھیں اور میں یہ دیکھنے لگا کہ مکالو کو جانے والا کوئی راستہ موجود ہے یا نہیں۔ بہت دور پہاڑوں میں کنچن جنگا کی چوٹی افق پر دکھائی دے رہی تھی۔ وہاں سے نیپال کا علاقہ صاف نظر آرہا تھا، شمال کی طرف وہ مشہور راستہ دکھائی دے رہا تھا جس پر سے میں 1920 اور 1930 میں ایورسٹ پر چڑھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہی آکسیجن کی کمی کے باعث میرے اعضانے جواب دینا شروع کردیا میں نے فوراً آکسیجن جذب کی اور پھر تازہ دم ہو گیا۔ تین سنگ نے برف کھود کر ایک گڑھا بنایا جس میں اس نے بہت سی کھانے کی چیزیں چاکلیٹ بسکٹ شکر کے ڈلے رکھے یہ دراصل ان دیوتاؤں کو جو بدھوں کے عقیدے کے مطابق اس چوٹی پر رہتے ہیں ایک تحفہ تھا، دو دن پہلے ہنٹ نے مجھے ایک صلیب دی تھی ، اور یہ ہدایت کی تھی کہ میں چوٹی پر جاتے وقت اسے لیتا جاؤں۔ میں نے بھی ایک سوراخ کیا اور صلیب کو اس میں رکھ دیا۔
میں نے اپنے آکسیجن سیٹ کی پھر جانچ کی اور اس کے مطابق واپسی کے سفر کا حساب لگایا۔ اور بالآخر واپس ہو گئے۔
چڑھتے وقت ہمیں برابر یہ اندیشہ تھا کہ ہم اس ڈھلوان برف پر واپس کس طرح ہوں گے ، چنانچہ واپسی کے وقت بھی ہم نہایت احتیاط سے قدم رکھ رہے تھے ، ہمیں واپسی میں دس ہزار فٹ نیچے کانگ شنگ کا برف شار نظر آ رہا تھا۔ ہر قدم پر ہم سلامتی سے قریب تر ہوتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ جب ہم کامیابی سے ڈھلوان حصہ سے اتر کر چٹانی حصہ پر پہنچ گئے تو ہم دونوں نے اطمینان کا سانس لیا، ہم بہت تھک چکے تھے ، پھر بھی ہمارے قدم خود بخود اٹھ رہے تھے ، اور ہم آکسیجن کی ان بوتلوں کی طرف بڑھ رہے تھے جن کو ہم چھوڑ گئے تھے دو بجے کے قریب ہم اپنے خیمے پر پہنچے ، ہوا کے باعث خیمہ قریب قریب اکھڑ چکا تھا، وہاں سناٹا چھایا ہواتھا، ہمیں اب جنوبی درے تک پہنچنا تھا۔
تین سنگ نے چولھا جلایا اور لیموں کا رس گرم کرنے لگا، میں نے آکسیجن سیٹ تبدیل کیا اور دو لیٹر فی منٹ کے حساب سے آکسیجن جذب کرنے لگا، کل کے مقابلہ میں آج ہم زیادہ محنت سے کام لے رہے تھے ، اس لئے ہم تھکن محسوس کر رہے تھے ، اور نیچے ہمیں چھوٹی چھوٹی شکلیں حرکت کرتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں، ہم جانتے تھے کہ لو اور نوتیس ہمارا انتظار کررہے ہوں گے اس وقت ہماری طاقت قریب قرب جواب دے چکی تھی، اور ایسا محسوس ہوتا تھا گویا ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔
یہاں ہمیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا، ہمارے جانے کے بعد جو سخت ہوا چلی تھی اس کے باعث ہماری بنائی ہوئی سیڑھیاں ختم ہوچکی تھیں اور برف بغیر کسی نشان کے تھی، اس لئے ہمیں مجبوراً پھر راستہ بنانا پڑا، بڑی ناخوش گواری سے میں نے پھر برف کاٹنی شروع کی۔ ہوا سخت تیز تھی اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ ہمیں اڑا کر لے جائے گی ، دو سو فٹ تک میں نے راستہ بنایا ، پھر تین سنگ راستہ بنانے لگا۔ سو فٹ تک اس نے یہ کام کیا۔ کچھ دور کے بعد نرم برف آگئی جس میں چلنا نسبتاً آسان ہوگیا اور ہم جنوبی درہ پہنچ گئے۔
ایک شخص نے کیمپ سے دو سو قدم دور بڑھ کرہمارا استقبال کیا۔ یہ جارج لو تھا ، جو گرم شوربہ اور آکسیجن اپنے ساتھ لایا تھا ، اس نے ہمارا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا لیکن ہم اتنے تھکے ہوئے تھے کہ ہم نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اور آہستہ آہستہ کیمپ تک پہنچ گئے ، ہم خیمہ میں جاکر اپنے بستروں میں گھس گئے ، اس وقت ہوا بہت سخت تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہوا کے زور سے خیمے اڑ جائیں گے ، یہ رات جنوبی درہ پر ہماری آخری رات تھی ، رات بے چینی سے گزری، سخت سردی کے باعث گہری نیند سونا ناممکن تھا ، دوسرے اپنی کامیابی کی خوشی نے بھی ہمیں اچھی طرح سونے نہیں دیا، ہم تمام رات اپنے سفر کے واقعات اور اپنی کامیابی کو یاد کرتے رہے۔
دوسرے دن صبح جلدی ہی ہم سب روانہ ہوگئے ، جنوبی درہ پر دو سو فٹ لمبی ڈھال سخت صبر آزما ثابت ہوئی، ساتویں کیمپ کو آتے ہوئے ہمیں اکثر آرام لینے کی ضرورت محسوس ہوئی،ابھی ہم کیمپ سے تیس گز دور تھے کہ ایک خوشی کی آواز نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرلیا، ہمارا استقبال کرنے کے لئے چارلس اور بہت سے قلی آگئے۔ انہوںنے ہمیں گرم شربت پینے کے لئے دیا، ہماری کامیابی کی خبر ان کے لئے غیر معمولی مسرت کا باعث ہوئی اور ہم نے نیچے اترنے کا سفر جاری رکھا۔
جب ہم چوتھے کیمپ کے قریب پہنچے تو چھوٹی چھوٹی شکلیں ہمیں اپنی طرف آتی ہوئی دکھائی دیں ہم نے ان کو کوئی اشارہ نہیں کیا لیکن جب ہم 15 گز کے فاصلہ پر رہ گئے تو جارج نے اپنی کدال سے ایورسٹ کی چوٹی کی طرف اشارہ کیا فوراً ہی ہمارے تمام ساتھی ہمارے استقبال کو دوڑے۔
اپنے ساتھیوں کو اپنے سفر کا قصہ سناتے وقت کس قدر مسرت ہم نے محسوس کی ، کس قدر سنسنی خیز تھے ہمارے واقعات ، اور کیسی مسرت تھی ہمیں اپنی کامیابی پر، جب یہ واقعات ہماری زبان سے سن کر ہماری جماعت کے لیڈر کرنل ہنٹ کے چہرہ پر مسرت کی لہر دوڑ گئی ، تو ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ ہمیں اپنی تمام محنتوں کا انعام مل گیا۔
ہم ایورسٹ کی چوٹی پر صرف 15 منٹ ٹھہرے، اس وقت ہم پراپنے سفر کا رد عمل شروع ہو چکا تھا، ہم تیزی کے ساتھ پہاڑوں سے نکل جانا چاہتے تھے ہمارا کام ختم ہو چکا تھا ، لیکن ہمیں واپس ہونا تھا اور ان ہی خطرات سے پھر گزرنا تھا جن سے گزر کر ہم چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
***
ماخوذ: ہفت روزہ آئینہ (نئی دہلی)۔ شمارہ: 4/اپریل 1955
اردو ترجمہ: ادارۂ آئینہ
ماخوذ: ہفت روزہ آئینہ (نئی دہلی)۔ شمارہ: 4/اپریل 1955
اردو ترجمہ: ادارۂ آئینہ
Fifteen minutes at the top of Everest. Article by: Sir Edmund Percival Hillary
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں