ادیب کے فرائض - مضمون از احمد ندیم قاسمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-09

ادیب کے فرائض - مضمون از احمد ندیم قاسمی

adeeb-ke-faraiz
فرض اور شعور کے الفاظ ہمارے ادیبوں اور فن کاروں کے ایک طبقے میں مردود قرار دئیے جا چکے ہیں۔ ان دوستوں کا کہنا یہ ہے کہ ادیب کااپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس اس کے منصب کے منافی ہے اور تخلیق فن میں شعور کو کوئی دخل حاصل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس شعور ہی سے ادیب کے اندر فرض کا احساس بیدار ہوتا ہے اور ادیب جونہی فرض شناسی پر اترتا ہے وہ بحیثیت ادیب ختم ہو جاتا ہے۔ ان دوستوں کو علم ہونا چاہئے کہ ادیب کے باشعور ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شعر و ادب کے تمام فنی مطالبات سے قطع نظر کر کے سیاسی سٹیجوں پر کی جانے والی تقریروں کو نظم کی صورت میں موزوں کرتا پھرے۔
ادیب کے باشعور ہونے کا مطلب ہے اپنی انسانی، وطنی اور سماجی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا اور اپنی تخلیقات میں اس شعور کی وہ رویں چلانا جو نعرہ مارنے کی بجائے ذہن و احساس میں سرگوشی سی کریں اور یہ سرگوشی موضوع و ہیئت کے معاملے میں اتنی دلآویز ہوکہ قاری یا سامع کا لاشعور بھی اسے کان دھر کر سنے اور متاثر ہو کہ ادب و فن سے کردار یوں بدلتے ہیں اور ذہنیتیں یوں سنورتی ہیں:
لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہیں نعرے، لیکن
ہم تو اے اہل وطن، دردِ وطن مانگتے ہیں

وطن کی تاریخ اور ملک کے کوائف کا شعور
ادیب کو سب سے پہلے تو یہ شعور حاصل ہونا چاہئے کہ وہ بس ملک کا باشندہ ہے وہ تاریخ کے کون کون سے عوامل سے صورت پذیر ہوا۔ مثلا ہمارے معاملے میں وہ کون سے حالات تھے جنہوں نے ہماری تاریخ کی ان عظیم تحریکوں کو جنم دیا جو نفرمیں قیام پاکستان پر منتج ہوئیں شخصیتوں کی باری ہمیشہ تحریکوں کے بعد ہی آتی ہے کیونکہ تحریکیں ہی تو شخصیتوں کو جنم دیتی ہیں۔سو جب تک ہمارے ادیب کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے سے قبل کے حالات کس طرہماری تہذیب پر اثر انداز ہوتے رہے اورمغلوں کے زوال اور انگریزوں کے عروج کے دور میں انہوں نے اپنوں کے ساتھ کیا کیا اور شرافت و نجابت کی قدریں کیسے بدلیں اور کیسے ہمارے معاشرے پر وہ جاگیری نظام مسلط ہوا جس نے مسلمانوں کی بیداری کی ہر تحریک کی یوں مخالفت کی جیسے اس میں اس کی آخرت کی نجات پوشیدہ ہے تو اس وت تک ہمارا ادیب اپنی تخلیقی قوتوں کے ساتھ پورا پورا انصاف نہیں کرسکے گا۔
بعض عناصر پاکستان کے نظریاتی مملکت ہونے پر ناک بھوںچڑھاتے ہیںاور کہتے ہیں کہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں محض عقیدے کی بنا پر کسی مملکت کی انفرادیت کیسے قائم ہوسکتی ہے۔ ان عناصر کویقینا معلوم ہوگا کہ بیسویں صدی میں عقیدہ اور نظریہ ہی تو مختلف ملکوں کے نظامہائے حکومت کا محور ہیں۔ کمیونسٹ ممالک کی بنیاد ایک نظرئیے پر ہی تو ہے ، مغربی ممالک بھی تو زندگی اور نظام زندگی کے بارے میں ایک خاص عقیدے ہی کی وجہ سے ایک دوسرے سے مربوط ہیں یہ انسانی شعور ترقی کرکے اب تک بعض نظریوں اور عقیدوں تک ہی تو پہنچا ہے۔اتنا ضرور ہے کہ یہ نظریہ یا عقیدہ جہاں اپنے نظام حیات اور اپنی مملکت سے محبت کا درس دے وہاں دنیا کے دوسرے ملکوں اور ان کے پسندیدہ نظاموں سے نفرت کرنا نہ سکھائے۔ اس کے بعد نظریہ یا عقیدہ ایک خاص قسم کا طرز حیات بن جاتا ہے اور جمہوری معاشرے میں تو طرز حیات کا اختلاف عالم انسانیت کا بہت بڑا حسن ہے۔ اس اختلاف میں تعصب کو راہ پانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے اور بحمداللہ اسلام ہر نوع کے تعصبات کا شدید ترین مخالف ہے۔ اس صورت میں پاکستان کا ایک نظریاتی مملکت ہونا کس طرف سے قابل اعتراض رہ جاتا ہے۔

پاکستان کے قومی شعور کا عنوان وہ نظریہ ہے جس کے تحت پاکستان وجود میں آیا۔
برصغیر کے مسلمان صدیوں کے تلخ تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ اپنے مذہب ، اپنی تہذیب اپنے تمدن اور اپنے طرز حیات ، اپنے فکروفن اور اپنی مادی آسودگی کا تحفظ صرف اس صورت میں کرسکتے ہیں کہ وہ متعصب اکثریت کی دستبرد سے مکمل طور پر آزاد ہوجائیں۔ ایک زبردست ہمہ گیر اور عوامی تحریک اور اس تحریک کی کامیاب رہنمائی کی برکت سے ہم نے یہ آزادی حاصل کرلی، مگر اس آزادی کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے شعروادب مین فنکار انہ انداز سے پاکستان کے اس بنیادی نظریے کی روح پھونکیں اور اس کا مثبت طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی قومی خصوصیات اور انفرادیتوں کو نمایاں کریں اور قاری کے دل میں پاکستانی ہونے پر فخر کا جذبہ پیدا کریں۔

پاکستانی ادیب کا ایک اور اہم فریضہ یہ ہے کہ اپنا معاشرہ اس کے لئے اجنبی نہ ہو اور اسے معلوم ہو کہ مروجہ نظام معیشت اس معاشرے کی کتنی ہولناکیوں سے دوچار کئے ہوئے ہیں، ادیب کو اس حقیقت کا شعور حاصل کرنا چاہئے کہ ہماری آبادی کی اکثریت بے قاریکیوں ہے۔ سارا جھگڑا انسان کی بے وقاری کا ہے۔ انسان کا وقار اس کے ساتھ باوقار برتاؤ اس کا حق ہ ے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ آدمی مسجود ملائک ہے۔ جب ہم مانتے ہیں کہ آدمی کرہ ارض پر خدا کا خلیفہ ہے۔ جب ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آدمی اشرف المخلوقات ہے تو اس طرح ہم آدمیوں کی کوئی خاص فہرست مرتب نہیں کرتے۔ سبھی انسان مسجود ملائک اور خلیفۃ اللہ علی الارض اور اشرف المخلوقات ہیں۔ وہ جو سائیکل کو پنکچر لگارہا ہے وہ جو ٹرک میں مٹی لاد رہا ہے۔ وہ جو دفتر میں قلم چلارہا ہے، وہ جو بازار میں آنے آنے دو آنے کی اشیا بیچ رہا ہے۔ اور وہ جو ایئرکنڈیشنڈ گھر میں بیٹھا گرمیوں میں سر دیوں کے مزے لوٹ رہا ہے۔ وہ جو اپنی موٹر کار کے بغیر چار قدم بھی نہیں چلتا وہ جسے الگ الگ ہند سے بھول گئے ہیں کیونکہ وہ برسوں سے لاکھوں اور کروڑوں کی باتیں کر رہا ہے۔
یہ سب اشرف المخلوقات ہیں یہ سب ایک سطح کے آدمی ہیں ، ان میں سے کوئی کسی سے اشرف نہیں ہے۔ اشر ف صرف وہی ہے جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ خدا ترس ہے۔ جو خدمت خلق کو عبادت کا درجہ دیتا ہے، جو کسی کا حق نہیں مارتا اور جو کسی پر ظلم نہیں کرتا ، مگر ہم دین و مذہب کے نام لیوا اور اس کے اصول و قوانین کے پابند ہونے کے باوجود اشرفیت کے اپنے اپنے معیار قائم کئے بیٹھے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ خدا ترساور خدمت خلق ،حق کوشی کی روایت ہمارے ہاں سے نہ صرف ختم ہوگئی ہے بلکہ اب تو لاکھوں میں کوئی ایک اس پاکیزہ ذہنیت کا آدمی ہمیں ملتا بھی ہے تو ہماری ہنسی نکل جاتی ہے، ہم کہتے ہیں کہ یہ پرانے خیال کا آدمی ہے ، ہم اسے کمزور قرار دیتے ہیں اور اس کے ذہنی توازن تک پر شبہ کرنے لگتے ہیں۔

شرف انسانی اور دولت
میں یہ باتیں منبر پر کھڑے ہوکر نہیں کہہ رہاہوں۔ یہ بالکل سامنے کی باتیں ہیں ہر روز ہمارے مشاہدے میں آتی ہیں۔ ہر فرد انمیں محسوس کرتا ہے ، اس کا اظہار بھی کردیتا ہوں اور میں بعد الطبیعاتی باتیں نہیں کررہا ہوں۔ میں اس کے اظہار کے لئے علم فلسفہ یا علم سیاسیات کی مروجہ اصطلاحات کا بھی سہارا نہیں لے رہاہوں۔ میری گفتگو براہ راست اپنے قارئین سے ہے اور میں ان سے پوچھتا ہوں (جیسا کہ میں خود سے بھی پوچھتا رہتا ہوں) کہ کیا ہم نے صرف ان ہی انسانوں کو اشرف نہیں قرار دے رکھا ہے جو اندھا دھند دولت سے فیضیات ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ وہ بڑا آدمی ہے تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ امیر آدمی ہے ، جب ہم کہتے ہیں کہ وہ معمولی آدمی ہے تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ غریب آدمی ہے۔
یوں کیا ہم نے اشرف اور غیر اشرف لوگوں کی من مانی فہرستیں تیار نہیں کررکھی ہیں۔ کیا ہمارے معاشرے میں دولت و ثروت ہی کو شرافت و نجابت کا ثبوت نہیں سمجھاجاتا اپنے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ہمیں اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ چاہے غریب ہوں چاہے امیر، کیا ہم سب امارت ہی کو اشرفیت کی نشانی نہیں مانتے۔ ہمارے ذہنوں کو اس بیہودہ روایت نے جس سختی سے جکڑ رکھا ہے اس کے ثبوت میں بعض انقلاب پسندوں تک کو پیش کیاجاسکتا ہے جن کا طرز حیات اگر میرانہ نہ ہو اور جن کا میل ملاپ امراسے نہ ہو تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ حقیر ہوگئے۔ ان کی انقلاب پسندی پر شبہ کرنا غلط ہے مگر وہ اس روایت کے سامنے بے بس ہیں جو صرف امارت، دولت ورا ثروت کو عزت و آؓرو کا سرمایہ قرار دیتی ہے۔
یوں ہم ان کروڑوں کی بے وقاری اور ہتک کے مرتکب ہوتے ہیں جو دولت سے محروم ہیں اور وہ دولت سے اس لئے محروم ہیں کہ ہم نے انہیں جس نظام معیشت میں جکڑ رکھا ہے وہ صرف چند کے ہاں دولت کو مرتکز کردیتا ہے اور اللہ کی شان۔ کہ آج ہ میں سے بعض میں یہ حوصلہ بھی ہے کہ ہم اس سراسر غیر منصفانہ ارتکاز دولت کے حق میں دلائل لانے سے بھی نہیں چوکتے اور جو لوگ اس نظام معیشت کو بنی نوع انسان کی اشرفیت کی بے آبروئی قرار دیتے ہیں، ان کی نیتوں پر شبے سے بھی باز نہیں آتے اور یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے عقائد کی، ہمارے ایمان کی، ہمارے اسلام کی عظمت تو اس میں ہے کہ معاشی لحاظ سے ہمارے درمیان کوئی غیرمعمولی تفریق نہ ہو۔ تاکہ ہم سب محض قولا نہیں، بلکہ عملا اشرف ہوں اور ہم سب کو شرف انسانی کا۔ وقار انسانی کا ذائقہ اپنی زبانوں اور ا پنی روحوں میں محسوس ہو سکے۔

افریشیائی حالات کا شعور
اپنے سیاسی اور تہذیبی ماضی اور مروجہ معاشرت و معیشت سے پوری طرح آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے ادیب کو ا پنے ہم نصیبوں اورہم قسمتوں کے حالات و کوائف سے بھی باخبر رہنا چاہئے۔ یہ ایشیا اور افریقہ کے بیشتر ممالک ہیں یا لاطینی امریکہ کے وہ ممالک جو بظاہر آزاد ہیں مگر جن کی رگ جاں دوسرے ملکوں کی گرفت میں ہیے۔ صدیوں کے غیر ملکی استحصال کے بعد ہم سب نے حال ہی آزادی حاصل کی ہے۔ ہمارا ماضی قریب خون آلودہ ہے۔ غیر ملکی حکمرانوں نے ہماری سر زمینوں کا لہو نچوڑ لینے کے بعد ملبہ ہمارے سپرد کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے ان سابق حکمرانوں نے جو ہماری ہی دولت کے بل پر بڑے بنے۔ ایسے حالات پیدا کردئے ہیں کہ ہم اپنی تعمیر و ترقی کے لئے۔ بلکہ بعض صورتوں میں زندہ رہنے اور پیٹ بھرنے کے لئے بھی ان کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے افریشیائی ممالک کے گرد ایسے ایسے حصار کھینچ دئیے ہیں جنہیں آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں ، مگر جن کے سائے ہماری روحوں پر پڑ رہے ہیں۔
سیاسی طور پر آزاد ہونے کے باوجود ہم میں سے بیشتر ممالک کو معاشی طور پر غلام رکھا گیا ہے تاکہ ہم سیاسی طور پر آزاد ہونے کے باوجود وہ جذبہ ہی اپنے دلوں میں پیدا نہ کرسکیں جو کسی بھی غلامی کو برداشت نہیں کرسکتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے نو آزاد ممالک کو عالمی سیاست کی شطرنج کے پیادے بنانے کی کوششیں اب تک جاری ہیں۔ یہ "پیادے" جگہ جگہ لڑ رہے ہیں اور مر رہے ہیں اور مقاصد ان شاہوں کے پورے ہورہے ہیں جو بساط کے ایک گوشے میں محفوظ کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہمارے ادیب کو محسوس کرنا چاہئے کہ یہ بر اعظم جو صدیوں تک مغربکے مٹھی بھر سفاکوں کی من مانی کارروائیوں کی آماجگاہ رہے ہیں آج دورغلامی سے بھی کہیں زیادہ نازک دور سے گزر رہے ہیں اور اگر ان بر اعظموں کے تخلیقی فن کاروں نے ذراسی بھی سہل نگاری سے کام لیا اور جذبہ و احساس کو سو جانے دیا تو ایک ایسی غلامی کا آغاز ہوگا جس کا نتیجہ ان بر اعظموں کی بھوک اور امتیاج ہے۔ اور بھوک اور احتیاط ایسی چیزیں ہیں کہ انہیں دور کرنے کے لئے غلامی تک قبول کر لی جاتی ہے۔

عالمی کشیدگی کا شعور
حقائق سے فرار کا نتیجہ عموماً یہ نکلتا ہے کہ مفرور ادیب کو اپنی پناہ گاہ میں بھی خوفناک تر حقائق کا سامنا کرنا پڑتاہے۔وہ وہاں سے بھی بھاگتا ہے تو ان سے بھی زیادہ لرزہ خیز حقائق اس کا راستہ روک لیتے ہیں۔ سو حقائق سے مفر ممکن ہی نہیں اور دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ ان حقائقسے مٹاجانے۔ شتر مرغ جب شکاری کے ڈر سے اپنا سر ریت میں چھپالیتا ہے تو اس طرح شکاری بھی ریت سے نہیں گڑ جاتا۔ انسان کو شتر مرغ کی سی خود فریبی سے کام نہیں لینا چاہئے کہ اس کا انجام نیک نہیں ہے۔
ادیب کو ملکی حالات اور افریشیائی کوائف کے علاوہ عالمی کشیدگی کے پس منظر پر بھی غور کرنا چاہئے۔ اسے سوچناچاہئے کہ یہ قومیں جنہیں اپنے مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کے اتنے بڑے بڑے دعوے ہیں۔ اس آدمی خوری کی طرف کیوں مائل ہیں۔ جس کا آغاز اگست 1945ء میں ایشیا ہی کے ایک شہر ہیروشیما سے کیا گیا تھا۔ اگر ن قوموں کو انسان اور اس کی تہذیب اور اس کے علوم سے اتنی محبت ہے تو ان کے درمیان بم سازی کا کمپٹیشن کیوں ہو رہا ہے اور وہ یقین سے کیسے کہہ سکتی ہیں کہ مستقبل میں ان کا کوئی مخبوط الحواس قسم کا حکمران کہ ماضی میں بھی ایسے حضرات کی کمی نہیں رہی ، جو ہری جنگ کا بٹن نہیں دبادے گا اور پورا کرہ ارض ایک دھکتا ہوا انگارہ بن کر نہیں رہ جائے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ مسابقت کی اس دوڑ کی اصل وجہ پوری زمین پر حکمرانی کی امنگ ہے۔ امریکہ ، ویٹ نام میں صرف ا پنے جوانوں کی لاشوں کا چھڑکاؤ کرنے تو نہیں آیا تھا۔ وہ تو جنوب مشرقی ایشیا کو چین کے زیر اثر آنے سے روکنے آیا تھا۔ کیوبا میں خرد شیف کی میزائلیں کیا کرنے گئی تھیں ؟ امریکہ کو یہ بتانے گئی تھیں کہ اپ نے ساحلوں سے باہر قدم نکالتے ہی اسے خوفناک مدافعت کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔
روس افغانستان میں اپنے مفادات سے تحفظ کے علاوہ امریکہ کے رستے میں خندق کھودنے آیا ہے۔ سوآج عالمی سطح پر جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک دوسرے کو آپے مین رکھنے کی کوششیں ہیں۔ ورنہ یوں بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہر ملک اپنی پسند کا نظام زندگی اور نظام حکومت اختیار کرے۔ اور ایک ملک مین جو کچھ بھی ہوتا رہے اس سے دوسرا ملک لا تعلق رہے۔ اور ملکوں کے درمیان اگر کوئی رشتہ ہو تو وہ محبت کا اور ایک ودسرے کی بھلائی کا اور قطعی غیر مشروط امداد کا رشتہ ہو۔ سو یہ عالمی کشیدگی دراصل کرہ ارض پر اپنا اپنا انتداب قائم کرنے کی کھینچا تانی ہے اور چکی کے ان پاٹوں میں ایشیا اور افریقہ پسے جارہے ہیں۔ کیونکہ یہ بر اعظم ارباب قوت کی تجربہ گاہیں ہیں۔ یہ ہم اس لئے عرض کررہے ہیں کہ صدر ٹرومین برلن پر بھی تو دنیا کے پہلے ایٹم بم کا تجربہ کرسکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا کیونکہ برلن میں گوری نسل آباد ہے جو امریکہ کی رشتہ دار ہوتی ہے۔ اس تجربے کے لئے ہیرو شیما کو چنا گیا کیونکہ وہاں غیر گورے لوگ بستے ہیں اور ان میں سے ہزارہا انسانوں کا ایک منٹ کے اندر اندر مرجانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

اپنی ذات کا شعور
کیا کوئی انسان جس کے ہاتھ میں قلم کی سی مقدس چیز ہو۔ ان حقائق سے چشم پوشی کا حوصلہ کرسکتا ہے؟ کیا وہ برداشت کرسکتا ہے کہ اس کے ارد گرد قیامت برپا ہو اور وہ اپنی ذات کے خول میں گھس کر اس امر کی فکر کررہا ہو کہ انسان اپنی ماں سے محبت کرتا ہے تو دراصل اس محبت کی نوعیت جنسی ہوتی ہے؟ یقینا ذاتی غم یا ذاتی مسرت کا جذبہ شعروادب سے خارج نہیں کیاجاسکتا ، لیکن اگر اس غم اور اس مسرت کا تجزیہ کیاجائے تو اہل قلم کو محسوس ہوگا کہ یہ غم تو ہمہ گیر ہے اور اس مسرت میں تو پوری دنیا شریک ہے۔ ذاتی غم اس لئے کائناتی وسعتیں اختیار کرجاتا ہے اور یہی ادیب کا شعور ہے۔
جنک ستمبر 1965ء کے دنوں میں ہمارے ہاں ایسے ایسے اہل قلم کا شعور بھی جاگا تھا جو شعور کو غیر شاعرانہ قرار دیتے تھے۔ اور جن کا دعویٰ تھا کہ ادھر شاعر اور ادیب کے فکر پر فرض شناسی کے شعور کاسایہ پڑے گا، ادھر اس کی فنکاری کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔ جنک کی خوفناک حقیقت نے انہیں آگاہ کیا کہ ان کی ذات اس بہت بڑے اجتماع کا ایک حصہ ہے ، جسے وطن کہتے ہیں۔ یہ اجتماع خطرے میں ہے تو اس کی ذات بھی خطرے میں ہے۔یہ اجتماع آزاد ہے تو اس کی ذات بھی آزاد ہے۔ بڑے بڑے ارباب ذات اس دوران مشرف بہ شعور وادراک ہوئے مگر جب جنگ ختم ہوئی اور خطرات کی شدت میں کمی آگئی اور معمول کی زندگی کا آغاز گیا تو بعض ادیب تو یہ کہتے بھی پائے گئے کہ ہمارے شعور کی وہ بیداری عارضی تھی۔ شعور کی اس بیداری کا ہمارے نظریہ فن سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ نازک دور ختم ہوا تو ہم نے شعور کو بھی چھٹی دے دی اور اپنے اس نظریے کی طرف واپس آگئے۔
جس کا اپنے وطن یا اپنے معاشرے یا اپنے ماحول سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ایک الگ اکائی ہے۔ وہ ادیب کی انفرادیت ہے ورنہ سب لوگ باشعور ہوجائیں تو ادیب کی انفرادیت ملیامیٹ ہوجائے گی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص ڈوب رہا ہو اور اسے ڈوبنے سے بچانے والا اپنی جان پر کھیل کر اس کے پاس پہنچے مگر ڈوبنے والا کہے میری پروانہ کرو بلکہ میرے جوتے اتارکر لے جاؤ کیونکہ یہ میں نے نئے خریدے ہیں اور آرڈر پر بنوائے ہیں! یہ طرز عمل انسان کی اس خاص نوعیت کی ہتک ہے جو اسے دوسرے حیوانات سے ممیز کرتی ہے اور اسے اشرف المخلوقات بناتی ہے۔

ماخوذ از رسالہ: نقوش (اشاعت: دسمبر 1948ء)

The duties of writer, Article by: Ahmed Nadeem Qasmi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں