ارملا ماتونڈکر - معصوم کردار سے رنگیلا کی چمکتی لڑکی تک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-20

ارملا ماتونڈکر - معصوم کردار سے رنگیلا کی چمکتی لڑکی تک

urmila-matondkar
ارملا ماتونڈکر (پیدائش: 4/فروری 1974)
نے بالی ووڈ کے پردۂ سیمیں پر شیکھر کپور کی مشہور فلم "معصوم" (ریلیز: 1983) کے ایک بچکانہ کردار کے ذریعے اپنی شناخت قائم کی تھی، پھر چند ہی برسوں میں وہ بالی ووڈ کی باقاعدہ ہیروئین کے بطور جلوہ گر ہوئیں جن میں "نرسمہا (ریلیز: 1991)" اور "چمتکار (ریلیز: 1992)" سرفہرست رہیں۔ مگر ان کی اداکاری کو اصل عروج عامر خاں کی فلم "رنگیلا (ریلیز: 1995)" سے حاصل ہوا۔ تقریباً 70 فلموں میں اپنی منفرد اداکاری کے جوہر دکھانے اور متعدد فلمی ایوارڈز کے حصول کے بعد وہ گذشتہ سال میدانِ سیاست سے وابستہ ہو گئی ہیں۔
مشہور فلمی و نیم ادبی رسالہ "شمع" کے شمارہ مئی-1998 میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے فلمی دنیا کے اپنے اتار چڑھاؤ اور اپنی فلمی زندگی کے نقطہ نظر سے واقف کرایا ہے۔ تعمیرنیوز کے ذریعے پہلی بار اردو سائبر دنیا میں یہی انٹرویو پیش خدمت ہے۔
حسن کا معیار فلمی دنیا میں تصویر ہے۔ پردے پر ابھرنے والی تصویر جب دل کے تاروں کو چھو لیتی ہے تو وہ نغمہ پھوٹتا ہے جسے محبت، چاہت، پیار، پرستاری، پسندیگی پکارا جاتا ہے۔ یعنی پردے پر ابھرنے والی تصویر اگر اچھی ہے تو فرسٹ ڈویژن پاس ورنہ فیل۔ ارملا ماتونڈکر وہ جھملاتا ہوا ستارہ ہے جو راتوں رات فلمی دنیا کے پردے پر "رنگیلا" کی ہیروئن بن کر چمکی۔
لہذا پہلا سوال ارملا کی اسی راتوں رات کامیابی کے متعلق رہا۔

جواب:
ارملا نے دل فریب مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا:
"جی نہیں! میری کامیابی ایسی اچانک نہیں تھی۔ اگر کچھ ایکٹریسوں کو دو فلمیں کرنے کے بعد ہیروئین کا درجہ ملا تو مجھے خود کو منوانے میں چار فلمیں لگ گئیں۔ مگر میں ہمیشہ سے فلمیں بڑی جانچ پڑتال کے بعد لیتی تھی۔ اس وقت لوگ سمجھتے تھے مجھے فلموں کے آفر نہیں مل رہے ہیں۔ مگر آج جب میں فلمیں چن کر لیتی ہوں تو سمجھا جاتا ہے کہ میں بہت سی فلموں کو منع کر رہی ہوں۔ بس یہ کامیابی کی دین ہے۔"

سوال:
فلم "ستیہ" (ڈائریکٹر رام گوپال ورما) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ مہیما چودھری کے فلم چھوڑنے کے بعد فلم میں گانے ڈالے گئے اور ارملا کو بطور ہیروئین لے لیا گیا۔ اصل بات کیا تھی؟
جواب
ارملا نے سنجیدگی سے جواب دیا:
"مہیما یہ فلم کیوں نہیں کرنا چاہتی تھیں اس کا جواب تو وہ خود دیں گی۔ لیکن جہاں تک گانوں کا سوال ہے یہ خواہ مخواہ کا لفڑا ہے ، کیوں کہ گانے اور موسیقی تو اس فلم کی کہانی کا ضروری حصہ تھے۔ میں اس فلم میں ایک ابھرتی ہوئی پلے بیک سنگر بنی ہوں۔ ویسے اتنا بتا دوں کہ رام گوپال ورما ایسے فلم میکر نہیں جو فضول باتوں کے لئے فلم میں گانے ڈالیں گے اور میں یہ بھی بتانا چاہوں گی کہ 'ستیہ' کے گانے عام فلموں کے گانوں جیسے نہیں۔ یہ بالکل مختلف اور بڑے دل کھینچنے والے گانے ہیں۔"

سوال:
فلم 'ستیہ' میں اپنے رول کے متعلق کچھ بتاؤ۔
جواب:
دراصل مجھے بہت میک اپ پسند نہیں، نہ میں نقلی لینس لگاتی ہوں، نہ نقلی پلکیں میرا شوق ہیں۔ میں تو بلشر سے بھی پرہیز کرتی ہوں، 'ستیہ' میں میں میک اپ سے بالکل آزاد ہوں ، ایک کاجل تو آنکھوں میں ضرور لگایا ہے ، مگر وہ بھی اس لئے کہ متوسط طبقے کی لڑکیاں اکثر کاجل لگاتی ہیں۔ فلم میں کسی طرح کا کوئی گلیمر نہیں۔ میں بالکل ایسی سیدھی سادھی لڑکی لگتی ہوں جیسی اکثر دادر اسٹیشن یا بائی کلہ مارکیٹ میں دکھائی دیتی ہیں۔ متوسط طبقے کی بہت سی لڑکیاں اس ہیروئن میں اپنی جھلک پائیں گی۔ لیکن اس لڑکی کی طبیعت ایسی سیدھی نہیں ، وہ اوروں سے ہٹ کر ہونا چاہتی ہے۔ اب وہ اس کوشش میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اس کے لئے آپ کو فلم دیکھنا پڑے گی۔
فلم 'ستیہ' میں نہ تو سوئٹزر لینڈ کی سیر ہے نہ ہی ممپ کٹ سوٹ میں ڈانس اور نہ ہی خواب کے سین کی کوئی آنکھ مچولی ہے۔ یہ فلم ننگی حقیقت کی تصویر ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔

سوال:
فلم 'لندن' میں سنی دیول کا ڈائریکشن اسٹائل کیا ہے ، کیا وہ شاٹ کر کے دکھاتا ہے یا سمجھانے پر بس کرتا ہے؟
جواب:
اس میں شک نہیں کہ فلم "لندن" بڑے اچھے طریقے سے بنائی جا رہی ہے۔ اس کی کہانی سیدھی سی میٹھی اور پیاری ہے۔ گو سنی کو ڈائریکشن کا تجربہ تو نہیں لیکن اس نے خود بڑے اچھے ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کیا ہے۔ لہٰذا ان کا رنگ تو اس پر آنا ہی ہے، سنی کو کام لینے کا ڈھنگ بخوبی آتا ہے اور اس کی توجہ ادھر ادھر نہیں ہوتی۔ اور فلم پر خرچ میں ، فلم کی صورت نکھارنے میں آرٹسٹوں کے کام میں سنی نے کہیں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے، 'چل جائے گا'، رویہ بالکل بھی نہیں۔"
سنی زیادہ تر شاٹ سمجھا دیتا ہے ، مگر ہاں کبھی کبھی وہ کر کے بھی بتاتا ہے کہ وہ اصل میں کیا چاہتا ہے۔ لیکن بہترین بات یہ ہے کہ سب کچھ نہایت آرام سے ہوتا ہے۔ کوئی جلد بازی نہیں، کوئی تناؤ نہیں۔ نہایت ٹھنڈے دل سے بڑی آسانی سے کام ہوتا ہے۔ اس کے پاس فلم کی مکمل سکرپٹ ، ہر سین اور ڈائیلاگ کے ساتھ پہلے سے ہی موجود ہے۔

سوال:
اس کا مطلب ہے کہ سیٹ پر اچانک کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی، شوٹنگ کے وقت کوئی بہتر بات سمجھ میں آئے تو اس پر بھی عمل نہیں ہوتا؟"
جواب:
نہیں ایسی بات نہیں ہے، سنی کے ساتھ میں نے سات آٹھ دن کے کام میں پایا کہ سنی آرٹسٹوں کو برجستگی کی بڑی آزادی دیتا ہے۔ اور وہ دوسروں کے مشوروں کو بھی سنتا ہے اور جو بات جو انداز اچھا لگا وہ اپنایا بھی۔ لکھی ہوئی تیار اسکرپٹ سے وقت اور ضرورت کے مطابق انحراف بھی کیا ہے۔

سوال:
اپنی فلم خوبصورت کے متعلق بتاؤ جس میں تم سنجے دت کے ساتھ سنجے چہل کی ڈائریکشن میں کام کر رہی ہو۔
جواب:
فلم میں میں ایک سیدھی سادی پیاری سی لڑکی ہوں۔ اور بات یہ ہے کہ رول صرف چار قسم کے ہوتے ہیں، ہیروئن یا تو خاموش طبع ہے یا چلبلی۔ شہر کی ہے یا گاؤں کی۔اس لئے جب میں کہتی ہوں کہ سیدھی سادی پیاری سی لڑکی تو مطلب یہ ہے کہ اس رول میں فلم کی کہانی۔ سکرپٹ اور ڈائریکٹر کے روئے اور تخیل کے مطابق تھوڑی بہت تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔

سوال:
کیا تم مانتی ہو کہ ہیروئنوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور فلم ساز انہیں فلم میں محض سجاوٹ کی چیز بنا کر رکھ دیتے ہیں؟
جواب:
نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ ہماری ساری فلمیں رومانٹک فلمیں ہوتی ہیں۔ فلم چاہے کامیڈی ہو یا ایکشن یا تھرلر یا سسپنس ہو اس میں رومانی چکر ضرور ہوتا ہے۔ ہیرو خود سے محبت تو کرنے سے رہا۔ اس کے لئے ہیروئین کی ضرورت ہوتی ہے ، پھر ہماری فلموں میں زبردست سنگیت ہوتا ہے اور ہیروئین کے بغیر کیا سنگیت ہوگا؟ مجھے ہیروئین کے رول کے بارے میں کسی قسم کی شکایت نہیں۔

سوال:
تمہاری فلم "دوڑ" بالکل نہیں دوڑ سکی، کیوں؟
جواب:
مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ فلم کیوں نہیں چلی؟ کامیابی کا کوئی فارمولا تو ہے نہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں صرف بیس فیصدی فلمیں کامیاب ہوتی ہیں۔ مجھے تو یہ توقع بھی نہیں تھی کہ فلم 'جدائی' اتنی کامیاب ہوگی۔ اس کا موضوع اتنا بے باک اور جدا تھا اور پھر یہ فلم 'رنگیلا' کے بعد آئی تھی اور کچھ یہ کشمکش تھی کہ میں ایک بالکل نئی چھب اور طرز میں قبول کی جاؤں گی یا نہیں؟

سوال:
تم ڈائریکٹر ڈیوڈ دھون کی فلم "کنوارا" میں گووندا کے ساتھ آ رہی ہو۔ گووندا نے کہا تھا کہ تمہارے اور اس کے بیچ کچھ مسئلے تھے۔ مگر اب یہ مسئلے کیا سلجھ گئے ہیں؟
جواب:
سچی بات تو یہ ہے کہ میں درحقیقت گووندا کی پرستار ہوں۔ وہ آج کا بہترین ایکٹر ہے۔ کامیڈی ہو، ایکشن ہو، جذبات ہوں۔ ڈانس ہو۔ وہ ہر چیز میں عمدہ ہے ، وہ آل راؤنڈر ہے۔ بس یہ اتفاق ہی تھا کہ "کنوارا" سے پہلے ہم نے ایک ساتھ کام نہیں کیا۔ ابھی حال ہی میں ہم نے سوئٹزر لینڈ میں تین زبردست گانے فلمائے ہیں۔ ان کا سنگیت دل چھو لینے والا ہے۔ اور ڈیوڈ دھون کے ساتھ فلم کرنا تو گویا پکنک پر جانا ہے۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کوئی کام کررہے ہیں۔ پورا ماحول ہی ایسا زبردست اور مزے دار ہوتا ہے۔ دراصل ڈیوڈ دھون اور گووندا دونوں ہی کو ہنسنے ہنسانے کا ایسا ہنر آتا ہے کہ کام اتنا مزے دار اور آسان ہو جاتا ہے کہ کام ہی نہیں لگتا۔

سوال:
یہ بتاؤ تمہارا کوئی ایسا رول ہے جس نے تمہاری صلاحیتوں کو للکارا ہو یا جس میں تمہیں واقعی سخت محنت کرنی پڑی ہو؟
جواب:
مجھے تو اپنے کام میں بڑا مزا آتا ہے۔ اس لئے مجھے لگتا ہی نہیں میں نے کسی رول پر سخت محنت کی ہو۔ مجھے ہر کردار میں دلچسپی محسوس ہوتی ہے۔ ہر سین کی شوٹنگ اہم معلوم ہوتی ہے۔ بات یہ ہے کہ اپنے پسندیدہ کام سے جڑی ہر چیز میں مزا آتا ہے۔ میں تو ویسے ہی اپنے شوق میں ایسی بھرپور ہوتی ہوں کہ کیمرے کے سامنے جذبات کا اظہار کرنے میں مجھے کوئی مشکل ہی نہیں ہوتی۔"

سوال:
تمہاری اپنی شخصیت کا کتنا حصہ تمہارے رول میں جذب ہوتا ہے؟
جواب:
شروع میں تو میری شخصیت ہی رول کا کردار بناتی ہے لیکن جیسے جیسے فلم کے کردار پر میری گرفت مضبوط ہوتی جاتی ہے یہ عمل رک جاتا ہے اور جب میں فلم کے کردار کی اور گہرائی میں جاتی ہوں تو میں اس تصویر کے نئے نئے پہلو سامنے لانے لگتی ہوں۔ اپنی ساری فلموں میں مجھے فقط ارملا کی شخصیت ہی تو نہیں رہنا ہے۔ 'جدائی' کی جنوی اور 'دوڑ' کی بھوانی دو مختلف شخصیتیں ہونا چاہئیں نا۔ اگر میں اپنے آپ کو ہر کردار میں ڈھال نہ سکوں تو پھر میں اس کام کے لئے موزوں ہی نہیں۔

سوال:
کیا تمہارا کیریر تمہارے منصوبہ کے مطابق چل رہا ہے؟
جواب:
میں تو منصوبہ بند ہوں ہی نہیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ میں صحیح سمت میں بڑھ رہی ہوں اور اس بارے میں مجھے پریشانی نہیں۔ میں نے ایک نئے تجربے کا جوکھم ضرور لیا تھا جب میں نے 'رنگیلا' سائین کی تھی اور یہ بازی کامیاب رہی۔ لیکن اتنا بتا دوں کہ رنگیلا سے پہلے بھی ایسی فلموں کی تلاش میں رہتی تھی جو نئی اور ذرا ہٹ کے ہوں۔

سوال:
بھئی اس انڈسٹری میں تم کتنی نئی اور کتنی ہٹ کے فلموں کی تلاش کر سکتی ہو؟
جواب:
اپنی طرف سے تو پوری کوشش ہونی چاہئے۔ مجھے اس یقین سے کام کرنا چاہئے کہ میں اسکرین پر پہلی ہیروئین ہوں جو ہیرو کی الفت سے گھائل ہو گئی ہے۔ میں پہلی ہیروئین ہوں محبت میں جس کا دل ٹوٹا ہے۔ ہر جذباتی کیفیت کا خود کو یقین دلانا اور پھر اس اعتماد سے اس کو پردے پر پیش کرنا ہی اداکاری ہے۔ انسان ہی دوسرے انسانوں کے لئے فلمیں بناتے ہیں اور جب 'دل والی دلہنیا۔۔۔' جیسی فلمیں سامنے آتی ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ ہندوستانی فلمیں صحیح سمت میں جا رہی ہیں۔"

سوال:
کیا تم اپنی کسی فلم کے کردار کو سمجھتی ہو کہ یہ تم خود ہو؟
جواب:
نہیں۔ میں۔۔۔ البتہ یہ کہوں گی کہ مختلف کرداروں میں چھوٹے موٹے حصے مل جاتے ہیں جو مجھے لگتا ہے جیسے میرے ہوں۔

سوال:
کیا تم کیمرے کے سامنے آنے سے پہلے خوب تیاری کرتی ہو؟
جواب:
میں میتھڈ (Method) ایکٹریس نہیں۔ میں کسی ایکٹنگ اسکول کی تعلیم یافتہ نہیں، لہذٰا میں اپنے گھر پر کوئی خاص تیاری نہیں کرتی۔ لیکن میں اپنے رول پر غور ضرور کرتی ہوں اور پھر خود کو اس کے مطابق تیار کرتی ہوں۔ لہٰذا درمیان میں ہوں کیوں کہ میں نے یہاں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو سیٹ پر تو آ جاتے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی فلم کی شوٹنگ کر رہے ہیں یا کون سا کردار ادا کر رہے ہیں یا سین کے تسلسل کا تقاضا کیا ہے؟ میں ایسا کبھی نہیں کر سکتی۔ میرے لئے اپنے کردار میں خود کو سو فی صد گم کردینا ضروری ہے، کیمرے کے سامنے آنے سے پہلے ہر تفصیل کو جاننا ضروری ہے۔ میں ان لوگوں کی طرح گویا خواب میں ڈوبی کیمرے کے سامنے کبھی نہیں آ سکتی۔ نہ ہی اپنے کام کے بارے میں ایسی لاپرواہی برت سکتی ہوں۔

سوال:
ایک سین میں تمہیں کتنے Take (یعنی ایک ہی شاٹ کو بار بار ادا کرنا) لینے کی ضرورت پڑتی ہے؟
جواب:
میرے قیاس سے کچھ وقت تو لگتا ہی ہے۔ اتنی بہت سی چیزوں کا خیال کرنا پڑتا ہے۔ جذباتی اظہار اور پیش کش، چال ڈھال، حرکت، جسمانی اشارے اور اس کے علاوہ ساتھ کام کرنے والے کے رد عمل اور جوابی تاثر کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ہمیں مختلف فلموں میں مسلسل مختلف کرداروں کو مختلف چیزیں کرتے ہوئے نبھانا پڑتا ہے۔ لہٰذا کسی ایک کردار میں خود کو ڈھالنے میں وقت تو لگتا ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میرا پہلا ٹیک میرا بہترین ہوتا ہے۔

جواب:
اچھا اگر ایک سے زیادہ ٹیک ہوں تو تمہاری کارکردگی میں فرق نہیں آ جاتا؟
جواب:
"ویسے میرا ہر ٹیک پہلے سے ذرا مختلف ہوتا ہے ، مگر خوش قسمتی سے زیادہ یا کم ٹیک میری برجستگی پر اثر انداز نہیں ہوتے۔

جواب:
جب تمہارے ٹیک صحیح نہیں ہوتے تو تمہارا رد عمل کیا ہوتا ہے؟
جواب:
میں خاموش ہوجاتی ہوں ، میں چیختی چلاتی نہیں، نہ ہی صبر اور جذباتی توازن کھوتی ہوں۔ میں خود سے سوال کرتی ہوں کہ کیا بات ہے کہ ٹیک ٹھیک کیوں نہیں ہو رہے ہیں؟

سوال:
اور اگر تمہارا ساتھی اداکار ٹیک ٹھیک نہیں کر پا رہا ہو تو۔۔۔۔؟
جواب:
مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ ایک کہاوت ہے کہ: "اپنا پسندیدہ پیشہ چننا، پھر تمہیں کسی ہابی کی ضرورت نہیں ہوگی"۔
اس لئے چوں کہ مجھے اپنے کام میں لطف آتا ہے لہذٰا اور کسی چیز کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ بعض اوقات مجھے سیٹ پر گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن میں پھر بھی اپنی خوش گواری برقرار رکھتی ہوں۔ دراصل ایکٹنگ کرنے کا مجھ پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ میں اپنی پسند سے ایکٹنگ کی طرف آئی ہوں۔

سوال:
اگر تم اداکارہ نہ ہوتیں تو کیا بنتیں؟
جواب:
میں پڑھنے میں اچھی تھی، شاید میں نفسیات میں ایم۔اے یا ڈاکٹریٹ کرتی۔ لیکن میں ایکٹنگ پر بھی شروع ہی سے راغب تھی اور بچپن میں بھی میں نے ایکٹنگ کی تھی۔

سوال:
اپنے رشتوں میں کیا تم خود کو دینے والی ہو یا لینے والی ہو؟
ارملا نے بڑی سادگی سے جواب دیا:
دراصل دونوں ہی ہوں۔ میں جذباتی رشتوں کے لین دین کی قائل ہوں۔ ورنہ یہ ایک ایک طرفہ رشتہ رہ جائے گا۔ جن رشتوں میں جذباتی لین دین ہوتا ہے وہی رشتے صحت مند اور لمبے چلنے والے ہوتے ہیں ، یک طرفہ رشتے کچھ زیادہ چل نہیں پاتے۔ دونوں ہی ساتھیوں کو ایک دوسرے کی توقعات کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی رشتے میں یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

سوال:
کیا تم خطا کو معاف کرنے اور بھول جانے کی پالیسی پر پورا یقین رکھتی ہو؟
جواب:
میں اسے اہمیت نہیں دیتی، بس بھول جاتی ہوں۔

سوال:
اپنے آپ کو تم کیسے بیان کرو گی؟
جواب:
میں ایک سیدھی سادی نارمل بے فکر سی انسان ہوں۔ مجھے زندگی سے محبت ہے اور میں زندگی کا لطف اٹھانا چاہتی ہوں۔ میں نہ دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرتی ہوں نہ ہی اسے اپنے لئے پسند کرتی ہوں۔ میں دوسروں کو زحمت نہیں دیتی نہ ہی پسند کرتی ہوں کہ دوسرے مجھے زحمت میں ڈالیں۔

سوال:
عام طور سے نام ور لوگ ذاتی زندگی میں خلل پڑنے کی شکایت کرتے ہیں، تم کیا کہتی ہو؟
جواب:
ذاتی زندگی میں تھوڑا بہت خلل میرے خیال میں تو شہرت کے مرتبہ کے بہت سے فوائد اور رعایات کی چھوٹی سی قیمت ہے۔ مجھے کوئی شکایت نہیں۔ کیوں کہ اس تھوڑی سی کلفت کے بدلہ جو کچھ ملتا ہے وہ عظیم الشان ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ نہیں چاہتے کہ لوگوں کو آپ کے حالات معلوم ہوں تو جو کچھ کریں اپنے تک رکھیں۔ یہ تو غلط ہوا کہ آپ مجمع عام میں سب کچھ کریں اور امید یہ رکھیں کہ کوئی دھیان نہ دے۔ لوگ تو آپ کی ہر حرکت ہر عمل پر کڑی نظر رکھیں گے ہی۔ کیوں کہ ساری توجہ تو آپ ہی کی طرف ہے نا۔ لہذٰا اس توجہ کے لئے آپ کو خوشی خوشی شکر گزار ہونا چاہئے۔

ارملا ماتونڈکر کے چند یادگار فلمی نغمے:
سایہ بھی ساتھ جب چھوڑ جائے ایسی ہے تنہائی (فلم: دل لگی)
لکڑی کی کاٹھی ، کاٹھ ہی کا گھوڑا (فلم: معصوم)

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: مئی 1998

Urmila Matondkar, an interview from May-1998 issue of Shama Magazine.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں