حالانکہ بی جے پی یہ کہتی ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں کرتی اور سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں مسلمانوں کو دوئم درجے کا شہری بنانے اور انھیں دیوار سے لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جارہا ہے۔ یوں تو جب سے مرکز میں بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے ، تب سے مسلمانوں کا جینا حرام کرنے کے ہزار بہانے ایجاد کئے گئے ہیں۔ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لئے نئے نئے قانون وجود میں آرہے ہیں۔
اس کا تازہ ترین ثبوت نام نہاد "لو جہاد" کے خلاف یو۔پی میں لایا گیا وہ آرڈی نینس ہے جس میں تبدیلی مذہب کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے بین مذاہب شادیوں کو قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ جس وقت اس قسم کا قانون بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں ، تبھی یہ کہا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ صرف مسلمانوں کو ہی ہراساں کیا جائے گا، کیونکہ "لو جہاد" کی اصطلاح مسلمانوں کو نظر میں رکھ کر ہی ایجاد کی گئی ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ بین مذاہب شادیوں کو روکنے کے لئے یوپی میں جو دستور مخالف آرڈی نینس لایا گیا ہے، اس میں کہیں"لو جہاد" کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی حکومت کے پاس اس کے کوئی اعداد وشمار موجود ہیں۔ دراصل اس قانون کا بنیادی مقصد کسی بھی صورت میں مسلم نوجوانوں کو ہندولڑکیوں سے شادی کرنے سے باز رکھنا ہے۔
حالانکہ نئے آرڈی نینس میں مسلمانوں کی ہندو لڑکیوں سے اور ہندو لڑکوں کی مسلمان لڑکیوں سے شادیاں روکنے کی بات کہی گئی ہے ، لیکن اس معاملے میں یو۔پی پولیس صرف ان مسلمان لڑکوں کے خلاف ہی کارروائی کر رہی ہے جو ہندو لڑکیوں سے شادیاں کر رہے ہیں اور جو ہندو لڑکے مسلمان لڑکیوں کو اپنے جال میں پھانس رہے ہیں ، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ اس کا ثبوت گذشتہ ہفتہ کے دو واقعات سے ملتا ہے۔
یو۔پی پولیس نے نئے آرڈی نینس کے تحت اب تک چھ کیس رجسٹر کئے ہیں اور دس لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ لیکن اس معاملے میں چوبیس گھنٹوں کے اندر روشنی میں آنے والے دو کیسوں کا مطالعہ کرنے سے صورتحال پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ پولیس کس طرح اس آرڈی نینس کو صرف مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔
گذشتہ ہفتہ بریلی پولیس نے ایک مسلمان باپ کی اس شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی کہ ایک ہندو نوجوان نے اس کی بیٹی کے ساتھ زبردستی اس کا مذہب تبدیل کر کے شادی کر لی ہے۔ پولیس نے کہا کہ اسے پتہ چلا ہے کہ یہ شادی گزشتہ ستمبر کے مہینے میں اس آرڈی نینس کے وجود میں آنے سے پہلے ہوئی تھی۔ اس لئے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
لیکن اس کے برعکس پولیس نے مرادآباد میں ایک مسلم نوجوان کو اس وقت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جب وہ گزشتہ جولائی میں ہوئی اپنی شادی رجسٹر کرانے کچہری آیا تھا۔ اس مسلم نوجوان نے ایک ہندو لڑکی مسکان سے اس کی مرضی کے مطابق شادی کی تھی اوراس لڑکی نے اپنا مرضی سے مذہب تبدیل کیا تھا ، لیکن پولیس نے اسے غیرقانونی تبدیلی مذہب اور شادی کا کیس بناکر لڑکے اور اس کے بھائی کو جیل بھیج دیا جبکہ لڑکی کو شیلٹر ہوم بھیج دیا گیا جہاں انتہاپسند ہندو تنظیموں کے نوجوانوں نے اس کے ساتھ دھکامکی کرکے اس کا حمل ضائع کرانے کی کوشش کی۔ لڑکی اس وقت سخت تکلیف میں ہے اور وہ ہندو تنظیموں کی تمام اچھل کود کے باوجود اپنی سسرال چلی گئی ہے۔
اصولی اور قانونی طور پر "لو جہاد قانون" کا نفاذ ان سبھی لوگوں پر ہونا چاہیئےجو شادی کے لئے جبراً مذہب تبدیل کریں، لیکن اس قانون کو پوری بے شرمی کے ساتھ صرف مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یعنی اگر کوئی مسلمان لڑکا کسی ہندو لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اس کے خلاف پوری سرکاری مشینری سرگرم ہو جاتی ہے اور اسے فوری طور پر جیل بھیج دیا جاتا ہے اور اگر کوئی ہندو لڑکا کسی مسلمان لڑکی سے شادی رچاتا ہے تو اس کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جاتا ہے اور اس معاملے میں نئے آرڈی نینس کو استعمال میں نہیں لایا جاتا۔
اتنا ہی نہیں جارحیت پسند ہندو تنظیموں کی شکایت پر اب ایسی شادیوں کو بھی روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جن میں دولہا دلہن دونوں مسلمان ہیں۔ گزشتہ ہفتہ اترپردیش کے کشی نگر علاقہ میں ایسی ہی ایک شادی کو پولیس نے ہندو یووا واہنی کی شکایت پر روک دیا جس میں لڑکی اور لڑکا دونوں ہی مسلمان تھے۔
ہندو یووا واہنی اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی قائم کی ہوئی ایک ایسی جارحیت پسند تنظیم ہے جس نے مشرقی یو۔پی میں مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اس تنظیم کو اب بھی وزیراعلیٰ کا "آشیرواد" حاصل ہے، اس لئے پولیس اور سرکاری مشینری اس کو ایک مساوی سرکارکے طور پر دیکھتی ہے۔
اترپردیش کا کشی نگر علاقہ ہندو یوا واہنی کی سرگرمیوں کا خاص مرکز ہے اور یہاں اس کی مساوی حکومت قائم ہے۔ اسی کشی نگر میں گزشتہ 10/دسمبر کو واہنی کے کارکنوں نے پولیس کو اطلاع دی کہ ایک مسلمان لڑکا ہندو لڑکی کا مذہب تبدیل کرکے اس کے ساتھ شادی رچا رہا ہے۔
پولیس فوراً حرکت میں آگئی اور اس نے اناً فاناً دولہا حیدر علی کو گرفتار کرلیا اور اسے تھانے میں لے جاکر چمڑے کی بیلٹ سے بری طرح پیٹا اور ٹارچر کیا۔ یہ جانے بغیر کہ اصل معاملہ کیا ہے ، پولیس کی یہ حرکت اس کے فرقہ وارانہ کردار ہی کو اجاگر کرتی ہے۔ حیدرعلی کی شادی شبیلہ خاتون کے ساتھ ہو رہی تھی۔ دولہا اور دلہن دونوں پیدائشی مسلمان تھے ، لیکن انھیں "لو جہاد" کا مجرم بناکر یہ شادی روک دی گئی۔
پولیس نے اس کا الزام "شرپسندوں" کے سر ڈال کر اپنی گردن بچانے کی کوشش کی ہے۔ کاسیہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ شرپسندوں نے "لو جہاد" کی افواہ اڑا دی تھی۔ انھوں نے دولہا اور دلہن کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ دونوں ہی بالغ تھے اور ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔
علاقہ کے سی او پیوش کانت راج کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں فوری ایکشن لینے کی وجہ یہ تھی کہ : "ماحول بہت کشیدہ ہے اور اس قسم کے معاملات میں انتظامیہ سخت ایکشن لینے کے لئے مجبور ہے۔"
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ ماحول کو کشیدہ بنانے کا کام کون کر رہا ہے اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے اس قانون کے نفاذ کی تمام ذمہ داری انتہا پسند ہندو تنظیموں کے کاندھوں پر ڈال دی ہے۔ پولیس اس معاملے میں قانون کی پاسداری سے زیادہ ان تنظیموں کے احکامات کی تعمیل کر رہی ہے اورکھلے عام قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
"لو جہاد" مخالف قانون کا نفاذ 28 نومبر 2020 کو ہوا تھا اور اس کی رو سے جو واقعہ اس تاریخ کے بعد پیش آیا ہے اس پر ہی قانون نافذ ہو سکتا ہے ،لیکن اس معاملے میں گڑھے مردے اکھاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اور برسوں پرانی شادیوں کی کھوج بین کی جا رہی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اترپردیش میں نظم و نسق کی مشینری پوری طرح زعفرانی ہو گئی ہے اور اس نے دستور اور قانون کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ قابل ذکربات یہ ہے کہ یو۔پی سرکار کی ان دستور مخالف کارروائیوں کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا گیا ہے۔
اس سلسلہ میں مشہور سماجی کارکن ٹیسٹا سیتلواڑ نے مفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کرکے کہا ہے کہ "لو جہاد" ایک خام خیالی ہے جسے عام لوگوں کے لئے مصیبت بنا دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اکیسویں صدی کے ہندوستان میں اس قسم کے قانون کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ قانون نجی رازداری ، خودمختاری اور مساوات پر حملہ ہے۔ عرضی میں لاء کمیشن کی اس رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ "لو جہاد" کا اب تک کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ عرضی میں بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "لو جہاد" کے نام پر جو قانون بنایا گیا ہے وہ ہندوستان میں کثرت میں وحدت کے تصور کے بھی خلاف ہے۔ یہ دراصل مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش ہے۔
مفاد عامہ کی عرضی میں اس قانون کو خارج کرنے کا مطالبہ کیاگیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دستور کی بنیادی روح کے خلاف لائے گئے اس آرڈی نینس پرسپریم کورٹ جلدازجلد کوئی فیصلہ لے کیونکہ اس کی آڑ میں بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ اترپردیش کے بعد بی جے پی اقتدار والے دیگر صوبوں میں بھی اس ظالمانہ قانون کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
معصوم مرادآبادی |
Love Jihad, the double standard of state government. - Column: Masoom moradabadi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں