اقلیت کی روش پر ہی جھکے گی اکثریت - مضمون از عبد الواحد رحمانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-19

اقلیت کی روش پر ہی جھکے گی اکثریت - مضمون از عبد الواحد رحمانی

minorities-rights-day
کرۂ ارض پر اقلیت اور اکثریت کی کشمکش ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی، لیکن تاریخ کا سبق ہے کہ عددی قوت کا کامیابی سے کوئی تعلق نہیں۔ مادی دنیا میں معیار اور امتیاز ہی پلڑے کو جھکاتا ہے اور انسان کو سرخرو بنا تا ہے۔
دنیا میں ہر سال 18/دسمبر کو "عالمی یوم اقلیتی حقوق - The Minorities Rights Day" منایا جاتا ہے،جو اقلیتی برادریوں میں ہر سطح پر تحفظ، سلامتی، انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارے کی اہمیت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ ہر ایک اقلیت کو اپنی تہذیب، ثقافت پر جینے اور مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ آج کے دن اس کا اظہار مختلف پروگراموں اور سیمیناروں کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔

دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں لاکھوں کی اقلیتی آبادی ہے جو اپنی ثقافت،تہذیب اور اپنی کتابوں کے مطابق مذہبی رسم و رواج کو انجام دیتے ہیں اور تقاریب منعقد کرتی ہیں۔ ان کو ہندوستانی آئین نے اس کی ضمانت دی ہے۔
دستوری طاقت کا نتیجہ ہے کہ وہ انصاف، آزادی، برابری اور مساوات کا لطف اٹھا رہے ہیں، یہاں ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہیں،کسی سے کوئی بھیدبھاؤ اور تفریق نہیں۔ یہی ہندوستانی قانون کی روح ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان کی سب بڑی اقلیت مسلمانوں کے ذہنوں میں اقلیت اور عددی قوت کا منفی اثر ایسا راسخ ہے کہ وہ محاذ پر اپنا اثر دکھا رہا ہے اور مسلمانوں کے حوصلوں کو کمزور کر رہا ہے۔ جب کہ حقیقت اور دنیا کے مشاہدات اور اسلامی تعلیمات کچھ اور ہی کہہ رہی ہیں۔ اسلام کا ماننا ہے کہ سچائی اور انصاف پر مبنی موقف کبھی کمزور نہیں ہوتا، یہ طاقت کبھی شکست سے دوچار نہیں ہو تی، بھلے ہی عددی تناسب میں وہ کم ہو۔ کیونکہ اس میں دوسروں کی زیادتیوں پر صبر کی روش اختیار کرنے کی صفت اور صلاحیت ہوتی ہے اور یہ خصوصیت حریف کو ٹھنڈا کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔
قرآن کے مطابق اہل ایمان کیلئے تحفظ کی سب سے بڑی ضمانت صبر،تقوی اور حکمت عملی ہے، پروردگار کافرمان ہے کہ:
"اگر تم صبر کرو اور تقوی کی روش اختیار کرو تو ان کی مخالفانہ تدبیر تم کو نقصان نہ پہنچائے گی"
(آل عمران:12)۔
اعلی معیار اور بہتر روش رکھنے والوں کو تو بتا ہی دیا کہ:
"کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آتی ہیں"
(البقرہ)۔

ہندوستان کی ریاستوں میں اقلیتیں الگ الگ فیصد میں ہیں، سبھی کمیونٹیز اپنے اپنے مذہبی مقامات پر عبادت کرنے اور اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے آزاد ہیں۔ انہیں اپنی برادری کی فلاح و بہبو دکے لئے تعلیمی ادارے چلانے، کہیں بھی رہنے اور مکانات تعمیر کرنے کا حق حاصل ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہاں اقلیتیں تمام فوائد سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ نوکریاں، تحفظات، تعلیم اور ترقی کے لئے خصوصی پیکیج اور فلاح وبہبود کے دیگرتمام حقوق آئین کے دائرے میں حاصل کر رہے ہیں۔ وہ ملک کی سیاست، انتظامیہ، دفاع، فضائیہ، بحریہ اور دیگر سرکاری سروسیز میں شامل ہو کر، مختلف پلیٹ فارمز پر کام کرکے اپنی برادری کو ترقی سے ہمکنار کر رہے ہیں۔
ملک میں اقلیتوں کو بھی اتنے ہی حقوق حاصل ہیں جتنے اکثریت کو حاصل ہیں۔ درحقیقت اقلیتوں کو اپنی ذات اور تحفظات کی وجہ سے مخصوص ہندوستانی نوکریوں میں استحقاق ملتا ہے جو سرکاری ملازمتوں کے حصول میں ان کی مدد کرتا ہے۔

ہندوستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جو ذات پات، نسل اور رنگ کے بغیر اقلیتی طبقات کو تمام سہولیات فراہم کرتا ہے۔ ملک میں ترقی کے مواقع کی برابر تقسیم کو یقینی بنانے کے لئے تمام برادریوں کو کندھے سے کندھاملا کر آگے بڑھنے کی وہ مضبوط اور ابدی کڑی بنائی گئی ہے، جو ہندوستان کو دائمی مضبوطی عطا کر رہی ہے،چاہے وہ اقلیت سے تعلق رکھتے ہوں یا اکثریت سے۔
سوال اقلیت اور اکثریت کا نہیں، اصل مسئلہ خود کو ثابت کرنے کا ہے۔ یہ تو دنیا ہے، یہاں زندگی میں مسائل اور مواقع دونوں آئیں گے، کامیاب تو وہ ہے جو مسائل کو بھی اپنی حکمت عملی سے مواقع میں بدل لے اور خود کی انفرادیت کو ثابت کرے۔ اقلیتوں کی ترقی و خوشحالی سے ہی ملک کی ترقی کو رفتار ملے گی۔ ایسے میں مسلم قوم کو بھی مجموعی ترقی اورملک کی سالمیت اور خوشحالی کے لئے اپنا سرگرم کر دار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ ہندوستان کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچانے اور امن و ہم آہنگی قائم کرنے کی ذمہ داری ہر شہری پر عائد ہو تی ہے۔ چونکہ ہندوستانی آئین اقلیتوں کے مذہب، معاش، مساوات، انصاف، جائیداد، ملازمت، تہوار اور تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ لہذا ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کی بھلائی،تعلیم اور اقتصادی ترقی کیلئے فریضہ انجام دیں۔
ویسے بھی انہوں نے مختلف تعلیمی ادارے کے قیام کے ساتھ، معاشرتی ترقی کے لئے خیرات اور عطیہ دیا، افواج میں خدمات انجام دے کر دفاعی شعبے کو مضبوطی عطا کی، عدلیہ کو مستحکم کیا، سائنس اور ٹکنالوجی میں منفرد ایجادات کئے، فلم، ثقافت اور زندگی کے دیگر شعبوں میں قابل ذکر اور لاجواب رول ادا کرکے اپنی اہمیت ثابت کی ہے۔ وقت کی ضرورت کے پیش نظر ان سے مزید توقع کی جا رہی ہے۔
اس وقت سب سے بڑا سوال مسلمانوں کیلئے یہ ہے کہ وہ اس ذہنیت کو شکست دینے، اسے مثبت رخ پر ڈالنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟
ان کے ساتھ زیادہ بہتر برتاؤ سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور مخالفین جس طرح سلوک کرنا چاہتے ہیں، ان کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ آگ کی تپش کو آگ سے ٹھنڈا نہیں کیا جا سکتا، اس کے لئے پانی کی ضرورت ہوگی۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس طرح کی توہین کسی بھی طور پر حضرت محمد ﷺکے مقام و مرتبے کو گرد آلود نہیں کر سکتی۔ نہ ہی اس پر بے قابو بھڑکنے اور کسی غیر متنازعہ رد عمل کی ضرورت ہے، کیونکہ اس طرح کی توہین رسالت، پروپیگنڈا اور بھڑکاؤ کا ایک حصہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو جدیدیت اور سیکولرزم کے ہتھیار سے قابو کرلیں۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس طرح کے توہین آمیز واقعات خود رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں پیش آ چکے ہیں، مخالفین نے پاگل، جادوگر اور کاہن کہا، جسم پر کوڑا یپھینکے، گردن پر اوجھڑی ڈالی لیکن محمد عربی ﷺ نے اخلاق و کردار اور مثبت عمل سے ایسا جواب دیا کہ مخالفین دوست اور جان دینے والے یار بن گئے۔
قرآن مجید کا پیغام ہے کہ:
"اچھائی اور برائی ایک جیسی نہیں، برائی کااچھائی سے جواب دو، پھر جو جھگڑالو ہیں وہ قریبی دوست میں تبدیل ہو جائیں گے۔
(34:41)

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں اقلیتوں کے خلاف کچھ ایسے شرمناک واقعات ہوئے اور ہو رہے ہیں جو تکلیف دہ مسئلہ ہے، لیکن ہم شکایت کے اسی کشکول کو لے کر بیٹھ جائیں اور کچھ نہ کریں،یہ کوئی عقلمندی نہیں ہوگی۔
آپ دیکھیں گے کہ اس وقت دنیا میں یہودیوں کی تعداد بہت کم ہے، وہ اقلیت میں ہیں، مگر ان کی ترقی کا راز یہ کہ انہوں نے قرآن کی اس آیت کو آئیڈیل بنایا جس میں کہا گیا ہے کہ:
کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آتی ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے" (البقرہ)۔

یہودیوں نے اپنے مد مقابل اکثریت سے کئی گنا زیادہ محنت کرکے خود کو ثابت کیا۔ امتیازی حیثیت کو اپنی زندگی کا شیوہ بنا لیا۔ ان کو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آگئی کہ عددی قوت کوئی معنی نہیں رکھتی، اصل راز یہ ہے کہ وہ اکثریت سے زیادہ محنت کریں گے، قربانیاں دیں گے، تبھی دنیا میں چمک پائیں گے اور انہوں نے یہ کرکے دکھا دیا ہے۔
مسلمانوں کو اگر اپنے حریفوں کو ٹھنڈا کرنا ہے تو اس روش کو اپنانا ہی ہوگا۔ بدی کا نیکی سے جواب، تکلیف پر صبراور حکمت عملی سے مخالفین کو ہمنوا بنانے کا ہنر اسلام کے سامنے دنیا کو جھکائے گا۔
نفرت کا جواب نفرت اور تشدد سے دینا، اسلامی تعلیمات کی نمائندگی نہیں کرتا۔ یہ اصول انفرادی و جذباتی تو ہو سکتا ہے، لیکن مذہب کی نمائندگی نہیں کرتا۔ قرآن و حدیث اور اسلام کی پوری تعلیمات اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہیں، اس سے سبھوں کو سبق لینا چاہیے۔ صبر، مثبت تعلیمات اور حکمت عملی سے دنیا کو جھکانے کی فکر اور کوشش کرنی چاہیے۔

***
عبد الواحد رحمانی
ایڈیٹر عوامی نیوز، پٹنہ
موبائل : 9430294035
abdul-wahid-rahmani
عبد الواحد رحمانی

The Minorities Rights Day, Article: Abdul Wahid Rahmani.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں