کانگریس کی حالت زار - سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-18

کانگریس کی حالت زار - سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے ۔۔۔

sonia-gandhi-congress-leaders-sought-overhaul-party-framework
جو لوگ کانگریس کی حالت زار پر متفکر ہیں ان کیلئے ایک اچھی خبر ہے۔
کل یعنی بروز ہفتہ 19/دسمبر کو کانگریس لیڈر سونیا گاندھی اُن 23 کانگریسی لیڈروں میں سے کچھ سے میٹنگ کرنے والی ہیں جنہوں نے اگست 2020 میں کانگریس میں جان ڈالنے کیلئے کچھ تجاویز پیش کرتے ہوئے سونیا گاندھی کو ایک خط لکھا تھا۔۔۔
اس خط کو کانگریس کے بعض تملق پسند لیڈروں نے قیادت سے بغاوت تصور کیا تھا اور ان لیڈروں کو خوب لعن طعن کی تھی۔۔۔ میں نے اس سلسلے میں 27/اگست کو ایک مضمون لکھا تھا۔۔

گزشتہ روز مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کسانوں کے مظاہرہ کے تناظر میں کہا کہ ہندوستان کو لداخ میں (چین کی سرگرمیوں کے حوالے سے) بہت مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔۔ لیکن حیرت ہے کہ اس کے باوجود پارلیمنٹ کی ڈیفنس کمیٹی کے بی جے پی ممبران اس اشو پر بحث کرنے کی بجائے فوج کی یونیفارم کا رنگ بدلنے پر بحث کرتے ہیں۔۔ یعنی اب فوج کو بھی بھگوا رنگ میں رنگنے کی منصوبہ بندی ہے۔۔۔ اس کمیٹی میں راہل گاندھی بھی ایک ممبر ہیں۔۔ انہوں نے اس اشو پر میٹنگ میں اظہار ناراضگی کیا اور جب بی جے پی والوں نے انہیں بولنے نہیں دیا تو انہوں نے میٹنگ سے واک آؤٹ کردیا۔۔۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس بھی اپنا نیم بھگوا رنگ (Semi saffron) بدلنے کیلئے کوئی جارحانہ آپریشن کرے گی۔۔۔؟ کل ہونے والی میٹنگ امید ہے کہ کانگریس کے چہرے پر پڑی اس بھگوا گرد کو صاف کرنے کے حوالے سے کوئی رخ طے کرے گی۔۔۔

27/اگست کو میں نے جو کچھ لکھا تھا اسے یہاں قند مکرر کے طور پر پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
"۔۔۔۔ 1885 یعنی غلام ہندوستان میں قائم ہونے والی کانگریس پارٹی اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔۔۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ سے کوئی اس کا مستقل صدر نہیں ہے۔۔ ہرچند کہ سونیا گاندھی پارٹی کی سب سے طویل عرصہ (19سال) تک صدر رہیں لیکن 3 جولائی 2019 کو راہل گاندھی کے استعفی دینے کے بعد سے وہی کانگریس کی عبوری صدر ہیں لیکن وہ اپنی صحت کی وجہ سے عبوری صدر کی حیثیت سے بھی وقت نہیں دے پارہی ہیں۔۔۔

ریاستی کمیٹیوں کے صدور کا الیکشن بھی ایک عرصہ سے نہیں ہوا۔۔۔ ضلع اور بلاک سطح کی کمیٹیوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس میں بہت سے فیصلے بروقت نہیں ہوپا رہے ہیں اور کانگریس کو اس کا بڑا سیاسی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔۔۔ راہل گاندھی کی عدم دلچسپی کے سبب کانگریس کے ہاتھ سے مدھیہ پردیش کی بنی بنائی حکومت بی جے پی کے ہاتھ میں چلی گئی۔۔۔ اس سے پہلے منی پور اور گوا میں تو کانگریس کی سب سے زیادہ سیٹیں ہونے کے باوجودبی جے پی نے سرکار بنالی۔۔۔

کانگریس کے روایتی حامی طبقات ایک عرصہ سے سیکولرازم کے تئیں اس کی بدلتی ہوئی پالیسی پر متحیر تھے ہی کہ اس نے گزشتہ 5/اگست 2020 کو اپنی روز افزوں بدلتی ہوئی پالیسی کو آخری شکل دیتے ہوئے پیغام دے دیا کہ وہ بھی اب ووٹ حاصل کرنے کیلئے ہندوتو وادی طاقتوں کو ہی خوش کرنا چاہتی ہے۔۔۔ گوکہ کانگریس میں اندرونی طور پر ایسے لیڈروں کی کبھی کمی نہیں رہی جو ہندوتوا کی حمایت کرتے رہے لیکن 5 اگست کو تو سب کھل کر سامنے آگئے۔۔۔ ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد تو وزیر اعظم نریندر مودی رکھ رہے تھے لیکن سنگ بنیاد کے تئیں بی جے پی سے زیادہ کانگریس پُر جوش نظر آرہی تھی۔۔۔ایسے میں کہا جاتا ہے کہ کچھ سینئرلیڈر بہت بے چینی محسوس کر رہے تھے۔

اس مبینہ بے چینی کا بالواسطہ اظہار غلام نبی آزاد، آنند شرما، ویرپا موئیلی، بھوپندر سنگھ ہڈا، ششی تھرور، پرتھوی راج چوان اور پی جے کورین جیسے 23 لیڈروں کے اس خط کے مشمولات سے ہوتا ہے جو سونیا گاندھی کو لکھا گیا تھا اور جوکانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ سے ایک دن پہلے یعنی 23/اگست کو 'لیک' ہو گیا تھا۔۔۔۔
ان 23 لیڈروں میں جو بڑے بڑے نام ہیں ان میں سے 5 تو سابق وزرائے اعلی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد سابق مرکزی وزیر، کئی موجودہ ممبران پارلیمنٹ اور کانگریس ورکنگ کمیٹی کے چار ممبران بھی شامل ہیں۔۔۔
ظاہر ہے کہ 23 لیڈروں کا یہ غیر مطمئن گروپ کوئی چھوٹے موٹے لیڈروں پر مشتمل نہیں تھا۔۔۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ چار چار دہائیوں سے کام کر رہے ہیں۔۔۔ خود غلام نبی آزاد نے 1973 میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی۔۔۔ انہیں کانگریس کا 'ٹربل شوٹر' [Trouble Shooter] یعنی مشکل کشا بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔۔۔۔ انہوں نے اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، نرسمہاراؤ اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ کام کیا ہے۔۔۔۔ سونیا گاندھی کے ساتھ تو وہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہیں۔ ایسے میں کانگریس چیف سونیا گاندھی کو لکھے جانے والے خط پر دستخط کرنے والوں میں ان کا نام شامل ہونا معمولی واقعہ نہیں تھا۔۔۔

اس خط میں چند نقائص کی نشاندہی کے ساتھ کانگریس میں موثر اصلاحات کی تفصیل بھی دی گئی تھی۔۔۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ بی جے پی کا عروج کانگریس کی کمزوری کی وجہ سے ہوا اور کانگریس کا زوال موثر قیادت کے فقدان کے سبب ہوا۔۔۔۔ خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ قومی اشوز پر موثر لایحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے، آر ایس ایس اپنا فرقہ وارانہ ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، معاشی حالات میں ابتری آ رہی ہے۔۔۔ ایسے میں قیادت کی بے یقینی صورت حال نے پارٹی کی اندرونی حالت بھی خستہ کر دی ہے اور کانگریسیوں میں رسہ کشی بڑھ رہی ہے۔۔
خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بی جے پی سے مقابلے کیلئے ملک بھر کی ہم خیال پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا جائے۔۔۔۔ خط لکھنے والوں نے یہ بھی صاف کردیا تھا کہ انہیں سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پرینکا وغیرہ پر پورا اعتماد ہے اور وہ گاندھی خاندان پرکوئی شک نہیں کر رہے ہیں۔۔۔۔

اس خط کے لیک ہونے کے بعد امید یہ کی جارہی تھی کہ اگلے ہی روز (24 اگست) کو کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں اس خط کے نکات پر بحث ہوگی۔۔۔ لیکن خط میں اٹھائے گئے اشوز پر کوئی بات نہیں کی گئی۔۔۔ حالانکہ شروع میں ہی سونیا گاندھی نے کہہ دیا تھا کہ جو ہوا سو ہوا۔ اب ہمیں آگے بڑھنا چاہئے اور یہ کہ مجھے تکلیف ضرور پہنچی ہے لیکن میرے دل میں کسی کے خلاف کوئی رنجش نہیں ہے۔۔۔ اس کے باوجود سونیا کی تقریر ختم ہوتے ہی سونیا گاندھی کے 'وفادار' لیڈروں نے ایک کے بعد ایک، خط لکھنے والوں پر لعن طعن شروع کر دیا۔۔ لطف کی بات یہ ہے کہ غلام نبی آزاد کے علاوہ خط پر دستخط کرنے والے تقریباً سبھی غیر مسلم ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر سب کا نشانہ کلیدی طور پر غلام نبی آزاد ہی رہے۔۔۔

احمد پٹیل (مرحوم) کے علاوہ لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری اور CWC کی رکن امبیکا سونی نے غلام نبی آزاد کو دو سال کا بچہ سمجھ کر خوب ڈانٹا۔۔۔ اپنی جوانی کے ایام میں کانگریس کے کئی 'شہرت' رکھنے والے لیڈروں کے سہارے آگے بڑھنے والی امبیکا سونی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ:
"تم تھے ہی کیا؟ تمہیں کانگریس نے نوازا اور تمہیں جموں و کشمیر کا وزیر اعلی تک بنا دیا۔۔۔"
ایک کے بعد ایک جس طرح خط لکھنے والے لیڈروں اور خاص طور پر غلام نبی آزاد کو لعن طعن کیا گیا اگر اس کا عام فہم زبان میں ترجمہ کیا جائے تو یہی ہوگا کہ:
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم نے سونیا گاندھی کو خط لکھ دیا"۔۔۔۔۔

لعن طعن کرنے والوں میں خود راہل اور پرینکا گاندھی بھی شامل تھے۔۔۔۔ اس میٹنگ میں سونیا کے وفاداروں نے خط لکھنے والوں کو بی جے پی کا ایجنٹ بھی قرار دیدیا۔ اُدھر مہاراشٹر کے (کانگریسی) وزیر برائے ڈیری ڈویلپمنٹ سنیل کیدار نے تو پرتھوی راج چوان، ملند دیورا اور مکل واسنک کو کھلی دھمکی دے دی کہ وہ سونیا گاندھی سے معافی مانگیں نہیں تو وہ مہاراشٹر میں آزادی کے ساتھ گھوم پھر نہیں سکیں گے۔۔۔

میرا موقف 90 کی دہائی سے یہی ہے کہ سونیا گاندھی ایک سفاک سیاسی خاتون ہیں۔۔۔ اس کی مثالیں یہاں دینے کا موقع نہیں ہے۔۔۔ میں گزشتہ 20 برسوں میں اس پر بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ سیتا رام کیسری جیسے جہاندیدہ گاندھیائی لیڈر کو کانگریس کا صدر بننے کے بعد چین سے بیٹھنے نہیں دیا گیا۔۔۔۔اب جن لیڈروں پر دن رات لعنت بھیجی جا رہی ہے وہ ایک عرصہ سے کانگریس کے دماغ اور اس کے ہاتھ پاؤں کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔۔۔ مجھے کانگریس کے سیکولرزم پر بھی کبھی یقین نہیں آیا۔۔۔۔

1998 میں پنچ مڑھی میں کانگریس کے اجلاس میں پالیسی کمیٹی کے سربراہ آنجہانی ارجن سنگھ تھے۔۔۔ سونیا گاندھی کی موجودگی میں بعض کانگریسی لیڈروں نے جو کچھ کہا تھا اس کا مفہوم یہ تھا کہ اب کانگریس کو بہت زیادہ سیکولرزم اور مسلمان لفظ کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔۔۔ 7/دسمبر 2009 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں راہل گاندھی نے طلبہ کو خطاب کیا تھا۔۔۔اس موقع پر ان سے پوچھ لیا گیا کہ کیا کانگریس کسی مسلمان کو وزیر اعظم بنا سکتی ہے؟ انہوں نے جواب دیا تھا کہ کوئی مسلمان اس عہدہ کا اہل ہوگا تو ضرور بنائیں گے۔۔۔۔ اس کے بعد وہ کچھ سنبھلے اور کہا کہ من موہن سنگھ کو اس لئے وزیر اعظم نہیں بنایا گیا کہ وہ سکھ ہیں بلکہ اس لئے بنایا گیا کہ وہ قابل ہیں۔۔۔

جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ CWC کی میٹنگ میں اس پر بحث نہیں ہوئی کہ خط کے نکات درست ہیں یا نہیں بلکہ اسی پر بحث ہوتی رہی کہ اولاً تو یہ خط لکھا کیوں گیا اور دوسرے یہ کہ یہ لیک کیسے ہوا۔۔۔۔؟
ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے بعد خط لکھنے والے پھر غلام نبی آزاد کے مکان پر جمع ہوئے اور میٹنگ کی کارگزاری پر افسوس کے اظہار کے باوجود سونیا گاندھی کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔۔
غلام نبی آزاد نے بعد میں انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ CWC کی میٹنگ میں اس کے 15 مستقل ممبروں کے ساتھ ساتھ 30 سے زیادہ مدعوئین اور خصوصی مدعوئین تک کو بلا لیا گیا تھا اور یہ کہ ممبروں کو ہمارے خط کی کاپی بھی فراہم نہیں کرائی گئی تھی۔ ایسے میں ہم کیا اپنے خط کے مشمولات پر بات کرتے۔۔۔۔ اوپر سے ایسے لیڈروں نے ہم پر لعن طعن شروع کردی کہ جب ہم نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تو وہ پیدا بھی نہیں ہوئے ہوں گے یا اسکول جا رہے ہوں گے۔۔۔

اب حسب توقع ریاستی کمیٹیوں میں بھی خط لکھنے والوں کے خلاف مہم شروع ہو گئی ہے۔۔۔ قراردادیں پاس کر کے ان سب کو پارٹی سے نکالنے یا کم سے کم ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔۔۔ سونیا گاندھی اس سب پر خاموش ہیں۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہنگامہ برپا کرنے والوں کو ان کی سرپرستی یا کم سے کم خاموش منظوری حاصل ہے۔۔۔
مجھے مذکورہ واقعہ سے کوئی سیاسی نتیجہ اخذ کرنے کی کوئی عجلت نہیں ہے۔۔۔ لیکن میں اس نتیجہ پر ضرور پہنچ گیا ہوں کہ مسلمانوں کو اپنے سیاسی مستقبل کیلئے کانگریس میں کوئی امکان تلاش کرنے پر توانائی صرف نہیں کرنی چاہئے۔۔۔۔
(پرانا مضمون یہاں ختم ہوا)

پس نوشت:
میں نے 27 اگست کے اپنے مذکورہ مضمون کو من و عن پیش کر دیا ہے۔۔۔ امید نہیں تھی کہ سونیا گاندھی اب ان "باغی" لیڈروں کو کوئی اہمیت دیں گی جنہوں نے اصلاح حال کیلئے خط لکھا تھا۔۔۔ لیکن اب جبکہ سونیا گاندھی کل ان سے ملاقات کر رہی ہیں تو امید کی جانی چاہئے کہ وہ کچھ اصلاحی اقدامات بھی کریں گی اور نرم ہندوتو سے توبہ بھی۔۔۔

***
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Article: M. Wadood Sajid.
Sonia Gandhi to meet 23 Congress leaders who sought overhaul of party framework on 19, 20 Dec
Sonia Gandhi to meet some of Congress’ 23 dissenting letter writers

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں