اسلام میں عدم تشدد کی اہمیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-11

اسلام میں عدم تشدد کی اہمیت

importance-of-non-violence-in-islam
چودہ سو (1400) سال پہلے عرب کے تپتے ریگزار اپنے دامن میں تہذیب و تمدن سے نا آشنا، جنگ و جدل کے رسیا اور ظلم و تشدد کو پسند کرنے والے لوگوں کو دیکھ کر اس آفتابِ ہدایت کے منتظر تھے جو ان لوگوں کو فطرت کے صحیح طریقہ کار کی پیروی کرنا سکھا دے۔
یکایک صحرائے عرب سے اسلام کا چشمہ پھوٹا اور پھر وہی ریگزار زمانے کے سیاحوں کا مرکز بن گئے۔ جہالت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کے لئے فاران کی چوٹیوں سے وہ آفتاب نمودار ہوا کہ جس نے دنیا کو امن و آتشی اور صلح و محبت کا پیغام دیا پھر قدرت نے عرب کی ریت کے ذروں کو ستاروں کی سی چمک عطا کی اور انہیں دنیا کے تاریک ترین گوشوں میں بکھیر دیا۔ وہی صحرا نشین لات و ہبل کو توڑ کر نکلے اور تمام دنیا پر چھا گئے۔

مسلمانوں کی اس دنیا میں ترقی کی رفتار بہت زیادہ اس لئے تھی کیونکہ انہوں نے تمام قوانین کو اور تمام اخلاقی، سماجی و سیاسی اصولوں کو فطرت کے عین مطابق ڈھالا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ظلم و تشدد کو ختم کر کے دنیا کو امن و آتشی کا پیغام سنایا۔ اسلام تو اس ہستی کا دیا ہوا دین ہے جو کہ خالق کل ہے، یعنی اسلام مکمل دین فطرت ہے۔ جس میں ظلم و تشدد کا شائبہ تک نہیں بلکہ ہر موقع پر ، ہر جگہ پر صلح جوئی ، نرم خوئی اور امن کے ساتھ کام کرنے کا حکم ہے۔
عدم تشدد کے لحاظ سے سب سے پہلے جس چیز کا تذکرہ آتا ہے وہ ہے انسانی جان کی وقعت۔ انسانی جان کے اسی احترام کے باعث انسانی تمدن کی بنیاد جس قانون پر ہے اس کی پہلی دفعہ یہ ہے کہ انسان کی جان اور اس کا خون محترم ہے۔ تمدنی حقوق میں اولین حق زندہ رہنے کا حق ہے اور اولین فرض زندہ رہنے دینے کا فرض ہے۔ اسی لئے دنیا میں جتنے مکاتب فکر موجود ہیں ان میں عدم تشدد اور احترام نفس کا یہ اخلاقی اصول موجود ہے۔ سیاسی قوانین تو اس فلسفے کو سزا کے خلاف اور قوت کے زور سے قائم کرتے ہیں مگر ایک سچے مذہب کا کام دلوں میں اس کی قدر و قیمت پیدا کر دینا ہے تاکہ جہاں انسانی تعزیر کا خوف نہ بھی ہو وہاں بھی بنی آدم ایک دوسرے کے خون ناحق سے معترض رہیں۔

اس نقطہ نظر سے احترام نفس جیسی موثر اور صحیح تعلیم اسلام میں دی گئی ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں ملنی مشکل ہے۔
ایسی موثر تعلیم کے باعث عرب جیسی خونخوار قوم کے اندر احترامِ نفس اور امن پسندی کا ایسا مادہ پیدا ہو گیا تھا کہ رسول ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق صنعا سے حضرموت تک ایک عورت تنہا سفر کرتی تھی اور کوئی اس کی جان و مال پر حملہ نہ کرتا تھا۔ حالانکہ یہ وہی ملک عرب تھا جہاں 25 برس پہلے بڑے بڑے قافلے بھی بےخوف نہیں گزر سکتے تھے پھر جب مہذب دنیا کا آدھے سے زیادہ حصہ حکومت اسلامیہ کے پاس آ گیا اور اسلام کے اخلاقی اثرات چاروں جانب عالم میں پھیل گئے تو اسلامی تعلیم نے انسان کی بہت سی غلط کاریوں اور گمراہیوں کی طرح انسانی جان کی اس بے قدری کا بھی استحصال کر دیا جو دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔

انسانی جان کے احترام کے بعد عدم تشدد ہمارے سامنے جس پس منظر میں آتا ہے وہ ہے ذہنی و جسمانی تشدد سے معترض رہنا۔ اسلام نے دنیا کے تمام انسانوں کو جینے کے یکساں حقوق سے نوازا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کو ایک ایسی زندگی گزارنے کا ضابطہ بھی بتایا ہے کہ جس میں کوئی جبر، تشدد یا فطرت کے خلاف کوئی کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات قرآن میں ارشاد فرمائی ہے کہ:
"دین میں کوئی جبر نہیں" (البقرہ256)
اس آیت سے وہ تمام شکوک و شبہات مٹ جاتے ہیں کہ شاید اسلام کے دئے گئے قوانین ایسے ہیں جو فطرت انسانی پر ظلم یا دوسرے لفظوں میں وہ قوانین انسانی فطرت برداشت نہیں کر سکتیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو "رحمن" ہے، اس کے بتائے ہوئے طریقوں میں کسی نہ کسی طریقے سے ہمارا ہی فائدہ ہے۔ ہمیں کیا چیز نقصان پہنچا سکتی ہے یا کون سا کام ہماری فطرت کے خلاف ہے اور ہم پرتشدد ہیں تو اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کیونکہ ہم لوگ اسی کی تخلیق ہیں:
"کیا وہ ہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا؟"

ہاتھ کاٹنے کی سزا پر، سنگسار کر دینے پر اور مرتد ہو جائے تو قتل کر دینے پر عالمی تنظیمیں بہت واویلا مچاتی ہیں۔ یہ تنظیمیں انسانی حقوق اور عدم تشدد کا راگ الاپتی رہتی ہیں مگر کیا ان کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی ایک مرتد کو قتل کر دینے سے ہزاروں لوگ مرتد ہونے سے بچ جائیں گے۔ کسی ایک چور کے ہاتھ کاٹ دینے سے ہزاروں چور بننے سے بچ جائیں گے۔ پردہ کرنے سے ہزاروں لڑکیاں عدم تحفظ کا شکار ہونے سے بچ جائیں گی!
یہ تمام کام فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں اور اسلام تو نام ہی سلامتی اور امن و محبت کا ہے۔ عدم تشدد کے لحاظ سے تیسری دفعہ جس کی اسلام میں ہدایت کی گئی ہے وہ ہے اپنوں اور غیروں سے محبت و الفت کا رویہ برتنا نہ کہ ظلم ، جبر اور تشدد کی راہ اپنانا۔
اس کی بہترین مثال ہمیں نبی اکرم ﷺ کے مدنی دور میں نظر آتی ہے۔ ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان کا اصول تو موجود تھا مگر نبی کریم ﷺ نے احسن اس بات کو مانا کہ معاف کر دیا جائے۔ چھوٹے بڑے معاملات میں عفو و درگزر کرنے کی ہدایت کی گئی اور اسلام میں عدم تشدد کی اہمیت یہاں تک ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت حمزہؓ کے قاتل تک کو معاف کر دیا۔ جھگڑے کھڑے ہوئے مگر صلح کرا دی گئی اور آج اس حقیقت کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا کہ اسلامی معاشرے میں جو اخلاقی فضائل پیدا ہوئے ہیں، سیاسی و سماجی جتنے بھی قوانین بنے ہیں وہ فطرت سے قریب تر ہیں ، جس کی سب سے بڑی وجہ اسلام میں تشدد کی عدم موجودگی ہے۔
عدم تشدد کی اسی خاصیت کی بنا پر ہمیں آج بھی اسلامی سوسائٹی میں وہ تمام اخلاقی خوبیاں جیسے صلح جوئی، نرم خوئی، عفو و درگزر، صبر اور برداشت نظر آتی ہیں جو معاشرے کو جنت بنانے کے لئے کافی ہیں۔

اسلام میں عدم تشدد کی اہمیت ان تمام حقائق سے عیاں تو ہوجاتی ہے مگر معترضین بعض دلائل پیش کرتے ہیں کہ اسلام میں تشدد کی موجودگی عیاں ہے۔ ان میں سب سے بڑا ہتھیار ان کے پاس یہ ہے کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا۔ عالمی قوتیں بھی اس کو حقائق کے طور پر تسلیم کرتی ہیں اور یوں مسلمانوں کا وہ رخ دنیا کو دکھایا جاتا ہے کہ ان کی تاریخ بےگناہوں کے خون سے تر ہے اور ہیبت ناک سی تصویر پیش کرکے یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ:
"بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے"
مسلمانوں کی اپنی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانوں نے زیادہ تر جنگیں دفاعی نقطہ نظر سے لڑی ہیں اور جتنی بھی جنگیں اللہ کا نام سربلند کرنے کے لئے لڑی گئیں اس میں بھی مسلمانوں نے عدم تشدد کی راہ اپنائے رکھی جو کہ ان کو ان کے دین نے سکھائی تھی۔
ہر جنگ سے پہلے حریف کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جاتی تھی پھر اس سے ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کی جاتی تھی یا جزیہ دے کر مسلمان مملکت کے زیر پناہ آنے کو کہا جاتا تھا۔ اگر پھر بھی حریف ان تمام پیش کشوں کو چھوڑ دے اور لڑائی پر اصرار کرے تب جاکر لڑائی یا معرکہ کی نوبت آتی تھی۔
مسلمانوں کے اس طریق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ قوم تشدد کی راہ کیسے اپنا سکتی ہے کہ جس کے دین کی اساس ہی عدم تشدد، صلح جوئی و سلامتی پر رکھی گئی ہے۔ اس میں انتہائی اہم بات یہ ہے کہ اسلام کی جنگ کا مقصد جنگ نہیں بلکہ اصلاح اور امن و سلامتی ہے۔ اس لئے اگر مصالحت کے ذریعے یہ مقصد حاصل ہونے کی کوئی صورت موجود ہو تو ہتھیار اٹھانے سے اس صورت سے فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جنگ کی آخری حد وجوہِ نزاع کے ارتفاع اور جنگ کی ضرورت کو باقی نہ رہنے کو قرار دیا ہے۔ پس اسی عدم تشدد کے فلسفے کی بنا پر قرآن مجید نے ہم کو حکم دیا ہے کہ اگر دشمن تم سے خود صلح کی درخواست کرے تو اسے کھلے دل سے تسلیم کر لو۔

***
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 21/نومبر 2008۔

The importance of non-violence in Islam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں