ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنما اور جدوجہد آزادئ ہند کے دوران تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون کے حوالے سے معروف شخصیت ہیں۔ وہ نہ صرف مجاہد آزادی تھے بلکہ ایک مقبول صحافی، اسکالر اور شاعر بھی تھے۔ انھوں نے 'دی ٹائمس'، 'دی مانچسٹر گارجین'، 'دی آبزرور' جیسے مقبول و معروف اخبارات میں نہ صرف مضامین لکھے بلکہ 1911 میں کلکتہ سے انگریزی ہفت روزہ 'دی کامریڈ' اور 1913 میں دہلی سے اردو روزنامہ 'ہمدرد' کا آغاز کیا۔ دونوں اخبارات بے باک خبروں اور بے خوف تحریروں کے سبب لوگوں کی پسند بنے۔ ہندوستان کی آزادی کے لیے مولانا نے صرف قلم کا ہی سہارا نہیں لیا، اپنی تقریروں اور تحریکوں سے بھی انگریزوں کی مخالفت کرتے رہے۔
مولانا محمد علی جوہر کے 142 ویں یومِ پیدائش پر سفرناموں کے مطالعے کے شوقین قارئین کے لیے تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں مولانا کا ایک یادگار سفرنامہ پیش خدمت ہے۔ تقریباً سوا دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 9 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اس سفرنامہ کے دیباچہ میں مرتب پروفیسر محمد سرور لکھتے ہیں ۔۔۔مولانا کا سارا سرمایہ ادب تو کسی طرح سمیٹے سمٹ نہیں سکتا۔ اگر صرف ان کے مضامین کا ذخیرہ جمع ہو تو کئی جلدوں میں سمائے۔ تقریروں کا پھیلاؤ تو اتنا ہے کہ کسی طرح احاطہ میں نہیں آ سکتا۔ خطوط کمیاب ہیں۔ لیکن سب دستیاب ہوں تو ان کی اشاعت بھی مشکل ہو جائے۔ یورپ کے اپنے چھ (6) سفروں پر مرحوم نے انگریزی اور اردو میں بہت کچھ لکھا۔ انگریزی مضامین کی ترتیب اور ان کی اشاعت اس وقت مقصود نہیں۔ اردو میں جو کچھ مل سکا، وہ ناظرین کرام کی خدمت میں حاضر ہے۔ جامعہ کے کتب خانے میں مولانا مرحوم کے باقیات صالحات کا جو بھی اثاثہ موجود ہے، اسی سے استفادہ کیا گیا ہے۔
زیر نظر کتاب میں زیادہ تر حالات ان کے پانچویں سفر کے ہیں۔ یہ سفر جیسا کہ معلوم ہے، علاج کے سلسلہ میں کیا گیا تھا۔ مرحوم 2/جون 1928ء کو ساحل ہند سے رخصت ہوئے تھے گو صحت معمولاً خراب رہی اور کبھی کبھی لندن اور فرانکفرٹ (جرمنی) میں صاحب فراش بھی رہے لیکن وہ اس حالت میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہے
ڈاکٹر قمر تبریز اپنے مضمون "مولانا محمد علی جوہر : بے باک صحافی، عظیم مجاہد آزادی اور بانئ جامعہ ملیہ اسلامیہ" میں لکھتے ہیں ۔۔۔مولانا محمد علی جوہر کی پوری زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد جو چیز سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ مولانا کی طبیعت میں قرار نہیں تھا، وہ ایک اچھے شاعر بن سکتے تھے؛ لیکن شاعری میں جس مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان کے اندر نہیں تھی۔ اسی طرح وہ ایک بہترین ماہرِ تعلیم بن سکتے تھے؛ لیکن یہاں بھی ان کے قدم زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرے۔ ایک عظیم سیاست داں بن سکتے تھے؛ لیکن کچھ دنوں کے بعد اس میدان کو بھی انھوں نے خیرباد کہہ دیا۔ اسی طرح صحافت کے میدان میں بھی جب انھوں نے قدم رکھا ،تو بڑی کامیابی ہاتھ لگی؛ لیکن بعد میں کئی چیزوں میں ایک ساتھ مصروف رہنے کی وجہ سے اپنے اخبار کو بھی کم وقت دے پاتے تھے۔ گویا ان کی پوری زندگی اسی بے قراری کی نذر ہو گئی۔ ان تمام چیزوں کے باوجود جو کچھ اثاثہ انھوں نے اردو ادب یا صحافت میں چھوڑا، وہ ہمارے لیے بیش قیمتی ہے۔
مولانا محمد علی جوہر کی سیاسی زندگی پر اگر ہم نظر دوڑائیں ،تو ہندوستانی تاریخ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ''خلافت تحریک'' ہے۔ یہ وہ تحریک تھی، جو ترکی کے مسلمانوں کی حمایت میں شروع کی گئی تھی؛ لیکن بعد میں اس نے ہندوستانی جنگِ آزادی کی شکل اختیار کرلی۔ یہی وہ پلیٹ فارم تھا، جہاں سے مہاتما گاندھی نے اپنی ہندوستانی سیاست کا آغاز کیا، عدمِ تعاون اور خلافت تحریک نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو متحد کرکے انگریزوں کے خلاف لا کھڑا کیا۔ دونوں قوموں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ انگریز مخالف اقدامات شروع کیے؛ تاکہ ہندوستان کو ان کی غلامی سے آزاد کرایا جا سکے۔ اس کے لیے محمد علی جوہر نے ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں، مرتے دم تک انگریزوں سے اس بات کے لیے لڑتے رہے کہ یا تو ملک کو آزاد کردو یا پھر مرنے کے بعد دو گز زمین اپنے ملک میں دے دو، وہ کسی غلام ملک میں مرنا نہیں چاہتے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ انھوں نے اپنا قول پورا کرکے دکھا دیا، لندن میں موت ہوئی اور تدفین بیت المقدس میں۔
***
نام کتاب: سفرنامۂ یورپ (سفرنامہ)
از: مولانا محمد علی جوہر
تعداد صفحات: 226
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 9 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Safarnama Europe by Mohd Ali Jauhar.pdf
سفرنامۂ یورپ - از مولانا محمد علی جوہر :: فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | دیباچہ (از: پروفیسر محمد سرور) | 5 |
* | * پہلا اور دوسرا سفر (1898ء اور 1902ء) | 14 |
* | * تیسرا سفر (1913ء) | 16 |
1 | یکایک روانگی | 17 |
2 | عثمانی تارپیڈو کروزر | 19 |
3 | خواجہ کمال الدین اور مسٹر جناح سے ملاقات | 21 |
4 | انگلستان میں وفد کی سرگرمیاں | 23 |
5 | برطانی وزرا کا ملنے سے انکار | 26 |
6 | لارڈ مارلے کے نام خط | 28 |
7 | لارڈ کریو کے نام خط | 30 |
8 | ایک الوداعی لنچ | 32 |
* | * چوتھا سفر (1920ء) | 33 |
* | * پانچواں سفر (1928ء) | 35 |
1 | عزم سفر | 36 |
2 | دہلی سے اجمیر - سابرمتی - بمبئی | 37 |
3 | بمبئی سے روانگی | 46 |
4 | مقدونیہ جہاز | 47 |
5 | عدن | 49 |
6 | عدن سے قاہرہ | 52 |
7 | قاہرہ میں ایک دن | 66 |
8 | مالٹا | 90 |
9 | پیرس میں چند دن | 105 |
10 | ورود لندن | 120 |
11 | بیگم صاحبہ کو لندن آنے کی دعوت | 125 |
12 | افسردگی و بےچینی | 126 |
13 | علاج | 134 |
14 | غریبان وطن کا قبرستان | 139 |
15 | تہذیب یورپ کے چند مناظر | 158 |
16 | ایک جلاوطن ہندوستانی سے ملاقات | 167 |
17 | دارالشفا فرینکفرٹ | 171 |
18 | غسل میت سے غسل صحت | 191 |
19 | مراجعت وطن | 198 |
* | * آخری سفر | 200 |
1 | عزم سفر | 201 |
2 | پیرس میں شدید علالت | 203 |
3 | شاہ برطانیہ سے ملاقات | 212 |
4 | زندگی کے آخری دن | 215 |
5 | زندگی اور موت کی کشمکش | 216 |
* | * خاتمہ بالخیر (از: مولانا شوکت علی) | 219 |
Safarnama Europe, a travelogue, by Mohd Ali Jauhar, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں