ڈاکٹر حنیف ترین فن اور شخصیت - ماہنامہ کتاب نما - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-04

ڈاکٹر حنیف ترین فن اور شخصیت - ماہنامہ کتاب نما - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

hanif-tareen-kitabnuma
ڈاکٹر حنیف ترین (اصل نام: حنیف شاہ خان ، پ: یکم/اکتوبر 1952 ، م: 3/دسمبر 2020)
نامور شاعر، ادیب اور عالمی اردو مجلس (دہلی) کے صدر تھے جو ایک طویل عرصہ تک سعودی عرب کی وزارت صحت کے ایک اسپتال (عرعر) میں کارگزار رہے۔ انہوں نے اپنے کلام سے جہاں ملک کے پسماندہ طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا وہیں اردو زبان و ادب کے فروغ و تحفظ کے لئے بھی کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ "رباب صحرا" 1992 میں منظر عام پر آیا تھا۔ جون 2004 میں ماہنامہ "کتاب نما" نے ڈاکٹر حنیف ترین کے فن اور شخصیت پر ایک خصوصی شمارہ شائع کیا تھا جسے معروف صحافی سہیل انجم نے ترتیب دیا تھا۔
ڈاکٹر حنیف ترین کے انتقال پر انہیں خراج عقیدت کے بطور، 'کتاب نما' کا یہ شمارہ (سن اشاعت: جون-2004) قارئین کی خدمت میں تعمیرنیوز کی جانب سے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش ہے۔
200 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 7 میگابائٹس ہے۔
رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس خصوصی شمارے کے مرتب سہیل انجم اداریہ میں ڈاکٹر حنیف ترین کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں ۔۔۔
1992ء میں جب حنیف ترین نے اپنا پہلا شعری مجموعہ "رباب صحرا" لے کر ادبی حلقوں میں انٹری لی تھی تو ان کے افکار و انداز پر بیشتر لوگ چونک پڑے تھے اور انہوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ اگر اس شاعر کی فکری اٹھان اور خیالات کی پرواز یہی رہی اور اس نے اپنے مطالعہ کو مزید وسعت دی تو آگے چل کر اس پہلے مجموعہ کی اساس پر اچھی شاعری کی مستحکم عمارت تعمیر ہوگی۔
آج صورت حال کچھ یوں ہے کہ حنیف ترین کی شاعری نقادوں کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے اور جہاں وہ اپنا شعری جہان تخلیق کر رہے ہیں وہیں اس کے متوازی ان کی شاعری کا محاکمہ بھی جاری ہے اور فن کی کسوٹی پر اسے کسنے کا عمل مسلسل چل رہا ہے۔ کسی نے ان کی شاعری کو "انفرادی راہ" قرار دیا تو کسی نے انہیں "ہوشمند ،درد آشنا اور حساس شاعر" بتایا ہے۔ کسی ناقد نے انہیں گہرے تجربے کا شاعر" کہا ہے تو کسی نے علامتوں اور استعاروں کے استعمال کو ان کی خوبی گردانا ہے۔ کسی نے ان کی تخلیقات کو "استعاراتی صنم سازی" کہا ہے تو کسی ناقد نے ان کے کلام میں "تازگی، امنگ، شائستگی اور ٹھہراؤ" دیکھا ہے۔ کسی کو ان کے "احساس و اظہار دونوں میں نیا پن" نظر آتا ہے تو کسی کے خیال میں وہ "شعر کہتے نہیں شعر جیتے ہیں"۔ کسی نے انہیں "انقلابی شاعری کا علم بردار" بتایا ہے تو کسی ناقد کو ان کی شاعری "سراپا انتفاضہ" نظر آتی ہے۔ گویا حنیف ترین کا کلام نقادوں کی گراں قدر توجہ نہ صرف اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہے بلکہ وہ نقادوں کو مجبور بھی کرتا ہے کہ وہ اس پر اظہار خیال کریں۔

ڈاکٹر حنیف ترین کا پہلا شعری مجموعہ "رباب صحرا" 1992ء میں ، دوسرا "کتاب صحرا" جنوری 1995ء میں، تیسرا "کشتِ غزل نما" جنوری 1999ء میں، چوتھا زمین لاپتہ رہی" فروری 2001ء میں اور پانچواں "ابابیلیں نہیں آئیں" 2004ء میں منظر عام پر آیا ہے۔
اسی درمیان انہوں نے فلسطین میں جاری انتفاضہ پر ایک ایسی طویل نظم کہی ہے جسے فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی، ان کی جاں نثاری و جواں مردی اور آزادی کی خاطر اپنی جانوں تک کا نذرانہ پیش کر دینے کے جذبے کے تناظر میں ایک شاہکار کہا جا سکتا ہے۔ "ہاغی سچے ہوتے ہیں" ایک ایسی نظم ہے جو فلسطینی جیالوں کی جنگ آزادی کا المیہ بھی ہے اور طربیہ بھی ۔۔۔

بہرحال مذکوره پانچوں مجموعوں کا اگر مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ حنیف ترین نے شاعری کے گلزار میں ایک طویل ترین سفر طے کیا ہے۔ خیال و فکر کے گھوڑے پر سوار ہو کر تجربات و مشاہدات کی خاردار وادیوں کی بادۂ پیمائی کی ہے۔ قیس و فرہاد کی مانند محبت کے سچے جذبے کے سہارے صحرا نوردی اور کوہکنی بھی کی ہے اور پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بوسنیائی مسلمانوں کی زندگی کو اپنے اندرون میں اتارا ہے تو فلسطینی باغیوں کے جذبہ حریت سے اپنے لہو کی حرارت بڑھائی ہے۔

حنیف ترین ایک پرجوش اور انقلابی شاعر کا نام ہے۔ ایک ایسا شاعر جو اپنی ذات کی کشمکش سے سفر کرتا ہوا کائنات کے مطالعات و مشاہدات تک جاتا ہے۔ جو ظالم اور مظلوم، غریب اور سرمایہ دار، جھوٹ اور سچ اور حق اور باطل کی کشمکش کو اپنی فکر کی گہرائیوں، گیرائیوں میں اتارتا ہے اور انہیں شعری قالب میں ڈھال کر ایک نئی کائنات تخلیق کرتا ہے۔ 'رباب صحرا' سے 'زمین لاپتہ رہی' تک شاعر خیال و فکر کی مختلف منزلوں سے گزرا ہے۔
پہلے مجموعہ میں جہاں اپنی ذات کا کرب، غریب الوطنی کا کرب اور صحرائی روز و شب میں تنہائی کا کرب نظر آتا ہے وہیں آخری مجموعہ تک آتے آتے ان کے تخیلات کی بلندی یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ تہذیبوں کا ٹکراؤ، عالمی کشمکش، متعدد ملکوں میں حق و باطل میں تصادم، نیو ورلڈ آرڈر ، ترقیات زمانہ کے طفیل میں انسانیت کی زوال پذیری، بارود، بم، دھماکے، شعلے اور تہذیبوں کی تباہی و بربادی ان کے کلام کے اجزاۓ ترکیبی بن جاتے ہیں۔

حنیف ترین اردو زبان کے بھی دیوانے اور شیدائی ہیں۔ یہ درحقیقت صحرائے عرب میں اردو کے نخلستان ہیں۔ ہفتہ وار اور ماہانہ شعری نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ انہوں نے عربستان میں نخلِ اردو کی آبیاری کی ہے جس کی خوشبو چاروں طرف پھیل رہی ہے۔ وہ شعری نشستوں کا اہتمام اپنی جیب سے کرتے ہیں اور کسی بھی اردو دوست کو زیر بار نہیں ہونے دیتے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے عر عر میں اردو کی کوچنگ بھی شروع کر رکھی ہے۔ اپنے اخراجات پر اردو کتابوں اور اسٹیشنری کا انتظام کرتے ہیں اور اردو سے نابلد لوگوں کو اردو زبان سکھاتے اور پڑھاتے ہیں۔ چونکہ عدیم الفرصت ہیں اس لیے خود کلاس نہیں لیتے بلکہ استاد رکھتے ہیں اور اپنی جیب سے اسے معقول معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ اب تک انہوں نے سینکڑوں شعری نشستوں کا اہتمام کیا ہے اور ہزاروں لوگوں کو اردو سکھائی اور پڑھائی ہے۔ گویا انہوں نے صحرائے عرب میں اردو کا باغ لگایا ہے جس کی چھاؤں میں بےشمار افراد دم لے رہے ہیں۔

***
نام رسالہ: ماہنامہ کتاب نما : حنیف ترین - فن اور شخصیت شمارہ:جون-2004
مرتب: سہیل انجم
تعداد صفحات: 200
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 7 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Kitabnuma - Dr. Hanif Tareen special.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:


Kitabnuma magazine, Dr. Hanif Tareen special, issue:June-2004, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں