وراثت میں عورت کا حق - اسلام کا طرہ امتیاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-18

وراثت میں عورت کا حق - اسلام کا طرہ امتیاز

womens-right-to-inheritance-islam-distinction
انسانی معاشرے اور اس کی ترقی کے متعلق کوئی بات خواتین کے ذکر کے بغیر نہیں ہوتی کیونکہ خواتین کے وجود سے ہی کائنات میں خوبصورتی ہے۔ خواتین کے بغیر زندگی کا کوئی پہلو مکمل نہیں۔ دور جدید ہو یا دور قدیم ، خواتین ہمیشہ موضوع گفتگو رہی ہیں یا خواتین سے منسلک مسائل ہمیشہ موضوع گفتگو بنے رہے۔
دورِ جاہلیت کے کچھ اور مسائل تھے۔ اسلام کی روشنی سے جب دنیا منور ہوئی اس کے بعد لوگوں نے ان کے مسائل کو مزید ہوا دی۔ خاص طور سے جب صنعتی انقلاب آیا اور عورتیں بھی گھروں سے باہر نکلنے لگیں۔ اس کے بعد اسلام کے قوانین پر خصوصاً حقوق کے نام سے کافی شور اٹھنے لگا۔ 18/ویں صدی عیسوی میں کچھ لوگوں نے اس کا جواب معذرت خواہانہ دیا اور اسلام کی شکل کو توڑ مروڑ کر اس طرح پیش کیا کہ اسلام مغرب سے ملتا جلتا ہے۔ اس طرح نہ انہوں نے اسلام کو ترک کیا اور نہ ہی مغرب کو ناراض کیا بلکہ دونوں کو راضی کرنے کی کوشش کی اور اس چکر میں اسلام کی تصویر کو کافی حد تک بگاڑ دیا۔ لیکن 20ویں صدی میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی بیداری مہم شروع ہوئی۔ مغربی تہذیب کا وہ جادو جو سب پر چھایا ہوا تھا ٹوٹنا شروع ہوا کیونکہ مغرب کی بیٹیاں خود اسلام کی آغوش میں پناہ لینے لگیں۔

جو اسلام کے سچے پیرو کار ہیں، با شعور ہیں انہیں تو یہ مسائل کبھی مسائل ہی محسوس نہیں ہوئے جیسے مرد کو چار شادیوں کی اجازت کیوں ہے؟ نکاح و طلاق کے قوانین کہ طلاق کا حق مرد کو کیوں دیا گیا؟ عورت کی گواہی آدھی کیوں؟ وغیرہ وغیرہ۔ سچے مومن تو اپنے رب کے حکم کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ وہ نہ تو اس کی منطق سوچتے ہیں اور نہ ہی شکوک و شبہات میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کے دل اس بات پر پوری طرح مطمئن ہوتے ہیں کہ جو ان کے رب نے حکم دیا ہے اس میں ضرور کوئی حکمت اور ہماری بھلائی ہوگی۔ اس لئے وہ فوراً سعمنا و اطعنا اور آمنا و صدقنا کہتے ہیں۔
آئیے ہم تجزیہ کرتے ہیں کہ آیا اسلام نے خواتین کے ساتھ نا انصافی کی ہے یا اس کے درجات کو بلند کیا ہے؟

اسلام نے عورت کو اتنا بلند مقام عطا کیا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی ہے۔ اسلام کا عورت پر یہ عظیم احسان ہے کہ خواتین کو ان کی علیحدہ شناخت دی گئی۔ بیوی کی حیثیت سے اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ شوہر کی موت کے بعد خاندان کا سربراہ عورت اور اس کے مال پر قبضہ کر لیتا، اس کو ذلیل کیا جاتا ، زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
پھر اللہ کے رسول ﷺ تشریف لائے ، آپ ﷺ نے عورت کو اس کے حقوق دلائے ، اس کی عزت اور تکریم کی یہاں تک کہ اسے نازک آبگینے کہا گیا۔
مغربی تہذیب عورت کو اس وقت حقوق دیتی ہے جب عورت اپنی نسوانیت ترک کرکے مرد بن جائے، مردوں کی طرح کمائے، مردوں ہی کی طرح بڑے بڑے ٹرک چلائے، دفتروں میں اور ٹی وی اسکرینوں پر بن سنوار کر مرد کی تسکین کا ذریعہ بھی بنے۔ یہ حقوق کہاں ہوئے جو مغرب نے مساوات کی رٹ لگائی ہوئی ہے ، یہ تو آزادی کی بجائے صنف نازک پر دہرا بوجھ ڈال دیا گیا جب کہ اسلام عورت پر وہ ذمہ داری ڈالتا ہے جو فطرت نے اس کے اندر ودیعت کر دی ہے ، جس کو وہ بآسانی اٹھا سکتی ہے۔

اسلام سے پہلے عورت کی کوئی علیحدہ شناخت یا جائداد پر اس کا کوئی تصرف نہیں تھا۔ اس کا ذکر قرآن میں کیا گیا، اسلام نے عورت کی حیثیت اتنی مستحکم کی ہے کہ بعض اوقات وہ مرد سے زیادہ مالدار ہو جاتی ہے۔ کسی اور مذہب میں عورتوں کے لئے وراثت کا قانون نہیں تھا۔ ہندوستان میں یہ قانون کچھ سال پہلے اس کو دیا گیا جب کہ اسلام میں عورت کو ورثہ سے بھائی کے مقابلے آدھا حصہ ملتا ہے اور اس آدھے حصے کی حکمت بھی یہ ہے کہ عورت کو مہر بھی ملتا ہے پھر شوہر کے ترکہ میں بھی اس کا حصہ ہے۔ اگر ماں ہے تو بیٹے کے ترکہ میں سے بھی اسے حصہ ملتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام نے معاش کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے عورت پر نہیں۔ اگر بیوی کتنی ہی مالدار ہو لیکن اس کے اخراجات شوہر کے ذمہ ہوں گے۔ اگر بیٹی ہے تو والد کے ذمہ کفالت ہے یا بھائی کے ذمہ جب کہ مغرب نے معاشی ذمہ داری بھی عورت پر ڈال دی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عورتوں کو بھی وراثت سے محروم نہیں کیا بلکہ جس طرح مردوں کا حصہ مقررہے اسی طرحعورتوں کے لئے بھی مقرر کر دیا گیا۔

اسلام ایک معتدل دین ہے۔ اگر ایک شوہر، بیوی سے کسی وجہ کی بنا پر علیحدگی اختیار کرنا چاہے تو اسلام نے اس کے لئے دروازہ بند نہیں کیا بلکہ ایک راستہ کھلا رکھا ہے لیکن آخر حد تک اس کو نباہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
"ان کے ساتھ اچھے سلوک سے رہو، اگر وہ تم کو ناپسند بھی ہوں تو ہوسستا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دے۔"
(النساء19)

آپ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے"۔
اسلام میں طلاق کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے۔ اہل مغرب کی تقلید میں بعض نام نہاد مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ طلاق دینے کا اختیار شوہر سے چھین کر عورت کو دیا جائے لیکن یہ خلاف کتاب و سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق کا اختیار شوہر کو دیا ہے۔ ہمیشہ سے ہی مسئلہ اٹھایا جاتا ہے کہ یہ عورت پر ظلم ہے کہ مرد اسے بیک وقت تین لفظ کہہ دے۔ ایک خاتون جو شوہر کی کوئی بات سنے نہ اس کے حقوق ادا کرے ، نہ اسے سکون مہیا کرے ، یا شوہر کے ساتھ خیانت کرے۔ ایسی حالت میں بھی دوسرے مذاہب میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ شوہر اس عورت سے چھٹکارا حاصل کرلے اور کسی دوسری عورت سے شادی کر سکے۔ اسی وجہ سے دوسرے مذہب کے ماننے والے اکثر چھپ چھپا کر دوسری شادی کر لیتے ہیں یا پھر کوئی اور چور دروازہ تلاش کرلیتے ہیں جب کہ اسلام نے ہمیں مکمل عائلی نظام دیا ہے کہ عورت اگر سرکشی کرے تو اسے صحیح طریقے سے رخصت کر دیا جائے۔

اسلامی شریعت میں جہاں مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی وجہ کی بنا پر وہ عورت سے نباہ نہیں کرسکتا تو اسے طلاق دے دے۔ اسی طرح عورت کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ جس مرد کو وہ ناپسند کرتی ہو اور کسی طرح بھی اس کے ساتھ گزر بسر نہ کر سکتی ہو تو وہ اس مرد سے خلع حاصل کر لے۔ اس معاملے میں دونوں فریق کے لئے یہی حکم ہے کہ طلاق یا خلع کا اختیار صرف آخری چارہ کار کے طور پر استعمال کیا جائے نہ یہ کہ محض خواہشات کی تکمیل کے لئے طلاق اور خلع کو کھیل بنا لیا جائے۔ اس معاملے میں بھی دونوں کو حقوق حاصل ہیں۔

انسانی سماج میں قدیم زمانے سے ہی مرد اور عورت کے تعلق کو آزاد نہیں رکھا گیا بلکہ کسی نہ کسی صورت میں نکاح جیسے بندھن سے ہی اسے جائز قرار دیا گیا۔ اسلام میں مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے۔ یہ صرف اجازت ہے، نہ اسے فرض قرار دیا گیا، نہ ہی سنت اور نہ پسندیدہ۔
اسلام مخالف لوگ ہمیشہ سے ہی اس کو نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن یہ بھی خالقِ کائنات کی جانب سے انسانوں پر ایک احسان ہے۔ ارشاد باری ہے:
"اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو۔"
(النساء3)

اس آیت کی تفسیر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
"زمانہ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں ،ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سرپرست نہیں جس طرح ہم چاہیں گے دباکر رکھیں گے وہ ان کے ساتھ خود نکاح کر لیتے تھے اور ان پر ظلم کیا کرتے۔"

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ:
"جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی۔ ایک ایک شخص 10،10 بیویاں کر لیتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کی حد چار پر مقرر کر دی۔ ہندوستان کی تاریخ پر ہم نظر ڈالیں تو وہاں بھی ہمیں بادشاہوں کے ایک سے زیادہ بیوی کا ذکر ملتا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ اٹھایا جاتا ہے کہ عورت کو ایک ہی شوہر پر اکتفا کرنے کے لئے کہا گیا ہے جب کہ مرد کو چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ جو لوگ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ عورت کو یہ کیوں اجازت نہیں دی گئی کہ اس کے بھی ایک سے زائد شوہر ہوں۔ یہ سوچ ہی ذہنی پستی کی علامت ہے۔ عورت کے اگر بالفرض ایک سے زائد شوہر ہوں تو سب سے بڑا مسئلہ ان کے بچوں کا یہی ہوگا کہ ولدیت کے خانے میں کس کا نام ڈالا جائے ؟ پھر طبی لحاظ سے بھی اور اخلاقی لحاظ سے بھی یہ ایک غیر فطری عمل ہے۔

عورت کی گواہی آدھی کیوں؟
ارشاد باری ہے:
" پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔"
(البقرہ:282)

یہ آیت 14 سو سال پہلے نازل ہوئی لیکن اس تمام عرصے میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں رپورٹ کیا گیا کہ کسی کو اس آیت پر اعتراض ہوا ہو، لیکن آج مسلمانوں میں سے ہی بعض دوسرے لوگوں سے مرعوب ہوکر اس آیت پر احتجاج کرتے ہیں اور دل کی تنگی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کیا ہمیں ان آیات پر اعتماد نہیں ، اگر اعتماد ہے تو معاملات بآسانی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔
سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"بے شک مومن تو وہ ہے جو اللہ اور رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے"
اگر اللہ کے اس حکم پر ہم راضی نہیں اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں تو آخرت میں اللہ ہم سے کیسے راضی ہوگا؟ اس بارے میں ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ نے بہت ہی مدلل انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ:
سب سے پہلے یہ جانیں کہ اسلام میں بذاتِ خود گواہی کیا حیثیت رکھتی ہے۔ اسے بہت بڑی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ گواہی کا تعلق تین طرح سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
(1) خاندانی (2) مالی معاملات (3) واقعات یا حدود۔ جس میں جرائم شامل ہیں۔ خاندانی معاملات میں عورت کی گواہی قبول بھی کی جاتی ہے اور لے لی بھی جاتی ہے جیسے ولادت کے موقع پر عورت کے ساتھ عورت ہی ہوتی ہے۔ گواہی نرس یا دائی کی کہ بیٹا تھا یا بیٹی ، زندہ تھا یا مردہ، ایک تھے یا دو؟
مالی معاملات عموماً مردوں سے متعلق ہوتے ہیں جیسے تجارت یا قرض کا لین دین۔ چونکہ عورت کا دائرہ کار گھر ہے اس لئے گھر سے متعلق معاملات میں اکیلی عورت کی گواہی ہی قبول کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں پر بھی اسے ایک سے زائد حق دے دیا گیا کہ وہ یہاں بھی گواہی دے سکتی ہے لیکن ایک کی بجائے دو عورتوں کا حکم ہے۔
یہاں پر واضح طور پر یہ نہیں کہا گیا کہ دونوں ہی عورتیں گواہی دیں ، بلکہ ایک کے بھولنے کی صورت میں دوسری کو یاد دلانا ہے۔ ورنہ ایک عورت ہی گواہی دے گی۔
پہلی بات تو یہ کہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار نہیں دی جاتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
" اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے کہ وہ پہلے چار بار اللہ کی قسم کھائے کہ بے شک یہ جھوٹا ہے اور پانچویں دفعہ یوں کہے کہ یہ اگر سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔
(النور:8تا9)
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیوی شوہر پر الزام لگائے یا شوہر بیوی پر۔ دونوں کی ذاتی گواہی اس معاملے میں مساوی ہے۔ اسی طرح رویت ہلال کے معاملے میں بھی عورت اور مرد کی گواہی میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ کچھ معاملات تو ایسے ہیں کہ جہاں صرف عورت ہی گواہی دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر غسل میت کا معاملہ ہو تو اس میں عورت ہی گواہی دے گی۔ دودھ پلانے کے معاملے میں بھی عورت کی گواہی کافی ہے۔

***
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 21/نومبر 2008۔

Women's Right to Inheritance - Islam's Distinction

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں